بڑھتے ہوئے معاشرتی مسائل کا ذمہ دار کون؟۔

1982

راحیلہ چوہدری
ہر گزرتے دن کے ساتھ معاشرے میں اچھائیوں کا تناسب کم اور برائیوں کا بڑھتا جا رہا ہے۔ معاشرے کی بنیادی اکائی گھر اور خاندان ہوتا ہے۔ آج معاشرے میں اخلاقی گراوٹ، اعلیٰ اقدار کی کمی اور عملیت کا فقدان اسی لیے دیکھنے کو ملتا ہے کیوں کہ گھر، خاندان اور نسب کی حفاظت نہیں ہو رہی۔ مرد اور عورت معاشرے کے دو اہم ستون ہیں‘ یہ دونوں مل کر گھر اور خاندان کو پروان چڑھاتے ہیں۔ گھر اور خاندان کی اقدار اور روایات سے ہی معاشرے پروان چڑھتے ہیں۔ مرد اور عورت دونوں بڑھتے ہوئے معاشرتی مسائل کے ذمہ دار ہیں۔ معاشرے میں نوجوانوں کے بڑھتے ہوئے ذہنی اور نفسیاتی مسائل، طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح اور دیر سے شادیوں کا رحجان جیسے بے شمار مسائل ہمارے گھروں، خاندانوں اور معاشرے کا المیہ بن چکے ہیں۔ آج کی ماں اخلاصِ عمل اور جذبہ ایمانی کے اس معیار پہ پورا نہیں اترتی جو اللہ اور اس کے رسولؐ کو مطلوب ہے۔ آج کی ماں مسلسل اپنے فرائض سے کوتاہی کی مرتکب ہو رہی ہے جس معیار پہ تعلیمات نبویؐ کے مطابق ایک مسلمان ماں کو ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو انسان سازی کی جو اہم ذمہ داری سونپی ہے اسی وجہ سے اس کے حقوق مرد کے مقابلے میں زیادہ رکھے ہیں لیکن وہ انسان سازی کے اس فرض کو ادا نہیں کر رہی بلکہ اپنے حقوق کا استعمال مادی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ عورت کی یہ کوتاہی معاشرے میں بگاڑ کا باعث بن رہی ہے۔ پہلے دور کی خواتین کی زندگیوں پر نظر ڈالی جائے تو سب نے اپنی زندگیوں میں اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی مقصد ضرور بنایا ہوا تھا‘ وہ صرف اپنے بچوں کی ماں نہیں تھی بلکہ اس نے اپنے گھروں کے دروازے یتیم اور غریب بچے اور بچیوں کے لیے بھی کھول رکھے تھے‘ اپنی اولاد کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم و تربیت کا بیڑا بھی خوشی خوشی اٹھا رکھا تھا۔ ان کے اخراجات پورے کرنے کے ساتھ ساتھ اس چیز کا بھی اہتمام کرتی تھیں کہ ایسے بچے اور بچیوں کو کوئی ہنر سکھا کر انہیں اس قابل کر دیں کہ وہ اپنا بوجھ خود اٹھا سکیں۔ ان کے اس عمل کی وجہ سے پہلے دور کے لوگوں میں زندگی کو بامقصد بنانے کی جستجو تھی اور معاشرہ اتنی بے راہ روی کا شکار نہیں تھا۔ آج کی ماں کو اس حوالے سے خود کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ خاندان کے ساتھ ساتھ ہمسائیوں اور بے سہارا لوگوں کو بھی جوڑنے کا اہتمام کرے۔ اچھے اور پوش علاقوں میں‘ جہاں زندگی آسان ہے‘ زیادہ تر خواتین کے ایسے رویے دیکھنے کو ملتے ہیں جنہیں اپنے ہمسائیوں تک کی خبر نہیں ہوتی۔
دوسری طرف مرد یہ دیکھنے سے بالکل عاری ہے کہ اس کا گھر اور خاندان کس کلچر میں کس بری طرح رنگتے چلے جا رہے ہیں اور یہ خاندانوں کو کس طرح تباہ و برباد کر رہا ہے۔ اونچے طبقے کا مرد صرف اپنا پیسہ بے حیائی پر لٹا رہا ہے اور درمیانے طبقے کا مرد معاشی مسائل کی دوڑ میں پھسا ہوا ہے۔ اس طبقے کا مرد راتوں رات امیر بننے کے چکر میں ہے۔
آج کل ہر طرف چار شادیوں کے حوالے سے خوب آگاہی دی جا رہی ہے اس آگاہی مہم میں ہمارے علمائے کرام پیش پیش ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے علما اس حوالے سے خاموش ہیں کہ دین چار شادیوں کے ساتھ ساتھ بیوہ اور طلاق یافتہ کے حقوق کے بارے میں بھی بات کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اگر مرد طلاق یافتہ ہے تو عورت تو اس کے بچے قبول کر لیتی ہے۔ لیکن مرد طلاق یافتہ اور بیوہ کے بچے قبول نہیں کرتا۔ افسوس کہ شادی کے لیے طلاق یافتہ مرد کو بھی ایک غیر شادی شدہ، اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی ہی چاہیے۔ معاشرتی مسائل کے بڑھنے کی بڑی وجہ مرد کا گھر اور خاندان کے لیے غیر سنجیدہ رویہ اور مذہب کی جگہ غیر اسلامی کلچر کو گھر میں رواج دینا ہے۔ گھروں میں بڑھتی ہوئی بے حیائی آج کے مرد کے لیے کوئی معیوب بات نہیں رہی۔ جبکہ نبیؐ کا فرمان ہے ’’تین افراد ایسے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے جنت کو حرام قرار دیا ہے۔ شراب پر ہمیشگی اختیار کرنے والا، والدین کا نا فرمان اور وہ دیوث جو اپنے گھر کے اندر برائی کو برقرار رکھتا ہے۔‘‘ (مسندِاحمد)۔
آج کل اچھے خاصے شریف گھروں میں بھی شادی بیاہ کے مواقع پر مردوں اور عورتوں کا اکٹھے بیٹھنا، ناچ گانے کا اہتمام کرنا، نامناسب لباس پہننا ،غیر محرم فوٹو گرافرز سے گھر کی خواتین کا تصویریں بنوانا‘ کھانوں اور سجاوٹ پر بے تحاشہ پیسہ خرچ کرنا اور پھر ان محافل کی سوشل میڈیا پر بھرپور نمائش کرنا برائی میں شمار نہیں کیا جاتا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صحابہ کرامؓ کے سامنے سورۃ التحریم کی آیت نمبر 6 تلاوت فرمائی ’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچائو جس کا ایندھن انسان ہیں۔‘‘ تو صحابہ کرامؓ نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ! ہم اپنے آپ کو تو جہنم کی آگ سے بچا سکتے ہیں لیکن اپنے اہل و عیال کو جہنم سے کیسے بچا سکتے ہیں؟‘‘آپؐ نے فرمایا ’’تم انہیں ایسے کام کرنے کا حکم دیتے رہو جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے اور ان کاموں سے روکتے رہو جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔‘‘
معاشرتی مسائل کو کم کرنے کا یہی بنیادی عمل ہے کہ ہر فرد اچھائی کو پھیلانے اور برائی سے روکنے کا کام اپنے گھر سے شروع کرے کیوں کہ فضول رسم و رواج کی وجہ سے نکاح مشکل اور زنا کرنا آسان ہو رہا ہے۔ کلچر اور مادیت کی اس دوڑ میں معاشرے کا بڑا طبقہ بے راہ روی کا شکار ہے اور اس بات کو یکسر بھلا دیا ہے کہ یہ دنیا ایک گزر گاہ ہے‘ کھیل اور تماشے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اصل دنیا مرنے کے بعد ملے گی جہاں کبھی موت نہیں آنی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے جو ضابطے اور قانون بنائے ہیں اسی میں انسان اور معاشرے کی بھلائی رکھی ہے۔ آج کے مرد اور عورت کو دین کا بھولا ہوا سبق دہرانے کی اشدضرورت ہے۔ عصرِِ حاضر کے ماں باپ کو اس حدیث کو عملی طور پر اپنانے کی ضرورت ہے جس میں نبیؐ نے فرمایا ’’ہر آدمی اپنے گھر والوں پر حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر حاکم ہے اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔‘‘ (صحیح بخاری)۔
اولاد کی تربیت ایک ایسا معاملہ ہے جس کا سوال قیامت کے دن انسان سے ضرور کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے خاندانی نظام اس لیے بنایا کہ اس میں پرورش پانے والا انسان ایک بہترین مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے کا ایک ذمہ دار فرد بنے۔ جس کے اندر اچھائی اور برائی کرنے کی تمیز پیدا ہو۔ لیکن افسوس کہ والدین نے اولاد کی ہر جائز اور ناجائز خواہش کے آگے اپنے سر جھکا دیے ہیں‘ ان کی آنکھوں کے سامنے بچے سوشل میڈیا اور دوستی کے نام پر کیا کیا کچھ کرتے پھر رہے ہیں مگر انہیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا کہ ان کے بچوں کے ان اعمال کی وجہ سے معاشرے میں کیسے کیسے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور اپنی اولاد کے ایسے اعمال میں والدین برابر کے شریک ہیں۔

حصہ