راحیلہ چوہدری
بد قسمتی سے ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں جہاںمعاشرے میں اتنے اعلیٰ تعلیم یا فتہ افراد ہو تے ہوئے نبی ؐ کی امت ہوتے ہوئے بھی ہر طرف جہالت ہی نظر آتی ہے۔انسانوں کے معا شرے میں رہتے ہوئے، دینِ اسلام کی پیر وی کرتے ہوئے اور امت محمدیہ کا نعرہ لگاتے ہوئے پھربھی کوئی مخلص نظر نہیں آتا۔ معاشرے میں کو ئی ایسا معا ملہ نہیں جو جھو ٹ اور فریب سے خا لی ہو۔آج مسلمان ہی مسلمان کی جان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔عورت کی عزت سرِ عام لو ٹی جا رہی۔ وا لدین خود اپنی اولاد کو قتل کر رہے ہیں۔ کھانوں میں حرام شامل کیا جا رہا ہے۔ عدالتوں میں عدل نہیں ملتا اور شہروں میں کہیں امن نظر نہیں آتا۔ اس سے زیادہ بری تصویر کسی جہالت میں ڈوبے ہوئے معاشرے کی نہیں کھنچی جا سکتی۔ بد قسمتی سے ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں جہاںآج کا انسان تعلیم یا فتہ تو نظر آتا ہے لیکن تہذ یب یا فتہ نظر نہیں آ تا۔ آج کل تعلیم حاصل کرنے کا صرف ایک ہی مقصد رہ گیا ہے کہ کوئی عہدہ حاصل کر لیا جائے۔ ایسی تعلیم کا کوئی فائدہ نہیں جو انسا ن کے اندر اخلاق پیدا نہ کرے‘ جو ایک انسان کو اعلیٰ ظرف بنا نے کی بجا ئے کم ظرف بنا دے،اس کی ذ ات میں عا جزی پیدا کرنے کی بجا ئے اسے غرور اور تکبر میں مبتلا کر دے اور اخلاق رزیلہ کا پیکر بنا دے۔ ضرورت اس چیز کی ہے کہ مطالعہ سیرت کو ہر انسان نماز کی طرح اپنے اوپر فرض کر کے زندگی کا حصہ بنائے۔ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پہ عمل کر کے ہی انسان ایک حقیقی تعلیم یا فتہ اور تہذیب یا فتہ انسان بن سکتا ہے۔ اس پورے عالم میں صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ہی وہ واحد ہستی ہے جو قیامت تک کے لوگوں کے لیے کامل نمونہ ہے اور اُنہی کے اُ سوہ کو یہ کمال حاصل ہے کہ ان کے اُسوہ حسنہ کی پیروی کر کے ایک ایسی شخصیت سامنے آتی ہے جو ہر لحاظ سے متوازن ہو۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کواپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور اسلام کی تعلیم کے مطابق عبادت محض نماز، روزہ اور حج وغیرہ کا نام نہیں بلکہ اسلام نے عبادت کے مفہوم کو نہایت وسیع معنوں میں لیا ہے۔ یعنی معا ملات و معاشرت اور حقوقِ باہمی کی ادائیگی میں اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طر یقوں اور اس کی منشا کو مد نظر رکھنا بھی عبادت کے مفہوم میں شامل ہے۔ اسلام نے افراد کے تزکیہ نفوس اور تعمیر سیرت کے لیے ایسا نقشہ بنایا ہے جو تمام نقشوں سے اپنے مقصد میں بلند تر ہے۔ یعنی اسلام کے پیش نظرایسے انسان تیا ر کرنا جو متخلق با خلاق اللہ ہو، صحیح معنوں میں خلیفۃ اللہ بن کر زمین میں کام کرے اور اس کام کے صلہ میں اللہ کا تقرب حاصل کرے۔ دنیا کی سب سے زیا دہ خو بصورت چیز پاک سیرت ہے۔اس لیے سیرت کی تعمیر و تشکیل کی بہت اہمیت ہے۔ دنیا کے معا ملات حل کرنے اور سچائی کی تلاش کے لیے پا کیزہ سیرت نہایت اہم ہے۔ اللہ تعا لیٰ نے انسان کے اندر جو قوتیں اور صلاحیتیں رکھی ہیں وہ سب انسان کے مقصد وجود کے لیے ضروری ہیں۔ پاکیزہ سیرت سے ہی اعمال صالحہ وقو ع پذیر ہوتے ہیں ورنہ انسان خسارے میں ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید کی سورۃ العصر میں فرماتے ہیں: ’’قسم ہے زمانے کی انسان درحقیقت بڑے خسارے میں ہے سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔‘‘ اس لیے انسان کے لیے نہا یت ضروری ہے کہ وہ دنیاوی اور اُخروی لحاظ سے تعمیر سیرت کی طرف توجہ دے۔ اُسوۂ حسنہ کی پیروی کرے جس سے قلبی سکون، ذہنی سکون اور آخرت کی فلاح حا صل کرنا ہی مقصود نہیں بلکہ یہ سب سے بڑی انسانی ضرورت ہے۔ جیسے انسان اپنے پیٹ کے لیے غذا کا، تن کے لیے لباس کا،علاج کے لیے دوا کا،حفاظت کے لیے اسلحے کا محتاج ہے۔ اس سب سے بڑھ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا محتاج ہے، کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اس کے پورے وجود کے لیے غذا ہیں، وہ ذہن و دماغ کو بتاتی ہیں کہ اُنھیں کیا سوچنا چا ہیے، وہ آنکھوں کی رہنمائی کرتی ہیں کہ اُنھیں کیا دیکھنا اور کیا نہ دیکھنا چا ہیے، وہ زبان کو ہدایت دیتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کا استعمال کن مقاصد کے لیے کیا جائے اور کن مفاسد سے بچا جائے؟ وہ ہاتھوں سے کہتی ہیں کہ یہ ظلم اور ظالموں کے خلاف اُٹھے نہ کہ مظلوموں اور کمزوروں کے خلاف، وہ پائوں کو بتاتی ہیں کہ اُسے نیکی اور حق کی راہ میں چلنا چاہیے نہ کہ باطل اور بُرائی کے راستے میں اور اس کی چال میں تواضع، انکساری اور عاجزی ہونی چاہیے نہ کہ فخر و غرور۔ اس کے علاوہ خوشی غمی میں، گھریلو معملات میں، تجارتی معاملات میں، معاشی معاملات میں یا طالب علم کو، معلم کو یا کسی عالم کو غرض ہر حالت، ہر کیفیت، ہر مقام میں اُسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور روشن ہدایا ت مطلوب ہیں جو انسان اس سے محروم ہو وہ ایک کھا تا پیتا، سوتا جاگتا اور ہنستا بولتا ترقی یافتہ حیوان تو ہو سکتا ہے۔ لیکن حقیقی اور اپنی حقیقت سے آشنا انسان نہیں ہو سکتا۔ مسلمانوں کو آپ ؐ کی سیرت کا مطالعہ اس نقطہ نظر سے کرنا چاہیے کہ آپؐ ایک انسانِ کامل کی حیثیت سے پوری دنیا کی رہنمائی کے لیے آئے۔ جو حکم کسی دوسرے کو دیا پہلے خود اس پر عمل کر کے دکھایا۔ ایک عام آدمی سیرتِ طیبہ کا مطالعہ اس لیے کرے کہ اسے انسانیت کا علم ہو کہ انسان کیا ہے؟ اس کا مقصد تخلیق کیا ہے؟ جو آسائشیں اور سہولتیں زندگی گزارنے کے لیے ملی ہیں اُن کا مصرف کیا ہے؟ اور اس کے بارے میں اسے کس کے سامنے جواب دہ ہونا ہے۔ ایک سیا ست دان جب آپؐ کی سیرت کا مطالعہ کرے گا تو اسے ریاست اور اہالیان ریاست کے حقوق اوران قواعد و ضوابط کا پتا چلے گا جس پر ریاست کی فلاح کا انحصارہے۔ ایک سپہ سالار جب آپؐ کی سیرت کا مطالعہ کرے گا تو اُس کے اندر عزم اور ہمت جیسے جذبے پختگی اختیار کریں گے۔ اسی طرح جب ایک تاجر آپ ؐ کی سیرت کا مطالعہ کرے گا تو اسے یہ سبق ملے گا کہ تجارت نہ صرف حصول معاش کا ذریعہ ہے بلکہ دین اور دنیا کی کامیابی اور بھلائی کا راز اس میں پوشیدہ ہے۔ اس طرح وہ ملاوٹ، ناپ تول میں کمی اور اس جیسی اور بڑی بُرائیوں سے بچ جائے گا۔ ایک شوہر اور باپ جب سیرت کا مطالعہ کرے گا تو اسے اپنی زندگی کو عدل و انصاف اور مساوات سے گزارنے کا موقع ملے گا۔ اسی طرح ایک حکمران یا سربراہ ادارہ کی حیثیت سے جب آپؐ کی سیرت کا مطالعہ کرے گا تو اوصافِ حمیدہ سے تعمیر کردار کا سبق ملے گا۔ یہ بات ایک مسلمان کے ایمان کا حصہ ہونی چا ہیے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ہی نجات ہے ہدایت کا ذریعہ صرف اور صرف اطاعت نبویؐ ہے اگر کسی انسان کے لیے اسوہ حسنہ ہے تو وہ صرف رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی میں ہے۔ اللہ کی اطاعت اگر ہو سکتی ہے تو صرف اور صرف رسول اللہ کے ذریعے ہو سکتی ہے اس کے علاوہ اطاعت اور ہدایت کا کوئی اور ذریعہ یا راستہ نہیں ہے۔