کراچی سمیت پورے سندھ کا حال انتہائی برا ہوچکا ہے۔ یہاں کتے تو تھے ہی، مگر حالیہ بارشوں کے بعد جن تین چیزوں نے کراچی کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے ان میں سے سب سے پہلی چیز کچرا، اور صفائی کا نہ ہونا ہے، دوسری خطرناک وباء کتے اور پاگل کتوں کی ہے، اور پھر تیسرے نمبر پر کراچی سے منتخب ہمارے قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان ہیں جن کی آوارہ طبیعت ،تلون مزاجی اور سگ گزیدگی نے کراچی کے شہریوں کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی ہے۔
یہاں منتخب اور غیر منتخب دونوں اقسام کے کتوں کی تعداد میں روزافزوں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور کراچی میں انہوں نے اپنا مستقل ڈیرہ جما لیا ہے۔ ان کتوں کو پکڑنے اور ختم کرنے کے لیے متعلقہ ادارے ناکام ہوگئے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ پہلے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے پاس پاگل کتوں سے بچاؤ کے لیے خاکروبوں پر مشتمل ایک خاص ٹیم ہوتی تھی جو ان پاگل کتوں کو پکڑ کر ہلاک کرتی تھی۔ اسی طرح ان کو مارنے کی خاص مہمات چلائی جاتی تھیں۔ آج کل محتاط اندازے کے مطابق کراچی میں روزانہ 300 سے زیادہ شہری آوارہ کتوں کا شکار ہورہے ہیں۔ ان آوارہ کتوں کے کاٹے کی ویکسین کراچی تو کیا، سندھ کے بیشتر سرکاری اسپتالوں میں موجود نہیں ہیں۔ سرجانی ٹاؤن کے 45 سالہ محمد سلیم کو چھ ہفتے قبل بیٹی کو بچاتے بچاتے کتے نے کاٹ لیا تھا، وہ گزشتہ ایک ہفتے سے زیرِ علاج تھا، اس کے دونوں ہاتھوں پر کتے کے کاٹنے کے زخم تھے، وہ 6 بچوں کا باپ اور گھر کا واحد کفیل تھا۔ بچی کو بچاتے ہوئے بے چارہ گزشتہ دنوں اسپتال میں اپنی جان گنوا بیٹھا۔ مرحوم سلیم کے بھائی عامر نے بتایا کہ سرکاری اسپتالوں میں بروقت ویکسینیشن نہ ہونے کے باعث محمد سلیم کی ہلاکت ہوئی، سندھ گورنمنٹ اسپتال نیوکراچی اور عباسی شہید اسپتال لے کر گئے تھے، لیکن وہاں اینٹی ریبیز ویکسین نہیں ملی تھی، عباسی اسپتال نے باہر سے ویکسین منگوا کر آدھی خوراک دے کر اسے گھر بھیج دیا تھا۔ اسی طرح سندھ کے سرکاری اسپتال کے دالان میں غریب ماں اپنے بچے کو گود میں لے کر بیٹھی رہی، جس نے ماں کی گود میں ہی جان دے دی مگر اس کو ویکسین نہ مل پائی۔
لے دے کر کراچی کے علاقے کورنگی کا انڈس اسپتال واحد اسپتال ہے جو کتوں کی افزائشِ نسل روکنے کے لیے شہری حکومت کے ساتھ کام کررہا تھا، لیکن اب یہ منصوبہ بھی ختم ہوچکا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق آوارہ کتوں کے کاٹنے کے واقعات میں اب تک 11 افراد جان سے چلے گئے ہیں۔
اورنگی کے شہری بھی آوارہ کتوں سے تنگ آگئے، مگر انہوں نے احتجاج کا انوکھا طریقہ اختیار کیا اور آوارہ کتوں کو بوری میں ڈال کر بلدیہ آفس میں پھینک آئے، اس عمل سے بلدیہ کے افسران اور اہلکاروں میں کھلبلی مچ گئی اور ان کی جانب سے سخت ناراضی کا اظہار کیا گیا، مگر شہریوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک سال سے درخواستیں دے دے کر تھک چکے ہیں مگر آوار کتوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا، ہم نے بلدیہ کے افسران کو باربار اس سلسلے میں شکایات کیں مگرکوئی بات سننے والا نہیں، جس کے باعث احتجاجاً ہمیں یہ سب کرنا پڑا۔ رہ گئی بات ان دونوں اقسام کے کتوں سے نجات کی، تو اس بارے میں مرزا غالب نے تو بہت پہلے کہہ دیا تھا، مگر میری اور غالب کی سنتا کون ہے؟؟؟
پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسدؔ
ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں
کہتے ہیں کہ اگر کسی کو کتا کاٹ لے، تو اس آدمی کی حالت دن بدن بگڑنے لگتی ہے، اور نہ صرف بگڑتی ہے بلکہ اس کی دماغی حالت بھی مشکوک ہوجاتی ہے۔ ایسے مریض کو پہلے تو ’’سگ گزیدہ‘‘ کہتے تھے۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب کتے کے کاٹے کی ویکسین ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ خدا جانے اب کیا کہتے ہوں گے! کتے کے کاٹے کا مریض اس حد تک ذہنی توازن کھو بیٹھتا ہے کہ پانی سے خوف آتا ہے۔ پانی دیکھ کر سگ گزیدہ خودکشی پر بھی مجبور ہوجاتا ہے اور اپنے آپ کو کاٹنے لگتا ہے۔
ہماری سیاست اور سیاست دانوں کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ آج کل جس سیاست دان کو دیکھو وہ ہر کسی کو کاٹنے کو دوڑ رہا ہے، جس کے جو منہ میں آتا ہے بولتا چلا جاتا ہے۔ یہ سیاست دان اجلے کلف لگے کپڑوں میں بھی اپنی غلاظت نہیں چھپا پاتے۔ ان کے چہروں کی پھٹکار، منہ کی بدبو سے… چال ڈھال سے… تقاریر اور بڑھک بازیوں سے، بیانات اور ٹیلی ٹاکروں سے… نشست و برخاست سے… مجلس میں، ایوانوں میں، تخلیے اور بازاروں، عدالتوں، محکموں، اور اوطاقوں میں کھلی کچہریوں اور چھپی محفلوں میں ہر ہر جگہ سے تعفن اور غلاظت کے گٹر ابل رہے ہیں۔ میں نے اپنے کسی کالم میں ایک مرتبہ پہلے بھی اربابِ اختیار سے گزارش کی تھی کہ ان کا ڈوپ ٹیسٹ لیا جائے، ان کے خون اور پیشاب کے سیمپل نکالے جائیں۔ ڈوپ ٹیسٹ کی رپورٹ مثبت آجانے پر یقین جانیے کسی 61، 62 قانون کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب کھیل میں ’’ڈوپ ٹیسٹ‘‘ ہوسکتا ہے تو ہماری سیاست میں اس قانون کو کیوں لاگو نہیں کیا جاتا؟ ایک بار پینے اور طاقت کا انجکشن لگوانے والے کھلاڑی کو، جو ملک وقوم کے واسطے اپنی جان کی بازی لگارہا ہوتا ہے، ایک ’’ڈوپ ٹیسٹ‘‘ کے مثبت نتیجے پر زندگی بھر کی پابندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر ہمارے سیاست دان زندگی بھر ہم پر مسلط رہتے ہیں، حد تو یہ ہے کہ مرنے کے بعد بھی اپنی غلاظت سے لتھڑی اولادیں قوم کے اوپر مسلط کرجاتے ہیں… ظلم ہے، سراسر ظلم!
ان سے کلمہ سننے، نماز پڑھوانے، دعائے قنوت اور آیت الکرسی کی ضرورت نہیں۔ ان سیاست دانوں کو کسی مستند لیبارٹری میں بھیجو، ان کا سیمپل نکالو، اور پھر رپورٹ مثبت آنے پر لال حویلی، ماڈل ٹائون، فیصل آباد کے گھنٹہ گھر، جاتی امراء، رائے ونڈ، بنی گالہ، پارلیمنٹ ہائوس، ڈاؤن اسٹریٹ، اور رتو ڈیرو کے سامنے ان کی مثبت ڈوپ رپورٹ کے ساتھ گدھے پر بٹھاکر چودہ چودہ چکر لگوائو… کتے کے کاٹے کا علاج سگ گزیدہ کے لیے ہوتا ہے، مگر ان سیاست دانوں کے ڈسے ہوئے لوگوں کے علاج کے لیے مریض کو تکلیف نہ دو، بلکہ موذی ’’سیاسی جانور‘‘ کو انجکشن لگائو… یہی علاج ہے اس مرض کا۔
کہتے ہیں کہ کتے کے کاٹے کی ویکسین کے لیے کتے کی زبان سے مواد نکالا جاتا ہے۔ اگر کتے دستیاب نہیں اور ویکسین نہیں مل رہی تو یہ پارلیمانی کتے کس دن کے لیے ’’پالے‘‘ گئے ہیں؟ ایک چکر پارلیمنٹ ہاؤس کا لگالیں، نر، مادہ دونوں اقسام کے مل جائیں گے۔ ان کو جان سے مارنے سے پہلے ان کی زبانیں کھینچ لیں، پھر ان سے ویکسین بنالیں۔
ہمارے پارلیمانی کتوں میں سونگھنے اور چاٹنے کی صلاحیت غیر پارلیمانی کتوں کی نسبت زیادہ تیز ہوتی ہے۔ وہ کتے جن کی نسل اور شجرہ میں ابہام ہو، ان کو ’’نادرا‘‘ سے کلیئر کروایا جاسکتا ہے۔ مگر نادرا کی مشکل یہ ہے کہ وہ دیسی کتوں کا تو ریکارڈ ڈیٹا کی صورت میں رکھتا ہے مگر بدیسی کتوں کا کوئی ڈیٹا اس دارے کے پاس موجود نہیں ہے۔