نمرہ کا سسرال

592

سیدہ عنبرین عالم
نمرہ، محمد سمیر احمد خان کی چہیتی بیٹی تھی۔ سمیر صاحب آرمی سے ریٹائر ہونے کے بعد فرنیچر کے کاروبار سے منسلک تھے، حیدرآباد دکن سے ہجرت کرکے آئے تھے اور کراچی میں آباد ہوئے۔ رکھ رکھائو اور تہذیب تو اوڑھنا بچھونا تھا ہی، اسلامی اقدار کا بھی بھرپور خیال رکھا جاتا تھا۔ نمرہ کی والدہ ایک کالج میں لیکچرار تھیں۔ دو بڑی بہنیں ڈاکٹر تھیں اور اپنے گھروں میں آباد تھیں۔ اس نفیس ماحول میں پرورش پانے والی نمرہ بھی تمام اخلاقی برائیوں سے پاک تھی۔ مذہب سے بھی لگائو تھا اور تعلیم میں بھی قابلِ فخر تھی۔ کراچی یونیورسٹی سے بی فارمیسی کررہی تھی۔ اس کے ساتھ کلاس میں ایک لڑکا تھا جس کا نام نعیم تھا۔ خوش شکل اس قدر کہ نمرہ دل ہار بیٹھی۔ خفیہ دوستی پالنے کے بجائے نمرہ نے نعیم سے رشتہ بھیجنے کا مطالبہ کر ڈالا۔ نعیم بھی آوارہ طبیعت انسان نہیں تھا، صاف بات کرنا ہی مناسب سمجھا۔
’’نمرہ! آپ بھی مجھے بہت پسند ہیں، لیکن آپ نہایت اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، آپ ہماری فیملی میں گزارہ نہیں کرپائیں گی۔ اصل میں میرا تعلق قصابوں کے خاندان سے ہے، میرا کوئی بھائی میٹرک سے زیادہ نہ پڑھ سکا، بس میں ہی تھوڑا پڑھ لکھ گیا۔ میرے سارے بھائی میرے خلاف ہیں کہ میں خاندانی کاروبار میں ساتھ کیوں نہیں دیتا۔ ہمارے ہاں مشترکہ خاندانی نظام ہے، اگر میں آپ کو لے کر الگ ہوا تو مزید معتوب قرار پائوں گا، اس لیے یہ ممکن نہیں، آپ سوچ لیں۔‘‘ اس نے فیصلہ نمرہ پر چھوڑ دیا۔
نعیم اس قدر شریف، سمجھ دار اور ایمان دار انسان تھا کہ نمرہ کو یہی فیصلہ بہتر محسوس ہوا کہ اس سے ہی شادی کی جائے۔ اس کے ساتھ چند کلاسیں لے کر ہی نمرہ کو اندازہ ہوگیا کہ اس سے بہتر انسان ملنا مشکل ہے۔ کبھی کسی لڑکی کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھتا۔ نمرہ سے بھی ہچکچاتا تھا۔ نماز کا پابند، ہمیشہ اوّل پوزیشن، کوئی دوستیاں یاریاں بھی نہیں پالی ہوئی تھیں، سوچ سمجھ کر خرچا کرتا۔ نمرہ کا خیال تھا کہ یہ شخص اتنا اچھا ہے تو اس کا باقی خاندان بھی ایسا ہی ہوگا۔ خیر جناب! بڑی مخالفتوں اور لڑائی جھگڑوں کے درمیان آخرکار یہ شادی انجام پائی۔ نہ نمرہ کو نوکری کی اجازت ملی، نہ الگ ہونے کی۔ چند دنوں میں ہی نمرہ کو اندازہ ہوگیا کہ اس خاندان کے مرد ہی قصاب نہیں ہیں بلکہ عورتیں بھی خاصی خونخوار ہیں۔ مگر نعیم کی ہدایت تھی کہ نمرہ کے منہ سے اگر ایک لفظ بھی نکلا تو جینا مزید مشکل ہوجائے گا۔ یہاں تک کہ پانچ سال گزر گئے۔ نمرہ کا بیٹا چار سال کا ہوچکا تھا۔ اس کا نام سبحان تھا۔ اب تک جو زندگی گزری سو گزری، لیکن اب نمرہ اپنے بچے کی تربیت کے لیے خاصی پریشان تھی، سبحان دوسرے بچوں کے ساتھ گالیاں سیکھ چکا تھا۔
اب نمرہ نے غور کرنا شروع کیا تو نوٹ کیا کہ اس گھر میں ہر غلط کام سے بچوں کو روکنے کے لیے صرف ایک بات کہی جاتی تھی کہ ’’اللہ میاں آگ میں ڈال دے گا‘‘۔ بچے آہستہ آہستہ پاک رب سے متنفر ہورہے تھے۔ یہاں تک کہ جب ایک روز نمرہ نے سبحان کو کھانا کھلانے کے بعد اللہ میاں کا شکر ادا کرنے کو کہا تو سبحان نے برا سا منہ بنا کر کہا ’’کیا شکر ادا کروں اللہ میاں کا! آخر تو اس نے مجھے کسی نہ کسی بات پر آگ میں ڈال دینا ہے، پتا نہیں کتنی بڑی آگ جلا کر بیٹھا ہے، سب کو کسی نہ کسی بات پر آگ میں ڈال دیتا ہے۔‘‘
نمرہ کا دل دھک سے رہ گیا۔ ’’نہیں بیٹا! ہمارا اللہ تو ہم سے ستّر مائوں کی محبت کرتا ہے اور بچوں سے تو وہ بہت زیادہ پیار کرتا ہے، جبھی تو آپ کو روز آئس کریم دیتا ہے، اچھے اچھے کپڑے دیتا ہے، آپ جو مانگتے ہو آپ کو دیتا ہے، آگ میں تو وہ برے لوگوں کو ڈالے گا، جو جھوٹ بولتے ہیں، چوری کرتے ہیں، گالی دیتے ہیں۔ بچے تو چھوٹے ہوتے ہیں، ان کے لیے تو اللہ میاں نے پارک بنائے ہیں۔‘‘ اس نے سمجھانے کی کوشش کی۔
سبحان تھوڑی دیر سوچتا رہا۔ ’’آج مجھ سے دودھ گر گیا تو دادی کہہ رہی تھیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے جہنم میں ڈال دے گا۔ اماں، مجھے آگ سے بہت ڈر لگتا ہے، میں نے جان بوجھ کر دودھ نہیں گرایا۔‘‘ اس نے کہا۔
نمرہ کو سبحان پر بڑا ترس آیا۔ ’’نہیں بیٹا! اللہ میاں کو پتا ہے کہ سبحان نے جان بوجھ کر دودھ نہیں گرایا۔ اللہ میاں کو ہمارے دل کی ہر بات پتا ہوتی ہے، وہ کیوں سزا دے گا؟ وہ تو سب جانتا ہے۔ اس نے بچوں کے لیے بہت سی ٹافیاں رکھی ہوئی ہیں اور چاکلیٹ کے دریا، اور جوس کے آبشار۔ وہ تو بچوں سے بہت پیار کرتا ہے، جبھی تو اس نے آپ کو اور بہت سا دودھ دے دیا۔‘‘ اس نے سبحان کو سمجھایا۔ سبحان ہاں میں اپنا سر ہلانے لگا۔ نمرہ نے سُکھ کا سانس لیا۔ وہ سبحان کے دل میں اللہ کی محبت جگانا چاہتی تھی۔
ایک روز تو نمرہ یہ دیکھ کر سہم کر رہ گئی کہ نعیم کے سب سے بڑے بھائی سلیم اس کے چار سال کے سبحان کو چھری پکڑا کر گوشت کی بوٹیاں بنانا سکھا رہے تھے۔ ’’ابھی سے کام سیکھ لے، ورنہ بڑا ہوکر اپنے باپ کی طرح بابو بن جائے گا، نوکری کرے گا دوسروں کی، اپنے کام میں اپنی بادشاہت ہوتی ہے۔‘‘ وہ کہتے جارہے تھے اور سبحان کے آگے گوشت رکھتے جاتے، اور سبحان کھیل سمجھ کر چھری چلا رہا تھا۔ پھر وہ تھک گیا۔ ’’ارے جان لگا میرے چاند! ورنہ اللہ بابا آکر تجھے پکڑ کر کھا جائے گا۔‘‘
’’سلیم بھائی! آپ کام سکھائیں آپ کا بچہ ہے، مگر اللہ پاک کے نام کو بھیانک بناکر پیش نہ کریں۔‘‘ وہ اتنا کہہ سکی۔ وہ جانتی تھی کہ سب اس کے بچے سے محبت کرتے ہیں، بس ان کی محبت کا انداز نمرہ سے ہضم نہ ہوتا، وہ سب کچھ نعیم کی خاطر برداشت کرلیتی تھی۔ نعیم انتہائی اچھے شوہر تھے، کبھی عام شوہروں کی طرح نمرہ پر آواز اونچی نہ کی، اپنی مرضی ٹھونسنے کی کوشش نہ کی۔ آنے جانے کی مکمل آزادی، کھلا خرچ، گھمانے پھرانے بھی لے جاتا، اور سب سے بڑھ کر نمرہ کے والدین جو اولادِ نرینہ سے محروم تھے، ان کا بیٹا بن کر خیال کرتا تھا۔ نمرہ کے سسر نے ہی نعیم کو کہہ رکھا تھا کہ میرے تو سات بیٹے ہیں، تیرے ساس سسر کا بیٹا نہیں، اُن کا خیال رکھا کر۔ وہ نمرہ کی ماں کو ڈاکٹروں کے پاس لاتا لے جاتا، گھر کی چیزوں کی مرمت کردیتا، سسر کا کاروبار میں ہاتھ بٹاتا۔ مگر سمیر صاحب ناراض ہی رہتے، انہیں لگتا ان کی بیٹی برباد ہوگئی۔ یہ ناراضی بھی اُس وقت دور ہوگئی جب سمیر صاحب کا بائی پاس آپریشن ہوا۔ سمیر ان کا واحد داماد تھا جو دو ہفتے اسپتال میں ان کے ساتھ ٹھیرا، ہر طرح کی خدمت کی۔ پھر وہ کئی دن کام کے قابل نہ تھے تو ان کا کاروبار بھی سنبھالا۔ باقی دو داماد ایک ایک چکر لگاکر چلے گئے۔ نمرہ کی ڈاکٹر بہنیں یہی کہتی رہیں کہ نعیم کاروبار پر قبضہ کرنے کے لیے یہ خدمتیں کررہا ہے۔ مگر سمیر صاحب بیماری کے بعد جس دن فرنیچر کی دکان پر پہنچے، نعیم کاروبار سے بالکل لاتعلق ہوگیا۔ نوکری چلی گئی تھی، باپ کی گوشت کی دکان پر بیٹھنے لگا اور نوکری کی تلاش جاری رکھی۔ مختصر یہ کہ نمرہ اور نعیم دونوں ایک دوسرے کے لیے اپنے سسرالوں کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے۔
نعیم کا ایک اسلامی جماعت میں کافی آنا جانا تھا، انہوں نے خواتین کے قرآنی درس کا محلے میں انتظام کیا تھا، ہفتے میں تین دن دو، دو گھنٹے کی کلاسیں ہوتیں۔ نمرہ نے قرآن کا ترجمہ تو متعدد بار پڑھ رکھا تھا، تاہم تفسیر و تربیت کی ضرورت تھی۔ نعیم نے تاکید کی تھی کہ درس میں باقاعدہ شرکت کو ممکن بنایا جائے۔ سبحان کی تو فکر تھی ہی نہیں، وہ کون سا نمرہ کے پاس رہتا تھا! کب کس نے کھانا کھلا دیا، کہاں سو گیا، کچھ پتا نہ چلتا تھا۔ گھر میں سبحان کی عمر کے آس پاس تقریباً 12 بچے تھے، جو ہر وقت ساتھ رہتے، کوئی بھی بھابھی بیٹھتی تو سب کو اکٹھا کھانا کھلا دیتی۔ نہ بسم اللہ کا رواج، نہ کھانے کی تہذیب سکھائی جاتی۔ نمرہ کچھ کہے تو پڑھے لکھے ہونے کا طعنہ حاضر۔ گھر کے 32 بچوں کے لیے ایک مولوی صاحب آتے۔ جانے کیا سکھاتے، بچوں کو سلام کرنے کی توفیق تک نہیں تھی۔ بہرحال نمرہ نے درس میں جانا شروع کردیا۔ محلے کی خواتین بھی اس کے گھر کی خواتین جیسی ہی تھیں، ظاہر ہے محلہ ہی ایسے لوگوں کا تھا۔ نمرہ چوں کہ پہلے سے مذہبی معلومات رکھتی تھی تو معلمہ اسے اپنے پاس بٹھانے لگیں۔ وہ بھی درس میں کچھ نہ کچھ سکھا دیتی۔ اُڑتی اُڑتی بات نمرہ کے سسر تک پہنچی۔ ان کی تو فخر سے گردن اکڑ گئی اور انہوں نے حکم صادر کردیا کہ ان کے گھر بھی درس ہوا کرے گا بھلے مہینے میں ایک بار، اور پورے خاندان کی عورتوں کو مدعو کیا جائے گا۔ نعیم نے سنا تو تفسیروں کی کئی کتابیں اور اسلامی کتابیں لاکر نمرہ کو دے دیں۔ تو جناب! نمرہ بن گئیں معلمہ۔ خاندان کی 150 عورتیں ہر مہینے شرکت کرتیں۔ قورمہ اور تندور کی روٹیوں سے تواضع ہوتی۔ سسر کہتے درس سے کاروبار میں برکت پڑ گئی۔
سمیر صاحب بوڑھے اور بیمار ہوگئے تھے اور چاہتے تھے کہ نعیم ہی کاروبار سنبھال لے۔ سمجھ دار بھی تھا اور ایمان دار بھی۔ باقی کے داماد تو ایسے تھے کہ سب کچھ کھا پی کر بیٹھ جاتے۔ لہٰذا زندگی میں ہی سمیر صاحب نے سارا کاروبار نمرہ کے نام کردیا۔ باقی کی دو بیٹیوں اور دامادوں نے فساد کیا تو باقی جائداد اُن میں بانٹ دی، بس گھر اپنے پاس رکھا، دو ہزار گز کا گھر۔ وہ لاکھ نعیم اور نمرہ سے کہتے کہ ہمارے ہاں آن بسو، مگر نعیم کہتا کہ اگر گھر داماد بن گیا تو طعنے سننے کو ملیں گے۔ لیکن اس نے مسئلہ اپنے والد کے سامنے رکھ دیا، اتفاق یہ ہوا کہ ان کے گھر کے بابر ہی ایک گھر بک رہا تھا، نمرہ کے والدین کو وہ دلا دیا گیا اور بیچ میں راستہ کھول لیا۔ نمرہ کو بہت سہولت ہوگئی، اب وہ آسانی سے اپنے والدین کا خیال رکھ سکتی تھی۔ البتہ تمام بچے اودھم مچائے رکھتے، سمیر صاحب اور ان کی بیگم کو سناٹے کی عادت تھی، اکثر بیچ کا دروازہ بند کرلیتے۔ نمرہ کے سسر مذاق اڑاتے کہ ہمیں شور کے بغیر نیند نہیں آتی اور انہیں شور میں نیند نہیں آتی۔ بار بار نعیم کو نصیحت کرتے کہ جیسے بہو ساس سسر کو ماں باپ سمجھتی ہے، تم بھی ساس سسر کو ماں باپ سمجھ کر خدمت کرو۔
گھر کا ماحول دیکھ کر نمرہ کڑھتی تھی۔ نازیبا زبان، گالیاں، میاں بیوی میں آپس میں مار پیٹ… رفتہ رفتہ اس نے بھابھیوں کی تربیت شروع کی اور نعیم بھائیوں پر لگ گئے۔ نہ ٹوکنا، نہ نصیحت کرنا… انتہائی خوش گوار طریقہ اپنایا گیا۔ جو بات بھابھیوں اور بھائیوں کو سمجھانی ہوتی وہ بچوں کو سکھائی جاتی۔ نمرہ روٹی توے پر ڈالتی تو ہر روٹی پر زور سے بسم اللہ کہتی۔ بچوں کو جوتے پہنانا شروع کرتی تو بارہ کے بارہ بچوں کو جوتا پہنانے سے پہلے بسم اللہ کہتی۔ اسی طرح دونوں میاں بیوی، بھائیوں اور بھابھیوں کے سامنے منصوبہ بناکر آپس میں تلخ کلامی کرتے، پھر سب کے سامنے معافیاں ایک دوسرے سے مانگتے تاکہ ایک نمونہ بھائیوں اور بھابھیوں کے سامنے پیش کرسکیں۔ پھر نمرہ نے گھر کی خواتین اور مردوں کی روزانہ عشا کی نماز کے بعد قرآن کی کلاس شروع کردی۔ بچے بھی آجاتے۔ ایک گھنٹہ قرآن، تفسیر اور سوالات ہوتے۔ سسر سب سمجھ رہے تھے اور نمرہ کا خوب ساتھ دیتے تھے، ورنہ شروع میں کئی مسائل کھڑے ہورہے تھے۔
سمیر صاحب اور ان کی بیگم کو بھی مصروفیت ہاتھ آگئی۔ مولوی صاحب کو فارغ کردیا گیا تھا۔ اپنے خرچے پر سمیر صاحب نے بچوں کو اچھے اسکول میں ڈالا۔ اب بچوں کو قرآن اور اسکول کا ہوم ورک انتہائی تندہی سے کراتے۔ بچے خاندانی کام بھی سیکھ رہے تھے جو ان کے دادا کی نظر میں انتہائی اہم تھا۔ نمرہ مطمئن تھی۔ نعیم سمیر صاحب کا کام سنبھال رہا تھا۔ دو، چار گھنٹے کبھی کبھار باپ کی دکان پر بھی بیٹھتا تاکہ شکوہ نہ رہے۔
سب بچے بیٹھے تھے۔ صبح اسکول جانے کا وقت تھا۔ دادی سبحان کو پانچواں شامی کباب کھلانے کی کوشش میں تھیں جو سبحان کے گلے سے نہیں اتر رہا تھا۔ ’’دادی! اگر میں اور شامی کباب نہ کھائوں تو کیا اللہ میاں مجھے آگ میں ڈال دیں گے؟‘‘ سبحان نے پوچھا، جو اب سات سال کا ہوچکا تھا۔
’’نہیں میرے بچے! آپ کو تو اللہ تعالیٰ جنت میں ڈالیں گے کیوں کہ آپ بہت پیارے بچے ہو، جنت میں آپ کو بہت مزا آئے گا، وہاں آپ کو ہر طرف شامی کباب، کڑھائی، ٹوسٹ، قورمہ، اصلی گھی کے پراٹھے اور تکے ملیں گے، وہاں جاکر تو آپ کو روز 200 شامی کباب کھانے کو ملیں گے، خوب کھائے گا میرا بیٹا۔‘‘ دادی بولیں۔سبحان نے کانوں پر ہاتھ رکھ کر فلمی انداز میں لمبا سا ’’نہیں…‘‘ کہا۔ نمرہ جو پاس کھڑی سن رہی تھی، کھکھلا کر ہنس پڑی۔
ہر لڑکی کے لیے سسرال اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا نمرہ کے لیے تھا۔ پہلے پانچ سال تو بہت مشکل اور صبر آزما ہوتے ہیں، یہ پانچ سال نکال لیے تو پھر بسنا آسان ہوجاتا ہے۔ اللہ میاں سب کو سمجھ دار شوہر دے، جو توازن رکھنا جانتا ہو اور رب ذوالجلال کا خوف رکھتا ہو، تو زیادتیاں کم ہوجاتی ہیں۔ ایک اور سبق جو اس کہانی سے دیا گیا وہ یہ ہے کہ صرف مرد کے ماں باپ کو ہی خدمت کی ضرورت نہیں ہوتی، عورت کے ماں باپ بھی بوڑھے ہوجاتے ہیں۔ جیسے بہو سے توقع کی جاتی ہے کہ ساس سسر کی بیٹی بن کر دکھائے، داماد بھی اپنے ساس سسر کا بیٹا بن کر ڈھیروں اجر کما سکتا ہے۔ اللہ رب العزت ہم سب کو ہدایت دے۔

حصہ