مولانا عبدالرشید غازی سے مولانا فضل الرحمٰن تک

1927

عبدالرشید غازی جو بعد میں مولانا کہلائے، قائداعظم یونیورسٹی سے 1988ء میں انٹرنیشنل ریلیشنز میں ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اقوامِ متحدہ کی تنظیم یونیسکو میں ملازم ہوگئے۔ ان کے والد لال مسجد اسلام آباد کے خطیب مولانا عبداللہ غازی تھے۔ جن دنوں سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد چل رہا تھا تو اُن کی مسجد اسلام آباد میں اس جہاد کی نقیب اور اس میں حصہ لینے والوں کا ایک مرکز و محور ہوتی تھی۔
عبدالرشید غازی جب ایم اے کی ڈگری حاصل کرکے عملی زندگی میں آئے تو روس افغانستان چھوڑ چکا تھا اور مجاہدین کے مختلف گروہ آپس میں برسرِپیکار تھے اور پورا افغانستان خانہ جنگی کی آگ میں جل رہا تھا۔ پاکستان میں موجود علمائے کرام بھی اپنی پسند اور اپنی نیابت والے مجاہدین کا ساتھ دیتے تھے۔ قاضی حسین احمد، مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمن کے اپنے اپنے محبوب افغان مجاہدین کے گروہ تھے۔ اسی دوران افغان سرزمین کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ملّا عمر مجاہد جیسا فرزند عطا فرمایا، جس نے 1994ء کے آخر میں اس خانہ جنگی اور تشدد کے خلاف جہاد کا اعلان کیا، اور صرف چند مہینوں میں ایک پُرامن حکومت قائم کرکے دکھائی۔ ایسی حکومت جس نے افغانستان کو عدل وانصاف سے بھر دیا۔
مولانا عبداللہ غازی اپنے اس جدید تعلیم یافتہ بیٹے عبدالرشیدغازی کو ہمراہ لے کر ملّا محمد عمر مجاہد سے ملاقات کے لیے اکتوبر 1998ء میں قندھار چلے گئے۔ اس دوران اُن کی ملاقات اسامہ بن لادن سے بھی ہوئی۔ عبدالرشید غازی کو افغانستان میں امن و امان، خوش حالی اور انصاف نے اس قدر متاثر کیا کہ انہوں نے اقوام متحدہ کی نوکری چھوڑ کر شریعت کے نفاذ کے لیے زندگی وقف کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ملاقات کے دوران اسامہ بن لادن ایک گلاس سے آہستہ آہستہ پانی پی رہا تھا۔ عبدالرشید غازی نے اُس کا گلاس اٹھایا اور اس میں سے بچا ہوا پانی پی لیا۔ اسامہ نے سوال کیا ’’تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘ تو عبدالرشید غازی نے جواب دیا ’’تاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ مجھے آپ جیسا مجاہد بنا دے۔‘‘
پاکستان واپسی پر عبدالرشید غازی کے سر پر عمامہ تھا اور داڑھی بڑھ چکی تھی۔ لیکن پاکستان واپسی کے صرف ایک ہفتے بعد اُن کے والد مولانا عبداللہ غازی کو شہید کردیا گیا۔ اب عبدالرشید غازی کی زندگی بدل چکی تھی۔ یونیسکو کی ملازمت ترک کرکے وہ لال مسجد کا مکین ہوگیا۔
ادھر پوری دنیا ملّا محمد عمر کی افغانستان میں حکومت کے خاتمے کے درپے ہوچکی تھی۔ 11 ستمبر 2001ء کا ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ ایک بہانہ تھا جس نے افغانستان پر چڑھ دوڑنے کا راستہ ہموار کیا۔ پاکستان پر اُس وقت جنرل پرویزمشرف کی حکومت تھی جس نے افغان مسلمانوں کے خلاف اس عالمی اتحاد اور امریکا کا بدترین انداز میں ساتھ دیا۔
پرویزمشرف کے اس فیصلے کے خلاف پہلی آواز مولانا عبدالرشید غازی نے بلند کی۔ حکومت امریکی حملوں میں مدد و معاونت میں اس قدر مصروف تھی کہ اس نے اس آواز کو دبانے پر فوری طور پر دھیان نہ دیا۔ ظاہر ہے جو ملک چھ سو کے قریب مسلمان پکڑ کر امریکا کے حوالے کرکے پیسے کمائے، اور جس ملک کے تین ہوائی اڈوں سے 57 ہزار امریکی ہوائی جہازوں نے اُڑان بھر کر افغانوں پر بم برسائے ہوں، اُسے امریکی ہمراہی کے نشے میں فرصت ہی کہاں تھی۔ تین سال بعد جب افغانستان میں حملوں کی گرد بیٹھی تو اگست 2004ء میں عبدالرشید غازی کے بارے میں حکومت نے اعلان کیا کہ وہ صدر پرویزمشرف، پارلیمنٹ اور فوج پر حملے کی منصوبہ بندی میں ملوث ہیں۔ عبدالرشید غازی کے خلاف اعلان کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے آمنہ مسعود جنجوعہ اور خالد خواجہ کے ساتھ مل کر 2004ء میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے ایک تنظیم بنائی تھی۔ یہ وہ احتجاج تھا جو پرویزمشرف اور اس کے ملکی و غیر ملکی ساتھیوں کو ہضم نہیں ہورہا تھا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ ایک تاریخ ہے۔
لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا آپریشن اس مملکتِ خداداد کا سیاہ ترین باب ہے۔ آپریشن کے بعد پرویزمشرف نے سوالات سے تنگ آکر کہا تھا کہ ’’کیا قتل و غارت کا شور مچایا ہوا ہے، صرف 90 لوگ ہی تو مرے ہیں۔‘‘
انسانی جانوں کی یہ تذلیل اس سانحے کا بدترین منظر تھا۔ جس دوران لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے اٹھنے والی عبدالرشید غازی کی اس تحریک کے نتیجے میں حکومت لال مسجد پر ایکشن کررہی تھی تو مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی اور قاضی حسین احمد کی جماعت اسلامی کا باہم اتحاد متحدہ مجلس عمل کی صورت اسمبلی میں براجمان تھا اور سرحد کی حکومت کے مزے لوٹ رہا تھا۔ اپریل 2007ء میں جب تمام اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ ساتھ سیکولر لبرل میڈیا کے ہر اینکر نے پرویزمشرف کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر لال مسجد کے خلاف محاذ بنایا تو اُس وقت مولانا فضل الرحمن ایسے خاموش ہوئے کہ انہوں نے اپنا ٹیلی فون کسی عبدالستار نامی شخص کو تھما دیا، جو ہر صحافی اور میڈیا کے آدمی کو یہ جواب دیتا تھا کہ ’’مولانا جامعہ حفصہ اور لال مسجد پر کوئی بیان نہیں دیں گے۔‘‘ پھر ان کی اس بدترین خاموشی کے دوران جب ایک دن لال مسجد پر آپریشن ہورہا تھا تو اس لمحے مولانا جمہوریت کی بقا، آئین کے تحفظ اور سسٹم کے تسلسل کے لیے خاموشی سے ملک سے ہی باہر چلے گئے تھے۔
آج بارہ سال بعد مولانا نے ایک کوشش کی کہ شریعت، تحفظِ ناموسِ رسالت اور ختمِ نبوت کے نام پر لوگوں کو اکٹھا کر سکیں۔ لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز جیسا نعرۂ مستانہ بھی لگایا۔ لیکن بلاول زرداری کی سرِعام ڈانٹ اور شہبازشریف کی پراسرار خاموشی کے بعد دبک کر بیٹھ گئے اور واپس اسی جمہوریت کی بقا، آئین کے تحفظ اور حکمرانوں سے نجات پر تحریک چلانے کے لیے راضی ہو گئے۔ ظاہر ہے جس دسترخوان سے آپ نے پچاس سال کھایا، جس سسٹم کی مراعات پر آپ کا گزر بسر ہوا، جس سسٹم نے آپ کو عوام الناس، میڈیا اور سیاست میں پہچان عطا کی، اب اسے کون چھوڑنے دے گا! جمہوریت کا کمال یہ ہے کہ یہ ہر اُس شخص کی رگوں میں میٹھے زہر کی طرح سرایت کرتی ہے جو کسی بھی نظریے کے تحت انقلاب کا نقیب ہوتا ہے، جمود کو توڑنا چاہتا ہے، مروجہ نظام معیشت و سیاست و معاشرت کو بدلنا چاہتا ہے۔ کمیونسٹ تو کہا کرتے تھے کہ جمہوریت، انقلابی سوچ کے غبارے میں چھوٹا سا سوراخ کرکے اُس میں سے آہستہ آہستہ ہوا نکال دیتی ہے، جس کی وجہ سے وہ ایک دم طاقتور قوتوں کے منہ پر نہیں پھٹتا۔
جمعیت علمائے اسلام گزشتہ 70 سال سے پاکستان میں سیاست کررہی ہے۔ اسے معلوم ہے کب اسٹیبلشمنٹ کے جھولے پر جھولنا ہے اور کب جمہوریت کی بس پر سوار ہونا ہے۔ مولانا کو بہ خوبی علم ہے کہ جمہوریت کی بس کا انجن اسٹیبلشمنٹ کی مشینری سے تیار ہوتا ہے اور اسے وہی ڈرائیور چلا سکتا ہے جو مقررہ اسپیڈ سے آگے نہ جائے۔ اگر کوئی ڈرائیور اسپیڈ سے آگے بڑھنے لگے یا مقررہ روٹ سے کسی دوسری سمت گاڑی کو موڑ لے تو اوّل توگاڑی کے مسافرہی اسے بدل دیتے ہیں۔ اگر ایسا ممکن نہ ہوسکے تو گاڑی کے اردگرد رکاوٹیں کھڑی کرکے ڈرائیور کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ راستہ بدلے اور نہ ہی اسپیڈ بڑھائے۔ اگر ایسا بھی ممکن نہ ہو تو گاڑی کو روکنے کے لیے ہجوم اس کے سامنے لاکھڑا کیا جاتا ہے جو تیز رفتار گاڑی کے پہیوں تلے کچلا جاتا ہے۔ لیکن تھوڑی دور جاکر گاڑی بھی خراب ہوکر رک جاتی ہے۔ پھر نئی گاڑی، نیا انجن، نیا ڈرائیور، نیا روٹ۔ مولانا کو گاڑی کے سامنے لاکر کھڑا کردیا گیا ہے۔ جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز اور عبدالرشید غازی کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا تھا۔ تصادم ہوا اور عبدالرشید غازی اور ان کے ساتھی اللہ اور اس کے رسولؐ کے دین کی سربلندی کے نعرے لگاتے اگلے جہان جا پہنچے۔ ان نعروں کو میرا اللہ پہچانتا ہے اور عرش والے بھی خوب جانتے ہیں۔ لیکن مولانا فضل الرحمن کے جمہوریت، آئین اور سسٹم کی بقا کے نعروں کو بھی عرش والے خوب جانتے ہیں۔ ہر کوئی روزِ قیامت اسی پرچم تلے اٹھایا جائے گا جس کے لیے اس نے جان دی تھی۔ اللہ مولانا فضل الرحمن پر رحم کرے۔

حصہ