سیدہ عطرت بتول نقوی
زرمینہ ایک بہت خوبصورت گاؤں میں رہتی تھی اس گاؤں میں ہر طرف ہریالی تھی خوبصورت پھول اور ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشمے بہتے تھے اس گاؤں کے لوگ بہت اچھے تھے مل جل کر رہتے تھے ہر تہوار پر یہاں بہت رونق ہوتی تھی پکوان پکتے تھے،زرمینہ اور اس کی سہیلیاں ملکر گاؤں کی سیر کو نکلتیں تھیں درختوں پر لگے ہوئے امرود اور بیر توڑ توڑ کر کھاتی تھیں کسی بھی چھوٹی بچی یا بچے کو درخت پر چڑھا دیتی تھیں اور وہ بیر اور امرود توڑ توڑ کر نیچے پھینکتا تھا وہ جھولیاں بھر لیتی تھیں اور پھر سب آپس میں تقسیم کر لیتی تھیں گاؤں میں ایک اسکول تھا جہاں صبح سویرے سب بچے اسکول جاتے تھے ان کی تمام ٹیچرز انہیں بہت محنت سے پڑھاتی تھیں عرض کہ اس گاؤں میں ہر طرف امن اور سکون تھا چاندنی راتوں میں لڑکیاں اپنی ماؤں کے ساتھ گاؤں کی سیر کو جاتیں اور چوپال میں بڑے بوڑھے یعنی بزرگ پرانے زمانے کے قصے اور کہانیاں سناتے تھے جسے لڑکے بالے بڑے شوق سے سنتے تھے لیکن کچھ عرصے سے گاؤں میں ایک پریشانی کی لہردوڑ گئی تھی کیونکہ گاؤں میں چوریاں ہونے لگی تھیں زیادہ پریشانی اس بات کی تھی کہ گاؤں میں کوئی بھی اجنبی شخص نہیں آیا تھا کہ جس پر شک کیا جا سکتا ہو گاؤں والے تو سب ایک دوسرے کو عرصہ دراز سے جانتے تھے انہیں پتا تھا کہ گاؤں کا کوئی بھی بچہ یا بڑا چوری نہیں کر سکتا تو پھر یہ کس کا کام تھا؟سب اپنے اپنے طریقے سے کھوج لگانے کی کوشش کررہے تھے۔
لیکن ناکام ہورہے تھے چاچا راجو کی قیمتی کپڑے کی پگڑی جو وہ صرف شادیوں پر یا پھر کسی خاص تہوار پر پہنتے تھے،زرمینہ کی امی کے چاندی کے جھمکے،تازہ گل کا پانچ ہزار کانیانوٹ اور گل لالہ کا سونے کا ہارآخر اتنی چیزیں کون لے گیاسب پریشان تھے ۔چوریاں دن بدن بڑھتی جارہی تھیں ایک دن شام کو زرمینہ اور اس کی دوسہیلیاں پری گل اور مریم چشمے کے کنارے اس کے ٹھنڈے پانی میں پاؤں ہلیاں ڈالے بیٹھی باتیں کررہی تھیں کہ اچانک چھن چھن کی آواز آئی تینوں لڑکیوں نے پیچھے مڑکر دیکھا تو کوئی نہیں تھا وہ خوفزدہ ہو گئیں۔
امی نے کہا تھا کہ اندھیرا ہونے سے پہلے ہی واپس آجایا کرو،مریم بولی۔
ہاں ،آج باتوں میں پتا ہی نہیں چلا کہ اب ہلکا سا اندھیرا ہو گیا ہے۔پری گل نے کہا۔چلو واپس چلیں ،زرمینہ بولی ،وہ تیزی سے چلتی ہوئے واپس جا رہی تھیں کہ اچانک مریم بولی وہ دیکھو اْدھر دیکھو درختوں کے جھنڈکی طرف کیا وہ چاچا راجو بیٹھے ہیں؟تینوں نے اْدھر دیکھا انہیں چاچا راجو کی خوبصورت پگڑی صاف نظر آرہی تھی وہ حیرت سے اْدھر دیکھے جارہی تھیں کہ انہیں پھر چھن چھن کی آواز آئی یہ آواز بہت قریب سے آئی تھی اس سے پہلے کہ وہ ڈر کر بھاگتیں چھن چھن کی آواز ان کے بالکل سامنے آگئی یعنی ایک بندر یا زرمینہ نے امی کے چاندی کے جھمکے اور گلے میں سونے کا ہارپہنے کھڑی انہیں شرارت آمیز نظروں سے دیکھ رہی تھی اتنے میں چھلانگ لگا کر وہ بندر بھی سامنے آگیا جورا جو چاچا کی پگڑی پہنے کھڑا تھا پھر کیا تھا کئی اور بندر بھی آ گئے جوان بچیوں کو دیکھ کر اچھل کود کر رہے تھے اور ہر کسی کے پاس کوئی نہ کوئی چوری کی چیز تھی پہلے تو وہ تینوں حیرت سے گنگ کھڑی رہیں پھر ایک دم انہیں بہت زور سے ہنسی آگئی کہ یہ بندر تھے جو اتنے دنوں سے گاؤں والوں کی پریشانی کا باعث بنے ہوئے تھے چونکہ اندھیرا ہو گیا تھا اس لئے زرمینہ اور مریم وغیرہ کے امی ابو بھی انہیں ڈھونڈتے اْدھر آنکلے انہیں بھی معلوم ہو گیا کہ یہ بندروں کی کار ستانی تھی گاؤں والوں نے بندروں سے مال مسروقہ یعنی چوری شدہ چیزیں جو بہت قیمتی تھیں وہ تو نکلوالی تھیں جو انہوں نے اِدھراْدھر چھپائی ہوئی تھیں سونے کاہار بھی بندر یا صاحبہ سے لے لیا تھا لیکن پری گل کی امی کی کانچ کی چوریاں جن سے چھن چھن کی آواز آتی تھی وہ بندریا کے پاس ہی رہنے دی تھیں کیونکہ پری گل کی امی نے کہا ایسے بندریا جب چھن چھن کرتے آئے گی تو معلوم ہو جائے گا اور ہم اپنی چیزیں سنبھال لیں گے۔
اب گاؤں والے بندروں سے ہو شیار ہو گئے تھے اور گاؤں میں پھر سکون ہو گیا تھا جو شاید کسی دوسرے گاؤں سے نکالے گئے بندروں کے ہاتھوں ختم ہورہا تھا۔