۔’’تمہیں کیا خبر کہ حکومت معیشت کی ترقی اور خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے ایمرجنسی کی طرز پر اقدامات اٹھا رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کی بدولت صنعتوں سمیت دیگر شعبوں کی ترقی سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے،گھروں کی تعمیر کے منصوبے سے کئی شعبے عروج حاصل کریں گے۔ ملک کو تنزل کی گہرائیوں میں دھکیلنے والے ماضی کے چور حکمران اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ یہ نیا پاکستان ہے، یہاں کرپشن میں ملوث لٹیروں اور ڈاکوئوں کے لیے کوئی جگہ نہیں، جس نے بھی قوم کا پیسہ لوٹا ہے اُسے اب لوٹی ہوئی دولت واپس کرنا ہوگی۔ ہماری حکومت محروم طبقات کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے فکرمند ہے، اسی لیے خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے چین کے ماڈل کو اپنایا جائے گا۔ موجودہ حکومت نے غیر معمولی فیصلوں سے معیشت کی گاڑی کو درست سمت میں گامزن کردیا ہے، اور وہ دن بھی آئے گا جب پاکستان کا شمار طاقتور معیشتوں میں ہوگا۔‘‘۔
۔’’خدا کو مان راشد، سنا ہے پہلے زمانے میں جھوٹ بولنے والوں کے چہرے سیاہ ہوجایا کرتے تھے، اگر آج کے دور میں بھی ایسا ہوتا تو اس عذاب سے تیرا پورا وجود ہی سیاہ ہوجاتا، بلکہ نرا کالا سیاہ… مانا کہ لوگ اپنی پسندیدہ سیاسی جماعتوں کی جائز وناجائز سپورٹ کرتے ہیں، لیکن اس قدر جھوٹ شاید ہی کوئی بولتا ہو جتنا تُو اپنی جماعت کی محبت میں بولے جارہا ہے۔ سُن، اصل حقیقت میں بتاتا ہوں۔ تیری جماعت کی حکومت میں مہنگائی 3 فیصد سے 10.3 فیصد پر آگئی ہے۔
جبکہ گیس کی قیمت میں 200 فیصد اور بجلی کی قیمت میں 35 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسٹاک ایکسچینج میں 32 فیصد کمی آئی۔ ماضیِ قریب میں ہمارے ملک میں ترقی کی شرح 3.3 فیصد رہی، یعنی ملک 5.8 کی شرح سے ترقی کررہا تھا، جبکہ موجودہ حکومت نے ایک سال میں 7 ہزار 600 ارب روپے کا قرضہ لیا، اور اس دوران ملکی معیشت میں صرف مرغیوں اور کٹّوں کا اضافہ ہی ہوا۔ موجودہ حکومت کے ابتدائی ایک سال میں ٹیکس وصولی کے ہدف میں 600 ارب روپے کا ریکارڈ خسارہ ہوا، جبکہ حکومتی اخراجات میں 18 فیصد اضافہ ہوا۔ اس دوران شرح سود میں 30.57 فیصد اضافہ ہوا جو 5.25 سے بڑھ کر 13.75 فیصد ہوگئی ہے۔‘‘
۔’’ہاں ہاں تم تو اُن چوروں کی ہی حمایت کرو گے جنہوں نے بار بار اقتدار میں آنے کے باوجود ملک کے لیے کچھ نہیں کیا، صرف اپنی جیبیں بھریں اور ساری دنیا میں اپنی جائدادیں بنائیں۔ بہت ہوگیا، اب وہ جہاں ہیں وہیں رہیں گے، کوئی ڈھیل اور ڈیل نہیں ہوگی۔ پسہ دیں، جان چھڑائیں، جہاں مرضی جائیں۔‘‘۔
۔’’راشد تم ضرورت سے کچھ زیادہ ہی بول رہے ہو۔ یہ گرفتاریاں کرپشن کی وجہ سے نہیں ہوئیں، یہ تو ذاتی انتقام ہے جس کی وجہ سے بے گناہوں کو بند کیا ہوا ہے۔ کون سا پیسہ، کس کا پیسہ؟ کرپشن ثابت کیے بغیر کسی پر الزام لگانا اچھی بات نہیں۔ یہ الزامات نئے نہیں، یہ سب کچھ 70سال سے ہورہا ہے۔ میں کہتا ہوں کسی نے بھی اگر کوئی جرم کیا ہے تو اُسے ضرور سزا ملنی چاہیے، لیکن یہ کیسی سزا ہے! تمہارے بقول قومی دولت لوٹنے کے جرم میں انہیں جیلوں میں ڈالا گیا ہے، تو لوٹی گئی رقم کہاں ہے، وہ اب تک برآمد کیوں نہ ہوسکی؟ ذرا وقت گزرنے دو، سب کچھ سامنے آجائے گا۔‘‘۔
۔’’خواب دیکھنا چھوڑدو، اب وہ وقت کبھی واپس نہیں آئے گا۔‘‘۔
۔’’دیکھیں گے۔‘‘۔
۔’’دیکھ لینا، بلکہ انتظار کرنا۔‘‘ ۔
۔’’ٹھیرو، ٹھیرو… یار تم دونوں آپس میں نہ الجھو بلکہ میری بات غور سے سنو۔ میں ایک سرکاری ملازم ہوں، اس حکومت کے مسلط ہونے سے پہلے بھی میرے مالی حالات کچھ بہتر نہ تھے لیکن اتنا ضرور ہے کہ جنہیں یہ چور، ڈاکو کہتے ہیں اُن کے دور میں روزمرہ کی گھریلو اشیائے ضرورت میری دسترس میں تھیں، تنخواہ میں پورا مہینہ گزر جاتا تھا، بس آخری دنوں میں تھوڑی پریشانی ہوجایا کرتی تھی۔ جب سے یہ تبدیلی سرکار آئی ہے میرے حالات ہی تبدیل ہوکر رہ گئے ہیں، اب تو پندرہ دن بعد ہی تنخواہ ختم ہوجاتی ہے، ہر ماہ ادھار لے کر گھر چلانا پڑتا ہے، جس سے ایک مرتبہ ادھار مل جائے وہ دوبارہ نہیں دیتا۔ ظاہر ہے جب وقت پر ادھار نہ لوٹایا جائے تو کوئی کیوں مزید رقم دے گا! اور ویسے بھی ہر دوسرا شخص مہنگائی اور اپنی بدحالی کا ہی رونا رونے لگتا ہے، کسی کو ایک نوکری پیشہ شخص کے گھر میں ہوتے فاقوں سے کیا غرض! بھوک سے نڈھال بچوں کے لیے روٹی کا بندوبست کرنا تو گھر کے سربراہ کا کام ہے چاہے اسے اپنے گردے ہی کیوں نہ بیچنا پڑیں، جبکہ حکمران سب اچھا کا راگ الاپنے میں مصروف ہیں۔ تنخواہ دار طبقہ جس کرب میں مبتلا ہے اس کا اندازہ ایک سرکاری ملازم کو ملنے والی تنخواہ سے ہی لگایا جاسکتا ہے، مثلاً میری تنخواہ 40 ہزار روپے ہے اور میں کرائے کے مکان میں رہائش پذیر ہوں، جس کا کرایہ 10ہزار روپے ہے۔ ہر ماہ مکان کا کرایہ ادا کرنے کے بعد میرے پاس 30ہزار روپے بچتے ہیں۔ بجلی اور گیس کے بلوں کی مد میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 6000روپے کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ تین بچے ایک عام سے پرائیویٹ اسکول میں پڑھتے ہیں، ان کی پڑھائی اور جیب خرچ پر ماہانہ 8000 روپے کے اخراجات ہوتے ہیں۔ دودھ کا بل 3000 روپے، جبکہ پینے کے صاف پانی کی سپلائی نہ ہونے کی وجہ سے محلے میں قائم پرائیویٹ فلٹر پلانٹ سے 1200روپے ماہانہ کا پانی خریدنا پڑتا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی، دفتر آنے جانے کے لیے 3000 روپے درکار ہوتے ہیں۔ اندازہ کیجیے جس شخص کی جیب سے تنخواہ ملتے ہی بغیر کھائے پیے31 ہزاردوسو روپے نکل جائیں وہ 8800روپے میں پورا مہینہ کس طرح گزار سکتا ہے؟ دال، چینی، آٹا،گھی اور تیل سمیت دوسری ضروریاتِ زندگی کیسے خرید سکتا ہے؟ بیمار پڑجانے کی صورت میں دوا دارو کہاں سے کرے؟ کپڑے لتے کی بات ہی چھوڑیے، میں نے اپنی گھر والی کو پچھلے سال بڑی مشکل سے ایک سوٹ بناکر دیا تھا، اسی میں اس سال کا گرم موسم بھی گزرگیا۔ چھوٹی بچی اسکول جاتے وقت روزانہ نئے جوتوں کی فرمائش کرتی ہے، میں روز کوئی نہ کوئی بہانہ بناکر ٹال دیتا ہوں، کل رات اپنے پیروں کے چھالے ماں کو دکھاتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ ابو سے کہیں پرانے جوتے تنگ ہونے کی وجہ سے میرے پیر زخمی ہوتے جارہے ہیں، اب تو نئے شوز لادیں۔ معصوم بچی کی زبان سے ادا ہونے والے جملے سن کر میرا دل پھٹنے لگا، میری ساری رات کروٹیں بدلتے ہوئے بے چینی میں گزری۔ صرف میں ہی نہیں، نہ جانے کتنے گھرانے میری طرح مہنگائی اور بے روزگاری کے سبب اپنا پیٹ کاٹ کر جینے پر مجبور ہیں۔ بیشتر ایسے گھرانے جہاں مہینے کا اکٹھا سامان لانے کا رواج تھا وہ بھی دن بہ دن ختم ہوتا جارہا ہے۔‘‘۔
…٭…٭…
یہ کسی ایک خالد کی داستان نہیں، غربت کے ہاتھوں مجبور نہ جانے کتنے خالد روز مرتے اور روز جیتے ہیں۔ کراچی کو ملک کی معاشی شہ رگ کہا جاتا ہے، ملکی معیشت میں روشنیوں کے اِس شہر کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے، لیکن حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے سرمایہ کاری میں کمی نے یہاں روزگار کمانے کی نیت سے آئے لوگوں کو بھی واپس جانے پر مجبور کردیا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کے غریب طبقے کی حالتِ زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اِس میں وہ تنخواہ دار طبقہ بھی شامل ہے جس کا ذریعہ آمدن صرف اور صرف تنخواہ ہی ہوتی ہے، اور جب لگی بندھی تنخواہ کا مہینہ پچاس ساٹھ دن کا ہوجائے تو اس طبقے کی خاموشی بھی سسکیوں میں بدل جاتی ہے۔ سرکاری اور نجی شعبے سے اپنی خدمات کے عوض تنخواہ پانے والے ہزاروں ملازمین کی سسکیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ انہوں نے کس طرح اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھا ہوا ہے۔ میرے نزدیک کم مراعات اور کم تنخواہ دار طبقے کو اگر غریب طبقے میں شمار کرلیا جائے تو غربت کی تفسیر بیان کرنے والی کسی معاشی اصطلاح پر زد نہیں پڑے گی، بلکہ بنائی جانے والی یہ فہرست مزید طویل ہوجائے گی۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک ایسی جماعت جو اقتدار میں آنے کے لیے پانچ سال سے تیاری کررہی تھی، اس کو نہ صرف اقتدار کی خواہش تھی بلکہ انہیں انتخابات میں اپنی کامیابی کا یقین بھی تھا حیرت ہے کہ انہوں نے کوئی تیاری ہی نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ اس حکومت کے برسراقتدار آتے ہی مہنگائی میں خاصا اضافہ دیکھنے کو ملا۔ یوں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمت میں اضافے کا براہِ راست اثر غریب طبقے پر ہوا۔ موجودہ حکومت کی نااہلی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت نے ٹیکس کی مد میں آمدنی بڑھانے کی بات تو بہت کی، اور کر بھی رہی ہے لیکن اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق اس میں بھی کسی قسم کی کوئی بہتری نظر نہیں آتی، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس کوئی حکمت عملی ہی نہیں۔