نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی

758

حریم شفیق
لرزتے قدموں، بھیگتی آنکھوں اور دھڑکتے دل سے میں رواں دواں تھی اُس مقام کی جانب جس کی طرف قدموں سے نہیں پلکوں سے جایا جاتا ہے۔ سبز گنبد پر جو نظر پڑی تو آنکھوں سے گویا برسات شروع ہوگئی کہ کہاں میں اور کہاں مسجد نبویؐ…! میری اوقات کیا، کہ میں تو فقیر بن کر آئی تھی۔ جب صحنِ نبیؐ پہ نماز پڑھی اور پیشانی نے اس پاک مٹی کو چھوا تو دل سرشاری کی سی کیفیت میں آ گیا کہ میرے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدمِ مبارک یہاں پڑے ہوں گے۔

میں پلکیں بچھاؤں میں نظریں جھکاؤں
مرے پیارے آقاؐ پر قربان جاؤں

جب مسجد نبویؐ کے دروازے پر پہنچی کہ وقت ِسلام آیا تو نہ پوچھو کہ کیا حالت تھی۔

قدم لرزیدہ لرزیدہ نظر شرمندہ شرمندہ

کیسے آقاؐ کے روضۂ مبارک پہ حاضری دوں گی! گناہوں سے لتھڑا داغ دار دامن، شرک و بدعت کی عادی مجرم، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی دعوے دار مگر ان کی دی گئی تعلیمات، ان کی سنت کو بھلا دینے والی کم حیثیت میری ذات بھلا ان کا سامنا کیسے کرے گی؟
میں روضۂ مبارک کی جالیوں کے سامنے کھڑی آنسو بہاتی رہی۔ نگاہ اوپر اٹھتی ہی نہ تھی۔ اٹھتی بھی تو کیوں؟ ادب کے تقاضے ہی اور تھے کہ اچانک… میری آنکھوں نے جو دیکھا تو روح لرز گئی، قلب نے فریاد کی…درِ مصطفیؐ پہ یہ سب؟ دو عورتیں ریاض الجنۃ میں نوافل کی ادائیگی کے وقت آپس میں گتھم گتھا تھیں، نہ صرف یہ بلکہ بآوازِ بلند ایک دوسرے کو گالیاں دے رہی تھیں کہ تم میرے پاؤں پر چڑھ گئیں۔ حیرت سے آنکھیں پھٹی جارہی تھیں کہ کس مقام پہ کھڑے ہیں جہاں صحابہ کرامؓ کی باادب آواز سرگوشیوں سے زیادہ اونچی نہ ہوتی تھی۔ کہیں دیکھا کہ جالی کو سجدے کی کوشش، کہیں دیکھا کہ ستونوں پہ تسبیح مارکر اسے زیادہ بابرکت بنانے کی کوشش کی جارہی ہے… مگر وہ سبق جو میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو دیا کہ شرک سے بچو، ایک دوسرے کی ذات کو محترم جانو، وہ سب بھلا دیا۔
ہم آج ربیع الاوّل مناتے ہیں۔ نئے نئے جوڑے سلواتے ہیں۔ قمقموں سے در و بام سجاتے ہیں… دیگیں پکاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ پیارے آقاؐ تو اپنے لباس پہ پیوند لگا کر بھی اسے زیب تن کرلیتے تھے، وہ تو کتنے ہی دن فاقوں میں گزار دیتے تھے۔ وہ جو فخرِ موجودات تھے، جو ایک اشارہ کرتے تو تمام جہان کے خزانے ان کے قدموں میں ڈھیر ہوجاتے، صرف اس لیے اس حال میں رہتے کہ میری اُمت اس دنیا کو اپنی متاعِ کُل نہ سمجھ بیٹھے۔ جب کڑا وقت آئے تو باطل کی راہ پر نہ چل نکلے، اسے ڈھارس ہو کہ اس کے نبیؐ کی تو سنت ہی یہی ہے کہ راہِ حق میں سختیاں اپنی جان پہ جھیل لو مگر باطل راستہ اختیار نہ کرو… ہم عشقِ نبیؐ کے دعویدار ہیں تو کیا عشق کے تقاضے بھی پورے کر رہے ہیں؟
آج مغرب کیسے بے خوف ہوکر میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرجاتا ہے اور ہم اس کا کچھ بگاڑ نہیں پاتے، کیوں؟ آج کیسے ایک ادنیٰ سی کھیتوں میں کام کرنے والی عیسائی عورت ڈنکے کی چوٹ پہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ الفاظ نکالتی ہے اور ہم میں اتنی جرأت نہیں ہوتی کہ اُس کی زبان گدی سے کھینچ نکالیں… کیوں کہ ہماری محبت میں ہی کھوٹ ہے۔ ہم نے نبیؐ کی سنتوں کو چھوڑ دیا اور تمام عالم میں رسوا ہوئے۔

کسی غم گسار کی محنتوں کا یہ خوب میں نے صلہ دیا
کہ جو میرے غم میں گھلا کیا اسے میں نے دل سے بھلا دیا
ترے حسنِ خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے در و بام کو تو سجا دیا

حصہ