۔’’دوپٹہ جل رہا ہے‘‘۔

1145

نگہت ظہیر
ایک شریف گھرانے کی بہو بہت پیار سے اپنے سُسر سے محوِ گفتگو ہے۔ بہت خیال رکھنے والی، نرم خُو، خوش اخلاق، ہمدرد اور سلیقہ مند ہے۔ یعنی ایک شریف گھرانے کی ماڈل بہو کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ لیکن وہ اسلامی شعار اور اللہ کے حکم ’دوپٹے‘ سے عاری ہے۔ اس کی خالہ آتی ہیں، وہ بھی ایسی ہی ہیں، لیکن وہ بھی بغیر دوپٹے کے ہی گھر میں داخل ہوتی ہیں۔ یہ ایک اسلامی ملک کے چینل پر چلنے والے ڈرامے کا سین ہے۔
اسی ڈرامے میں ایک دوسرا گھرانہ دکھایا جاتا ہے جہاں ایک بیوہ خاتون کالج میں جاب کرکے اپنے گھر کو چلاتی ہیں۔ ان کی دو معصوم نوخیز بیٹیاں ہیں جو ہر وقت گھر کے اندر اور باہر بغیر دوپٹے کے ہی رہتی ہیں۔ یہ بھی بہت نیک، سگھڑ اور شریف ہیں۔ ان کی شادیاں طے ہیں۔ خاتون بچیوں کی اچھی تربیت کرتی ہیں لیکن دوپٹے سے متعلق شاید انہیں کچھ پتا ہی نہیں۔ وہ خاتون خود بھی اکثر بغیر دوپٹے کے ہی دکھائی دیتی ہیں۔
اسی طرح ایک دوسرے چینل کے ڈرامے میں ایک سہمی ہوئی لڑکی ہے جو بغیر دوپٹے کے ہے۔ باپ غضب ناک انداز میں سامنے کھڑا ہے۔ لگ تو یہی رہا تھا کہ باپ ابھی غصے میں کہے گا: تیری اوڑھنی کہاں ہے، تیرا سر کیوں ننگا ہے، کس نے چھینا میری بیٹی کے سر سے دوپٹہ؟ لیکن ایسا نہیں ہے، وہ تو کسی اور بات پر غصہ ہورہا ہے۔کیا کوئی غیرت مند باپ بیٹی کو اس روپ میں برداشت کرسکتا ہے؟ یہ کچھ جھلکیاں ہیں جو میں نے مختلف ڈراموں کو دیکھ کر پیش کی ہیں۔
ان ڈراموں میں ہر کلاس کی عورت اور لڑکی کو مشرقی لباس میں بھی بغیر دوپٹے کے دکھایا گیا ہے۔ اس کے ذریعے مردوں کو بے غیرتی کی طرف اور عورتوں کو بے حیائی کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔
دوسری بات یہ دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اصل چیز اچھا اخلاق ہے، آپس میں اچھا برتائو ہے جو دنیا بھر میں رائج ہے۔ یعنی مصنوعی اخلاقیات کا لبادہ اوڑھ کر حیا کا جنازہ نکالا جارہا ہے۔ میڈیا پر ایک خوبصورت سی مسکراتی ہوئی لڑکی آکر پیاری پیاری باتیں کرے گی، دل موہ لے گی، لیکن اس کا لباس ادھورا اور دوپٹے سے خالی ہوگا۔ اس طرح جھوٹی اخلاقیات کی آڑ لے کر اللہ کے حکم کی صریح نافرمانی کی جارہی ہے۔
نیوز کاسٹرز اور اینکرز وغیرہ تو پہلے ہی دوپٹوں سے بے نیاز ہوچکی ہیں، لیکن ڈراموں کا گھریلو ماحول جو ہمارے 90 فیصد گھروں کی عکاسی کرتا ہے وہاں جوان لڑکیاں اور خواتین اپنے باپ، بھائی، سسر، دیور کے سامنے بغیر یوں دوپٹے کے سینہ تان کر بات کرتی ہوں۔ ایسا جب ہمارے معاشرے میں نہیں ہوتا تو پھر کیوں زبردستی اس کی راہیں ہموار اور اس کے لیے ذہن سازی کی جارہی ہے؟ یہ وبا معاشرے میں سرایت تو نہیں کی ہے، لیکن اس کے اِکّا دُکّا اثرات نظر آنے لگے ہیں۔ مثلاً ایک بڑے ڈاکٹر کے کلینک میں ایک چودہ پندرہ سال کی پریشان سی بچی جس کو اس کی ماں شاید ڈراموں سے متاثر ہوکر نئے کلچر میں ڈھالنے کے شوق میں بغیر دوپٹے کے لے آئی تھی، اور وہ اپنی فطری شرم سے جسم چرائے بیٹھی تھی، ماں نے سوچا ہوگا رفتہ رفتہ عادت ہوجائے گی، شرم نکل جائے گی۔ اسی طرح ایک مخلوط محفل میں ایک لڑکی بغیر دوپٹے کے بہت اعتماد سے گھوم پھر رہی تھی۔ وہ میڈیا گرلز کی نقّالی کی بھرپور کوشش کررہی تھی۔ جب کہ پہلے ایسا ناممکن تھا کہ کوئی عورت یا لڑکی بغیر دوپٹے کے نظر آئے۔ پہلے برا بھلا چھوٹا بڑا دوپٹہ لازمی ہوتا تھا چاہے سائڈ میں پٹی لٹک رہی ہو یا گلے میں پٹّہ ہار بنا ہوا ہو۔ تھوڑی اسلامی شعار کی لاج رکھ لی جاتی تھی۔ لیکن اب ہر ڈرامے میں ہر قسم کے لباس کے ساتھ چاہے وہ مشرقی ہو یا مغربی، دوپٹہ غائب کردیا گیا ہے۔
یقین نہیں آتا کہ یہ ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ڈرامے کے کردار ہیں۔ جس ملک کے وزیرِاعظم کی اہلیہ شرعی پردہ کرتی ہیں، جس کی سابقہ خاتون وزیرِاعظم نے (اسلامی شعار) دوپٹے کو اپنی پہچان بنایا تھا، وزیرِاعظم صاحب جو لوگوں کو مدینہ جیسی ریاست کے خواب دکھا رہے ہیں، اور ایسی ریاست قائم کرنے کے دعوے دار بھی ہیں، کیا وہ پردے کی افادیت اور بے حیائی کے نقصانات سے آگاہ نہیں ہیں؟ انہوں نے اربابِ اقتدار کو چھوٹ دے رکھی ہے۔ اگر کرپشن کا جن قابو میں نہیں آرہا تو بے حیائی کے طوفان پر تو بند باندھا جاسکتا ہے۔ فحاشی، بے حیائی کے حوالے سے تو پالیسی بنائی جاسکتی ہے۔
٭دنیا میں جو کچھ بھی ہورہا ہے، جو کچھ آرہا ہے، لیکن ایک اسلامی ملک میں، مسلم معاشرے میں ایسا چلن اللہ کے غضب کو دعوت دینے والا ہے۔ یہود و ہنود جو بھی کریں، جو کچھ بھی پہنیں، جتنا بھی پہنیں، پہنیں یا نہ پہنیں، ان پر زیب دیتا ہے، کہ وہ منکرین اور مشرکین میں سے ہیں۔ لیکن ایک مسلم ریاست میں ہم مسلمانوں کو ہرگز یہ زیب نہیں دیتا کہ اپنے اسلامی شعار کو چھوڑ کر اللہ کی نافرمانی کی طرف لوگوں کو راغب کریں، یہود و ہنود کی ڈگر پر چل پڑیں۔ وہ تو اپنی بے شرمیوں سے باز نہیں آئیں گے بلکہ آگے ہی بڑھتے جائیں گے، لیکن ہم کو تو اپنی حدود میں رہنا چاہیے۔ ہم کو اپنی وضع قطع بدلنے کی کیا ضرورت ہے!۔

وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے
ہم اپنی وضع کیوں بدلیں

٭ہندو اپنے میڈیا پر اپنے کلچر کا، اپنے مذہب کا پرچار کرتے نظر آتے ہیںچاہے وہ بھجن گانا ہو یا مورتیوں سے مانگنا ہو۔ لباس میں ساڑھی آج بھی اُن کے کلچر کا حصہ ہے، لیکن ہم اپنے دینی شعار کو اپناتے ہوئے نہ جانے کیوں شرماتے ہیں! دوپٹے ہماری تہذیب، ہماری ثقافت، ہمارا شعار ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ موسمِ بہار کی آمد کے ساتھ ہی خوش رنگ آنچلوں کی بہار نظر آتی تھی جو ہر سو دھنک رنگ بکھیر دیتی تھی، لوگوں کے دل بھی باغ باغ ہوجاتے تھے۔ گھروں میں، دکانوں میں، ٹی وی کے پروگراموں میں، ڈراموں میں یہ اپنی بہار دکھا رہے ہوتے تھے۔ ’آنچ‘، ’ شمع‘، ’عروسہ‘ اور ’کسک‘ جیسے مشہور اور دلوں پر چھا جانے والے ڈراموں میں پورا ساتر لباس اور سروں پر دوپٹہ دکھایا گیا، گو کہ یہ پردے کی ضرورت پوری نہیں کرتے تھے، لیکن اللہ کا حکم اور ہمارا اسلامی شعار تھے، اس لیے میڈیا پر چاہے وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا، دوپٹہ کسی نہ کسی صورت میں خانہ پُری کررہا ہوتا تھا۔ اس بات کا تصور بھی نہیں تھا کہ کوئی عورت بغیر دوپٹے کے کسی محرم یا نامحرم کے سامنے جائے گی۔
ایک زمانہ تھا کہ نامناسب لباس پہن کر آنے والی ایک ماڈل پر ٹی وی اسٹیشن میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ ہمارے معاشرے میں رہنے والی غیر مسلم خواتین بھی اسلامی شعار کا احترام اور اہتمام کرتی نظر آتی ہیں۔ ضیاء الحق مرحوم کے دور میں جو پالیسی بنائی گئی، جو فیشن رائج کیے گئے وہ عوام میں بے حد مقبول ہوئے۔ بڑے بڑے خوشنما دوپٹے، پوری آستین کے کلیوں والے کرتے انتہائی جاذبِ نظر لگتے تھے۔ اب ایسا کیوں ممکن نہیں کہ دوپٹہ سر پر لے کر خبریں پڑھی جائیں، ڈراموں میں دوپٹہ ساتر لباس کا لازمی حصہ ہو؟ جیسے بہت سے معاملات میں لوگ حکومت کو برا بھلا کہہ رہے ہیں، وہی اس معاملے میں بھی ہوگا۔ کچھ نیک لوگ خوش ہوکر حکومت کی سلامتی کی دعا کریں گے، تو کچھ ہٹ دھرم سڑکوں پر مخالفت کرنے آجائیں گے۔ اب حکومت کو کیا کرنا ہے، سوچ لے۔ خدانخواستہ اگر میڈیا پر ایسا ہی چلن رہا توبہت سے طبقات میں بچیاں دوپٹوں سے بے نیاز نظر آئیں گی اور اس کی ذمہ داری اُن لوگوں پر عائد ہوگی جو یہ کلچر اسلامی معاشرے میں لانے کی ابتدا کررہے ہیں، اور حکومت تو لازماً اس میں شریک کہلائے گی۔
یہ صرف میڈیا گرلز کا دوپٹہ نہیں اتر رہا، بلکہ ہر ماں، بہن اور بیٹی کا اتر رہا ہے۔ اس لیے کہ میڈیا پر جو چیز نظر آتی ہے، آہستہ آہستہ پورے معاشرے میں رچ بس جاتی ہے اور ہم کو پتا ہی نہیں چلتا۔ ہوش اُس وقت آتا ہے جب پانی سر سے اونچا ہوجاتا ہے۔ قومیں تباہ اُس وقت ہوتی ہیں جب وہ اجتماعی گناہ کرنے لگتی ہیں۔ گناہوں کو دیکھ کر راضی رہتی ہیں۔ اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتیں۔ مردوں کو اور مرد کیریکٹرز کو بھی اس پر اعتراض کرنا چاہیے کہ یہ کس طرح عورتوں کو پیش کیا جارہا ہے۔ ہماری بہوئیں، بیٹیاں اور بہنیں تو اس طرح نہیں رہتیں۔ میڈیا کے اس رویّے کے خلاف ہر کسی کو احتجاج کرنا چاہیے، ورنہ بقول شاعر:۔

اپنے مرکز سے اگر دور نکل جائو گے
خواب ہوجائو گے افسانوں میں ڈھل جائو گے

۔’’آئینہ کیوں نہ دوں‘‘۔

اردو کے پہلے غزل گو شاعر حضرت امیر خسرو تھے۔ اس کے بعد لاتعداد شاعر پیدا ہوئے۔ کچھ نے شہرت بلکہ شہرتِ دوام حاصل کی، اور باقی اپنے کلام کے ساتھ اس طرح اللہ کو پیارے ہوئے گویا وہ کبھی پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ آج کے دور میں بھی شاعروں اور شاعرات کی تعداد اتنی ہے کہ شمار کرنا مشکل ہے، اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ کلام چاہے جیسا بھی ہو مگر ہر کسی کا مجموعۂ کلام بڑی آن بان اور ان کی ایک خوبصورت سی نوجوانی کے دور کی تصویر کے ساتھ شائع ہوتا ہے، بھلے اس وقت ان کی عمر 80 سال ہی کیوں نہ ہو۔ خاص طور پر شاعرات اس کا خاص خیال رکھتی ہیں کہ تصویر اتنی جاذب نظر ہو کہ دیکھنے والا کلام پڑھنے پر مجبور ہوجائے اور اشعار کے مفہوم بھی اس کی سمجھ میں بآسانی آسکیں۔
اب مجموعہ شائع کرنے کے لیے کوئی روک ٹوک تو ہے نہیں۔ نہ تو حکومتِ پاکستان سے کوئی اجازت طلب کرنی پڑتی ہے، نہ ہی کسی سرکاری ادارے سے NO OBJECTION سر ٹیفکیٹ حاصل کرنا پڑتا ہے، اور نہ ہی B.A کی ڈگری ہونے کی کوئی قید ہے۔ بس مُسوّدہ تیار ہونا چاہیے اور جیب میں پیسے۔ اب دے دیجیے کسی ناشر کو، مجموعہ شائع ہوجائے گا۔ مجموعہ تو شائع ہوگیا، اب مسئلہ ہے اس کی تقسیم کا، تو اس کے لیے کسی ادبی تقریب کا انتظار کیا جاتا ہے جہاں مجموعہ تحفتاً احباب میں تقسیم ہوتا ہے۔ کچھ سنگ دل حضرات اس شعری مجموعہ کو گھر لے جاکر الماری میں رکھ کر اس طرح بھول جاتے ہیں جیسے بیوی سے کیے ہوئے وعدے، کہ کبھی پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے۔ کچھ دردمند حضرات جو تھوڑا بہت ادبی ذوق رکھتے ہیں کبھی کبھار ورق گردانی کرلیتے ہیں۔
ایک ادبی تقریب میں ایک محترمہ نے بڑے ہی ذوق و شوق سے اپنا شعری مجموعہ مجھے اس امید پہ عنایت کیا کہ میں اس پر کچھ تبصرہ (تعریفی کلمات) کرکے کسی اخبار میں شائع کروا دوں۔ کچھ عرصے بعد ایک دوسری ادبی تقریب میں خلافِ توقع ان محترمہ کی ملاقاتِ ناگہانی سے اس خاکسار کو دوچار ہونا پڑا۔ کہنے لگیں… ابھی تک آپ نے میرے کلام کے بارے میں دو لفظ بھی نہیں لکھے… میں نے اُن سے دریافت کیا کہ محترمہ جب آپ غزل کہتی ہیں تو کسی استاد سے اصلاح طلب کرتی ہیں یا یونہی آگے بڑھا دیتی ہیں؟ کہنے لگیں کہ بھلا مجھے استاد کی کیا ضرورت! ہمارے پیرومرشد جو ہیں۔ میں جب غزل کہتی ہوں تو اگلے روز پیرو مرشد کے آستانے پر حاضری دیتی ہوں اور غزل اُن کے سامنے رکھ کر دو زانو ہوکر بیٹھ جاتی ہوں۔ پیر صاحب بڑے چائو سے میری غزل پڑھتے ہیں اور زیرِ لب اُن کی مسکراہٹ اس بات کی غمّاز ہوتی ہے کہ پیر صاحب کو اشعار پسند آرہے ہیں۔ غزل مکمل کرنے کے بعد پیر صاحب جس خلوص و محبت سے اس کاغذ کا بوسہ لیتے ہیں جس پر غزل لکھی ہوتی ہے وہ اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ غزل شہرۂ آفاق اہمیت کی حامل ہوکر شہرتِ دوام حاصل کرے گی، میں خوش خوش مرشد کے آستانے سے اٹھ کر اپنے غریب خانے پہنچتی ہوں، اور جب رات کی تنہائی نصیب ہوتی ہے تو پیر صاحب کی دعائوں کی برکت سے الہامی طور پر میرے ذہن میں نئے خیالات، نئے اشعار کی آمد ہوتی ہے اور ایک نئی غزل تیار ہوجاتی ہے۔
آج کل مشاعروں کا حال یہ ہے کہ جب کوئی شاعرہ غزل سرا ہوتی ہیں تو سامعین بھرپور آواز میں ’’واہ واہ کیا بات ہے‘‘ کے نعرے بلند کرتے ہیں۔ اب یہ ’’واہ واہ کیا بات ہے‘‘ کس کے لیے کہا گیا ہے، اُن کے کلام کے لیے یا اُن کے اس میک اپ کے لیے جو وہ بیوٹی پارلر سے (کئی ہزار خرچ کرکے) کروا کر آتی ہیں۔
تو یہ ہے صورتِ حال آج کے دور کے شاعر اور شاعرات کی۔ لیکن اب ایسا بھی نہیں ہے کہ سارے ہی ایسے ہیں، اس دور میں بھی اچھے شاعر اور شاعرات ہیں، خوب غزلیں کہی جارہی ہیں، مشاعرے بھی خوب ہورہے ہیں، سامعین داد بھی خوب دے رہے ہیں، ادبی محافل بھی خوب جم رہی ہیں، اچھے اور معیاری شاعری کے مجموعے بھی خوب شائع ہورہے ہیں۔ بہرحال نہ شاعری کبھی ختم ہوسکتی ہے اور نہ شاعر، یہ سلسلہ ہمیشہ یونہی چلتا رہے گا کیونکہ شاعر حضرات جب دنیا میں تشریف لاتے ہیں تو شاعری کے جراثیم اپنے ساتھ لاتے ہیں، اور پھر کیا گُل کھلاتے ہیں یہ آپ سب کو اچھی طرح معلوم ہے۔ ٹائیفائیڈ کے جراثیم ANTI BIOTIC کھانے سے ختم ہوجاتے ہیں، مگر شاعری کے جراثیم کسی بھی ANTI BIOTIC سے ختم نہیں ہوسکتے، بلکہ ان میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا نظر آتا ہے، کیونکہ شاعری اس شرابِ دو آتِشہ کی مانند ہے جس کا نشہ ایک بار چڑھ جائے تو پھر اترنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ استاد ذوقؔ نے صحیح کہا تھا…
’’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘

دیوتا بننے کی حسرت میں معلق ہو گئے
اب زرا نیچے اُتریے آدمی بن جائیے

سلیم احمد

حصہ