آگہی کا درد

349

شبانہ ضیا
سمندر کی آتی جاتی لہریں اور اُن کا آپس میں ملنا پھر جدا ہوجانا صبا کو بڑا اچھا لگ رہا تھا اور وہ خاصی دیر سے آتی جاتی لہروں سے لطف اندوز ہورہی تھی کہ خالہ بیگم نے آواز دی کھانے کے لیے، تو وہ چونک کر پلٹی اور واپس ان میں گھل مل گئی۔ گرم گرم بریانی، کباب، رائتہ، سلاد ڈال کر سب کو دیا گیا۔ نہا نہا کر سب کا بھوک کی وجہ سے برا حال تھا۔
علی اور اُس کی بیوی کی سیلفیاں ہی ختم ہوکر نہیں دے رہی تھیں۔ صبا بلا بلا کر تھک گئی۔ بی اماں نے آرڈر دیا کہ پہلے کھانا کھائو پھر جو دل چاہے کرتے رہو۔ سب نے مزے لے لے کر کھانا کھایا اور ایک دوسرے سے چھوٹی موٹی بحث بھی ساتھ میں چلتی رہی۔
ملتان سے پھوپھو، حرا کی شادی میں آئی ہوئی تھیں۔ فیملی کے ساتھ ان کے پانچ بچے تھے دو لڑکے اور تین لڑکیاں۔ اور رشتے دار قریب تھے مگر پھوپھو دور رہتی تھیں۔ حرا میرے تایا کی بیٹی تھی، سب سے بڑی۔ ہم بھی تین بہنیں اور تین بھائی تھے۔ شادی میں ابھی دن تھے۔ انہوں نے ساحلِ سمندر دیکھنے کی خواہش کی اور پھر جھٹ پٹ سب تیار ہوگئے۔ دادی اماں کا گھر خاصا بڑا تھا گلبرگ کے علاقے میں۔ ایک پورشن تایا ابو اور ایک پورشن چچا، اور ایک ہم لوگوں کے پاس تھا۔ خوشی، غمی میں سب ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے تھے۔ رابیل اور ثنا نے جلدی جلدی چھولے اور دہی بڑے بنائے، حرا اور ایمن نے کباب، اور چچی نے چائے کے سامان کا انتظام کیا، اور پھر ہم سب تیار ہوکر ساحلِ سمندر پہنچے۔
پورے راستے ہنستے، گاتے اور ایک دوسرے پر تبصرہ کرتے رہے۔ سمندر کو دیکھ کر واقعی سکون سا حاصل ہوا کہ اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے جو کہ کراچی والوں کو نصیب ہے، مگر ہم اس کی قدر نہیں کرتے۔ پھوپھو اور اُن کے بچے سمندر کو دیکھ کر بے قابو سے ہوگئے اور گاڑی سے اتر کر بھاگے نہانے کے لیے۔ سمندر بہت چڑھا ہوا تھا، مگر ایک جگہ ہم لوگوں نے ہٹ لے لیا۔ جلدی جلدی سامان رکھا اور بھاگے پانی میں۔ ہمارے آپس پاس بہت لوگ تھے جو کہ سمندر میں نہاکے لطف اندوز ہورہے تھے۔ کوئی اونٹ کی سواری کررہا تھا تو کوئی گھوڑے کی، کوئی بھٹے کھانے میں مصروف تھا تو کوئی چائے، اور کوئی کولڈ ڈرنک کے مزے لے رہا تھا۔ غرض سب لوگ انجوائے کررہے تھے۔ہم سے تھوڑے فاصلے پر کچھ لوگ فوٹو گرافی کررہے تھے۔ دو لڑکیاں پینٹ شرٹ پہنے ہوئے تھیں، وہ نئے نئے انداز سے فوٹو گرافی کررہی تھیں۔ ہر کسی کی نظر بار بار اُن پر پڑ رہی تھی۔ وہ خوب صورت تھیں، اور پینٹ شرٹ سے ان کا جسم نمایاں ہورہا تھا۔ لڑکے تو لڑکے، لڑکیاں بھی انہیں دیکھنے میں مگن تھیں۔ مگر ان کو کسی کی کوئی پروا نہیں تھی اور وہ ہر ایکشن سے تصاویر بنوا رہی تھیں۔ میری نظر بھی بار بار اُن پر اٹھ رہی تھی۔ رابیل اور ثنا بولیں: کیا چیز ہیں، دل چاہ رہا ہے کہ دیکھتے رہو۔ تمام لڑکے الگ الگ کمنٹس کررہے تھے۔ ہم لوگ ہی کیا، ہر کوئی اُن کو دیکھ رہا تھا۔ عفان اور زبیر نے چائے بنائی اور ہم سب مزے لے لے کر چائے پینے لگے۔ بچوں اور لڑکوںکا تو سمندر سے نکلنے کو دل ہی نہیں چاہ رہا تھا۔ پھوپھو اور اُن کے بچوں نے خوب انجوائے کیا۔ ملتان میں سمندر کہاں؟ انہیں سمندر کو دیکھ کر سکون مل رہا تھا۔ مغرب کی نماز کے بعد ہم لوگ وہاں سے گھر کے لیے روانہ ہوگئے۔ گھر آکر ہر کوئی بھاگا نہانے کے لیے۔ رات گئے تک تبصرے چلتے رہے اور پھر ہم لوگ تھک ہار کر سونے کے لیے چل دیے۔
حرا کی شادی میں ابھی دو دن باقی تھے۔ آخری دن تک تیاری چلتی رہی۔ آج مایوں اور مہندی ایک ساتھ ہال میں تھی۔ ایک ہنگامہ صبح سے شروع تھا، کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ کوئی ناشتا کررہا تھا، کوئی کھانا کھا رہا تھا، کوئی استری کرنے میں مگن تھا، کچھ لڑکیاں چوڑیوں کی میچنگ میں لگی تھیں تو کچھ مہندی اور پارلر کی طرف دوڑ رہی تھیں۔ حرا کو، اور دوسرے تمام بزرگوں کو ہال پہنچادیا گیا اور باقی لوگ بھی تیار ہوکر پہنچے۔ مایوں کی رسم اور پھر مہندی کی رسم ہوئی۔ کھانے کے بعد رات گئے تک تمام ہنگامے ختم ہوئے اور سب تھک ہار کر سوگئے، جس کو جہاں جگہ ملی وہ پڑ گیا۔ شادی والے دن صبح سے ایک ہنگامہ، شور اور بھاگ دوڑ لگی تھی۔ سب اپنی اپنی تیاری میں لگے ہوئے تھے۔ دلہن کو پارلر پہنچا کر ہم بھی تیار ہونے لگے۔ ہال پہنچ کر تمام انتظامات جو کروانے تھے، بارات کو خوش آمدید جو کہنا تھا۔ رابیل نے پھول اور کنگن رکھ لیے ریسپشن کے لیے، اور پھول کی پتیاں بھی۔ دودھ کا گلاس اور قرآن بھی رکھ لیا سامان کے ساتھ۔ نکاح تو پہلے ہی ہوچکا تھا۔ بارات کے استقبال کے ساتھ دولہا اور دلہن کا فوٹو سیشن کروانے کے بعد ہال کے دروازے سے اسٹیج تک لانے کے لیے مختلف قسم کی لائٹس اور اسٹائل سے تصاویر اور مووی بنائی گئیں اور اسٹیج پر آکر لائٹ، دھواں اور میوزک کے ساتھ ڈانس کے انداز میں استقبال کیا گیا۔ مجھے ذاتی طور پر یہ تمام چیزیں پسند نہیں، مگر زمانے کے اسٹائل ہیں، کون منع کرے! خیر شادی کی تقریب خیر خیریت سے اختتام پذیر ہوئی اور تمام لوگ اور مہمان اپنے اپنے گھر رخصت ہوئے۔ پھوپھو بھی ملتان چلی گئیں۔
رات کو جب فارغ ہوئی تو نیٹ چلانے کا خیال آیا کہ کیا صورت حال ہے اور کیا ہورہا ہے۔ ابھی نیٹ چلائے ہوئے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ نظر چلتے چلتے اس خبر پر رک گئی: دو لڑکیاں جو سی ویو پر فوٹو سیشن کروا رہی تھیں ان کو لوٹ کر قتل کردیا گیا۔ سوشل میڈیا پر یہ خبر تصویر کے ساتھ تھی۔ یہ وہی لڑکیاں تھیں جنہیں ہم نے ساحل سمندر پر دیکھا تھا جو بڑے بے باک انداز میں تصاویر بنوا رہی تھیں۔ بہت دیر تک ان لڑکیوں کا نقشہ ذہن میں گھومتا رہا، پھر سوچ کا دائرہ مجھ کو کہاں سے کہاں لے گیا۔ کان میں قرآن کے الفاظ لُو لُو مرجان یعنی چھپا کر رکھی گئی، اور حدیث پاک: شرم و حیا ایمان کا حصہ ہیں، اگر ان میں سے ایک چلا جاتا ہے تو دوسرا خودبخود چلا جاتا ہے۔ شرم و حیا عورت کا زیور ہے تو وہ اس کی حفاظت کرے۔ ساری باتیں سن کر بھی ہم اللہ اور اللہ کے رسولؐ کے احکامات کو نظرانداز کرتے ہیں۔
میں نے دل میں سوچا ’’یہی تو منافقت ہے‘‘۔

حصہ