دو ٹکے کی ۔۔۔۔

814

اِس ہفتہ بھارت کی جانب سے جاری کردہ نیا نقشہ جس میں لداخ اور جموں کو الگ کر دیا گیا تھااس پر سنجیدہ طبقات نے ٹرینڈ بنا کر پاکستانی رد عمل پیش کیااور ایک بار پھر سوشل میڈیا پر بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوتے نظر آئے۔ پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے بھی IndiamapRejected کے ہیش ٹیگ کے ساتھ جواب دے کربھارتی نقشہ کو رد کر دیا گیا۔بس پھر کیا تھا۔آپ سوچ سکتے ہیں ۔’بھارت جو مرضی نقشہ بازی کر لے پر حقیقی نقشہ وہی رہے گا جو کشمیریوں کے دل و دماغ میں ہے اور انڈیا اسے بدل نہیں سکتا اور متحدہ کشمیر کی آزادی کی جد وجہد جاری رہے گی۔‘ ایک صاحب جوش دلاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’پاکستان میں حکومت و اپوزیشن کی تمام جماعتیں اقتدار اور اپنے مفادات کی جنگ میں مصروف دوسری طرف بھارت کا نیا نقشہ جاری کردیا گیا جس میں جموں اور کشمیر کوباقائدہ بھارت کا حصہ بنادیا گیا ہے۔ غیرت مسلم سو چکی ۔ ‘ اسی طرح بھارتی نقشے کے اندر کئی ریاستوں کی تقسیم کے ساتھ تصویر یہ رہی کہ ،’بھارت جتنے چاہے نقشے بنا لے لیکن غزوہ ہند نے بھارت کا ہی نقشہ بدل دینا ہے۔ یہ نقشہ زیادہ مناسب ہے۔ بھارت اپنی عوام کو خوش کرنے کے لئے جتنے مرضی جعلی نقشے بنا لے اصل نقشہ کشمیر کی عوام کھینچے گی انشااللہ بہت جلد۔کشمیر بنے گا پاکستان ۔‘معروف صحافی رضوان رضی حکومت پر چوٹ مارتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’حیرت ہے یوتھیے بھی اس ٹرینڈ میں حصہ لے کر حُب الوطنی کے ٹھکیدار بنے ہیں،جبکہ گزشتہ ماہ چھپنے والی نیازی کی کتاب ”Imran khans Pakistan”میں موجود نقشہ میں بھی کشمیر کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے۔‘
اس کے بعد کرتار پور راہداری کے لیے پاسپورٹ کی شرط ختم کرنے والے نت نئے فیصلے نے بھی سوشل میڈیا پر خاصے مباحث چھیڑے ۔ جے یو آئی کے عظیم الشان آزادی مارچ کے چرچے جاری رہے ۔موسمی تبدیلی اور وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے مارچ کے شرکاء کے لیے طبی امدادی کارروائی کے لیے ایک ٹوئیٹ پر ہی #IKTheHumanitarianکا ٹاپ ٹرینڈ بنا، یہ الگ بات ہے کہ آزادی مارچ والوں نے امداد لینے سے منع کر دیا۔عثمان ڈار کا پشتونوں سے متعلق بیان بھی سوشل میڈیا پرزیر تنقید رہا۔ اسی طرح وسیم بادامی کے پروگرام میں جمعیت علماء اسلام کے رہنمامولانا کفایت اللہ کی جانب سے وکی پیڈیا کے ’وکی ‘اور جمائما کی رشتہ داری کا تعلق جوڑا تو وہ بھی ایک ٹرینڈ کی صورت ٹوئٹر پر ابھرا ۔اسی طرح بول چینل پر وقار ذکاء کے پروگرام کے لیے آڈیشن کا ایک کلپ بھی خوب وائرل رہا جس میں ’پانامہ‘ سے متعلق نوجوان خاتون نے بتایا کہ وہ ایک ’جزیرہ‘ ہے مالدیپ کے قریب اور وہاں میاں نواز شریف نے کوئی کرپشن کی ہے۔کرکٹ تو سماجی میڈیا کا لازمی جز ہے پھر باابر اعظم یعنی نئے کرکٹ ٹیم کے کپتان کے ساتھ پاکستان آسٹریلیا ٹی ٹوئنٹی میچ اور اس میں شکست نے بھی شائقین کھیل و کرکٹ کو دل شکستہ کیا۔اس کے بعد ایک اور اہم ایشو ، موسمی تبدیلی اور ا فضائی آلودگی کا تھا جس میں پاکستان کا سب سے زیادہ آلودہ ترین شہر لاہور قرار پایا۔ بدترین ’اسموگ‘ دھند کی وجہ سے لاہور ہائی کورٹ نے بھی ایکشن لیا دوسری جانب ٹوئٹر پر بھی ٹرینڈ بنے۔اپوزیشن نے تو فضائی آلودگی کا ذمہ دار بھی حکومت کو قرار دے دیا۔
مان لیں کہ یہ ’ایک آنکھ والی ‘ ( اسکرین) دجال کے ایک ہتھیار ہی کی مانند ہے ۔ اِس میں مزید ایک آنکھ کیمرے کی بھی لگی ہوتی ہے۔ اِس کیمرے کی بے شمار تباہ کاریاں سامنے آ چکی ہیں۔ معاشرتی گراوٹ بلکہ کسی کو بے راہ روی کا مطلب سمجھانا ہوتو اس ہفتہ رابی پیرزادہ کیس ایک اچھی مثال کی مانند سامنے آیا۔رابی پیرزادہ پاکستان کے ایک سابق فوجی افسر کی بیٹی اور گلوکارہ ہیں ۔موصوفہ گذشتہ کچھ دنوں میں کچھ روٹین سے ہٹ کر حالات حاضرہ پر بات کر رہی تھیں اور کسی نہ کسی حرکت سے سوشل میڈیا پرزیر بحث آ رہی تھیں ویسے فیس بک پر ان کے 3.8ملین فالوورز ہیں ۔ کبھی سانپ کے ساتھ مودی کو دھمکی آمیز ویڈیو ، کبھی خود کش جیکٹ والی تصویر، تو کبھی نیا پاکستان پر نظم کی تنقیدی ویڈیو ، فلم میں آئیٹم سانگ پر ڈی جی آئی ایس پی آر پر تنقید یا ٹرین حادثہ سے متعلق ٹوئیٹ میں عمران خان سے سوال کرنا۔ ترتیب یوں رہی کہ کشمیر ایشو پر انہوں نے بھارت کو نشانہ پرلیا اور مودی کے خلاف دِلی جذبات کا اظہار سوشل میڈیا پر جاری کردہ اپنی ویڈیوز میں کر ڈالا۔اس کے بعد حکومت مخالف ترتیب کے اعتبا رسے انہوں نے پہلے عمران خان کی حکومت پرشاعر فرحت عباس کی لکھی مشہور نظم ’تم تو کہتے تھے اٹھاؤں گا نہ کشکول کبھی ‘کی ویڈیو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے شیئر کی ۔ یہ ویڈیو تمام حکومت مخالفین کے لیے تسکین کا سبب بنی ۔ویسے پہلی بار میں نے دیکھا ہے کہ کوئی شو بز سے تعلق رکھنے والا یا والی حکومت وقت پر تنقید کر رہا ہو۔ ماضی میںایسی کوئی مثال موجود نہیں کیونکہ کیرئیر سب کو پیارا ہوتا ہے اور وہ بھی اگر شو بز کا ہو۔اس کے بعد اداکارہ نیلم منیر کے آئیٹم سانگ کو ملکی خدمت قرار دینے کی ٹوئیٹ کے جواب میں براہ راست ڈی جی آئی ایس پی آر کو مخاطب کرنا کہ ’غلطی ہوئی ہے تو مان لیں‘۔بس پھر اس ترتیب کے بعدہی اچانک سے سوشل میڈیا پر رابی پیرزادہ کی اکیلے میں بنائی گئی غیر اخلاقی ویڈیو وائرل ہو گئی ۔الحمد للہ۔ ہم ایک ایسے پاکیزہ، اعلیٰ اقداروالے دین سے تعلق رکھتے ہیں جو نہاتے یا غسل کے وقت بھی مکمل برہنہ ہونے کو پسند یدہ عمل قرار نہیں دیتا۔اس لیے ذہنی ، قلبی، روحانی صفائی کا خیال ہر مسلمان کو ہونا چاہیے۔ لیکن افسوس کہ شیطانی حربہ کامیاب رہا ۔ وجہ کوئی بھی ہو’رابی‘ کی ویڈیو وائرل ہو گئی۔ویڈیو وائرل ہونے کے بعد رابی پیرزادہ کی جانب سے دو روزمیں معافی، توبہ اور شو بز انڈسٹری چھوڑنے اور وفاقی ادارے کو ویڈیو ہٹانے کی اپیل بھی آگئیں۔عالمی سطح پر معاملہ ڈسکس ہوا،انڈیا کو تو مزے لگ گئے تھے سرخی یوں لگا رہا تھا کہ
May Allah forgive my sins,’ Pakistan pop singer Rabi Pirzada, who threatened to suicide bomb PM Modi, quits showbiz
بات یہ ہے کہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کیسے ہوئی ؟ لوگوں نے از خود کیوں نہیں ڈیلیٹ کی بلکہ مانگ مانگ کر شیئرکرتے رہے ۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس طرح یہ ویڈیو خود ان کے ہر اس اپنے تک پہنچ جائے گی جن کو خود اپنے ہاتھوں سے موبائل سیٹ یا لیپ ٹاپ دِلوایا ہوگا۔ فیض اللہ خان اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ’سیاسی مباحث چلتے رہیں گے لیکن اس دوران ایک افسوسناک واقعہ رابی پیرزادہ کا پیش آیا جسکی ایسی ویڈیوز شئیر ہوئیں جسے کوئی بھی اپنے واسطے پسند نہیں کرے گا لیکن بات ان ویڈیوز کے لیک ہونے کے بعد ہمارے طرز عمل کی تھی ۔سوشل میڈیا پہ رابی پیر زادہ کو برہنہ دیکھنے کی خواہش یوں مچلی کہ ہم گویا ساری حدود و قیود سے آزاد ہوگئے اور ہر ایک کو تلاش تھی ان ویڈیوز کی۔ ہم میں سے ہر ایک کی زندگی کی کچھ تاریک پہلو ہوتے ہیں (ممکن ہے کہ آپ کے نہ ہوں میں تو اپنی بات کر رہا ہوں ) جسے ہم کسی کے سامنے لانا پسند نہیں کرتے جبھی ہماری فیس بک وہی آپ کو دکھاتی ہے جو ہم دکھانا چاہتے ہیں ۔فیس بکی تاثر سے ہم(میں ) نہایت شریف ، اچھے ، اخلاقیات کے پابند شہری ہیں میرے / ہمارے معاملات کیسے ہیں اسکی خبر نہیں ہونے دیتے۔رابی نے ویڈیوز بنائیں اسکی مرضی اس نے اگر کچھ کیا تو بھی وہ اسکے لیے خدا کو جوابدہ ہے کسی فیض اللہ خان سمیت دوسرے دانشور یا پاکستانیوں کو نہیں ۔ اس نے تو خیر غلط کیا لیکن اسکے ساتھ جو ہم نے کیا اسکی کیا صفائی ہے ؟اسکی جگہ ہمیں خود کو رکھ کر دیکھنے سوچنے کی اشد ضرورت ہے۔موبائل کا فتنہ ایسا خوفناک ہے کہ یہ تنہائی کے لمحات پل بھر میں دنیا کے سامنے عیاں کردیتا ہے اس سے بہت احتیاط کریں۔ باقی کسی کے ایمان گناہ ثواب ، جنت جہنم اور فاحشہ قرار دینے کے فتوؤں سے گریز کرکے صرف اپنے گریبان میں جھانکیں اور ہر لمحہ خدا کی پناہ مانگیں۔رابی پیر زادہ سے متعلق اگر آپ نے کہیں ترسے ہوئے تبصرے تحریریں لگا رکھی ہیں تو پہلی فرصت میں ڈیلیٹ کردیں۔ خدا ہم سب کا پردہ رکھے اور رابی پیر زادہ کو اپنی رحمتوں میں ڈھانپ لے۔ اسلام نفرت نہیں محبتوں کا دین ہے ، بس یہ پیش نظر رکھئیے۔اس ہفتہ سوشل میڈیا پر ان دو ایشوز پر عوامی طرز عمل سماجی تربیت کی اشد ضرورت کا نقارہ بجا رہا ہے ۔جان لیں ۔ حیا ،نصف ایمان ہے ۔ بے حیائی ،فحاشی صرف شیطان کا جال ہے۔‘
یہ ہفتہ تو خواتین لے اڑیں۔ ایک تورابی پیرزادہ کا کیس تھا دوسرا تھا’ دو ٹکے کی‘۔جی۔ غلط مت سمجھیے گا، نہ ہی مذاق ہے بلکہ اس ہفتہ سماجی میڈیا پر یہ ڈرامہ کا ڈائیلاگ سیاسی، سماجی ، تنقیدی، تعریفی حوالے سے چھایا رہا۔1993میں جیک انجیل ہارڈ کے تحریر کردہ ناول پرہالی ووڈنے ایک فلم انڈیسنٹ پروپوزل بنائی۔ اچھوتے (بدترین)موضوع اور بڑے اسٹار کی کاسٹ کی وجہ سے فلم نے پیسہ تو خوب کما کر دیا لیکن اثرات سات سمندر پار تک مرتب ہوئے ۔ میں حتمی طور پر تو نہیں کہہ سکتا کہ معروف پاکستانی ڈرامہ نگار خلیل الرحمٰن قمرنے اس موضوع کو 26سال بعد کیوں لانچ کیا۔ شاید اس لیے کہ اس سے بھی بدترین موضوعات پر وہ ڈرامہ بنتے دیکھ رہے ہونگے ۔یہی سوچ کر پاکستانی معاشرے میں نا معلوم کونسی نم ہوتی مٹی دیکھ کر انہوں نے ہمت پکڑی اور پاکستان کے صف اول کے پروڈکشن ہاؤس اور سپر اسٹار کاسٹ کے ساتھ ڈرامہ لانچ کرا دیا اب تک کوئی 13اقساط نشر ہو چکی ہیں ۔ اب تک کے مطابق تو موضوع کو مذکورہ فلم سے یہ مطابقت قرار دیا جا سکتاہے اسی لیے ناقد اسے ’انڈیسنٹ پروپوزل کا دیسی تڑکہ ‘ قرار دے رہے ہیں ۔اختتام ڈرامہ کیسا ہو ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔بہر حال بات تو سوشل میڈیا کی ہو رہی تھی۔ ساتھ ہی اس کے ساتھ سیاسی دنگل یہ کھیلا گیا کہ اس پوری صورتحال کو عمران خان، بشریٰ بی بی اور خاور مانیکاسے جوڑ کر بھی خوب مزے لیے گئے ۔اس وقت یہ ڈرامہ سیریل سوشل میڈیاپر مستقل ڈیڑھ ماہ سے یو ٹیوب کی ٹاپ ٹرینڈ لسٹ میں شامل ہے اور شاید ماضی کے یو ٹیوب ریکارڈ بھی توڑ دے۔خصوصاً جب سے ’دو ٹکے والا‘ کلپ وائرل ہواہے۔ایک شو بز میگزین کے آرٹیکل میں تو اس حوالے سے سوال اٹھایا گیا ہے کہ اب کیا ہمیں اپنے پرائم ٹائم ڈراموں کو ’ ایڈلٹ ریٹنگ‘ کروانا ہوگا ، کیونکہ عدنان صدیقی کی آمد کے بعد تو جو ڈائیلاگ استعمال ہوئے ہیں وہ بدترین سماجی تربیت کرنے کا کردار ادا کر یں گے۔ برے کا، لالچ کا انجام کیا ہوا یہ کوئی نہیں دیکھے گا ، وہ تو ویسے ہی آخری قسط میں آئے گا تب تک تو جس کا پلڑا بھاری رہے گا وہی کردار ناظرین پر اثرات مرتب کرے گا۔ ڈرامہ سیریل ’میرے پاس تم ہو‘ میں اداکار ہمایوں سعید کے ڈائیلاگ ’دو ٹکے کی لڑکی‘سے متعلق بنائے جانے والے مزاحیہ میمس سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہے ہی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ڈائیلاگ کی دھوم کیوں مچی ہوئی ہے؟ کیا اس لیے کہ مشرقی معاشرے میں عورت کا دھوکہ دینا اچھنبے کی بات ہے جبکہ مردوں کے لیے تو یہ عام سی بات ہے؟ یہی کام کوئی مرد کرے تو معاشرہ اسے مرد کا حق سمجھتا ہے۔ یا یہ کہنا درست ہو گا کہ سماج مردوں کو بے وفائی کرنے پر رعایت دیتا ہے۔کہا جاتا ہے وہ تو مرد ہے، اس سے تو غلطی ہوسکتی ہے لیکن عورت کی غلطی کو گناہ گردانا جاتا ہے۔ اس معاشرے کے مرد اور عورت کے لیے الگ الگ معیار ہیں۔ جب ایک مرد بیوی کی بجائے باہر کی خواتین پر دھیان دیتا ہے، شراب پیتا ہے، زنا کرتا ہے، بیوی کو مارتا ہے تب اسے کوئی دو ٹکے کا مرد نہیں کہتا۔ بات یہ بھی ہے کہ بیوی چھوڑنے کی قیمت لینا از خود ایک عجیب کریہہ عمل ہے ۔ایک ٹوئٹ میں ہمایوں سعید کے 50 ملین کے ڈائیلاگ سے حوالے سے ایک میم بنائی گئی جس میں وزیر اعظم عمران خان کہہ رہے ہیں کہ 50 ملین پر ٹیکس بھی دینا پڑتا ہے۔ساتھی ڈرامہ فنکار تو تعریفیں ہی کر رہے ہیں اس ڈرامہ کی اور اسے ایک ماسٹر پیس قرار دے رہے ہیں۔لبرلز فیمنسٹ کو بھی خوب جھٹکا لگا انہوں نے مصنف کوخواتین سے نفرت کرنے والا قرار دے ڈالا۔ خصوصاً اُن کے ایک اور بیان پر جس میں انہوں نے مرد و عورت کی برابری کرنے والی خواتین سے سوال کیا کہ جب مرد عورت کو اغواء کر کے اجتماعی زیادتی کر سکتے ہیں تو عورتیں کیوں نہیں کریں تو کیا اس طرح برابری ہو جائے گی؟اس کے بعد تو موضوع کسی اور جانب ہی نکل گیا۔خلیل الرحمٰن نے اپنے ڈرامے کے موضوع کا دفاع کیا ہے اور اس کو معاشرے کی عکاسی قرار دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسے کئی جوڑے بذات خود دیکھے ہیں جن میں بیوی مال و دولت کی خاطر پہلے شوہر کو چھوڑ دیتی ہے ۔نوٹ : جن قارئین نے ڈرامہ نہیں دیکھا براہ کرم اس تحریر کے بعد ڈرامہ دیکھنے یا فلم ڈھونڈنے مت نکل جائیے گا۔جب زہر کے مضر اثرات بتائے جائیں تو ضروری نہیں کہ چکھ کر دیکھا جائے ۔

حصہ