ربیع الاوّل کیسے منائیں

1814

نسیم کے والد نے مختلف علاقوں کی سجاوٹ اور ماہ ربیع الاوّل کی فضیلت سے متعلق بات کرتے ہوئے بچوں سے کہا:
’’دیکھ رہے ہو ناں بچو! کس قدر جوش و خروش سے عید میلادالنبیؐ منایا جارہا ہے۔ تمہیں پتا ہے ناں کہ اس ماہ پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تھے، اور چونکہ نبیؐ کی پیدائش کا دن اسلامی مہینے ’ربیع الاول‘ کی 12 تاریخ کو منایا جاتا ہے، اس لیے چاند نظر آتے ہی اس کے جشن کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ تم دیکھ رہے ہو شہر کا کوئی کونا ایسا نہیں جہاں رنگ برنگی روشنیاں بکھیرنے والے برقی قمقمے نہ لگے ہوں۔ جگہ جگہ سبز پرچم لگے ہیں، جبکہ سرکاری اور نجی عمارتوں کو رنگ و روشنیوں میں گویا نہلادیا گیا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اس دن کو بڑی عقیدت سے مناتے ہیں، خاص طور پر پاکستان میں اس ماہ چراغاں کیا جاتا ہے، لوگ اپنے گھروں کو سجاتے ہیں، جھنڈے اور قمقمے لگائے جاتے ہیں، مساجد کو روشنیوں سے نہلا دیا جاتا ہے، سڑکوں اور چوراہوں پر جگہ جگہ کیمپ لگائے جاتے ہیں۔ ان کیمپوں میں خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ کے ماڈل رکھے جاتے ہیں۔ بارہ تاریخ کو جگہ جگہ سالگرہ کے کیک کاٹے جاتے ہیں، بچوں میں عیدی، مٹھائی اور کھانے پینے کی دیگر اشیا تقسیم کی جاتی ہیں، نئے کپڑے بنائے جاتے ہیں، شہر کے مختلف علاقوں سے جلوس نکالے جاتے ہیں جن میں لوگ نعتیں پڑھتے اور سیرتِ نبویؐ بیان کرتے ہیں۔ یکم ربیع الاول سے بارہ ربیع الاول کے دوران آنے والی راتوں میں شہر کے کونے کونے سے لوگ شہر میں کی جانے والی ان روشنیوں اور بنائے گئے ماڈلز کو دیکھنے نکلتے ہیں۔ کھارادر، میٹھادر، لیاقت آباد، نمائش، صدر، لیاری، کیماڑی، ملیر، لانڈھی، کورنگی،گرومندر اور دیگر بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں سڑکوں، عمارتوں، مساجد، گلیوں اور چوراہوں کو باقی علاقے کے مقابلے میں سب سے زیادہ سجایا جاتا ہے۔ یہ ہے صحیح طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت اور محبت کے اظہار کا طریقہ۔ ابھی تو یہ مبارک مہینہ شروع ہوا ہے، بارہ ربیع الاول کو یہ رونقیں اپنے عروج پر ہوں گی، نبیؐ کے پروانوں کا جوش و ولولہ قابلِ دید ہوگا، اور سارا شہر درود وسلام کی صداؤں سے گونج اٹھے گا۔ یہ چند نوجوان جو اپنی موٹر سائیکلوں کے سائیلنسر نکال کر سڑکوں پر گشت کررہے ہیں یہ ان کے اپنے جذبات ہیں، اگر کوئی نبیؐ سے محبت کا اظہار اس انداز میں کرتا ہے تو ہمیں اعتراض نہیں کرنا چاہیے، وہ اپنی موٹر سائیکل پر جھنڈے لگاکر نبیؐ سے محبت کا اظہار ہی تو کررہا ہے۔ سنو بچو! کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو جشنِ عیدِ میلادالنبیؐ نہیں مناتے، آج اُن کے دلوں پر چھریاں چل رہی ہوں گی۔ چلو بچو میرے ساتھ نعرہ لگاؤ اور ان کو پیغام دو: سرکار کی آمد مرحبا… لجپال کی آمد مرحبا۔‘‘
………
رات گئے گھر پہنچتے ہی اکبر نے نسیم کے والد کی جانب سے سڑکوں پر کیے جانے والے چراغاں، موٹر سائیکل سواروں کی حرکات سمیت ایک ایک بات اپنی والدہ کو بتاتے ہوئے پوچھا ’’یہ تو ٹھیک ہے کہ نبیؐ کا دن منانا اچھا عمل ہے، پر وہ کون سے لوگ ہیں جن کے دلوں پر اس دن چھریاں چل رہی ہوتی ہیں؟ ہم نے تو بچپن سے ہی اس دن کی مناسبت سے پروگرامات ہوتے دیکھے ہیں، پھر وہ کون سے لوگ ہیں جن کے بارے میں نسیم کے والد ایسا کہہ رہے تھے؟‘‘
بیٹے کی جانب سے پوچھے گئے سوال کا والدہ نے اس کی ذہنی کیفیت کو بھانپتے ہوئے جواب دیا: ’’نہیں نہیں بیٹا ایسی بات نہیں ہے۔ اُن کے کہنے کا مطلب وہ نہیں جو تم سمجھ رہے ہو۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ لوگ اس دن سیرتِ نبیؐ پر پروگرام کرتے ہیں اور کچھ سڑکوں پر چراغاں کرکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کیا کرتے ہیں۔ تم ان باتوں میں نہ الجھو اور میری بات غور سے سنو۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی آدمی اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنی اولاد، والدین اور باقی لوگوں کے مقابلے میں مجھ سے زیادہ محبت نہ کرتا ہو۔ اس لیے ہماری جان، ہمارا مال اور ہمارے ماں باپ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان۔ لہٰذا وہ محبت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور پیروی کرنا نہ سکھائے، محض جھوٹ اور نفاق ہے۔ وہ محبت جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے آداب نہ سکھائے وہ دکھاوا ہے۔ بس ہمارا اتنا کام ہے کہ تمام اقوال وافعالِ نبویؐ پر عمل کریں اور جن باتوں سے منع کیا گیا ہے ان سے پرہیز کریں، احکام شریعت پر عمل کریں، باقی خرافات سے دور رہیں۔ دیکھو بیٹا! یہ جو کچھ بھی ہورہا ہے، عشقِ رسولؐ کے نام پر ہورہا ہے۔ تمہیں اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ہے تبھی کامیابی حاصل ہوگی۔ سورۃ النور میں فرمانِ الٰہی ہے: جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں اور اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں، اور اس کی نافرمانی سے بچتے رہتے ہیں، وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔‘‘
اکبر کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات پر اُس کی والدہ کی جانب سے دیے جانے والے جواب اپنی جگہ، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں ربیع الاول کے مہینے میں جو بھی تقریباًت ہوا کرتی ہیں ان کا اہتمام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کے سلسلے میں ہی ہوتا ہے، لہٰذا اس کا تقدس برقرار رکھنا اُسی طرح ضروری ہے جس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ مقدسہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس کے آداب ملحوظ رکھے جاتے تھے۔ پوری کوشش ہونی چاہیے کہ ماحول کی پاکیزگی کو خرافات اور خلافِ شرع بے ہودہ کاموں سے آلودہ نہ ہونے دیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ اس مبارک دن کے موقع پر محفلیں منعقد کرنا اور صدقہ و خیرات کرنا، جانی و مالی، علمی و فکری غرضیکہ ہر قسم کی قربانی کا جذبہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حبیبِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کے حصول کے لیے ہونا چاہیے۔ اگر ان میں صدق و اخلاص شامل نہیں ہوگا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہماری ایسی محفلوں کے انعقاد سے کیا مسرت ہوگی؟ اور اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر کی جانے والی اس تقریب کو کیوں کر شرفِ قبولیت سے نوازے گا؟ یہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ صدقہ و خیرات میں کثرت اور اظہارِ مسرت کے لیے بڑے بڑے جلسے جلوس اُس بارگاہ میں باعثِ شرفِ قبولیت نہیں جب تک کہ ظاہری عقیدت میں اخلاصِ باطن اور حسنِ نیت شامل نہ ہو۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی محبت اور ادب و تعظیم ہی ہمارے ہر عمل کی قبولیت کی اولین شرائط میں سے ہیں۔
لیکن ہمارے ہاں بدقسمتی سے آج اُمتِ مسلمہ دو بڑے طبقوں میں بٹ گئی ہے۔ ایک طبقہ بارہ ربیع الاوّل کی مناسبت سے ہونے والی تقریبات کا… سرے سے ناجائز، حرام اور بدعت کہہ کر… انکار کررہا ہے، جب کہ دوسرا طبقہ جشنِ ولادت یعنی عید میلادالنبیؐ کے نام پر ناجائز اور غیر شرعی کام کرکے اس دن کی حرمت اور تقدس کو پامال کرنے میں مصروف ہے۔ اس تفریق کے نتیجے میں آج کوئی صرف میلادالنبی کا داعی بن گیا ہے، اور کوئی صرف سیرت کا نام لیوا۔کوئی سیرت سے کتراتا ہے، تو کوئی میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ناجائز کہہ کر اپنی دانشوری جھاڑتا ہے۔ اس ساری صورت حال میں ضرورت اِس امر کی ہے کہ افراط و تفریط سے بچتے ہوئے ان انتہاء پسندانہ رویوں کے بین بین اعتدال پسندی کی روش اختیار کی جائے۔ عید میلادالنبیؐ منانے کے لیے ہر وہ کام سرانجام دینا جائز ہے جو خوشی ومسرت کے اظہار کے لیے شرعاً درست ہو، اور حکم ربی کے مطابق ہو۔ اس دن کی مناسبت سے روح پرور تقریبات کا انعقاد کرنا، درود وسلام کی محافل سجانا، نعت کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس بیان کرنا اور عظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چرچے کرنا قابلِ تحسین، قابلِ قبول اور پسندیدہ اعمال ہیں۔ لیکن ہمیں یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہیے کہ ان اعمال کے ثمرات ہمیں تب ہی ملیں گے جب ہم من الحیث قوم فروعی اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ملک میں شریعتِ محمدیؐ کا نفاذ کریں، اس نظام کی جدوجہد کریں جس میں امیر اور غریب کی کوئی تفریق نہ ہو، طاقتور کمزور پر ظلم نہ کرسکے۔
ایسی جدوجہد کرنی ہوگی جس کے نتیجے میں پرانا، بداخلاق اور بدکردار انسان یکسر ایک نئے پابندِ اخلاق انسان کا روپ دھار لے۔ قدیم رسموں اور عصبیتوں کا مارا ہوا اور اخلاقی خرابیوں میں ملوث انسانی معاشرہ سارے بوجھ اتار کر سیدھا سادہ خداپرست، شریف اور پابندِ اخلاق معاشرہ بن جائے جس میں خدا ترسی، ہمدردی، اخوت، مساوات، مسؤلیت، آخرت کی جواب دہی، نیکی اور خیرخواہی کی قدریں جاگزیں ہوجائیں۔ ظالم اور جابر حکام کے بجائے خدا ترس اور نیک حاکم کا ٹھنڈا سایہ انسانوں کو میسر آجائے، اور جانب دارانہ، سنگ دلانہ اور متعصبانہ قوانین کے بجائے مساواتِ انسانی پر مبنی غیر جانب دارانہ، خداترسانہ اور رحم دلانہ قوانین انسانوں میں رائج ہوجائیں۔
ایسی مملکت کے قیام کی کوشش کرنا ہوگی جہاں حکمران عوام کے خادم ہوں، جہاں غریب کو اس کی دہلیز پر انصاف ملے، جہاں صحت، تعلیم، روزگار سمیت تمام بنیادی سہولیات کی فراہمی ریاست کی ذمے داری ہو، ایسی فلاحی ریاست جہاں عورتوں کو شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کا پورا حق ہو، جہاں یتیموں، بیوائوں اور ناداروں کی دادرسی کی جائے۔ ایسی ریاست کے قیام سے ہی حقیقی معنوں میں نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا اظہارکیا جاسکتا ہے۔

حصہ