’’رشید بھائی! نویں جماعت کا سائنس کا رزلٹ آگیا ہے، آپ کے بیٹے کا کیا ہوا؟‘‘
’’فرسٹ ڈویژن لی ہے، فرسٹ ڈویژن۔‘‘
’’وہ کیسے؟ ابھی تو نویں کے پیپر دیے تھے، فرسٹ ڈویژن کے بارے میں تو میٹرک کے نتائج آنے پر پتا چلے گا۔‘‘
’’یہی توکہہ رہا ہوں کہ نویں کلاس میں فرسٹ ڈویژن کے نمبر لیے ہیں۔‘‘
’’ماشاء اللہ، مبارک ہو، بڑا ذہین بچہ ہے آپ کا۔ میرے بیٹے نے بھی نویں جماعت کے پیپر دیے تھے، کمبخت 60فیصد نمبر لے کر پاس ہوا ہے۔‘‘
’’پڑھائی میں دل نہیں لگتا ہوگا، جو بچے دل جمعی سے پڑھتے ہیں وہی کامیاب ہوتے ہیں۔ میرا بیٹا کتابوں کا کیڑا ہے، دن رات پڑھنے اور پڑھانے میں ہی لگا رہتا ہے، خاصی محنت کرتا ہے، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ تعلیم پر دھیان دینے والے بچے ہی اچھے نمبر حاصل کرتے ہیں۔‘‘
’’کہہ تو تم ٹھیک ہی رہے ہو۔ خیر ندیم کو رزلٹ لے کر ہمارے گھر ضرور بھیجنا، اُس کا رزلٹ دیکھ کر شاید خالد بھی پڑھائی میں دل لگانے لگے۔‘‘
’’ضرور ضرور، کیوں نہیں۔‘‘
………
’’ابھی رشید بھائی ملے تھے، بہت خوش تھے۔ ظاہر ہے جس کے بیٹے نے فرسٹ کلاس پوزیشن حاصل کی ہو وہ بھلا کیوں خوش نہ ہوگا! باپ کا سینہ چوڑا کردیا ہے بیٹے نے۔ سارے محلے میں ندیم کی پڑھائی کے ہی چرچے ہورہے ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں! لائق بچہ ہے، ہمارے بیٹے کی طرح تھوڑی ہے جسے گھومنے پھرنے کے سوا کچھ نہیں آتا، جاہل کہیں کا۔‘‘
’’کیا ہوگیا، کیوں بڑبڑا رہے ہو؟ تمہارا بیٹا بھی تو پاس ہوگیا ہے۔ اور جہاں تک ندیم کی بات ہے اُس کی تو رہنے ہی دو۔ اس کا تو سارا خاندان ہی جھوٹا ہے۔ اور اس کا باپ… خدا کی پناہ، بغیر رزلٹ دکھائے لوگوں سے مبارک بادیں وصول کرتا پھر رہا ہے۔ میرے بچے نے تو بہت محنت کی تھی، اس کے رزلٹ کو دیکھ کر تو اسکول ٹیچرز بھی حیران ہیں، جنہوں نے پڑھایا وہ بھی ماننے کو تیار نہیں تو پھر میں کیسے مان لوں! اسکول پرنسپل نے بورڈ آفس جانے کا مشورہ دیا ہے۔ یہ ساری شرارت وہیں سے کی گئی ہے۔ جس دن سے نتیجہ آیا ہے، میرا بچہ رو رو کے ہلکان ہوئے جارہا ہے، اور تم ہو کہ اپنے بچے کو ہی کوس رہے ہو!‘‘
’’مجھے معلوم ہے مائیں نرم دل ہوتی ہیں، لہٰذا تمہارا ردعمل فطری ہے، لیکن لکھے کو کون جھٹلا سکتا ہے! حقیقت یہ ہے کہ ہمارا بچہ 60فیصد نمبر لے کر بڑی مشکل سے صرف پاس ہی ہوا ہے۔‘‘
’’ہاں ہاں مجھے معلوم ہے کہ خالد صرف پاس ہی ہوا ہے، شکر کرو فیل نہیں ہوا۔ طنز کرنا تو کوئی تم سے سیکھے۔‘‘
’’یہ طنز نہیں، حقیقت ہے۔‘‘
’’حقیقت کیا ہے وہ میں اچھی طرح جانتی ہوں، بلکہ نویں جماعت کے نتائج میں ہونے والی غلطیوں پر تو چیئرمین میٹرک بورڈ کا اعترافی بیان بھی عوام کے سامنے ہے، جس میں وہ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ سیریز میں غلطیاں ہوئی ہیں جس کی درستی کے لیے کام کیا جارہا ہے۔ اُن کے بقول کراچی بورڈ کے تحت لاکھوں بچے امتحان دیتے ہیں اس لیے انسانی غلطی کا ہوجانا فطری عمل ہے، نویں جماعت کے رزلٹ کے معاملے میں بچوں اور والدین کو مطمئن کیا جائے گا۔ ان باتوں کی تمہیں خبر نہیں تو کسی سے پوچھ کر دیکھ لو، جس دن سے رزلٹ آیا ہے لوگوں کے گھر صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے، ہر دوسرے بچے کی مارک شیٹ میں غلطی کی گئی ہے۔ جن بچوں نے 80 سے90 فیصد نمبر حاصل کیے ہیں انہیں بھی سندھی کے پرچے میں پاسنگ مارکس دیے گئے ہیں، لاکھوں بچوں کے رزلٹ میں یہی کچھ کیا گیا ہے، جس سے شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہی کچھ پہلے میٹرک کے نتائج میں بھی ہوچکا ہے… کبھی ناموں میں غلطیاں، تو کبھی رول نمبر غلط… کسی کے ایڈمٹ کارڈ پر کسی دوسرے کی تصویر… کوئی غیر حاضر، تو کسی کا رجسٹریشن فارم ہی گم کردیا جاتا ہے۔ یہ تعلیمی بورڈ ہے یا پرچوں کی دکان! میٹرک بورڈ کراچی کی جانب سے جاری کردہ مارک شیٹس کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ’’کے ۔ الیکٹرک‘‘ کے اضافی بل ہوں… اور پھر یہ سب کچھ موجودہ چیئرمین بورڈ ڈاکٹر سعیدالدین کے زمانے میں ہی کیوں ہورہا ہے؟ ہم نے بھی اسی شہر میں تعلیم حاصل کی ہے، پرچے بھی اسی بورڈ کے تحت دیے ہیں، ہمارے زمانے میں کبھی کسی کا ایڈمٹ کارڈ تک نہیں روکا گیا۔ نہ جانے اب ایسا کیا ہوگیا ہے! مجھے لگتا ہے کہ میٹرک بورڈ کراچی اب بوڑھا ہو گیا …جب ادارے اپنے منظورِ نظر افرادکو عارضی بنیادوں پر تعینات کرکے چلائے جانے لگیں تو اسی قسم کے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ امتحانات لینا ناظمِ امتحانات کا کام ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اِس وقت بورڈ بغیر کنٹرولر کے چلایا جارہا ہے۔ ظاہر ہے جب کوئی ذمہ دار شخص ہی موجود نہ ہو تو غلطی نہیں بلکہ غلطیاں ہوا کرتی ہیں۔ اور اخبارات میں آنے والی اس خبر کو بھلا کون جھٹلا سکتا ہے جس کے مطابق 2018ء کے سالانہ امتحانات سے محض 17روز قبل اچانک قائم مقام ناظم امتحانات خالد احسان کو تبدیل کردیاگیا تھا۔ یہ تبدیلی ایسے وقت کی گئی تھی جب محکمہ بورڈ و جامعات نے سندھ کے تمام تعلیمی بورڈز میں مستقل ناظم امتحانات کے لیے چند روز قبل ہی اشتہار دیا تھا۔ یہ تبدیلی اسی دوران کی گئی تھی جب محکمہ اینٹی کرپشن نے انٹربورڈ کراچی کا، نتائج تبدیل کرنے پر ریکارڈ تحویل میں لے رکھا تھا۔ لیکن وہاں کوئی ایکشن لینے کے بجائے میٹرک بورڈ کراچی کے کنٹرولر خالد احسان جن پر کرپشن کا کبھی الزام نہ تھا، کو فارغ کرکے اُن کی جگہ عبدالرزاق ڈیپرکو لگا دیا گیا۔خبر کے مطابق سینیارٹی کے لحاظ سے خالد احسان ڈپٹی کنٹرولر ہیں اور اُن کا پہلا نمبر ہے، دوسرے نمبر پر سید محمد علی ہیں، جبکہ تیسرے نمبر پر عبدالرزاق ڈیپر آتے ہیں۔
میں حکومتِ سندھ خصوصاً وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ سے جن کے پاس وزارتِ تعلیم کا قلمدان بھی ہے، اپیل کرتی ہوں کہ خدارا میٹرک بورڈ کراچی کی جانب سے جاری کردہ جماعت نہم سائنس کے نتائج میں ہونے والے گھپلوں کا سنجیدگی سے نوٹس لیں، ایک بااختیار کمیشن قائم کرکے بورڈ کی جانب سے جاری کردہ نتائج میں آئے دن ہونے والی یا کی جانے والی غلطیوں کی تحقیقات کروائی جائے، تاکہ مستقبل کے معماروں کا تعلیمی مستقبل محفوظ بنایا جاسکے۔‘‘
………
خالد کی والدہ کی جانب سے میٹرک بورڈ کراچی کی کارکردگی پر اٹھائے جانے والے سوالات تعلیمی حلقوں کے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہیں۔ ان کی طرف سے خاص طور پر جماعت نہم سائنس کے رزلٹ کے بارے میں جو کچھ کہا گیا وہ ہمارے امتحانی ڈھانچے خصوصاً کاپیاں چیک کرنے کے طریقۂ کار پر کاری ضرب ہے۔ اس صورتِ حال میں جب ایک عام شہری لاکھوں طلبہ وطالبات کا امتحان لینے والے ادارے کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے، میرے نزدیک ان سوالات یا الزامات کی حقیقت کو جاننا انتہائی اہم اور ضروری کام ہے۔ بس اسی سلسلے میں یا یوں کہیے خالد کی والدہ کی طرف سے کراچی بورڈ پر امتحانی نتائج میں ردوبدل کرنے جیسے الزامات لگائے جانے کی تحقیق کے لیے اپنے گھر سے کچھ ہی دور ایک نجی اسکول میں جاپہنچا، جہاں میرے پہنچنے کی وجوہات جاننے کے بعد اسکول پرنسپل نے بھی نہ صرف خالد کی والدہ کی تمام باتوں سے اتفاق کیا بلکہ میری ملاقات جماعت نہم سائنس کی ایسی کئی طالبات سے بھی کروائی جو بورڈ کی جانب سے کی جانے والی غلطی یعنی سندھی کے پرچے میں بہ مشکل پاس تھیں۔
ایک بچی نے روتے ہوئے بتایا کہ میں نے باقاعدگی سے تمام پرچے دیے، دن رات محنت کی، لیکن مجھے دو پرچوں میں غیر حاضر کردیا گیا، اب کہتے ہیں بورڈ سے رجوع کرو، اس میں میری کیا غلطی ہے! والد صاحب علی الصبح فیکٹری چلے جاتے ہیں، میں بورڈ آفس کس کے ساتھ جاؤں؟ پرنسپل صاحب نے کہا ہے کہ فکر نہ کرو، کسی کو اسکول سے بھجوا دیں گے، تم پڑھائی پر توجہ دو۔ ایسی صورت میں پڑھائی میں کیسے دل لگ سکتا ہے جب غلطیاں بورڈ کرے اور بھگتنا پڑھنے والے بچوں کو پڑے۔ میرے چاچو بیرون ملک مقیم ہیں، وہ کہتے ہیں کہ وہاں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، ان کے لیے آسانیاں پیدا کی جاتی ہیں۔ ہمارے یہاں تو الٹا نظام ہے، ایک طرف چیئرمین بورڈ کہتے ہیں بورڈ کی جانب سے کی جانے والی غلطیوں کا ازالہ کیا جائے گا، طلبہ کو اسکروٹنی کے مراحل سے گزرنا نہیں پڑے گا… جبکہ اگلے ہی روز اپنی ہی پریس ریلیز سے مکرتے ہوئے فرمان جاری کرتے ہیں کہ طلبہ و طالبات کو اسکروٹنی فارم جمع کروانا ہوگا۔ اس طرح چھوٹے چھوٹے بچوں کو بورڈ کی لمبی قطاروں میں کھڑا رہنے پر مجبور کردیا گیا ہے، اور یوں طلبہ کو بورڈ کی جانب سے کی جانے والی غلطیوں کا خمیازہ دفتروں کی سیڑھیاں چڑھنے اترنے کی صورت بھگتنا پڑرہاہے۔
………
میں جب تک اس نجی اسکول میں رہا، نویں جماعت کی طالبات کی زبانی بورڈ انتظامیہ کے خلاف اسی قسم کا ردعمل سننے کو ملا۔ طالبات کی جانب سے کی جانے والی باتیں خالد کی والدہ کے میٹرک بورڈ کراچی پر لگائے جانے والے الزامات پر مہر تصدیق ثبت کررہی تھیں۔