۔’’ٹماٹر 17روپے کلو‘‘۔

842

’’لیجیے جناب آج کی تازہ خبر سنیے، وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ملکی معاشی صورت حال پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال خسارہ 13 ارب ڈالرتھا جسے اس سال 7 ارب ڈالر تک لایا گیا ہے، جب ہم نے حکومت سنبھالی تو 20 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تھا، حکومتی پالیسی سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 32 فیصد کم ہوا، جو معاشی بہتری کا ثبوت ہے، حکومت کی اس کامیابی سے اپوزیشن کی سیاسی دکانیں بند ہوجائیں گی۔
یہ ہیں ہمارے وزیراعظم عمران خان کی باتیں، جن میں معاشی بہتری کے ساتھ ساتھ مہنگائی کم کرنے کی نوید بھی سنائی گئی ہے، جب کہ عالمی بینک 2020ء میں بھی مہنگائی کی شرح 13فیصد بڑھنے کی بات کررہا ہے، جس کی وجہ شرح نمو میں کمی ہے جو مہنگائی بڑھنے کی ایک بڑی وجہ ہوسکتی ہے۔ عالمی بینک کا یہ بھی کہنا ہے کہ 2021ء میں پاکستان کے قرضوں کی شرح میں جی ڈی پی کے چھ فیصد ہونے کا امکان ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ مزید مہنگائی اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی جانب پیشگی اشارہ ہے۔ اب کس کی بات مانیں اور کس کی نہ مانیں؟ اور پھر خان صاحب کا کیا بھروسا، کب یوٹرن لے کر کہہ دیں کہ یہ میرا سیاسی بیان تھا۔ اس لیے خان صاحب کی جانب سے کی جانے والی باتوں کو تسلیاں ہی سمجھا جائے۔‘‘
’’یار ایسا تو نہ کہو، تھوڑا وقت تو دو، سب ٹھیک ہوجائے گا، چیزیں بھی سستی ہوجائیں گی۔ ابھی تو حکومت کو صرف ایک سال ہی ہوا ہے۔‘‘
’’ہاں واقعی چیزیں سستی ہوجائیں گی، بلکہ ہوچکی ہیں، لیکن اس کے ثمرات ابھی حکومت تک ہی محدود ہیں۔ وہ بازار حفیظ شیخ ہی جانتے ہیں جہاں ٹماٹر 17روپے کلو ملتے ہیں۔ ظاہر ہے جہاں ٹماٹر سستے ہوں وہاں دوسری اشیائے خورونوش بھی خاصے کم دام پر دستیاب ہوں گی، یہ الگ بات ہے کہ وہاں کا پتا ہم نہیں جانتے۔‘‘
’’شیخ صاحب نے تو ٹماٹر کے ریٹ نہ جانے کس سوال پر ردعمل دیتے ہوئے بتائے ہوں گے، تم اس کو چھوڑو، ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے کچھ ذمہ دار ہم بھی ہیں۔ سیدھی سی بات ہے اگر کوئی چیز مہنگی ہوجائے تو اس کا بائیکاٹ کردینا چاہیے، اس طرح ہی کساد بازاری ختم ہوگی اور ذخیرہ اندوزوں کے چنگل سے آزادی حاصل بھی کی جاسکتی ہے۔‘‘
’’تمہاری باتیں بھی موجودہ حکومت کی طرح نرالی ہیں، یعنی اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لینے کے بجائے ہم ہی سے کہا جاتا ہے کہ ٹماٹر کی مہنگائی کو پیالی میں طوفان لانے کا سبب بنانے کے بجائے ٹماٹر کے استعمال میں کمی لائی جائے تو اس کی قیمتوں میں خودبخود کمی آئے گی، صارفین اس کا استعمال کم کریں تو پرچون فروش منڈی سے مال کم اٹھائیں گے، جب منڈی میں ٹماٹر کی رسد کے مقابلے میں طلب کم ہوگی اور مال پڑا رہے گا تو اس کی قیمت میں بقدرِ ضرورت کمی آئے گی، یعنی یہ قربانی بھی عوام ہی دیں۔ اور پھر یہ مہنگائی پر قابو پانے کا کون سا فارمولا ہے، اگر گندم مہنگی ہوجائے یا بازار میں 20 روپے فروخت ہوتے نان کی وجہ سے خوراک کھانا چھوڑ دیں! کل کہا جائے گا دودھ مہنگا ہے تو چائے نہ پیئو، اپنے بچوں کو پانی پلا کر زندہ رکھو۔ یہ کس قسم کی حکومت ہے، کون لوگ ہیں؟‘‘
’’تم میری بات نہیں سمجھے۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ یہ مہنگائی عارضی ہے، جیسے ہی نئی فصلوں کی کٹائی ہوگی بازاروں میں سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں کم ہوجائیں گی۔‘‘
’’میری بات سنو، تم بھی حفیظ شیخ کی طرح فضول باتیں نہ کرو، جھوٹ بولنے سے بہتر ہے کہ محکمہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ پڑھ لو، جس کے مطابق ماہِ ستمبر میں افراطِ زر یعنی مہنگائی کی شرح 11.4 فیصد تک پہنچ گئی ہے جس کے باعث چکن کی قیمت میں 40.75 فیصد، ٹماٹر 37.47 فیصد، پیاز 32.31 فیصد، تازہ سبزیاں 12.84 فیصد، انڈے 9.76 فیصد، آلو 6.21 فیصد، کھانے پکانے کا تیل 4.68 فیصد، ویجیٹیبل گھی 4.18 فیصد، موٹر فیول 3.88 فیصد، چینی 3.78 فیصد، دال مسور 2.54 فیصد، سرسوں کا تیل 1.75 فیصد، چنے کی دال 1.44 فیصد، میدہ 1.29 فیصد اور دال ماش کی قیمت میں 1.01 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ دیہی علاقوں پر نظر ڈالیں تو وہاں ٹماٹر کی قیمت میں 35.4 فیصد، پیاز کی قیمت میں28.49 فیصد، چکن 26.56 فیصد، آلو 18.18 فیصد، تازہ سبزیاں 10.96 فیصد، انڈے 9.79 فیصد، چینی 5.21 فیصد، خوردنی تیل 3.22 فیصد، دال مونگ 2.81 فیصد، ویجیٹیبل گھی 2.51 فیصد، دال ماش 2.35 فیصد اور ملک پاؤڈر کی قیمت میں 1.85 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اور تو اور رواں ماہ ہول سیل مارکیٹ میں ٹماٹر 215 سے 260 روپے فی کلومل رہے ہیں۔ صرف ٹماٹر ہی نہیں بلکہ دیگر سبزیوں کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کررہی ہیں جن میں ادرک اور لہسن 400 روپے کلو، مٹر 200 روپے کلو، لوکی 100 روپے،بھنڈی 220روپے، کھیرا 80 روپے،آلو 50 روپے اور پیاز80 روپے کلو مل رہی ہے۔ اصل حقائق یہ ہیں جس سے تم نظریں نہیں چراسکتے۔‘‘
………٭٭٭………
اس میں دورائے نہیں کہ عام آدمی اور کاروباری طبقہ ملک میں بڑھتی مہنگائی کو حکومت کی عدم توجہی قرار دیتا ہے اور حکومتی نمائندے وسائل کی کمی اور مسائل کی زیادتی کو مہنگائی میں اضافے کا سبب گردانتے ہیں۔ فریقین کے مؤقف اپنی جگہ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مہنگائی نے عام آدمی کا جینا دوبھر کردیا ہے اور متوسط طبقے کے لیے اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا مشکل تر ہو تا جارہا ہے۔ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آتے ہی ملک میں مہنگائی کا جو طوفان آیا ہوا ہے اس نے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ چھوٹا کاروباری طبقہ ہو یا گھریلو صنعتوں سے وابستہ افراد… دہاڑی دار ہو یا سرکاری ملازم… سبھی مہنگائی کا ماتم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ملک کی معاشی صورتِ حال کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید لاکھوں افراد خطِ غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔ اگر اس بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال کو فوری طور پر سنبھالا نہ گیا تو خدانخواستہ ہم ایسے معاشی بحران میں پھنس سکتے ہیں جس سے نکلنا ناممکن ہوسکتا ہے۔ اس لیے فوری طور پر ہمیں اپنے نظام کی اصلاح کرنی ہوگی، دوسروں کی مدد لینے کے بجائے اپنی مدد آپ کرنی ہوگی، آئی ایم ایف کے معاشی پروگرام سے نکلنا ہوگا، معاشی عدم مساوات کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ دولت کی تقسیم اور گردش انتہائی غیر منصفانہ ہونے کی وجہ سے یہاں امیر امیر تر ہورہے ہیں، جبکہ غریب خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ کیسا غریب ملک ہے جہاں ہر سال ایک طرف پُرتعیش کاریں امپورٹ ہورہی ہیں جبکہ دوسری طرف غریب کو پبلک ٹرانسپورٹ تک میسر نہیں۔ ایک دوسرے پر الزام لگانے اور جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپنے کے بجائے عملی طور پر اقدامات کرنے سے ہی مہنگائی، بے روزگاری اور غربت جیسے بڑے مسائل سے قوم کو نجات دلائی جاسکتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا، اور ساتھ ہی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافے کے خلاف خصوصی مہم کی ہدایت بھی کی تھی،حکومت کو چاہیے کہ وہ اس پر عمل کرے اور لوگوں کی زندگیاں اجیرن ہونے سے بچائے۔

حصہ