اعجاز رحمانی (تعزیتی اجلاس میں پڑھاگیا)۔

672

عنایت علی خان
’’وہی ہے جس نے زندگی اور موت کا نظام قائم کیا ہے تاکہ وہ یہ دیکھے کہ تم میںسے کون سب سے اچھے عمل کرتا ہے۔‘‘ اسی نے یہ بھی فرمایا ہے کہ تمہاری سعی و عمل کے میدان مختلف ہیں، پھر ہر شخص کو اس کی سعی و کاوش کے شعبے اور میدان کے مطابق صلاحیت عطا فرمائی ہے جو اللہ تعالیٰ کی عطا اور نعمت ہے۔ اسے اپنے میدان میں سعی و کاوش کا موقع حیاتِ مستعار میں عطا فرمایا ہے اور اُسی کی عطا کردہ صلاحیت کے مصرف کے بارے میں مہلتِ عمل کے اختتام پر باز پُرس ہوگی۔ پھر عطا کردہ نعمتوں یعنی صلاحیتوں کے بارے میں باز پُرس ہوگی۔ اعجاز رحمانی مرحوم کی اللہ تعالیٰ کی جناب سے آزمائش کے لیے شعر گوئی کی نعمت عطا کی گئی تھی اور مرحوم نے اس نعمت کو جس طرح برتا اور اس صلاحیت کو جس طرح استعمال کیا امید ہے کہ وہ اس کے حوالے سے بازپُرس کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی جناب میں سرخرو ہوں گے۔
مرحوم سے راقم الحروف کی نیاز مندی کا قصہ نصف صدی سے بھی دس‘ بارہ سال زائد کا ہے۔ ان کو نامساعد خاندانی حالات کی بنا پر زیادہ تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا تھا اور وہ عملی زندگی میں اپنی کاوش ہی کے ذریعے آگے بڑھے تھے۔ ایسے لوگوں کے لیے انگریزی کا لفظ تو سیلف میڈ ہے لیکن اس کے لفظی ترجمے خود ساختہ کے منفی معنی ہوتے ہیں اس لیے میں نے وہ لفظ نہیں کہا ہے۔بہرحال میری مراد وہی ہے لیکن رسمی تعلیم کی اس کمی کی مرحوم کے ذوق مطالعہ نے تلافی کردی تھی۔ انہیں سابقہ شعرا کے سیکڑوں اشعار اور دل چسپ واقعات یاد تھے جنہیں اپنے شگفتہ انداز میں سناتے تو شمع محفل بن جاتے تھے۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مصداق ابتدا ہی میں مرحوم کی زودگوئی کی صلاحیت نے شعری حلقوں میں انہیں قابل توجہ بنا دیا تھا پھر قمر جلالوی جیسے قادر الکلام اور مسلمہ استاد کے تلمذ نے گویا سونے پر سہاگے کا کام کیا اس پر قدرتِ بیان دل کش ترنم نے کلام میں چار چاند لگا دیے۔ راقم نے کوئی مشاعرہ نہیں دیکھا جس میں موصوف کو بااصرار دوبارہ نہ پڑھوایا گیا ہو۔ خود بتلاتے تھے کہ دہلی میںجب پہلا مشاعرہ پڑھا تو انہیں پانچ بار دعوتِ سخن ملی۔ چھوٹی اور بڑی دونوں قسم کی بحروں میں ان کا ترنم جادو جگاتا تھا‘ ان کی غزلوں کے مطلعے ہی جاذبِ توجہ تھے جیسے:۔

یارب یہ طلسم شبِ مہتاب نہ ٹوٹے
میں جاگ بھی جائوں تو مرا خواب نہ ٹوٹے

پھر ان کے کلام میں جو خود اعتمادی پائی جاتی تھی وہ خود اپنی مثال تھی اس غزل کا مصرع ہے:۔

ٹوٹی ہیں چٹانیں مرے اعصاب نہ ٹوٹے
٭
رہنما سو گئے‘ ہمسفر سو گئے
کون جاگے گا ہم بھی اگر سو گئے

یا اُن کا قطعہ:۔

چراغوں کی حفاظت کرتے کرتے
ہوا کا رُخ بدلنا آ گیا ہے
کہاں تک آگ برسائے گا سورج
مجھے شعلوں پہ چلنا آ گیا ہے
٭
نمائش جسم کی بے پیرہن اچھی نہیں ہوتی
خزاںکے دور میں کوئی شجر اچھا نہیں لگتا
٭
ظالم سے مصطفی کا عمل چاہتے ہیںلوگ
سوکھے ہوئے شجر سے ثمر چاہتے ہیں لوگ
٭
مجھ کو صحرا سے دور رکھتی ہے
میری وحشت شعور رکھتی ہے

مزاح گوشاعر کیوں کہ اچھا خاصا غل غپاڑہ کرا کے اسٹیج چھوڑتا ہے اس لیے اس کے بعد آنے والے شاعر کو جمنے میں ذرا مشکل پیش آتی ہے مثلاً جب مشاعروں میں راقم کے بعد مسلسل جناب جاذب قریشی کا نام پکارا جانے لگا تو ایک مرتبہ موصوف بپھر گئے اور احتجاج کرنے لگے کہ ہر دفعہ مجھی کو کیوں قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔ چنانچہ بعد میں میرے بعد جناب اعجاز رحمانی کو بلایا جانے لگا جن کے پہلے ہی قطعہ یا مطلع پر ماحول یکسر بدل جایا کرتا تھا۔
اس بین الاقوامی شہرت کے بعد قدرت نے انہیں تحریک اسلامی سے متعارف کرایا اور ان کی فطری سلامتیٔ فکر بول اٹھی کہ جا ایںجاست یعنی اپنی فکری جولاں گا تو مجھ پر اب منکشف ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی ہی کی فکر کی غمازی میدان نعت گوئی میں جناب ماہر القادری اور نعیم صدیقی جیسے لوگ مجدّدانہ انداز میں کر رہے تھے۔ اعجاز رحمانی صاحب کو یہ راستہ ملا اور ان کا تلوارِقلم اس معجزنمائی سے اس راستے پر چلا کہ آگے ہی بڑھتا چلا گیا اور روایتی نعت گوئی کے جن تجاوزات کا مظاہرہ ہمیں اچھے اچھے معروف شعرا کے یہاں نظر آجاتا ہے اس کے برعکس اعجاز رحمانی صاحب کی نعتوں میں ایک زندہ پیغام ہے جس میںجہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا مؤثر بیان ہے۔ مثلاً :۔

پوچھو نہ فرشتوں سے نہ انسان سے پوچھو
عظمت شہ ابرار کی قرآن سے پوچھو

اور:۔

ناز کر اپنی قسمت پہ نوعِ بشر
مصطفیؐ مل گئے اور کیا چاہیے

وہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصدبعثت اور اس کی ترویج اشاعت کے حوالے سے صدہا اشعار ملتے ہیں مثلاً چھوٹی بحر میں نعت کا یہ مطلع:۔

دوستو! آئو ایک کام کریں
اُسوۂ مصطفیؐ کو عام کریں

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مرحوم کی تصنیف ’’سلامتی کا سفر‘‘جو چھ ہزار اشعار پر مشتمل ہے‘ اس کے علاوہ مرحوم کے مجموعے اعجاز مصطفی‘ کاغذ کے سفینے‘ جذبوں کی زبان‘ آخری روشنی پہلی کرن‘ خوشبو کا سفر اس فکری جہت نے اُن کی پرگوئی کو گویا مہمیزکیا اور نعت کا وہ ذخیرہ وجود میںآیا جو ضخیم کلیاتِ نعت کے نام سے اپنے دامن میں چار ہزار نعتوں کے گہرآبدار سمیٹے ہوئے ہے۔ اسی کے ساتھ مرحوم کا ایک اور بے نظیر و بے مثال کارنامہ ’’عظمت کے مینار‘‘ کے عنوان سے ہزار اشعار سے زیادہ پر مبنی خلفائے راشدین کے مناقب پر ہے جس میں چار سو سے زائد بند شامل ہیں۔ یہ دو کارنامے وہ ہیں جن کی مثال آج کیا ماضی میں بھی ڈھونڈے سے مشکل سے ملے گی۔
پھر آج برصغیر کا جو سلگتا بلکہ بھڑکتا موضو ع کشمیر ہے اس پر مرحوم کی منظومات ’’لہو کا آبشار‘‘ کے نام سے غالباً دو دہائی قبل ہی شائع ہو چکا تھا اورمرحوم کو اسی موضوع پر نظمیں پیش کرنے کے لیے انگلینڈ تک بلایا جاتا تھا۔ موصوف مرحوم کی فکری نظموں میں ایک مقبول نظم جس کی تحریکی اجتماعات میں لازماً فرمائش ہوتی تھی‘ وہ تھی:۔

میں خوابوں کا سوداگر ہوں
تم میرے خواب خریدو گے

مرحوم کو اب سے چھ سات سال قبل جب عارضہ قلب کی شدت تھی اور معالج تقریباً مایوسی کا شکار ہورہے تھے‘ اس وقت اللہ تعالیٰ نے شفا یابی عطا کرکے اپنا مشن جاری رکھنے کا موقع عطا فرمایا۔ راقم گھر آنے پر عیادت کے لیے حاضر ہوا تو فرمایا اللہ تعالیٰ جب چاہے اپنے بندے کو پاس بلا لے۔ نوجوانوں کا وہ سوداگر خواب فروخت کرتے کرتے خود بقول جناب مجذوب مرحوم ’’فریبِ خوابِ ہستی سے نجات پا گیا۔‘‘

بس اتنی سی حقیقت ہے فریبِ خوابِ ہستی کی
کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہو جائے

اورآج ہم یہی افسانہ سننے اور سنانے جمع ہوئے ہیںاور یہ افسانہ یومئِذٍالنعیم پر جا کر ختم ہوگا۔

حصہ