افشاں نوید
جب اساتذہ کا عالمی دن منایا جاتا ہے تو ہم اپنی زندگی میں بچپن سے اب تک کے استادوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ کوئی پرائمری اسکول کا سخت گیر استاد نظروں میں پھر جاتا ہے، تو کوئی کالج کی خوبرو لیکچرر، جن کی باتوں سے گلوں کی خوشبو آتی تھی، کوئی یونیورسٹی کے بے نیاز سے استاد، جن کو طالب علموں سے کوئی دلچسپی ہی نہ تھی، ہر ملاقات پر انھیں بتانا پڑتا تھا کہ ہم بھی آپ کے شاگردوں کے حلقے میں شامل ہیں۔
ہم باربار سوچتے ہیں کہ ہمارے اساتذہ نے ہمیں کیا دیا۔ پھر ایک دو ہی اس قطار میں نظر آتے ہیں جن سے ہمارا کوئی قلبی یا روحانی تعلق رہا ہو۔
اصل میں اکثر استاد اس پیشے کو روزگار کے ذریعے کے طور پر اختیار کرتے ہیں۔ پھر ہمارے ہاں استاد کو نہ مشاہرہ ہی پُرکشش دیا جاتا ہے، نہ ان کی پیشہ ورانہ تربیت کا حکومتی سطح پر کوئی اہتمام ہے۔ جہاں اسکول ہی گھوسٹ ہوں وہاں اساتذہ لازماً گھوسٹ ہی ہوں گے۔
ہم نے معاشرے میں نہ استاد کا مقام بنانے کی کوشش کی، نہ اس کے معاش کی پروا کی۔ ردعمل کے طور پر تعلیم کی منڈی وجود میں آگئی جہاں استاد کی بھی قیمت لگتی ہے اور شاگرد بھی پوٹلیاں ساتھ لاتے ہیں۔
البتہ پرائیویٹ سیکٹر ضرور اس حوالے سے حساس ہے، اور وہاں اساتذہ کی تربیت کا ماحول و اہتمام نظر آتا ہے۔
ہم اپنی زندگی میں ضرور تلاش کریں اُن اساتذہ کو، جن سے ہماری کوئی وابستگی ہو، یا یادوں کے البم میں کوئی خوب صورت تصویر موجود ہو۔
بات یہ ہے کہ بحیثیت استاد ہم نے کسی کو کیا دیا؟ ضروری نہیں کہ استاد رسمی کمرۂ جماعت میں کھڑے ہوکر پڑھانے والے ہی کو سمجھا جائے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنے ڈومین میں استاد ہے۔ ہم لوگوں کی زندگیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ وہ ہم سے کچھ نہ کچھ سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ہم شعوری طور پر خود کو استاد نہ بھی سمجھیں تو ہماری اولاد، اُن کے متعلقین، ہمارے حلقۂ احباب میں ہمارا اثر ہوتا ہے۔ ہماری گفتگو کے موضوعات کیا ہوتے ہیں؟ ہمارے رویّے، ہمارے اخلاق کیا درس دیتے ہیں لوگوں کو؟
کچھ لوگ آپ کو اپنے اطراف میں بے چارے سے نظر آتے ہیں، جن کو پتا ہی نہیں کہ وہ اشرف ہیں مخلوق میں۔ کچھ بہت زیادہ پُراعتماد، اتنے بلند ہمالیہ کہ سر جھکا کر گزرنے میں ہی عافیت ہے اُن کے سامنے سے۔
یہ بہت سے لوگوں کی اقسام اس لیے نہیں کہ ہم اچھے لوگوں کو تلاش کرتے رہیں۔ بس قدرت موقع دیتی ہے کہ ہم خود کس کیٹگری میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔
اولاد کے لیے والدین سے بڑا استاد کون ہوگا؟ ہمارے خاندان میں ہم اپنے چھوٹوں کے لیے بمنزلہ استاد ہیں۔ ہم ہمہ وقت مکتب میں ہیں۔ سیکھ رہے ہوتے ہیں یا سکھا رہے ہوتے ہیں۔
استاد کے ہاتھ میں قلم ہوتا ہے اور فکر میں اجالا۔ ہم لوگوں کی زندگیوں میں بہت کچھ رقم کررہے ہیں۔ ہم وہ عظیم امت ہیں جس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا تعارف ہی ’’معلم‘‘ کہہ کر کرایا تھا۔ یہ معلمی ہم سب کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وراثت میں ملی ہے۔ خود کو شعوری طور پر استاد سمجھیں… یہی پیغام چھپا ہے آج کے دن… عالمی یومِ استاد میں۔
…٭…٭…
بیٹی کی سہیلی کے والد کی وفات پر تعزیت کے لیے جانا ہوا۔ خواہش تھی کہ والدہ سے ملیں، دلاسہ دیں، صبر کے اجر کی آس دلائیں۔ پتا چلا وہ دوسرے کمرے میں ہیں، ان کو آرام کی ضرورت ہے اس لیے ملنا ممکن نہیں۔
ہمارے شہر میں اب لوگ شادی یا غمی کے موقع پر ہی مل پاتے ہیں۔ فاصلے اور مصروفیات اتنی بڑھ گئی ہیں کہ ان مواقع کو غنیمت جانتے ہیں کہ مبارک باد کا موقع ہو تو اہلِ خانہ کی مبارکی کے بعد باہم ملاقاتوں کا نادر موقع ہاتھ آجاتا ہے۔ اسی طرح تعزیت کے ساتھ اپنے بچھڑوں سے بھی ملاقات ہوجاتی ہے عموماً۔
سہیلی کی بہن مہمانوں کے درمیان آکر بولیں ’’برائے مہربانی گفتگو سے گریز کریں اور دوسرا قرآن مکمل کرنے کی کوشش کریں، ابھی نصف پارے باقی ہیں‘‘۔ یہ سن کر کچھ خواتین نے سپارے اٹھا لیے، کچھ تسبیح پڑھنے لگیں۔
کچھ یوں آوازیں سماعتوں سے ٹکرائیں کہ اتنی بار البقرہ ہوگئی، فلاں سے کہو جلدی مکمل کرلے۔ سورہ ملک اتنی بار میں پڑھ چکی، اتنی بار تم پڑھ لو۔
جاکر دیکھو کلمہ کا ورد کتنی بار پورا ہوچکا۔ پڑھے بے پڑھے چیئیں کوئی ملا نہ دے۔
اسی طرح سپاروں کی حساسیت کہ پڑھے بے پڑھے الگ الگ رکھو، مل نہ جائیں۔
ارے بھائی کو بتادیا کہ اتنی ہزار بار کلمہ، اتنی سورۃ البقرہ، اتنی الملک ختم ہوگئی ہیں۔
میں نے ہمت کرکے پوچھ ہی لیا کہ بھائی کو بتانا کیوں ضروری ہے؟ جواب ملا کہ تدفین کے وقت بخشی جائیں گی یہ سورتیں اور دیگر پڑھا ہوا۔
میں یہ سوچ کر خاموش ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ کو گنتی سے کیا سروکار…؟
جو سپارے باقی رہ گئے تیسرے قرآن کے، وہ گھر جاکر پڑھنے کے لیے سب کو تقسیم کردیے گئے، یعنی نمبر الاٹ کردیے گیے کہ فلاں سے فلاں نمبر تک تم پڑھوا دینا۔
ایک بہن بولیں ’’ماشاء اللہ والدِ بزرگوار اتنے نیک آدمی تھے کہ تین قرآن آج ہاتھ کے ہاتھ ہی ختم ہوگئے۔ سوئم کے دن اتنے لاکھ یہ وظیفہ اور ہوجائے گا۔ اتنے قرآن مزید ہوجائیں گے۔‘‘
میں سوچنے لگی کہ ہم سماج میں شادی کی تقاریب پر اظہارِ خیال کرتے ہیں۔ اسراف اور ناجائز رسموں کی بات کرتے ہیں، لیکن تعزیت کی ناجائز رسمیں جانے کیوں ہمیں جائز لگتی ہیں؟ موت کے گھر میں انتہائی اہتمام سے دسترخوان لگنا… غم زدہ اہلِ خانہ بھاگ بھاگ کر کھانا کھلاتے ہیں۔
مجھے بہت مناسب لگا جب ہم ایک ساتھی کے ہاں تعزیت کے لیے گئے تو گھر کی دال سبزی وغیرہ دسترخوان پر رکھ کر انھوں نے اُس وقت گھر میں موجود افراد کو بہ اصرار مدعو کیا۔ بولیں ہمارے ہاں یہ طریقہ ہے کہ قریبی عزیز گھر کی پکی چیزیں لے آتے ہیں، خصوصی کھانوں کا اہتمام نہیں ہوتا، نہ ہم گھر کے مکینوں کو کھلانے کی زحمت دیتے ہیں، رشتے دار، اڑوس پڑوس کے لوگ انتظام سنبھال لیتے ہیں۔ شریعت کا منشاء بھی یہی ہے کہ غم زدہ اہلِ خانہ کر تکلیف نہ دی جائے، ان کے گھر کی خبر رکھی جائے۔ البتہ کچھ لوگ یہاں بھی شدت پسندی دکھاتے ہیں، چھوٹے بچوں کے کھانے و دودھ کے لیے بھی چولہا نہیں جلاتے کہ موت کے گھر میں تین دن چولہا نہیں جلنا چاہیے۔ جبکہ شریعت میں کہیں ایسا کچھ نہیں۔
میرؔ کے زمانے سے آج تک بیشتر جگہوں پر احباب پلاؤ کھا کر فاتحہ پڑھ رہے ہوتے ہیں۔
ہم شاید اس لیے زبان نہیں کھولتے کہ اقرباء کا غم زدہ دل مزید نہ دُکھ جائے۔
کتنی زیادتی ہے کہ جس کی بخشش کے طلب گار ہیں اُس کا بوجھ دوسروں کے کاندھوں پر ڈال دیں۔ آنے والے مجبور کیے جائیں کہ اتنا پڑھنا لازمی ہے۔آپس میں باتیں نہ کریں صرف بخشش کی فکر کریں اور پڑھتے رہیں۔
اگر آپ کے گھر تعزیت کے موقع پر اعزہ واقارب آپس میں مل لیے تو اس کا اجر آپ کو بھی ملے گا۔ عموماً لوگ مرحومین کی صفات ہی بیان کررہے ہوتے ہیں ان مواقع پر۔ بات رہی غیبت کی، تو تعزیت کا موقع کیا کسی بھی موقع پر غیبت جائز نہیں ہے۔
ان مواقع پر پڑھنے پر مجبور کرکے جو پڑھوایا، اس کا کیا ثواب ہوگا!
اوّل تو اتنا اور اتنا پڑھوانے کا ہمیں تو کسی مستند حدیث سے نہیں پتا۔ دوئم یہ کہ جو قرآن زندوں کے لیے ہے اس کو اہتمام سے مُردوں کے لیے پڑھا جائے اور زندوں کو پتا ہی نہ ہو کہ اس کتاب میں کیا لکھا ہے…؟
والدین کے درجات کی بلندی کے لیے پڑھنے پڑھانے سے ہزار گنا بہتر یہ ہے کہ ان سے منسلک رشتوں کو جوڑنے کی کوشش کی جائے۔ ان کے حقوق ہر صورت ادا کیے جائیں۔ بجائے مسجدوں میں قرآن رکھنے کے، خاندان کے مستحق افراد کی دلجوئی کی جائے۔ مرنے والا اپنے پیچھے رشتے سب چھوڑ جاتا ہے۔ ان رشتوں کو کیسے نبھایا یہی مرنے والے کے ساتھ تعلق کا اصل امتحان ہے۔ ہم پڑھنے پڑھانے سے آگے سوچنے پر تیار ہی نہیں ہوتے۔
…٭…٭…
سرخ تربوز اور شہلا کی نازک انگلیاں!!!
بیس برس سے کچھ زائد عمر لگتی ہے اس کی۔ ہاتھ انتہائی سخت اور کھردرے۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو بولی: ’’باجی تربوز بہت سخت ہوتے ہیں۔ ان کو اتارنا آسان نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی تو میرے ہاتھ زخمی بھی ہوجاتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا: ’’بیٹا! تربوز تو سال میں ایک بار ہی اتارتی ہوگی ناں۔‘‘ بولی: ’’اس کی بوائی اس سے بھی مشکل کام ہے۔ میں، ساس، نند سب مل کر کرتے ہیں۔ ہمارا تو دن کھیتوں میں ہی گزرتا ہے۔ تربوز تو چند ہفتے ہی لیتے ہیں مگر مجھے گائے کے چارے کے لیے ہر دوسرے دن نکلنا پڑتا ہے۔ چارے کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے۔ جو فصلیں کٹ چکی ہوتی ہیں ان کے بقایا جات ڈھونڈنے کے لیے کبھی کبھی دور کھیتوں میں جانا پڑتا ہے۔ کبھی کسی کھیت کا مالک بے عزتی کردیتا ہے تو اُس دن میری اپنے میاں سے بہت لڑائی ہوتی ہے۔ صرف چارہ کاٹنا ہی تھوڑی ہوتا ہے، اس کا گٹھا بناکر پیٹھ پر اٹھانا بھی ہوتا ہے۔ اب میری کمر مسلسل درد کرتی ہے۔ میاں کہتا ہے مضبوط بنو، اب تم کراچی میں نہیں ہو، یہ گاؤں کی زندگی ہے۔‘‘
یہ ماسی کی بیٹی شہلا ہے۔ تین برس قبل شادی ہوکر پنجاب گئی ہے۔ والدین کام کی تلاش میں دو عشرے قبل کراچی آئے تو یہیں کے ہوگئے۔ اب میکے آئی ہوئی ہے تو ماں کا ہاتھ بٹانے کے لیے گھروں میں جھاڑو برتنوں میں مدد دیتی ہے۔ سارا دن گھر سے باہر کی مشقت، میکے کی گھٹی میں پڑی ہے۔
کوئی ہمدردی دکھائے تو پتھر دل بھی پانی ہوجاتے ہیں۔ دوپٹہ کمر کے گرد لپیٹے اپنی ان کہی شیئر کرتی رہتی ہے اس تاکید کے ساتھ کہ ’’اماں کو نہ بتانا باجی، میری نند میری بھاوج بھی ہے، ہمارے ہاں تو وٹہ سٹہ ہوتا ہے ناں۔ ماں میری دکھ بیتی سنے گی تو بھاوج کے ساتھ رویّے میں فرق آئے گا۔ اس کی سزا مجھے ساس کی بدسلوکی کی صورت میں بھگتنا ہوگی۔ اس لیے میں اماں کو نہیں بتاتی۔
ایک بات مجھے اچھی نہیں لگتی جب ساس گھاس کا گٹھا ہمیشہ میری ہی پیٹھ پر لادتی ہے۔ کہتی ہے نند تو کنواری لڑکی ہے، تم عورت ہو۔ بس پھر میں چپ کرجاتی ہوں!
’’باجی میرا ایک کام کروگی؟‘‘
’’ہاں ہاں بتاؤ‘‘…میں نے دل مضبوط کرتے ہوئے اثبات میں جواب دیا تو بولی: ’’اماں سے کہنا لیلیٰ(بھاوج)سے اچھا سلوک رکھا کرے۔ اس کو کچھ بھی نہ کہا کرے۔ وہ اپنی ماں کی بہت لاڈلی ہے۔ سن گن بھی بہت رکھتی ہے بیٹی کی‘‘۔ میں نے کہا ’’اچھا ٹھیک ہے۔‘‘
خوشی اس کے چہرے سے چھلکنے لگی یہ بتاتے ہوئے کہ اس بار تربوز کی فصل کٹی تو میں اپنا کمرہ بناکر آئی ہوں۔
’’کیا مطلب! تمہارا کمرہ نہیں تھا؟‘‘
’’نہیں، ایک بڑا سا صحن ہے، سب ادھر ہی سوتے ہیں۔ مجھے اچھا نہیں لگتا تھا تو میں ساتھ والے گائے کے کمرے میں سوتی تھی۔ ایک تو بدبو بہت، پھر گائے تو کسی بھی وقت ڈکرانے لگتی ہے، نیند ہی حرام تھی میری۔‘‘
’’گائے کا کمرہ… بیٹی کا سسرال!!!!‘‘ ذہن میں جھکڑ سے چلنے لگے۔ ’’اچھا تو کمرہ کس نے بنایا؟‘‘ میں نے پوچھا۔ اس نے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا جیسے یہ سوال مجھے زیبا نہ تھا۔ ’’کون بناتا باجی؟‘‘ اس کے جواب پر بے ساختہ میرے منہ سے نکلا ’’تمہارا میاں‘‘۔ ہنس کر بولی ’’وہ ہوتا کب ہے گھر پر۔ شہر میں چنگ چی رکشہ چلاتا ہے، ہفتے میں ایک دو دن ہی گھر آتا ہے۔‘‘
’’ارے تو کمرہ عورتیں کیسے بنا سکتی ہیں؟‘‘ میرے سوال پر ایک ادا سے بولی: ’’ایک دن کاکام تھا۔ ایک مزدور بلا لیا۔ گارا اُس نے بنایا، اینٹیں ہم اٹھا کر دیتے جاتے تھے۔ ردے پر ردا رکھا جاتا تھا باجی اور میرے دل کی خوشی بڑھتی جاتی تھی کہ… میرا کمرہ بن رہا ہے… دو چار ترائیوں کے بعد میں نے اور ساس نے مل کر اس پر ڈنڈے رکھ کر گھاس پھوس سے چھپر ڈال لیا۔ میں سمجھ رہی تھی میاں بہت خوش ہوگا، مگر وہ زیادہ خوش نہ ہوا۔ اصل میں گائے کے کمرے میں سونا تو مجھے پڑتا تھا ناں۔ وہ تو گھر کم ہی آتا ہے۔
باجی گاؤں اور کھیتوں میں مٹی بہت ہوتی ہے، آنکھوں کی تکلیف بڑھ رہی ہے، ڈرتی ہوں نابینا ہوگئی تو کیا ہوگا؟ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ موتیا بننا ابھی شروع ہواہے، جب پک جائے گا تب آپریشن ہوگا۔ دعا کرنا باجی۔‘‘ اس نے کمر سے دوپٹہ کھول کر سلیقے سے سر پر جمایا، لپک کر میز سے اپنے شاپر اٹھائے جن میں غالباً باسی کھانا تھا، باجیوں کی بخشش۔ شاپر اٹھا کر وہ ہوا کے جھونکے کی طرح یہ جا، وہ جا۔
مجھے دروازہ بند کرتے ہوئے آٹھ مارچ یوم خواتین کے فائیو اسٹار ہوٹلوں کے پروگرام یاد آگئے جن کے لیے ہم کبھی سیڈا کی دستاویزات کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں، کبھی بیجنگ پلس کی کانفرنسوں کی شقوں پر غور کرتے ہیں، اقوام متحدہ کی قانون سازیوں کے بخیے ادھیڑتے ہیں۔ اسلام میں عورتوں کے حقوق کی کتنی کتابیں ہماری لائبریریوں کی زینت ہیں۔
…تربوز کے سخت چھلکے پر شہلا کی نازک انگلیوں کے نشان کسے نظر آتے ہیں…؟