نعیم الرحمن
اشعر نجمی کی معجزانہ ادارت کا شاہکار ’’اثبات‘‘ کا ’’احیائے مذاہب، اتحاد، انتشار اور تصادم نمبر‘‘ بالآخر پاکستان سے بھی شائع ہوگیا۔2008ء میں ’’اثبات‘‘ کا اجرا ہوا۔ ابتدا ہی سے اس نے اپنا رنگ جما دیا۔ خصوصاً منفرد فیض احمد فیض نمبرکو بھرپور پذیرائی ملی۔ اس دور میں بھارت کے بیشتر جرائد کے طرح ’’اثبات‘‘ بھی پاکستان میں دستیاب تھا۔ لیکن اثبات زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا۔ چند برس قبل اشعر نجمی نے ایک نئے عزم کے ساتھ اثبات کا دورِ نو شروع کیا اور جریدہ اپنے بے مثال نمبروں سے چھا گیا۔ پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی اور ڈاک خرچ میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے اب دونوں ممالک کے درمیان ادبی کتب و جرائد کا تبادلہ بھی رک چکا تھا۔ اشعر نجمی نے ایک اور کمال دکھایا اور اثبات کے پاکستان سے بھی شائع ہونے کا انتظام کردیا۔ عکس پبلی کیشنز لاہور نے اثبات کے ’’سرقہ نمبر‘‘ اور ’’ادب میں فحاشی، عریاں نگاری نمبر‘‘ کو بہت عمدگی سے شائع کیا اور پاکستانی قارئین کو بھی ان بے مثال شماروں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔ عکس کے محمد فہد اور نوفل جیلانی برادران نے 488 صفحات کا ’’سرقہ نمبر‘‘ اور 900 صفحات کا ’’فحاشی نمبر‘‘ بہت عمدہ اوردیدہ زیب انداز میں شائع کیے، اوراب 2400 صفحات کی دو جلدوں پر مبنی ’’احیائے مذاہب، اتحاد، انتشار اور تصادم نمبر‘‘ بھی بہت شاندار انداز سے شائع کیا ہے۔ 1200 صفحات کی دونوں جلدوںکی بائنڈنگ بھی بہت اچھی کی گئی ہے جس کی وجہ سے پڑھتے ہوئے اس کے صفحات نہیں نکلتے اور ان دو جلدوں کی قیمت پانچ ہزار روپے بھی بہت مناسب ہے۔ جب کہ عکس سے براہِ راست منگوانے والوں کو مع ڈاک خرچ یہ شمارے تین ہزار روپے میں پیش کیے جارہے ہیں۔ یہ سنجیدہ قارئین کے لیے بہت عمدہ پیش کش ہے جس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہ نمبر ہر گھر کی ضرورت ہے۔
اشعر نجمی کی ادارت اس اعتبار سے معجزانہ ہے کہ انہوں نے ’’اثبات‘‘ کے دورِ نو میں ایسے موضوعات کا انتخاب کیا جن پر دوسرے مدیران کرام سوچنے کی بھی جرأت نہیں کرتے، اور ادبی جرائد کے لیے تو یہ موضوعات قابلِ اشاعت ہی نہیں ہیں۔ خود اشعر نجمی سے ایک نامور ادیب نے کہا کہ آپ کس چکر میں پڑ گئے، ادبی جریدہ نکالتے ہیں ادبی موضوعات پرکام کریں۔ پھر دسمبر میں فحاشی نمبر شائع کرنے کے چند ماہ بعد احیائے مذاہب کے 2400 صفحات کا مواد جمع کرنا، اس کی کتابت اور پروف ریڈنگ کسی عام انسان کے بس کی بات تو نہیں ہے۔ یہی نہیں، چند ماہ میں ’’ترجمہ نمبر‘‘ کی تیاری بھی جاری ہے۔ دنیا بھر کی زبانوں کے ادب کے تراجم جمع کرنے کا مشکل ترین کام بھی کم و بیش مکمل ہوچکا ہے۔ ان بے مثال اشاعتوں پر اشعر نجمی کو بھرپور خراجِ تحسین پیش کرنا ضروری ہے اور ان شماروں کی بھارت اور پاکستان میں بیک وقت اشاعت بھی اشعر نجمی کا بے مثال کارنامہ اور پاکستانی قارئین کے لیے بڑا تحفہ ہے۔
بھارت میں ’’اثبات‘‘ کی یہ خصوصی اشاعت تین جلدوں میں شائع ہوئی ہے جس کی ہر جلدکے لیے اشعر نجمی نے چشم کشا اداریے ’’سوال تو اٹھیں‘‘، ’’سینہ چاک اور تاریخ کے پیوند‘‘ اور ’’کوئی آدابِ تشدد ہی سکھا دے ہم کو‘‘ تحریر کیے ہیں، جن میں اس نمبر کا جواز اور مقصد بہ خوبی بیان کیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا ’’اگرچہ اس خاص شمارے کا تعلق بلا تفریق ہر مذہبی رویّے سے ہے، لیکن چوں کہ مسلم معاشرے سے میرا نامیاتی اور براہِ راست تعلق ہے، میں اسی معاشرے میں پیدا ہوا، اسی میں پرورش پائی، یہیں شعور کی منزلیں سر کیں، یہیں سماجی مشاہدے اور تجربے سے گزرا، یہیں رشتے اور تعلقات استوار ہوئے، یہیں دشمن اور دوست پیدا ہوئے، یہیں سنبھلا بھی اور ٹھوکر بھی کھائی… ظاہر ہے یہ معاشرہ دوسرے مذہبی معاشرے کے مقابلے میں میری رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے۔ اس معاشرے سے میرا صرف نامیاتی ہی نہیں جذباتی تعلق بھی ہے۔ میرا معاشرہ سرفراز ہوتا ہے تو مجھے خوشی ہوتی ہے، اور اگر یہ بیمار ہوتا ہے تو تشویش ہوتی ہے۔‘‘
اسی سوچ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اشعر نجمی نے ’’احیائے مذاہب‘‘ پر کام کیا۔ دنیا بھرکے مذاہب میں احیائے مذاہب کا تصور بہت پرانا ہے، ہرمذہب کو اپنے اندر اتحاد، انتشار اور تصادم کے مراحل سے گزرنا پڑا۔ محترم صلاح الدین درویش نے بجا طور پر کہا کہ ’’اگر کوئی مرد و زن یہ چاہے کہ وہ مذاہبِ عالم، اُن کی تعلیمات، تحریکوں، گروہوں، مسالک، مباحث، تفاسیر و توجیہات اور علمائے کرام کے علمی و فنی کاموں سے آگاہ ہوسکے تو اُس کے لیے ’اثبات‘ کے موجودہ شمارے کا مطالعہ ضروری ہے۔ اثبات کا احیائے مذاہب نمبر ہر فرد کی علمی و فکری کمی کوتاہیوں کے ازالے کے لیے بہترین دستاویز کی صورت اختیار کر جائے گا۔‘‘
معروف ادیب و دانش ور محمد حمید شاہد کا کہنا ہے کہ ’’یک موضوعی ہوکر بھی ’اثبات‘ کا احیائے مذاہب نمبر ایک مزاج اور ایک فکری قبیلے کی تحریروں پر مشتمل نہیں ہے۔ اس اہم دستاویز میں ہمیں ان موضوعات پر بھی مباحث ملیں گے، جن سے ہمارا سماج نظریں چُرا کر گزر جاتا ہے، یا پھرخوفِ فسادِ خلق سے یہ موضوعات ناگفتہ بہ رہ جاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ آپ ہر فرد سے اتفاق کریں، تاہم یہ بھی نامناسب ہوگا کہ اپنے تعصبات جھٹکے بغیر ہر تحریر کو رد کردیں، تاہم مذہب کو افیون سمجھنے والے ہوں یا اسے تصادم و انتشارکا سبب سمجھنے والے، وہ سب اس پر جو سوالات قائم کرتے ہیں وہ اپنی جگہ سنجیدہ غور و فکرکی دعوت دیتے ہیں۔‘‘
سارتر نے ادیب کی قدرکا تعین کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’جب تک کسی مصنف کی تصانیف پڑھ کر قارئین کو غصہ آئے گا، بے چینی ہوگی، شرم آئے گی، نفرت یا محبت ہوگی، وہ زندہ رہے گا۔‘‘ حمید شاہد کے مطابق اشعر نجمی نے بطور مدیر یہی پیمانہ بطور مدیر اپنے لیے لازم کرلیا ہے۔
اشعر نجمی لکھتے ہیں ’’جواب معمولی ہوسکتا ہے مگر سوال نہیں ہوتا۔ ذرا سوچیے یہ سوال بظاہر کتنا معمولی اور احمقانہ ہے کہ سیب نیچے کیوں گرتا ہے، اوپرکیوں نہیں جاتا؟ مگر اس ایک سوال نے کشش ثقل کا مسئلہ حل کرکے فلکیاتی جہان کھول دیا۔ کیا تشدد بڑی طاقت ہے یا عدم تشدد؟ اس سوال کا جواب گاندھی، مارٹن لوتھرکنگ اور نیلسن منڈیلا کی صورت موجود ہے۔ لیکن سوال پوچھنے والے طالب علم کو بدتمیز، پراگندہ ذہن، گمراہ اور جانے کیا کیا کہا جاتا ہے، تبھی تو سوال کو توہین اور گستاخی کے زمرے میں ڈال کر سوال کنندہ کو گولی مارکر اس کی لاش کا مُثلہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘
اشعر نجمی کے مطابق ’’مذہب کی تاریخ میں یہ ایک اہم سوال ہے کہ کیا مذاہب اپنی خالصیت اور ابتدائی تعلیمات کو بدلتے ہوئے حالات اور نئے لوگوں میں تبدیلی ٔ مذہب کے بعد ان کو برقرار رکھ سکتے ہیں؟ اور کیا مذاہب بھی وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں؟ کیا مذاہب جغرافیائی تناظر میں مخصوص رسوم و رواج اور ثقافتی اقدار و اداروں کو اپنے میں ضم کرتے رہتے ہیں؟ چنانچہ تاریخ کے ہر دور میں ہر مذہبی علما کے درمیان یہ بحث رہی ہے کہ مذہب کو بدلنا چاہیے یا معاشرے کو تبدیل کرکے اسے مذہب کے سانچے میں ڈھالنا چاہیے؟ یہ کش مکش اور تصادم ہر مذہب کے اندر ہے اور رہے گا۔ نتیجتاً ہر مذہب میں احیائی تحریکوں کا جنم ہوتا رہا اور خالصیت کے نام پر کبھی اصلاحی تو کبھی تجدیدی اور کبھی عسکری توانائی کے ساتھ کوششیں ہوتی رہیں کہ یا تو متعلقہ مذہب میں نئی تبدیلیوں کے لیے گنجائشیں پیدا کی جاسکیں، یا پرانی روایات کو نئی زندگی دی جا سکے تاکہ زوال پذیر، فرسودہ، مضمحل معاشرے کوحیاتِ نو مل سکے۔ لیکن کیا کبھی ایسا ممکن ہو پایا؟ اس یک موضوعی شمارے کی اشاعت کا مقصد کسی بھی مذہب کے پیروکاروں کی دل آزاری یا انہیں غلط قرار دینا نہیں ہے، بلکہ انفرادی رائے قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے چوں کہ کسی بھی موضوع سے متعلق مروجہ تشریحات سے مختلف رائے قائم کرنا ہر فرد کا حق ہے۔ اختلافِ رائے فطرت کا قانون ہے۔ اس قانون کو ایک حدیثِ رسولؐ میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ’’اختلاف امتی رحمتہ‘‘۔ اختلافِ رائے کا اظہار ہمیشہ تنقیدکی صورت میں ہوتا ہے جس کا مقصد کسی موضوع کے مختلف و متضاد زاویۂ نظر سے مطالعے کا آغاز کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح آزادانہ تبادلہ خیال ذہنی ارتقا کا لازمی تقاضا ہے جو ایک بہتر اور روشن خیال معاشرے کی تعمیر میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ ہم اس شمارے میں شامل کسی بھی تحریر کو حرف ِ آخر نہیں سمجھتے، لہٰذا قارئین کے اختلاف رائے کا بھی خیرمقدم ہے۔‘‘
اس شمارے میں مذہب کے حوالے سے ہر قابلِ ذکر موضوع کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جلداوّل کا آغاز ’’اسلام اور احیائے اسلام‘‘ کے زیر عنوان 14 مضامین سے کیا گیا ہے جن میں مبارک علی کے ’’اسلامی تاریخ: ایک جائزہ‘‘ اور ’’کیا نظریے کا احیا ممکن ہے؟‘‘ روبن لیوی کے ’’اسباب اشاعتِ اسلام‘‘ اور ’’اسلام اور سماجی درجات‘‘، راشد شاذ کے ’’سنی اسلام کا سیاسی پس منظر‘‘ اور ’’اسلام کا شیعی قالب‘‘، خالد تھتھال کا ’’فکرِ اسلامی: بند دروازے پر دستک‘‘، نتانا جے ڈیلونگ کا مضمون ’’محمد عبدالوہاب: تصویرکا دوسرا رُخ‘‘، فضل الرحمن کے ’’تجدید پسندی سے پہلے کی اصلاحی تحریکیں‘‘، اور ’’تجدید پسندی اور اسلامی معاشرہ‘‘، خالد مسعود کا ’’ہم عصر مذہبی تحریکات کے تجزیاتی مطالعے میں مسائل‘‘، جولین بالڈک کا ’’اسلام پر صوفی ازم کے اثرات‘‘ اور فرنود عالم کا ’’احیائے اسلام اور بھاگتے بھوت کی لنگوٹ‘‘ شامل ہیں۔
مضامین کے عنوان ہی سے ان کی اہمیت واضح ہے۔ ’’اسلامی معاشرہ: تذبذب کی سماجیات‘‘ کے عنوان سے 9 مضامین ہیں جن میں دورِ حاضر کے تذبذب کو پیش کیا گیا ہے جس میں ہم فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ ہم کون ہیں اور ہمیں کہاں جانا ہے؟ کبھی ہم نے احادیث کا انکار کیا، کبھی تاریخ کو جھوٹا گردانا، کبھی فقہ کو ہم نے اپنی زندگی سے خارج کیا، کبھی قرآن کی پرانی تفسیروں کو رد کیا، کبھی لغت دیکھ دیکھ کر کلام الٰہی کے روایتی ترجموں کو بدلنے کی کوشش کی اور اس سے ایسے ایسے معنی کشید کیے کہ اللہ کی پناہ۔
طارق احمد صدیقی کا اہم مضمون ’’خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں‘‘، جس میں عالمِ اسلام میں یونانی علوم کے داخل ہونے اور پھر دورِ جدید میں مغرب کے فلسفیانہ اور سائنسی علوم کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کے ہمہ گیر غلبے کے مضمرات پر بحث کی گئی ہے۔ مبارک حیدر کی دو اہم کتب ’’تہذیبی نرگسیت‘‘ اور ’’مغالطے مبالغے‘‘ کے کچھ حصے دیے گئے ہیں۔ عبدالکریم عابد نے ’’برصغیر کی مسلم ذہنیت‘‘ کو بیان کیا ہے۔ عرفان شہزاد نے ایک اہم موضوع ’’توہینِ رسالت کیوں ہوتی ہے‘‘ پرقلم فرسائی کی ہے۔
اگلا موضوع ہے ’’وجودِ زن سے ہے تصویرِکائنات میں رنگ‘‘، اس میں فاطمہ مرنیسی کا ’’حجاب سے آگے‘‘، ارشد محمود کا ’’مولانا مودودیؒ کا تصورِ عورت‘‘، شیخ برہان الدین کا ’’حجاب کی حقیقت‘‘ اور طارق فتح کا مضمون ’’حجاب: اسلامی فریضہ یا سیاسی اسلام؟‘‘ شامل ہیں۔ ان کے عنوانات سے ہی موضوع کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ’’دینیات، سائنس اور ادب‘‘ کے حصے میں بھی 4 مضامین ارشد محمود، پرویزعلی ہود بھائی، سلیم احمد اور انتظار حسین کے ہیں۔
’’اسلام، سیاست اور ریاست‘‘ اس حصے کا اہم ترین عنوان ہے جس میں اسلام کا سیاسی تصور اور ریاست کی ذمے داریوں کو بیان کیا گیا ہے۔ ’’سیاسی اسلام‘‘، ’’اسلامی ریاست کا تصور‘‘، ’’ قیامِ خلافت کا مغالطہ‘‘، ’’شیعہ سنی مخاصمت: مذہبی یا سیاسی؟‘‘، ’’سعودی عرب:11 ستمبر کے بعد‘‘، ’’اسلامی جمہوریہ ایران میں اصلاح کی سیاست‘‘، ’’اسلام کی نئی اٹھان، بنگلہ دیش میں سیاسی جواز خیزی‘‘، ’’ازبکستان میں اسلامی قضیہ‘‘، ’’ملائشیا میں اسلام اور سیاسی جواز خیزی‘‘، ’’انڈونیشیا: منقسم اکثریت‘‘، ’’ایردگان کی کامیابی، صالحین کی خوشیاں اور سیاسی اسلام‘‘، ’’حزب التحریر: خلافت کے احیا کی جدوجہد‘‘، ’’جماعت احیائے اسلام اور تاجکستان میں خانہ جنگی‘‘ اور ’’مذہب، سیاست اور تیونس‘‘ مضامین میں مختلف ممالک میں اسلام کے سیاسی حالات پر اثرات پر تفصیلی نظرڈالی گئی ہے۔
حصہ دوم کا پہلا عنوان ’’اسلام، مسلمان اور ہندوستان‘‘ قائم کیا گیا ہے، جس کے اہم مضامین میں ’’ہندوستان میں اسلام کی اشاعت کے اسباب‘‘، ’’ہندوستان میں اسلام کیسے پھیلا؟‘‘، ’’ہندوستانی اسلام اور اصلاحی تحریکیں‘‘، ’’ہندوستانی مسلمان اور سردار پٹیل‘‘، ’’مابعد تقسیم: بڑھتے اختلافات اور فرقہ وارانہ تصادم‘‘ اور ’’مسئلہ کشمیر: حقیقت پسندانہ حل‘‘ بہت عمدہ ہیں۔ ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کے زیر عنوان 9 مضامین دیے گئے ہیں، جن میں ’’تحریکِ پاکستان: سیکولر یا مذہبی جدوجہد‘‘، ’’پاکستان ایک غیریقینی ریاست‘‘، ’’پاکستان : اسلام کا قلعہ بنانے کی کوشش‘‘، ’’مذہبی انتہا پسندی، عدم رواداری اور مطالعہ پاکستان‘‘ اور ’’توہینِ رسالت اور ہمارا ردعمل‘‘ نے پاکستان میں مذہبی صورت حال کو بھرپور انداز سے اجاگر کیا ہے۔ جلد اوّل کا آخری عنوان ’’تابہ خاکِ کاشغر‘‘ میں دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے مسائل اور حالات کو بہت خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔
دوسری جلد میں دیگر مذاہب کے بارے میں تحریریں شامل کی گئی ہیں۔ بھارت کی صورت حال کے حوالے سے پہلا عنوان ’’ہندو، ہندتو اور ہندوستان‘‘ قائم کیا گیا ہے، جس میں بھارت میں مختلف مذہبی تنازعات کو عمدگی سے پیش کیا گیا ہے، جن میں بعض اہم موضوعات ’’ہندو احیا پسندی اور ہندُتو تحریک‘‘، ’’ہندو مذہبی تحریکیں‘‘، ’’مذہبی تشخص کا المیہ‘‘، ’’ہندو اور اسلامی ماورائے قوم مذہبی تحریکیں‘‘، ’’رام جنم بھومی اور بابری مسجد تنازع‘‘، ’’ہندوستان میں قوم پرستی کا بدلتا مکالمہ‘‘، ’’سنگھ پریوار: تاریخ کے دسترخوان پر حرام خوری‘‘، ’’ہندُتو کیا ہے؟‘‘، ’’ہندو شاستر‘‘، ’’گجرات، جمہوریت اور فسطائیت‘‘ اور ’’ہندُتو اور ہندوستانی سیکولر لیڈرشپ‘‘ میں بھارت میں مذہبی رویّے اور مجموعی صورتِ حال کو بیان کیا گیا ہے۔
’’سارے منظر ایک جیسے، ساری باتیں ایک سی‘‘ کے عنوان سے ’’سکھوں کی مذہبی حکومت‘‘، ’’سکھ مذہبی تحریکیں‘‘، ’’کیتھولک چرچ اور اصلاحِ مذہب‘‘، ’’یونیفکیشن چرچ: ایک نیا عیسائی فرقہ‘‘، ’’عیسائیت میں مذہبی تحریکیں‘‘ اور ’’یہودیت اور مذہبی تحریکیں‘‘ کے تحت دیگر مذاہب کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ ’’جہاد، فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت گردی‘‘ کے عنوان سے مذہب کارڈ کے منفی استعمال اور مختلف جہادی تنظیموں کا تفصیلی ذکر اور اس کے دنیا پر منفی اثرات کو پیش کیا گیا ہے۔ ’’محبت فاتح عالم‘‘ ایک بہت شاندار عنوان ہے۔ مذہبی ہم آہنگی اور مکالمہ اور اختلافات کو ختم کرنے کے بارے میں مضامین دیے گئے ہیں۔
احیائے مذاہب کا اختتام ’’تخلیقی اظہار‘‘ پر ہوا ہے۔ اس عنوان کے تحت تقریباً 500 صفحات کا ادبی گوشہ ہے، جس میں مذہب سے متعلق ادباء و شعرا کی تخلیقات کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ بہت منفرد اور بے مثال حصہ ہے۔ اس انتخاب کے لیے اشعر نجمی خصوصی مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اس گوشے میں غلام عباس کا شاہکار ناولٹ ’’دھنک‘‘، احمد ندیم قاسمی کی کہانی ’’الحمدللہ‘‘، نوبیل انعام یافتہ مصری ادیب نجیب محفوظ کی کہانی ’’کوچۂ بدنام کی مسجد‘‘ اور ہان پاموک کی ترک کہانی ’’ایک مذہبی بات چیت‘‘، صدیق عالم کی چار نظمیں، ہندی افسانہ نگارکا ’’بابر کا مقدمہ‘‘ اور نظم ونثرکی بے شمار تحریریں شامل ہیں۔
غرض اثبات کا ’’احیائے مذاہب نمبر‘‘ اشعر نجمی کا ایک ایسا شاہکار ہے جو اُن کا نام ہمیشہ زندہ رکھے گا اور قارئین ابھی سے ترجمہ نمبر کے منتظر رہیں گے۔ دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش ہے۔ فہد اور نوفل برادران بھی اس شمارے کی بہترین طباعت و اشاعت پر خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔