نگہت پروین
دادی جان بڑے غور سے رفعت اور فروکو وضو کرتے ہوئے دیکھ رہی تھیں دونوں دنیا بھر کی باتیں کرتے جا رہے تھے اور وضو بھی کر رہے تھے۔ رفعت نے کہا فرو آج ساجد مجھ سے بچ گیا ورنہ اس نے جو میری کاپی پھاڑی ہے زور دار مکا لگاتا مگر عین وقت پر چھٹی کی گھنٹی بجنے پر وہ بھاگ گیا فیرو بولا اور یار عارف سے میری منہ ماری ہو گئی وہ کہہ رہا تھا کہ تم کنجوس ہو میں نے کہا کہ میں کنجوس نہیں ہوں بس تمہیں اپنی چیز نہیں کھلائی تو کنجوس ہو گیا مگر وہ مجھے کنجوس کنجوس کہہ رہا تھا میں بھی اسے منگتا منگتا کہنے لگا یوں لڑائی شروع ہوئی بس دونوں کزنز اپنی اپنی کار کردگی کی رپورٹ ایک دوسرے کو سنا رہے تھے۔
دادی جان نے دونوں کو اپنے پاس بلایا اور کہا بیٹا تم دونوں نماز کی تیاری کے لیے وضو کررہے تھے تو بیٹا اللہ کا ذکر یا یاد تو نہیں کررہے تھے بلکہ اپنے اپنے کارنامے سنا رہے تھے بچوں جب وضو کرتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہوئے وضو کرنا چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ خوش ہو۔ آئو میں تمہیں بتائوں کہ وضو میں جب تم ہاتھ دھوئو تو دل میں اللہ سے کہو کہ اے اللہ میرے یہ ہاتھ سلامت رکھنا جب کلی کرو تو سوچو کہ میرے منہ سے کوئی غلط بات یا غیبت نہ نکلے اور جب ناک میں پانی ڈالو تو سوچو کہ مجھے جنت کی کوشبو ملے دوزخ کی بدبو سے بچا لینا اور جب سیدھا ہاتھ کہنی تک دھوئو تو سوچو کہ اللہ اس سیدھے ہاتھ میں نامہ اعمال دینااور الٹا ہاتھ کہنی تک دھوتے وقت سوچو کہ بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال نہ دینا اللہ میاں پھر جب مسح کرو تو سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سوچو کہ قیامت کے دن اللہ کی رحمت کا سایہ مل جائے گردن پر ہاتھ پھیرو تو سوچو اللہ مہروں کی تکلیف سے بچا لینا پھر جب سیدھا پائوں دھوئو تو کہو کہ اللہ جنت میں لے جانا اور زندگی میں سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمانا۔ بایاں پیر دھوئو تو سوچوکہ مجھے غلط راستے گمراہ راستے سے بچا لینا۔ اس طرح بچوں تمہارا وضو بھی پورا ہو جائے گا اور اللہ تمہاری ساری باتیں بھی سن کر قبول کر لیگا (آمین)۔
دونوں نے وعدہ کیا کہ آپ نے بہت اچھا سمجھایا اب ہم اسی طرح کریں گے۔