رضوانہ وسیم
رات کے ڈھائی بج رہے تھے لیکن نیند کسی روٹھے ہوئے ضدی بچے کی طرح آنکھوں سے کوسوں دور تھی کروٹیں بدل بدل کر جب میں تھک گئی تو میں نے وضو کرکے تہجد کی نماز کے لیے نیت باندھ لی اور اللہ سے سکونِ قلب کی دعا کی اسی اثناء میں فجر کا وقت بھی ہو گیا۔ نماز پڑھنے کے بعد دل کو کچھ سکون ملا اسی دوران نہ جانے کہاں سے بچپن سے لے کر پچپن تک کا دور آنکھوں میں کسی فلم کی طرح چلنے لگا، بہت ساری بھولی بسری باتیں ذہن کے پردے پر تازہ ہو گئیں اور مجھے یاد آیا کہ امی کس کس طریقے سے ہماری تعلیم و تربیت کیا کرتی تھیں، وہ مختلف حیلے بہانے کرکے ہمیں اچھا اور نیک انسان بنانے کی کوشش میں لگی رہتیں، مثلاً ہماری زبان نے جب لفظ ادا کرنے شروع کئے تب ہی سے اللہ رسول کا ذکر ہمارے کانوں میں پڑا امی رات کو سونے سے پہلے اور صبح جاگنے کے بعد ہم کو کلمہ پڑھاتی اور اسی طرح ہم اپنی توتلی زبان سے کلمہ پڑھنے کے عادی ہو گئے، کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا بسم اللہ سے کھانے کا آغاز ہونا، سب کو سلام کرنا، تہذیب تمیز سے سب کے ساتھ پیش آنا، یہ تمام چھوٹی چھوٹی عادتیں ہم میں پختہ ہوتی چلی گئیں اور ان سب کاموں کے لیے امی کا طریقہ بہت زبردست ہوتا تھا، ہم سب بہن بھائیوں میں اچھے کام کرنے کا مقابلہ ہوتا تھا کیونکہ ہر اچھے کام پر ہمیں صبح اپنے تکئے کے نیچے سے کوئی نہ کوئی پسندیدہ انعام مثلاً چاکلیٹ، بسکٹ یا کوئی پسندیدہ کھلونا وغیرہ ملتا سچ تو یہ ہے کہ ہم بھی کوئی بہت فرمانبردار بچے تو تھے نہیں لیکن امی ہمیں لالچ دیتی تھیں کہ اچھے بچوں کے لیے اللہ تعالیٰ کوئی نہ کوئی انعام دیتے ہیں یہ لالچ ہمیں امی کی فرمانبرداری پر مجبور کر دیتا تھا اور ہم سب سے پہلے صبح اٹھتے ہی اپنے تکئے کے نیچے انعام تلاش کرتے اور ہماری صبح کی خوشی دوبالا ہو جاتی تھی لیکن اگر ہم میں سے کوئی امی کی بات نہ مانتا تو وہ بے چارہ انعام تلاش کرتا رہ جاتا اور آئندہ کے لیے امی کا کہنا ماننے کا وعدہ کرتا۔ ہم امی سے یہ ضرور پوچھتے کہ کیا اللہ تعالیٰ خود انعام دیتا ہے، امی جواب دیتی کہ اللہ تعالیٰ اپنے کسی بھی بندے کو حکم دیتا ہے کہ اس نیک بچے کے لیے انعام رکھ دو تو اس طرح انعام آجاتا ہے بہر حال اس وقت تو ہمیں آم کھانے سے مطلب تھا پیٹر کون گنتا، یہ کھیل برسوں چلتا رہا اور جب ہم نے شعور کی منزل پر قدم رکھا تو یہ اچھی عادتیں ہم میں پختہ ہو چکی تھیں اور انعام کا لالچ ہمارے دل میں گھر کر چکا تھا، بچپن ہی سے یہ بات ہمارے لاشعور میں بیٹھ گئی تھی کہ اچھے کام کا ضرور کوئی انعام ہوتا ہے جو کہ جلد یا بدیر انسان کو مل کر رہتا ہے ہم جانتے ہیں کہ اگر ہم کسی کی مدد کریں گے کسی کو سہارا دیں گے یا اللہ کے لیے کسی کو معاف کریں گے تو ان سب کاموں پر ہمیں لازمی انعام ملے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سو فیصد سچا ہوتا ہے، لہٰذا یہی یقین ہم سے نیک عمل کرواتا چلا گیا اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ آج تک لالچ کا جو مفہوم ہم نے سمجھا ہے اسے صرف برائی کے معنوں میں لیا جاتا ہے لیکن آج میں یہ بات بڑے وثوق سے کہہ سکتی ہوں۔
دل میں بہتر ہونے کی
لالچ بھی اک عطا ہے
یعنی کسی بھی اچھے کام کے لیے ہم اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب کی توقع رکھتے ہیں تو ایسی لالچ تو ہمیں اچھا اور سچا مومن بنانے میں بہت مدد گار ہوتی ہے تو میں نے اسی وقت صدقِ دل سے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں نیکی میں سبقت لے جانے والا لالچی بنا دے۔ (آمین)۔