افروز عنایت
رشید صاحب: (پڑوسی اکبر سے) ذرا ان نثار صاحب کو تو دیکھو، کیسے پارسا بنے، سر پر ٹوپی اور ہاتھ میں تسبیح لے کر پانچ وقت مسجد کی طرف آرہے ہیں، کیا صرف رمضان کا مہینہ ہی اللہ کی عبادت کرنے کے لیے ہے؟
……٭٭……
نئے باس عارف صاحب نے دفتر میں قدم رکھا تو فوراً ہی انہوں نے دو باتیں بلکہ خامیاں پرکھ لیں کہ دفتر میں صفائی ستھرائی کا کوئی خاص انتظام نہیں، نہ ہی عملہ منظم ہے یا ڈسپلن کا خیال رکھ رہا ہے۔ انہوں نے پہلی ملاقات میں تو رسمی گفتگو کی، لیکن اگلی ملاقات میں ادب سے پہلے ان ہی دو خامیوں کا تذکرہ کیا اور انہیں دور کرنے کی تاکید کی۔ میٹنگ ختم ہونے کے بعد شہباز اور توقیر صاحب باس کے آفس سے باہر آئے اور حسبِ عادت اپنے ساتھیوں کے درمیان عارف صاحب پر تنقید شروع کردی۔ ان کی ہمیشہ سے یہ عادت رہی ہے کہ سامنے والا چاہے بہتر بات کرے یا بری، اعتراضات کے نشتر ضرور لگاتے۔ چند اُن کے ہمنوا بن جاتے مصلحت کے تحت، اور چند خاموشی سے ’’اگلی گلی‘‘ سے نکلنا ہی بہتر سمجھتے ہیں ۔
……٭٭……
صائمہ کی شادی کو ابھی صرف چند ماہ ہی ہوئے تھے۔ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سلیقہ شعار لڑکی تھی۔ ماں کی دی ہوئی تربیت بھی اچھی تھی، لیکن شادی کے بعد ساس صاحبہ نہ صرف اُس کے ہر کام میں کیڑے نکالنا اپنا فرض سمجھتیں، بلکہ ہر بات پر اعتراض کرنا بھی ضروری خیال کرتیں۔ آج بھی ساس نے اُس کے لباس اور حلیے پر اعتراض کیا اور اُسے اس بری طرح جھاڑا کہ وہ افسردہ ہوگئی، اُس نے گھر میں تھوڑا بنائو سنگھار (میک اپ) کیا تھا کیونکہ شوہر تقریباً 15، 20 دن کے بعد بیرونِ ملک سے واپس آرہا تھا۔ وہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ماں کو بتاکر انہیں پریشان کرنا نہیں چاہ رہی تھی، لیکن آج اس کا دل بڑا افسردہ تھا، وہ یہ بات کسی سے شیئر کرکے اپنے دل کو ہلکا کرنا چاہ رہی تھی، لہٰذا رات کو ماں کو فون کرکے ساری بات بتائی، تو ماں نے تحمل سے ساری بات سنی اور کہا: ’’بیٹا! وہ بڑی ہیں گھر کی، ہر ایک کا اپنا اپنا انداز ہوتا ہے سمجھانے کا، اپنے دل پر ان کی باتیں نہ لو، اکثر لوگوں کا انداز ایسا ہی ہوتا ہے۔ آپ گھر میں سادگی سے رہیں وہ یہی چاہتی ہوں گی۔ دل پر ہر چھوٹی چھوٹی بات لینے سے گھر کے ماحول میں کشیدگی پیدا ہوتی ہے جس کی لپیٹ میں سارا گھر آجاتا ہے۔‘‘
……٭٭……
یہ حقیقت ہے کہ گھروں میں کشیدگی اور بدمزگی اکثر بے جا اعتراضات کی وجہ سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ ایک پیاری دوست نے مجھ سے یہ بات شیئر کی کہ میرے شوہر کو میری ہر مناسب اور صحیح بات پر بھی اعتراض ہوتا ہے، میری بات ابھی منہ میں ہی ہوتی ہے کہ وہ ٹوک دیتے ہیں جس سے مجھے بڑی کوفت ہوتی ہے۔ میں ہر مرتبہ اپنا محاسبہ بھی کرتی ہوں کہ کہیں میں غلط تو نہ تھی، اور مزے کی بات کہ اسی بات کو کوئی اور کچھ عرصے کے بعد اُن کے سامنے بیان کرے تو نہ صرف اس کی تائید کرتے ہیں بلکہ ہاں میں ہاں بھی ملاتے ہیں۔ شوہر کے اس طرح ہر صحیح اور جائز بات پر اعتراضات کی بارش اور طعنے تشنوں کی وجہ سے میں بڑی صابر ہونے کے باوجود ڈسٹرب رہنے لگی ہوں، اب تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ دوسروں کے سامنے اپنی بے عزتی کے ڈر کی وجہ سے کم ہی بولتی ہوں۔ مجھے ان کے اس رویّے کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔
……٭٭……
یہ میں نے چند (حقیقی) تصویریں آپ کے سامنے پیش کی ہیں، آپ کا بھی یقینا ایسے لوگوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہوگا۔ عموماً ایسے لوگ سامنے والے سے خائف رہنے کی وجہ سے، یا انہیں نیچا دکھانے کے لیے، یا عدم تحفظ کی وجہ سے ایسا رویہ اپناتے ہیں۔ جس بچی نے اپنی ساس کے اعتراضات کی بات کی وہ بچی اعلیٰ تعلیم یافتہ، اعلیٰ عہدے پر فائز اور اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ اس بچی پر ساس کی تنقید و اعتراضات کے پیچھے بھی یہی تینوں وجوہات نظر آتی ہیں۔
اللہ کے دین کی طرف قدم بڑھانے والوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ جو رمضان میں عبادات ذوق و شوق سے ادا کرتا ہے، آہستہ آہستہ اسے یہ توفیق بھی ہوجاتی ہے کہ وہ عام دنوں میں بھی فرائض میں کوتاہی سے اجتناب برتتا ہے۔ لہٰذا کبھی کبھار نماز کے لیے چل کر آنے والے نمازیوں کی حوصلہ شکنی نہیں بلکہ حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، یہی دینِ اسلام کی تعلیمات بھی ہیں۔ اگر نماز کی ادائیگی میں کسی سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو بجائے اعتراض کرنے کے، اُسے مثبت طریقے سے سمجھانا چاہیے۔ تاریخ میں بیان کردہ اس چھوٹے بچے کا مثبت طریقہ قابلِ تعریف ہے جس نے اپنے پاس (قریب) موجود ایک صاحب کو غلط طریقے سے وضو کرتے دیکھا تو اُن سے احترام سے کہا کہ کیا آپ میرے وضو کرنے کے طریقے کو دیکھیں گے، کہیںمیں غلط وضو تو نہیں کررہا ہوں؟ ان محترم صاحب نے جب بچے کو صحیح طریقے سے وضو کرتے دیکھا تو کہا: بے شک تم صحیح طریقے سے وضو کررہے ہو البتہ میں نے غلط طریقے سے وضو کیا تھا (سبحان اللہ)۔ یہی طریقہ کار بہترین ہے جس کی دینِ اسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے۔ آج میں اپنے چاروں طرف دیکھتی ہوں کہ عام آدمی سے لے کر اوپر تک، علمائے کرام اور سیاست دانوں سمیت ہر ایک، دوسرے پر تنقید و اعتراضات کی بھرمار کررہا ہے۔ غلطیوں کی نشاندہی مثبت طریقے سے کرنا لازمی و افضل ہے، لیکن ہر اچھی یا بُری، یا غلط یا مفید بات پر تنقید برائے تنقید کا طریقہ کار غلط ہے۔ میں ان سطور کے ذریعے جماعت اسلامی کی ضرور تعریف کروں گی جو غلطیوں کی نشاندہی و ازالے کے لیے کوشاں ہے لیکن اعتراض برائے اعتراض سے پرہیز برت رہی ہے۔ مجھے جب بھی جماعت کے کسی پروگرام یا درس میں شرکت کا موقع ملا ہے تو میں نے ایک بات نوٹ کی ہے کہ آنے والی چاہے جدید (ماڈرن) لباس ہی زیب تن کیے ہوئے ہو اُسے نہایت اپنائیت اور خوش دلی سے خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ جبکہ میں نے اس قسم کی کچھ محافل میں یہ بھی دیکھا ہے کہ شریکِ محفل خواتین کے لباس اور گفتگو پر بھی اعتراضات کیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے بھی اس قسم کی خواتین ایسی محفلوں سے کتراتی ہیں، جبکہ اگر انہیں خوش دلی سے خوش آمدید کہا جائے تو وہ ایسی محفلوں سے جڑ جاتی ہیں اور ان میں نمایاں مثبت تبدیلیاں بھی رونما ہوتی ہیں اور وہ مذہب سے قریب ہوجاتی ہیں۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے انہی مثبت خوبیوں کی وجہ سے دینِ اسلام کے چراغ دنیا میں چاروں طرف جلائے۔
ہر ایک کو اعتراض برائے اعتراض یا تنقید برائے تنقید کی عادت سے اجتناب برتنا لازمی ہے۔ اسی طریقے سے معاشرتی اور گھریلو زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں۔