افروز عنایت
’’مسلمان وہ جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔‘‘
میری عادت ہے کہ جو حدیث سنتی ہوں اُس پر تنہائی میں بیٹھ کر ضرور غور کرتی ہوں۔ سبحان اللہ ہر حدیثِ مبارکہ اور حکمِ الٰہی کے پیچھے بہت سی حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔
احادیث اور احکاماتِ الٰہی پر عمل کرنا ہی دراصل زندگی کو منور کرنا ہے۔ تمام تکالیف اور پریشانیوں سے نجات کا یہی عمدہ راستہ ہے۔ مندرجہ بالا حدیثِ مبارکہ کو ہی دیکھ لیں، معاشرتی و سماجی زندگی کے استحکام کے لیے کتنی انمول اور خوبصورت بات کو ایک جملے کے اندر پرو دیا گیا ہے (سبحان اللہ) ۔
زبان پر قابو پانا ہی کامیابی ہے…۔
آج چاروں طرف نظر دوڑائیں تو جھگڑے، فساد، عیاری کی بنیادی وجہ یہی زبان ہے۔ ہنستے بستے گھر اس زبان کے طفیل تباہ و برباد ہوجاتے ہیں۔ خاندانوں اور برادریوں میں بدگمانی، ٹوٹ پھوٹ، لڑائی جھگڑوں کی ذمہ دار بھی یہی زبان ہے۔ کہتے ہیں کہ تلوار کا گھائو تو وقت کے ساتھ مندمل ہوجاتا ہے لیکن زبان کا گھائو تا زندگی کچوکے دیتا رہتا ہے۔ نہ صرف رشتوں، بلکہ دوستی، کاروبار ہر جگہ اس ’’زبان‘‘ کی اہمیت ہے۔ یہی زبان انسان کا دل موہ لینے کا سبب بنتی ہے، اور دلوں سے نکالنے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ پچھلے دنوں ایک چھوٹی سی تحریر نظروں کے سامنے سے گزری کہ دو دکانیں برابر برابر تھیں، ایک پر تمام دن گاہکوں کا تانتا بندھا رہتا، اور دوسری پر اکا دُکا گاہک ہی نظر آتا۔ وجہ جو سامنے آئی، یہی تھی کہ پہلی دکان والا ہنس مکھ تھا اور آنے والے گاہک کی سخت بات کو بھی نظرانداز کرکے لہجے میں نرمی رکھتا، جبکہ دوسرا دکاندار اس کے برخلاف تھا۔ آپ اپنے آس پاس ہی نظر دوڑائیں، تلخ اور چڑچڑے لوگ چاہے اندر سے کتنے ہی بھلے کیوں نہ ہوں، لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے سے قاصر رہتے ہیں۔ زبان کی نرمی اور اخلاق رشتوں میں بھی چاشنی گھولتے ہیں، خوشگوار ماحول کو استحکام بخشتے ہیں۔ بد زبان ساس ہو یا بہو، شوہر ہو یا بیوی، نند ہو یا بھاوج… گھریلو ماحول میں کشیدگی کا سبب بنتے ہیں۔ بیشک تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے لیکن زبان کی کڑواہٹ دوسرے کو بھی متاثر کرتی ہے اور دلوں میں میل اور بغض کا باعث بنتی ہے۔ کچھ بچیوں نے بتایا کہ اُن کی ساسیں بلاوجہ زبان چلاتی رہتی ہیں اور تلخ زبان استعمال کرتی ہیں، بیشک ہم درگزر سے کام لیتے ہیں لیکن ہمارے دل میں اُن کے لیے وہ مقام نہیں رہتا جو ایک ماں کا ہونا چاہیے۔ اسی طرح بد زبان بہوئوں سے ساسیں بھی ہر وقت خائف رہتی ہیں۔ میں نے اس زبان کی تلخی کی وجہ سے بھائی کو بھائی سے قطع تعلق کرتے اور نفرتوں کو پروان چڑھتے دیکھا ہے۔ ایک مسلمان کی عزت و آبرو کا خیال رکھنا مسلمان بھائی کے لیے اشد ضروری ہے۔ زبان سے نکلی ہوئی تلخ اور بداخلاقی والی بات سامنے والے کے دل کو زخمی کرنے کے لیے کافی ہے، نہ صرف اس کے دل کو زخمی کردے گی بلکہ اسے اپنی بے عزتی اور ذلت بھی محسوس ہوگی۔ دینِ اسلام نے تو سامنے والے سے بحث و تکرار سے بھی منع فرمایا ہے۔ ترمذی کی حدیث کا حصہ ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ مسلمان بھائی سے (خوامخواہ) بحث نہ کرو اور نہ اس سے دل لگی کرو (کہ اس کو ناگوار گزرے)۔
ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کو بے آبرو کرنے سے روکا گیا ہے، ایک دوسرے کی عزت و احترام کی تلقین فرمائی گئی ہے چاہے وہ کسی لحاظ سے بھی آپ سے مرتبے میں کم کیوں نہ ہو۔
حضرت ابنِ عمرؓ کی نظر ایک مرتبہ کعبہ پر پڑی تو فرمایا… ’’اے کعبہ تیری بڑی ہی عزت ہے اور بڑی حرمت ہے، لیکن بخدا تیری عزت و حرمت سے مسلمان کی عزت و حرمت اور آبرو خدا کے نزدیک کہیں زیادہ ہے۔‘‘ (ابودائود، ترمذی)
ایک جگہ آپؐ نے فرمایا: ’’سب سے بڑی سود خوری یہ ہے کہ کسی مسلمان کو ناحق بے آبرو کیا جائے‘‘ (ابودائود)
اسی طرح بدزبانی اور گالم گلوچ کرنے والے کے لیے آپؐ نے یوں فرمایا کہ بیشک یہ سب گناہوں سے بڑا گناہ ہے کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ پر لعنت کرے، ان کو گالی دے۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا: آدمی والدین کو کیوں کر گالی دے گا؟ ارشاد فرمایا: اس طرح کہ کوئی شخص کسی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ (جواب میں) اُس کے باپ کو گالی دیتا ہے۔ اور وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ (جواب میں) اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔ تو اس شخص نے خود اپنے باپ اور ماں کو لعنت کی اور گالی دی (بخاری، مسلم)۔ ان احادیث سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کسی کو برا کہنا، طعنہ زنی کرنا، بے عزتی کرنا اور گالی دینا دین اسلام نے ناپسند فرمایا ہے اور اس کے برے نتائج سے بھی آگاہ کیا ہے۔ صحابہ کرامؓ کو برا بھلا کہا جاتا، اذیتیں پہنچائی جاتیں لیکن وہ پلٹ کر جواب نہ دیتے، ہاں اللہ اور رسولؐ کی شان میں گستاخی کرنے والے پر تلوار تان لیتے تھے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ نے تو غیر مسلموں سے بھی سخت لہجے میں بات کرنے اور گالی گلوچ دینے سے منع فرمایا ہے۔ پھر ایک مسلمان کس طرح اپنے مسلمان بھائی کو ذہنی اذیت دینے کے لیے اپنی زبان اور ہاتھ استعمال کرسکتا ہے جس کی سختی سے ممانعت ہے! آپؐ نے تو کنیزوں اور غلاموں سے بھی شفقت برتنے کی تاکید فرمائی ہے۔ اپنے ماتحتوں سے پیار و شفقت کا رویہ رکھیں تو آپ خود نوٹ کریں گے کہ نہ صرف وہ آپ سے محبت کریں گے بلکہ خلوصِِ دل سے اپنے فرائض انجام دیں گے (لیکن متوازن رویہ رکھنا ضروری ہے)۔ مجھے ایک بچی نے بتایا کہ میری ساس مجھے بہانے بہانے سے برا بھلا کہتی رہتی ہیں لیکن میں اپنی والدہ کی نصیحت کے مطابق ان کے ساتھ بدتمیزی تو نہیں کرتی لیکن میرے دل میں ان کا وہ مقام نہیں ہے۔ مجھے سن کر واقعی افسوس ہوا کہ یہ تلخ رویّے انسان کو انسان سے نہ صرف لاتعلق بلکہ دور کردیتے ہیں، لیکن میں نے اُس بچی کی اِس طرح ہمت بندھائی کہ بیٹا آپ کے درگزر اور نرم رویّے سے گھر کی فضا خراب نہیں ہوگی اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ وہ آپ کی قدر کریں گی۔ اور یقینا ایسا میں نے بارہا دیکھا ہے کہ آپ کے چند میٹھے بول، صبر و درگزر آپ کے سخت مخالفین کو بھی آپ کے قریب کردیتے ہیں جس کی سب سے بڑی اور عظیم مثال ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے کہ آپؐ کے دشمن جو آپؐ کی جان کے درپے تھے آپؐ کی محبت میں سرشار ہوکر آپؐ کے گن گانے لگے (سبحان اللہ)۔ زبان کی اسی چاشنی نے عرب سے عجم تک دینِ اسلام کی روشنی بکھیر دی۔
آئیے عہد کریں کہ اپنی زبان کی تیزی سے کسی کو ضرر نہ پہنچائیں گے۔ کیونکہ زبان سے ضرر پہنچانے والے کو ملعون کہا گیا ہے۔
حضرت صدیق اکبرؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جو شخص کسی مسلمان کو ضرر پہنچائے یا اس سے فریب کرے وہ ملعون ہے۔‘‘ (ترمذی)۔
رب العزت ہمیں سنتِ رسولؐ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، (آمین)۔