اے کراچی تجھے عزت نہیں ملنے والی

781

پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی اور بین الاقوامی شہر کراچی کی قسمت تو اسی دن پھوٹ چکی تھی جب اس شہر کے باسیوں نے اپنے لئے اپنے ہاتھوں سے بربادی کا سامان خریدا تھا۔
اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ کراچی پاکستان کا ایک سب سے بڑا اور زیادہ آبادی والا شہر ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ ملک کا تجارتی مرکز بھی ہے، جی ڈی پی میں اس شہر کا حصہ 20 فیصد ہے، حکومت کو وصول ہونے والے ٹیکسوں کا ایک بڑا حصہ اسی شہر سے حاصل ہوتا ہے، یہ شہر کاروبار شروع کرنے اور ملازمتوں کا ایک سب سے بڑا مرکز ہے۔
ابھی حال ہی میں کچھ اعداد و شمار ایف بی آ ر نے پبلک کئے جس میں کراچی کے دکانداروں کی جانب سے سالانہ ٹیکس کا جدول اور اس کا تقابل پورے پاکستان کے بڑے شہروں سے کیا گیا ہے۔
ا یف بی آر نے تفصیلات جاری کیں اس کے مطابق بڑے شہروں میں ٹیکس گزار دکانداروںمیں کراچی کے دکاندار ٹیکس دینے میں سب سے آگے نکلے۔ایف بی آر کے مطابق کراچی میں ٹیکس فائلرز دکانداروں کی تعداد 85ہزار ہے، کراچی کے دکاندار 30ارب روپے سے زائد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اسلام آباد میں بڑے ٹیکس فائلرز دکانداروں کی تعداد 6428 ہے، اسلام آباد کے دکاندار ایک ارب 93کروڑ روپے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔راولپنڈی کی ٹیکس فائلرز دکانداروں کی تعداد 6580ہے۔راولپنڈی کے دکاندار ایک ارب 9کروڑ روپے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ لاہور میں ٹیکس فائلرز دکانداروں کی تعداد 3925 ہے، لاہور کے دکاندار 56کروڑ روپے ٹیکس ادا کرتے ہیں.
اس تقابلی جائزے سے بھی اندازہ لگانا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے کہ کراچی کے شہری مجموعی اعتبار سے بلامبالغہ کل حاصل شدہ ٹیکس کا 70 فیصد سے زیادہ ادا کرتے ہیں۔ پھر کون کالا چور ہے جو کراچی کا پیسہ کراچی پر نہیں لگا رہا ہے۔ یا پھر کوئی بیچ کی مچولی ضرور ہے جو کسی نہ کسی حیلے بہانے سے کراچی کو ملنے والی رقم یہاں پہنچنے ہی نہیں دیتی۔
ہماری بربادی کی کہانی اسی دن لکھ دی گئی تھی جب غریب پرور مئیر عبدالستار افغانی نے وفاقی حکومت سے وہیکل ٹیکس کی مد میں کراچی سے حاصل کئے جانے والے ٹیکس میں سے کراچی کے لئے اپنا حصّہ مانگا تھا۔ اور اس ‘جرم’ کی پاداش میں نہ صرف درویش صفت مئیر کراچی عبدالستار افغانی کی بلدیہ کراچی کو وقت سے پہلے تحلیل کرکے لسانی بنیادوں پر نئی سیاسی بساط بچھائی گئی اور کراچی سے جماعت اسلامی کی بلدیہ کو ختم کروادیا گیا۔
گرچہ یہ بات بہت پرانی بھی نہیں مگر آج کی نسل اس دور کو بھول چکی ہے جس میں بابائے کراچی مئیر عبدالستار افغا نی نے کراچی کی نظامت کا بوجھ سنبھالا تھا۔
آج کا کراچی ایک آ ثا ر قدیمہ ہے ، جو درحقیقت ایک کھنڈر میں تبدیل ہوچکا ہے ، کس مسئلے کی بات کی جائے کوئی ایک بھی حل نہیں ہوسکا۔ کراچی کی پہچان کچرے سے ابلتے بہتے گٹروں گندگی کے نالوں سے ، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں ، اور قدم قدم پر شہداء کراچی کی تختیوں سے ہے۔ ہم کبھی پارکنگ مافیا کے ہاتھ چڑھتے ہیں ، اور پھر کبھی ٹریفک پولیس کے چنگل میں ہوتے ہیں تو کبھی دہشت گردوں کے ہاتھوں مظلومیت کا نشان بنے دکھائی دیتے ہیں۔
کراچی کی ترقی و کامرانیوں کے اس سنہرے دور کے بعد سے پان کی پیکوں ، گٹکوں ، چھٹ بھیوں اور کن کٹوں نے کراچی کی بلدیہ پر اپنا تسلط قائم کیا۔ ہم کراچی والے خوش کن نعروں ،سماعتوں کو متاثر کرنے والے ترانوں ‘ لہراتا سمندر ، تیرا میرا ساتھی ، کی دھن میں ترنگے لہراتے کوٹہ سسٹم ختم ہونے کی آ س اور نوکریوں میں حصّہ ملنے کی جستجو میں ایک دوسرے کے کندھوں پر چڑھ کر اپنا قد بڑھانے میں مصروف ہوگئے۔
اب کون کس سے پوچھے کہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کا ایک نظام تھا جو 1987ء کی بلدیہ عظمیٰ تک بہترین حالت میں جاری تھا کہاں غائب ہوگیا؟
اعداد و شمار ریکارڈ پر موجود ہیں کہ1987ء سے پہلے تک میئرجناب عبدالستار افغانی کے دور میں کراچی میں سرکلر ریلوے کا نظام موجود تھا اور مختلف اوقات میں 56 لوکل ٹرینیں چلا کرتی تھیں جن میں لاکھوں مسافر صدر، ٹاور، لانڈھی اور سعود آباد، لیاقت آباد، نا ظم آباد، منگھوپیر جیسے دور دراز علاقوں میں بآسانی آجا سکتے تھے۔ گورنمنٹ کی کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن (KTC) کی 800 بڑی بسیں موجود تھیں۔ پھر اس کے بعد جماعت اسلامی ہی کے جناب نعمت اللہ خان نے اپنے دور نظامت میں سٹی گرین بس پروجیکٹ کے لیے 200 ائیرکنڈیشنڈ بسیں اٹلی کی حکومت سے منگوا کر کراچی کے مختلف روٹس پر چلوائیں۔ جامعہ کراچی، این ای ڈی اور دیگر پروفیشنل تعلیمی اداروں کیلیے180 پوائنٹس مختص کیے گئے جو تعلیمی اداروں کے لاکھوں طلبہ و طالبات کو آسانی فراہم کرتے تھے۔
کراچی میں مختلف روٹس پر ائیر کنڈیشنڈ گرین بسیں محض پندرہ سے بیس روپے میں مسافروں کو ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچایا کرتی تھیں
مگر اس کے بعد آسیب نے ڈیرہ جمایا اور شہر کی ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب کروا دی گئی، اور اس کی جگہ چھکڑوں، چنگ چی رکشوں اور موٹر سائیکل رکشوں نے لے لی۔ کتنی شرم کی بات ہے کہ سب سے زیادہ ٹیکس دینے کے باوجود اتنی بڑی آبادی ( متناز عہ مردم شماری کے باوجود دیڑھ کروڑ سے کچھ زیادہ ) والے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی مؤثر انتظام نہیں،
صفائی ستھرائی اور صحت عامہ کا تمام معاملہ جو بلدیاتی و صوبائی اور وفاقی حکومتوں سب کو مل جل کر کرنا تھا سب نے ہی انتہا درجے کی مکاری اور دھوکہ دہی سے اپنے سر سے اٹھا لیا ہے۔
کچرے پر سیاست چمکانے کے لئے ڈھکوسلہ قسم کی مہمات اور فوٹو سیشن اور اضافی فنڈ مانگ مانگ کر کراچی کو چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ محض چار ارب روپے کے بجٹ میں جماعت اسلامی کے مئیر نعمت اللہ خان صاحب کراچی کو میگا پروجیکٹ بھی دئیے ، ٹرانسپورٹ بھی فراہم کی ، امن و امان اور تحفظ بھی بہم پہنچایا ، صحت عامہ صفائی ستھرائی سب کچھ کرکے دکھا دی۔ آج کی بلدیہ اور صوبائی حکومتوں کے پاس 24 ارب روپے سے زیادہ کا فنڈ موجود ہوتا ہے مگر کام ایک دھیلے کا دکھا ی نہیں دیتا۔ جبکہ صفائی کا بیشتر کام پرائیویٹ کمپنیوں کے سپرد کیا جاچکا ہے۔
کراچی کے ساتھ اس سے گھناونا مذاق اور کیا ہوگا کہ لاہور کے دکاندار محض 56کروڑ روپے ٹیکس ادا کرتے ہیں. اور ان کی سہولت کے لئے میٹرو بسیں ، میٹرو اسٹیشن ، موٹر وے اور صفائی ستھرائی کا اعلی ترین بندوبست ! دوسری جانب کراچی کے دکاندار جو 30ارب روپے سے زائد ٹیکس ادا کرتے ہیں ان کے لئے چنگ چی چھکڑے ، !
ابھی جب میں یہ تحریر لکھ ہی رہا تھا تو بہت پیارے دوست شکیل خان بھائی کی درد بھری پوسٹ’ کراچی کو کربلا بنادو ‘میری نگاہ سے گزری ہے
انتہائی درد مندی کے ساتھ انہوں نے متوجہ کیا کہ “کراچی کے لئے پانی کا میگا پروجیکٹ کے فور 4۔ K کا منصوبہ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے بند کردیا،سندھ کے حصے کے 162 ارب روپے ابھی تک ادا نہی کئے گئے، ارسا نے سندھ کے حصے کے پانی پہ ڈاکہ ڈال دیا، کے فور, 15 سال بعد کراچی کے پانی میں اضافہ کرنے والا یہ منصوبہ وفاق کو پسند نہ آیا خیر وفاق کا بس چلے تو وہ کراچی کی طرف آنے والی بارش و ہوا کو بھی روک لے اور کراچی کو کربلا بنادے، اس کا پانی بند کردے، اس کو بجلی سارے پاکستان سے مہنگی بیچے، کراچی کو بجلی سپلائی کا نظام عالمی ساہوکاروں کے حوالے کردے،K ELECTRIC کو کراچی کے نوجوانوں کے قتل کا لائسنس دیدے۔کراچی تو پاکستان کا سوتیلا بچہ ہے، کراچی والے تو پیدا ہی اس لیے ہوئے ہیں کہ پاکستان کا پیٹ بھرتے رہیں اور وفاقی حکومت ان کے کشکول میں بھیک ڈالتی رہے، کراچی آثار قدیمہ کا منظر پیش کررہا ہے، گرین لائن جو وفاق کا منصوبہ ہے تحریک انصاف کی حکومت کے بعد چیونٹی کی رفتار سے بڑھ رہاہے۔ وفاق کے منصوبے کسی طرح مکمل ہونے میں نہی آتے۔ ایک طرف تو وفاق نے سارے کراچی کو نفسیاتی طور پر مریض بنا رکھا ہے۔ کراچی والوں کا روزگار بند کردو، k4 پانی کے منصوبے کو بند کردو۔سندھ کو پیسے دینے بند کردو اس کا پانی بند کردو۔
تحریک انصاف کی وفاق سمیت تین صوبوں میں حکومت ہے، یہ وہی تحریک انصاف ہے کہ جس کو کراچی والوں نے ڈبے بھر کر ووٹ دیے تھے۔ تبدیلی کے جس گدھ کو کراچی والوں نے ھما سمجھا تھا وہ چمگادڑوں کی طرح کراچی والوں کا خون چوس رہا ہے۔ کراچی والوں یہ تمہاری قسمت ہے کہ تم جس کو منتخب کرتے ہو وہ تمہاری روٹی چھینے کے درپے ہوجاتا ہے۔
ہینڈسم وزیر اعظم سندھ کے دورے پر آتے ہیں تو منتخب وزیراعلی مراد علی شاہ کو ملاقات کیلئے وقت ہی نہی دیتے۔ بھان متی کا کنبہ جو تحریک انصاف کے نام پر جمع کیا گیا وزیراعظم کی خوشامد میں آگے پیچھے پھرتا ہے۔سندھ کے منتخب اور پاکستان کے سب سے متحرک وزیراعلی جناب مراد علی شاہ کی کردارکشی کی جاتی ہے اور اللہ لوک وزیراعلی پنجاب عثمان بزدارکو وسیم اکرم ثانی ثابت کیا جاتا ہے۔
کے فورk۔4 جو کراچی کو پانی سپلائی کا منصوبہ تھا وہ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے بند کردیا، تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے سندھ کے حصے کے 162 ارب روپے ابھی تک ادا نہی کئے، گزشتہ 3 ماہ سے گرین لائن منصوبے پر کوئی کام نہی ہوا، ارسا کے ذریعے سندھ کے پانی پر ڈاکہ ڈال دیا گیا ہے۔ کراچی کی بربادی اور اس کو آثار قدیمہ کا شاہکار بنانا تو ویسے بھی 1958 سے وفاقی حکومت کے پروگرام میں شامل ہے۔ کراچی والوں اب بھی جاگ جائو دوست دشمن میں تمیز کرو لیکن اہل پاکستان تم بھی یاد رکھو کراچی چلتا ہے تو ملک پلتا ہے ”

حصہ