مولانا نے ناراضی کا اظہار کیسے کیا؟۔

515

مرتب : اعظم طارق کوہستانی
(گزشتہ سے پیوستہ)
سوال:ان دنوں مولانا کے ساتھ کون کون تھا؟
بارک اللہ خان: شروع میں توصرف پنجاب کی شوریٰ کے لوگ تھے ۔ لیکن بعد میں باقی سارے ملک کی شوریٰ کے لوگ بھی وہیں اکٹھے ہوگئے ، اُن میں پروفیسر غلام اعظم ، پروفیسر خورشید احمد ،مولانا عبدالعزیز ،پروفیسر غفور احمد ، نعیم صدیقی، اسعد گیلانی ، کراچی کی شوریٰ کے لوگ ،مشرقی پاکستان کے لوگ اور پنجاب کے لوگ یہ سارے وہیں اکٹھے ہوگئے ۔ یہ سب اکابرین تھے۔ ان کی تعداد باون تھی۔ تین ماہ تو ۵۲کے۵۲ وہیں رہے لیکن بعد میں لاہور کے لوگ رہ گئے مولانا کو ڈاکٹر نثار نے مشورہ دیا کہ آ پ اخبارات کامطالعہ نہ کیا کریں کیونکہ آپ کی آنکھوں پر اثر پڑے گا۔ ان دنوں مولانا کی آنکھوں میں کچھ خرابی پیداہوگئی تھی تو مولانا نے فرمایا :’’بارک اللہ ! آپ مجھے اخبار پڑھ کر سنایا کریں۔‘‘
چنانچہ میں مولانا کو روزنامہ پاکستان ٹائمز پڑھ کر سناتا، اس میں ایوب خاں کی خوشامد کے سلسلے میں مختلف وزیروں کے بیانات ہوتے ۔ مثلاً پاکستان ٹائمز میں بیان تھا مسعود صادق کا ، Ayub Khan is the biggest Leader of Asia (ایوب خاں ایشیا کا عظیم ترین لیڈر ہے) مولانا نے کہا۔ چھوڑو اس خبر کو آگے پڑھو ، آگے لکھا ہوتا: ’’ایوب خان از ڈیگال آف ایشیا ‘‘(ایوب خان ایشیا کا ڈیگال ہے۔)قادر بخش جھکڑ۔ مولانا نے کہاکہ ’’اوہو اس خبر پر بھی لعنت بھیجو،آگے پڑھو۔ اس طرح چونکہ وہ اخبارات پر ہوتے تھے، ایوب خاں کی تعریفوں سے تو جو بھی اس قسم کی خبر ہوتی تھی وہ کہتے:’’اس کو چھوڑ و…آگے پڑھو۔‘‘
اس پر میں نے کہا: ’’مولانا سارا اخبار انہی خبروں سے بھراپڑاہے میں آپ کو پھر اور کہاں سے خبر ڈھونڈ کر سنائوں جو اچھی خبر ہو۔ ‘‘
اس طرح ہر روز جب میں اخبارات پڑھ کر سناتا تو ایسے ہی تبصرے مولانا فرماتے ۔ سب جانتے ہیںکہ مولانا کی طبیعت میں اجلا پن ،مزاح اور شگفتگی تھی اس کی مثال بھی پیش کیے دیتاہوں۔ ہم سب اکٹھے یا مختلف ٹولیوں میں جب ناشتے پر بیٹھتے تو ہلکی پھلکی باتیں شروع ہوجاتیں مثلاً ایک دن میں دودھ ڈال رہاتھا تو ملک نصر اللہ خاں عزیز نے پنجابی میں کہا: ’’بھئی بارک اللہ !ددھ پادیوایدے وچ ۔‘‘
مولانا نے کہا:’’ملک صاحب !یہ ددھ کیاہوا۔‘‘
کہنے لگے:’’ مولانا !اور کیاکہیں؟‘‘
مولانا نے فرمایا کہ دودھ کہنا چاہیے ملک صاحب نے فرمایا:’’دودھ کیوں کہناچاہیے ددھ کیوں نہیں کہنا چاہیے۔‘‘
مولانا نے جواب دیا و(وائو) ڈالنے سے لطافت پیداہوتی ہے۔
ملک صاحب کہنے لگے:’’ تو پھر مولانا ، کتے کو کوتا،کہنے سے لطافت پیداہونی چاہیے۔ ‘‘
ایک دن مولانا نے لطیفہ سنایا کہ ایک آدمی کو کسی محفل میں جوتے پڑے۔ کسی نے کہا، بھئی سنا ہے تمھیں فلاں محفل میں جوتے پڑے۔ اس نے کہا بالکل جھوٹ بولتے ہیں۔ جوتے نہیں تھے چھوٹے چھوٹے بچگانے تھے وہ پڑے تھے۔
اسی طرح ایک روز ہلکی پھلکی باتیں ہو رہی تھیں ، مولانا نے ایک اور لطیفہ سنایا ۔ فرمانے لگے کہ حیدرآباد کے دیہاتیوں کی زبان عجیب ہوتی ہے، اس کی اُنھوںنے یہ مثال دی کہ ایک دفعہ کوئی دیہاتی دلّی میں کسی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوا ۔ مجسٹریٹ نے دیہاتی سے پوچھا کہ یہ لڑکاتمھارا کیا لگتا ہے۔ دیہاتی نے جواب دیاکہ یہ میرا لپیٹو لگتا ہے۔
مجسٹریٹ نے دریافت کیا:’’یہ ’لپیٹو ‘ کیا ہوتا ہے۔‘‘
دیہاتی بولا: ’’جناب !جناب کا جو مر جائے باپ اور جناب کی ماں ہو جائے رانڈ اور وہ کرلے مجھے اور تم جو اس کے ساتھ آئو تو تم میرے لپیٹو لگے ۔ ‘‘
یہ لطیفہ سنایا اور اس پر پوری محفل کشت زعفران بن گئی۔ اسی طرح ہم بھی مولانا کو لطیفے سناتے ، چنانچہ ایک مرتبہ میں نے لطیفہ سنایا ۔ اس پر سب لوگ بہت لطف اندوز ہوئے ، کیونکہ شوریٰ پر صادق آتاتھا ۔ حکومت نے سکھوں کی مانند جماعت پر بے سروپا الزامات عاید کیے تھے۔ لطیفہ یوں تھا، ایک دفعہ سکھوں نے کہا بھئی حکومت ہماری ہے اور ہمارے متعلق کہاجاتا ہے کہ ہم دیر سے سوچتے ہیں ہندو پہلے سوچتاہے اور مسلمان وقت پر ۔ کیوں نہ اب جبکہ ہماری حکومت بن چکی ہے ہم بھی وقت پر سوچا کریں ۔ اس کے بعد سکھوں نے سوچاگوردوارے کے قریب جو زمین خالی پڑی ہے اس پر کیوں نہ کچھ کاشت کریں۔
چنانچہ ایک بولا: ’’کرتار سنگھ بتائو یہاں کیا کاشت کریں۔ ‘‘
جواب ملا:’’گنا ۔‘‘
اس پر تیسرا سکھ کہنے لگا بھئی گنا تو ہم یہاں کاشت کردیں گے ،لیکن یہاں قریب عیسائیوں اور بھنگیوں کے چھوٹے چھوٹے مکانات ہیں ،جھونپڑیاں ہیں، اُن کی عورتیں اور چھوٹے بچے ہمارے کھیت کو ویران کردیں گے ، اب سب سوچنے لگے تو پھر کیاکیا جائے۔ ایک نے کہا، کیوں نہ ہم علاج کرلیں ، چنانچہ علاج کا متفقہ فیصلہ ہوا، اُنھوںنے صبح سویرے اُٹھ کر اُن بستیوں کے مکینوں پر لاٹھیاں برسانی شروع کردیں۔
لوگوں نے پوچھا:’’سردار جی! ہمیں کیوں مار رہے ہو۔‘‘
سردار جی بولے ’’ہو ر چوپو گنے …ہو ر چوپو گنے۔ ‘‘
اس پر ساری شوریٰ کے لوگ ہنسنے لگے اور جب مولانا نے دیکھاکہ یہ لوگ بہت ہنس رہے ہیں تو پوچھا :’’بھئی! کیا بات ہوئی ؟ ‘‘
اُنھوںنے کہا:’’ مولانا ! بارک اللہ نے ایک لطیفہ سنایا ہے اس پر ہم ہنس رہے ہیں۔ ‘‘
مولانا نے فرمائش کی ، بھئی مجھے بھی سنائو ، چنانچہ میں نے دوبارہ مولاناکو وہ لطیفہ سنایا اور آخر میں جب میں نے کہاکہ ’’ہور چوپو ‘‘ تو ملانا نے پوچھا یہ ’’ہورچوپو ‘‘ کیاہوا ؟ تو ہم نے کہا اس کامطلب ہے کہ اور گنے چوسو۔ تو مولانا بھی بہت محظوظ ہوئے اور فرمانے لگے ہمارے متعلق کہاجاسکتا ہے اور فسطائی حکومت قائم کرو اور قائم کرو۔ ‘‘ جماعت پر یہ الزام عائد ہواتھا کہ یہ لوگ حکومت پر جبراً قبضہ کرکے فسطائی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔
مولانا کی عادت میں نے یہ دیکھی کہ جیل کے ماحول میں وہ اس قسم کی کیفیت نہیں پیداہونے دیتے تھے جس سے طبیعت پر بوجھ ہوا اور بیزاری ہو ، چنانچہ ہماری ایک اصطلاح تھی ’’کلچرل پروگرام ‘‘ ہم وہاں کلچرل پروگرام کرتے تھے۔ کلچر ل پروگرام میں غزلیں ، اقبال کی غزلیں نظمیں پڑھی جاتی تھیں۔ ہم میں بھی کچھ لوگ شاعری فرماتے تھے ، وہ بھی اپناکلام پیش کرتے تھے۔ مولانابھی اس کلچرل پروگرام میں شرکت فرماتے۔ ہم جب بیڈمنٹن کھیلتے تو مولانا ہمیں بیڈمنٹن کھیلتے ہوئے دیکھتے ہیں، اسعد گیلانی صاحب ،چوہدری غلام جیلانی ، مولانا گلزار احمد مظاہری ،نعیم صدیقی صاحب ،ہم سب کھیلتے تو مولانا دیکھتے ۔ میری یہ عادت تھی کہ میں صبح سویرے اُٹھ کر تیل کی مالش کرتا ،ڈنٹر پیلتا اور بیٹھکیں لگاتا۔ مولانا اس احاطے کی سیر کرتے ۔ صبح سویرے اُٹھ کر سیر کرنا اُن کی عادت تھی میں دور ایک گوشہ میں جا کر ورزش کرتا اور مولانا جب سیر کے دوران ادھر تشریف لاتے تو مجھے دیکھ کر کہتے :’’بھئی!اگر ملک امیرمحمدخان کو پتا چل گیا کہ تم یہاں ایسی ورزش کرتے ہو تو وہ تمھاری نظر بندی میں مزید توسیع کردے گا۔ ‘‘
یہ بات مولانا روز دہراتے اور مسکراتے۔ یوں جیل کا تمام عرصہ مولانا کے ساتھ بڑا خوشگوار گزرا ، کبھی کبھی مولانا درس قرآن دیتے ۔ میں نے ایک بات خاص طور پر نوٹ کی ، ہفتے میں دو دن یعنی پیر اور جمعہ کے روز مولانا نہایت باقاعدگی کے ساتھ خط بنواتے۔ ان دودنوں کے علاوہ انھوںنے کبھی اپنا ٹائم ٹیبل نہیں بدلا جب مجھے یہ حکم موصول ہواکہ تمھارا تبادلہ ملتان جیل میں کردیا گیاہے ، تو یوں محسوس ہوا جیسے بہت پُر رونق جگہ سے ہمارا ساتھ چھوٹ رہا ہے… مولانا کی رفاقت کے باعث جیل کی صعوبتیں کم ہوگئی تھیں ۔ میں مولانا کے ساتھ چار ماہ جیل میں رہا اور ان چار مہینوں میں اتنا کچھ حاصل کیا جسے سرمایۂ حیات قرار دیا جاسکتا ہے۔
سوال:مولانا اوقات کی بڑی پابندی کرتے تھے کیا جیل میں بھی ان کا یہ معمول جاری رہاکہ ناشتہ فلاں وقت ہو ، دوپہر کا کھانا فلاں وقت ، وغیرہ وغیرہ ؟
بارک اللہ خان:جیل میں مولانا کاپروگرام اتنا Tight(سخت پابندی والا ) نہ تھا۔ میں نے دیکھا اور مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ وہ خشک قسم کی Tightless (حددرجہ سخت پابندی) میں یقین نہ رکھتے تھے۔ میں سمجھتاہوںکہ ایسی جکڑ بندی کے ساتھ قید کاٹی بھی نہیں جاسکتی ۔ مولانا نے جیل میں اپنی عادتیں جیل کے تقاضوں کے مطابق رکھی ہوئی تھیں ۔ اُن میں باقاعدگی تو تھی لیکن خشک قسم کی باقاعدگی نہ ہوتی تھی …درس قرآن میں ہم مولانا سے کافی طویل وقت تک سوالات پوچھتے رہتے ، چنانچہ ایک دفعہ مولانا درس قرآن دے رہے تھے۔ شیخ الہند کی تفسیر جیل میں موجود تھی ۔ اس سے مولانا نے درس دیا اور ایک مسئلے پر تو یوں ہواکہ مولانا نے فرمایاکہ اس مسئلے پر شیخ الہند کا موقف زیادہ بہتر ہے۔ کائنات کے متعلق آیات کے سلسلے میں،میں نے سوال کیا،اگر کائنات اتنی ہی وسیع ہے جتنی آپ فرما رہے ہیں کہ اس میں کروڑوں برس لگ جاتے ہیں ایک ستارے سے دوسرے ستارے تک پہنچنے میں ،تو اتنی وسیع کائنات کے گویا چھوٹے سے ذرے یعنی زمین پر ہی انسانی زندگی قائم ہے اور ساری کائنات کامقصد اتنی چھوٹی سی زمین ہی ہے ،آیا اس کائنات کا اس سے بڑا اور کوئی مقصد نہیں ہے ؟ یہ بات دل کو نہیں لگتی کہ اتنی وسیع کائنات ہو اور ایک یہ چھوٹی سی زمین اس کامقصد ہو ؟ مولانا نے فرمایا:’’بعید نہیںکہ اس وسیع کائنات میں کائنات کی مرکزیت اور اس کے مقاصد کی مرکزیت اور کہیں بھی ہو۔‘‘
اس بات سے بھی میں متاثر ہواکہ ٹربیونل کی طرف سے کیے گئے سوالات کا جو جواب مولانانے لکھ کر بھیجا اس میں ایک ایک بات واضح کی گئی اور اس الزام کے متعلق کہ بارک اللہ اور اس کے ساتھی طلبہ کو جماعت اسلامی نے اکسایا جس کی وجہ سے یہ گڑ بڑ ہوئی۔ مولانا نے یہ لکھ کر بھیجا کہ طلبہ ہمارے اپنے بچے ہیں اور اگر ایک اچھی بات پر وہ ہم سے متاثر ہو تو یہ کوئی گناہ کی بات نہیں۔ اگر برائی کے لیے لوگ طالب علموں کو اکساسکتے ہیں تو اچھی بات کے لیے ، اسلام اور دین کے لیے نوجوانوں کو براہ راست پر لانے کے لیے ہم طلبہ سے یا طلبہ سے رابطہ رکھیں تو اس میں حرج کی کوئی بات نہیں۔
میں مولانا کی جرأت ،اُن کی سیاسی سوجھ بوجھ اور اُن کی حوصلہ مندی سے بھی متاثر ہوا۔ بعض سیاست دانوں نے ۱۹۶۵ء کے انتخابات میں ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کو لا کھڑا کیا۔ یہ مولانااور ان کے رفقا کے لیے بڑی آزمائش تھی۔ مولانا جیل میں تھے مگر جیل میں رہتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ ہم محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کریں گے کیونکہ پیدا شدہ حالات میں ایک عورت کا سربراہ مملکت بننا اسلامی نقطۂ نظر سے درست ہے …یہ بیان مولانا نے جیل میں رہتے ہوئے دیا، میں سمجھتاہوںکہ اتنی عظمت اور اتنی سیاسی سوجھ بوجھ اور حوصلہ اور جرأت کسی سیاست دان میں نہیں ہوسکتی کہ جیل میں رہتے ہوئے ایک ایسا بیان دے جس کامطلب دوامی قید ہوسکتا ہو، جس کامطلب یہ ہوسکتاہو کہ نظربندی کبھی ختم نہ ہوگی جیل میں رہتے ہوئے ایوب خان جیسے آمر کے ساتھ براہ راست محاذ آرائی کاحوصلہ میں نے کسی سیاست دان میں کم ہی پایا ہے۔ خال خال ہی یہ حوصلہ کسی سیاست دان میں ہوگا۔ مولانا نے جس بات کو حق سمجھا اس کا اظہار جیل میں رہتے ہوئے کیا۔ ہمیں یہ خدشہ تھاکہ اب جیل سے شاید ہی رہائی نصیب ہو۔
ایک اور واقعہ جو تاریخ کاایک حصہ ہے اور شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہو وہ یہ تھاکہ انہی دنوں افضل چیمہ صاحب کے توسط سے جو اُن دنوں ایوب خان کی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر تھے ،مولانا کو جیل میں کہلوایا گیا کہ ہم جماعت کو قومی اسمبلی کی غالباً پندرہ نشستیں (صحیح تعداد مجھے یاد نہیں ) دلادیں گے ،علاوہ ازیں مزید مراعات بھی دیں گے ، مزید مطالبات بھی مان لیں گے بشرطیکہ جماعت مادر ملت کی حمایت نہ کرے ۔ مولانا نے اس پیش کش کو پائے حقارت سے ٹھکرادیا ۔ جیل میں رہناقبول کیا …ورنہ ہم نے یہ دیکھاہے کہ چھوٹی چھوٹی اغراض کے لیے چھوٹے چھوٹے مفادات کے لیے یار لوگ تنقید سے بھی توبہ کرلیتے ہیں ۔ محاذ آ رائی تو بہت دورکی بات ہے وہ تو چھوٹی چھوٹی اغراض کے لیے حکومتوں کے ساتھ سودے بازی پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور اپنے اصولوں کو چھوڑ دیتے ہیں، مولانا نے اپنے فقط ایک عمل ہی سے تاریخ ساز کام کیا۔ ایوب جیسے جابر حکمران کو جیل سے ٹکا سا جواب دے دیا۔
مولانا نے یہ علمائے حق والا کام کیاجسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا نہ صرف یہ بلکہ مولانا نے جیل ہی میں یہ فیصلہ کیاکہ ایک اور پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر مشترکہ جدوجہد کی جائے۔ اُنھوںنے یہ بھانپ لیاتھاکہ چھوٹے چھوٹے اختلافات کی بنیاد پر الگ الگ ہو کر جمہوریت کی سربلندی کے لیے کوئی کاوش کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی ، ملت اسلامیہ کی کوئی خدمت نہیں ہوسکتی ۔ اس کے لیے ناگزیر ہے کہ بعض متفقہ نکات پر یکجا ہو کر کام کیاجائے۔ وہ جب تک زندہ رہے ، اتحاد و اتفاق کا درس دیتے رہے اور اس پر خود عمل پیرا بھی رہے ۔ خیر میں ملتان جیل چلا گیا ۔ ملتان جیل کے جس وارڈ میں مجھے رکھاگیا اس کے متعلق مجھے بتایا گیا کہ ۱۹۵۳ء کی قید کے دوران مولانابائیس ماہ تک اس وارڈ ، اس کمرے میں بند رہے اس کمرے میں اتنی گرمی تھی جون کی کہ میں حیران تھا مولانا جیسی طبیعت کاآدمی کس طرح اس کمرے میں رہا ہوگا جب کہ مجھ جیسے دیہاتی شخص کے لیے یہاں کی گرمی اور یہاں کی صورت حال ناقابل برداشت تھی۔ مولانا نے ۲۲ ماہ رہ کر تفہیم القرآن کی دویاتین جلدیں مکمل کیں اور میں وہیں سمجھ گیا کہ جس تفہیم القرآن کو ایسا قیدی مکمل کرے آخر وہ تفسیر کیوں نہ ابدی، کیوں نہ زندۂ جاوید حیثیت اختیار کرے۔
ملتان جیل سے مجھے گائوں منتقل کرکے نظر بند رکھا گیا۔ میں ایک سال تک گائوں میں نظر بند رہنے کے بعد جب رہا ہوا تو مولانا کو ملنے پہنچا۔ مولانا نے مسکراتے ہوئے فرمایا: ’’پھر آگئے ہو ہمیں پھنسانے کے لیے! ‘‘
مولانا قومی یکجہتی اور اتحادواتفاق کے شیدائی تھے وہ جانتے تھے کہ فروعی اختلافات اور مختلف مکاتب فکر کے اختلافات نے اگر سر اُٹھایا تو ملک کو ، اسلام کو گزند پہنچے گا۔ چنانچہ جب چند جماعتیں قومی اتحاد سے الگ ہوئیں تو مولانا کو سخت صدمہ ہوا، سخت رنج پہنچا۔ امریکا روانگی سے قبل پاک سرزمین پر اُنھوں نے جو آخری بیان دیا، اپنی زندگی کاآخری بیان ،ا س میں بھی مولانا نے اتحاد کی اپیل کی اور واضح الفاظ میں قوم کی اس خطرے سے آگاہ کیاکہ اگر سیاسی جماعتیں قومی اتحاد سے یوں الگ ہوتی رہیں اور اُنھوںنے آپس میں پھر اتحاد قائم نہ کیاتو ۱۹۷۰ء سے بھی بدتر حالات پیداہوں گے۔

حصہ