کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیزگام ایکسپریس میں جمعرات 31 اکتوبر کو رحیم یار خان کے قریب آگ لگنے سے 72 افراد کے جاں بحق اور سینکڑوں کے جھلسنے کا واقعہ اپنی نوعیت کا منفرد حادثہ ہے۔ اس واقعے کو ٹرین کا حادثہ نہیں بلکہ ’’ٹرین میں ہونے والا واقعہ‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ اس واقعہ کو اگرچہ فوری ملنے والی اطلاعات کے مطابق انسانی غفلت کا نتیجہ قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن اب تک کی تحقیقات سے یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ اس واقعہ میں محکمہ ریلوے کی غفلت بھی ہے۔
وفاقی وزیر ریلویز شیخ رشید کے مطابق اس واقعے میں ریلوے کی غلطی نہیں، مسافروں کی غلطی ہے۔ مسافر ٹرین میں گیس کا سلنڈر کیسے پہنچا، اس کی تحقیقات کی جائے گی۔
وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کے مطابق ٹرین کی اکانومی کلاس میں آگ لگی۔ جس میں تبلیغی جماعت کے لوگ اجتماع میں جا رہے تھے۔ شیخ رشید نے کہا کہ زیادہ ہلاکتیں مسافروں کے چلتی ٹرین سے چھلانگ لگانے کی وجہ سے ہوئیں جب کہ شدید زخمیوں کو رحیم یار خان منتقل کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بوگیوں میں لگی آگ پر قابو پالیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گیس کے دو سلنڈر پھٹنے کے باعث بوگیوں میں آگ لگی تھی۔
وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کا مؤقف اپنی جگہ لیکن تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے مسافروں کا کہنا ہے کہ یہ حادثہ ائرکنڈیشن بوگی میں شارٹ سرکٹ سے ہوا ، اس کا الزام دینی لوگوں پر ڈالنا کہ یہ لوگ ٹرین میں گیس کا سلنڈر استعمال کر رہے تھے جس کی وجہ سے سلنڈر پھٹ گیا‘ سراسر غلط ہے۔ اگر وزیر ریلوے شیخ رشید کی بات کو درست بھی مان لیا جائے تو قصور ریلوے کے سیکوریٹی عملے کا نظر آتا ہے جنہوں نے ٹرین میں مسافروں کو گیس سلنڈر لے کر سوار ہونے کی اجازت دی یا اسے چیک ہی نہیں کیا۔
بعض مسافر اس امر پر بضد ہیں کہ حادثہ ٹرین میں بجلی کے نظام کی خرابی سے پیش آیا کیونکہ بہت دیر سے ٹرین کی مختلف بوگیوں میں کسی چیز کے جلنے کی بو آرہی تھی۔ مسافروں کا کہنا ہے کہ بوگی میں آگ لگنے کے بعد متعدد مسافروں نے ٹرین کی زنجیر کھیچ کر اسے روکنے کی بھی کوشش کی لیکن ٹرین رکنے کے بجائے دوڑے جارہی تھی۔ زنجیر کھینچنے کے باوجود ٹرین کا نہ رکنا‘ ٹرین کے سیفٹی نظام کے فیل ہونے یا ناکارہ ہونے کی نشاندہی کرتا ہے جس کی ذمہ داری چیف آپریٹنگ منیجر اور اور جنرل منیجر ریلوے پر عائد ہوتی ہے۔
حادثے سے ثابت ہوتا ہے کہ ریلویز میں سیکورٹی اور سیفٹی کا کوئی نظام نہیں ہے اور آئندہ بھی خدانخواستہ اس طرح کے حادثات رونما ہوسکتے ہیں۔
ریلوے رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھنے والے نمائندہ جسارت کی اپنی معلومات کے مطابق ٹرین میں گیس سلنڈر کی موجودگی یا مسافروں کی طرف سے گیس سلنڈر لے کر ٹرین میں سوار ہونے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ٹرینوں میں سیکورٹی کا کوئی نظام موجود ہی نہیں ہے۔ جب کہ ریلوے پولیس بھی اپنے فرائض قوانین کے مطابق ادا نہیں کر رہی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان ریلویز کو حکام کی عدم توجہ کے باعث بغیر سیفٹی اور سیکورٹی سسٹم کے چلایا بلکہ دوڑایا جارہا ہے۔ جس کے ذمہ دار وزیر ریلویز اور چیئرمین بھی ہیں۔
یہ دونوں شخصیات اسی بات کی بھاری تنخواہیں اور مراعات لیتے ہیں۔ اگر فوری طور پر پورے ریلوے نظام کا باریک بینی سے جائزہ لے کر اس میں پائی جانے والی خامیوں اور خرابیوں کو فوری دور نہیں کیا گیا تو خدشات ہیں کہ مزید حادثات کے ساتھ کوئی تخریبی کارروائی بھی کسی شرپسند اور ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں رونما ہوسکتی ہے۔
چیئرمین ریلویز سکندر سلطان خواجہ کی سنیے۔
چیئرمین ریلوے سکندر سلطان راجا نے بتایا کہ انسپکٹر آف ریلوے کی سربراہی میں تحقیقات کا حکم دے دیا ہے اور وہ اس بات کا تعین کریں گے کہ سلینڈر کس طرح ٹرین میں لے جانے کی اجازت دی گئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ تیزگام کی تین بوگیوں میں تقریباً 200 سے زائد افراد سوار تھے جن میں سے ایک بوگی میں 78 ، دوسری میں 77 اور بزنس کلاس کی بوگی میں 54 افراد کی بکنگ تھی، حادثے کے بعد بوگیوں سے کئی افراد کی جلی ہوئی لاشیں نکالی گئی ہیں جن میں سے کئی لاشوں کے ٹکڑے ملے ہیں۔ جاں بحق ہونے والوں میں 25 افراد کا تعلق سندھ کے ضلع میر پورخاص سے ہے۔ مرنے والوں میں سے 17 لاشیں ناقابل شناخت ہیں۔
وفاقی وزیر ریلویز شیخ رشید کا مؤقف۔
وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کے مطابق ٹرین کی اکانومی کلاس میں آگ لگی۔ تبلیغی جماعت کے لوگ اجتماع میں جارہے تھے۔ شیخ رشید نے کہا کہ زیادہ ہلاکتیں مسافروں کے چلتی ٹرین سے چھلانگ لگانے کی وجہ سے ہوئیں جبکہ شدید زخمیوں کو رحیم یار خان منتقل کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کھاریاں اور ملتان میں برن یونٹس ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بوگیوں میں لگی آگ پر قابو پالیا گیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ مسافروں کے دو سلنڈر پھٹنے کے باعث بوگیوں میں آگ لگی تھی۔
حادثے کے بعد صدر عارف علوی، وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے روایتی بیانات جاری کیے ہیں۔
صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ٹرین حادثے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے جاں بحق افراد کی بلند درجات، زخمیوں کی جلد صحت یابی اور اہل خانہ کے لیے صبر جمیل کی دعا کی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے غم زدہ خاندانوں سے اظہار تعزیت کیا اور زخمیوں کو بہترین طبی امداد فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور وزیرداخلہ اعجاز شاہ نے بھی قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا۔ وزیر ریلوے شییخ رشید نے جاں بحق افراد کے لواحقین کو 15، 15 لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا۔
ریلویز حکام خود خامیوں خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ریلویز حکام کے مطابق پاکستان ریلوے میں اس وقت 23 ہزار سے زائد ٹیکنیکل اور نان ٹیکنیکل اسٹاف کی اسامیاں خالی پڑی ہیں جب کہ ریلوے ٹریکس کے مسائل بھی ہیں جن پر قابو پانے کی کوششیں جاری ہیں اور ایم ایل ون (ریلوے کا مرکزی ٹریک جو پشاور سے کراچی کے درمیان ہے) کی مکمل بحالی کا بڑا پراجیکٹ سی پیک کے تحت ہونے والے منصوبوں میں شامل کیا گیا ہے۔ موجودہ ٹریکس کو صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بہتر لائنز پر ٹرین کی رفتار 100 کلو میٹر فی گھنٹہ جب کہ کمزور ٹریک پر 40 کلومیٹر تک محدود رکھی جاتی ہے اور ڈرائیورز کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ حد رفتار سے تجاوز نہ کریں۔
حکام کا کہنا ہے کہ ماضی میں نئے انجن خریدے گئے اور کافی تعداد میں خریدے گئے مگر رولنگ اسٹاک بشمول 800 ویگنز اور 300 کوچز خریدی جانی ہیں اور یہ پراجیکٹ ابھی پائپ لائن میں ہیں۔