یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ حکومت سندھ کراچی کے ساتھ یا کراچی میں کیا کچھ کرنا چاہتی ہے۔ سب ہی یہ دیکھ رہیں ہیں کہ وہ کراچی کو ترقی دینے کے لیے تو کوئی قابل ذکر اقدامات نہیں اٹھارہی۔ البتہ کراچی کے وسائل پر کنٹرول کرنے کے لیے وہ وقتاً فوقتاً سنجیدہ نظر آتی ہے۔
شہر میں ماس ٹرانزٹ سسٹم کے تحت یلو ، ریڈ لائن بسوں کے منصوبوں پر کام شروع نہیں کیا جاسکا جبکہ اورنج لائن پر 2016 سے جاری کام اب تک مکمل نہیں ہوسکا۔ اسی طرح گرین کا بس کا منصوبہ جسے اب تک مکمل ہوجانا چاہیے تھا کے لیے سندھ گورنمنٹ کی طرف سے بسوں کی خریداری کے معاملات طے نہ ہونے کے باعث وفاق نے ازخود بسیں خریدنے کا فیصلہ کرکے صوبائی حکومت کا بوجھ ہلکا کردیا ہے۔ اس منصوبے کے توسیع شدہ حصے یعنی گرومندر تا نمائش والے حصے پر کام تیزی سے جاری ہے خیال ہے کہ دسمبر تک اس منصوبے کا افتتاح ہوجائے گا لیکن اس میں صوبائی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہوگا ۔
صوبائی حکومت کو کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے کے راہ میں حائل تجاوزات اور دیگر رکاوٹوں کو ہٹانا تھا مگر اس حوالے سے بھی اب کام معطل ہوچکا ہے۔ جس سے یہ تاثر واضح ہورہا ہے کہ کراچی کی ترقی کے لیے صوبائی حکومت کچھ کرنا ہی نہیں چاہتی۔ ہاں البتہ چند روز قبل صوبائی وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ ورلڈ بینک کے تعاون سے کراچی کے شہریوں کے معیار زندگی کو بہتر بنایا جائے گا۔اس مقصد کے لیے 33 بلین روپے کی لاگت سے منصوبے پر مرحلہ وار کام ہوگا اور یہ چھ سال کی مدت میں مکمل کیا جائے گا جس کی تکمیل کے بعد کراچی میں رہنے والوں کی زندگی میں خوشگوار تبدیلی کا آغاز ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے اپنے دفتر میں ورلڈ بینک مشن کے گلوبل ڈائریکٹر سمیع ناغب واہبا ( Naguib Wahba Sameh) کی سربراہی میں آنے والے ایک وفد سے اپنی ملاقات میں کیا۔ اس موقع پر وفد میں کیٹالینا مارولینڈا (Catalina Marulanda)، شہناز ارشد اور صہیب رشید و دیگر بھی شامل تھے جبکہ سیکریٹری لوکل گورنمنٹ و ہاؤسنگ ٹاؤن پلاننگ روشن علی شیخ اور پروجیکٹ ڈائریکٹر کلک (Click) زبیر چنہ بھی اس موقع پر موجود تھے۔ وزیر بلدیات نے اس موقع پر کہا کہ ورلڈ بینک منصوبے کے تحت کے ایم سی، ڈی ایم سیز، ڈسٹرکٹ کونسل اور لوکل کونسلز کی کارکردگی کو مزید بہتر اور افسران و ملازمین کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے گا۔ ان کی کیپاسٹی بلڈنگ کی جائے گی اور تمام بلدیاتی اداروں کو عوام کی خدمت کا بہترین ادارہ بنایا جائے گا۔
صوبائی وزیر کی جانب سے اس حوالے سے جاری کیے گئے اعلامیے سے یہ بات واضح نہیں ہوسکی کہ 33 ارب کے اس منصوبے کے تحت کیا کچھ کیا جائے گا اور اس سے شہریوں کو کس طرح سہولیات مل سکے گی اور لوگوں میں کس طرح خوشگوار تبدیلیاں رونما ہوگی۔ ہاں یہ بات کلیئر ہوگئی کہ یہ منصوبہ جو بھی ہے عالمی بنک کی مالی معاونت یا قرضے سے شروع کیا جائے گا گوکہ یہ پورے ملک کے ساتھ ملک کے سب سے بڑے شہر کو بھی قرض کے بوجھ تلے دبانے کا منصوبہ ہے۔ اس کی منظوری کس نے دی ، کس سطح پر اس پروجیکٹ کو بناکر اس کے لیے عالمی بنک کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا اس بارے میں کسی کو کچھ نہیں ہتا۔ یہی نہیں بلکہ منصوبے کے تحت کیا کچھ کیا جائے گا یہ بھی نہیں بتایا گیا۔ صوبائی وزیر کے اعلامیے سے یہ تو پتا چلتا ہے کہ یہ منصوبہ بلدیاتی اداروں کے ایم سی ، ڈی ایم سیز اور سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے دائرہ کار کا حصہ ہے۔ اگر یہ بات ہی تسلیم کرلی جائے کہ یہ منصوبہ کراچی کے بلدیاتی اداروں کی ضروریات پوری کرنے کا ہے۔ لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ کے ایم سی سمیت کسی منتخب بلدیاتی ادارے کو اس پروجیکٹ کا علم ہی نہیں ہے۔ اس ضمن میں ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن وسطی کے چیئرمین ریحان ہاشمی نے واضح کیا کہ ” اربوں روپے کا عالمی بنک کے تعاون سے یہ کونسا منصوبہ ہے جس کے لیے صوبائی حکومت فعال ہے ، ہمیں نہیں پتا اور نہ ہی اس بارے میں حکومت نے ڈی ایم سیز کو آگاہ کیا ہے “۔
اسی طرح بلدیہ شرقی کے چیئرمین معید انور نے بھی ایسے کسی منصوبے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے جو بلدیاتی اداروں کی بہتری اور ان کی بلڈنگ کیپاسٹی بڑھانے کے حوالے سے ہے۔ معید انور کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت 33 ارب روپے اگر عالمی بنک کے ساتھ مل کر خرچ کرسکتی ہے تو وہ براہ راست اس کی نصف رقم کراچی کی میٹروپولیٹن کارپوریشن اور ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کے حوالے کردے تو اس کے بہت اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔
صوبائی حکومت یہی نہیں کررہی بلکہ کراچی کے اداروں کی بہتری کے نام پر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی تنظیم نو کے لیے بھی کوشان ہیں۔ یہ سب عالمی بنک کی رپورٹ کی روشنی میں کیا جارہا ہے۔ اس مقصد کے لیے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں ایک نیا شعبہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج انفراسٹرکچر کے نام سے تخلیق کیا گیا ہے۔ جس کا ڈائریکٹر ایوب شیخ کو لگایا گیا ہے۔ اس نئے شعبے کے تحت عالمی بنک کے تعاون سے شروع کیے جانے والے 3 سو ارب روپے کے منصوبے کو مکمل کریا جائے گا۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ عالمی بنک کے تعاون سے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی تنظیم نو کی جائے گی۔ اس منصوبے کا مقصد نہ صرف ادارے کی ساکھ بہتر بنانا ہے بلکہ جاری پانی و سیوریج کے منصوبوں کے فور اور ایس تھری کو بھی جلد از جلد مکمل کرنا ہے۔
شہر کی ترقی کے نام پر منصوبے تو پہلے بھی بنتے رہے اور اس پر عمل ہوتا رہا۔ مگر کراچی کی آبادی جس رفتار سے غیر مقامیوں کی منتقلی کی وجہ سے بڑھ رہی ہے اور جس رفتار سے یہ شہر وسیع ہو رہا ہے اس طرح اس کے مسائل حل ہونے کے بجائے اس میں اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت کراچی سے حاصل ہونے والے ملک کے 72 فیصد ریونیو کا 50 فیصد بھی خرچ نہیں کرتی۔ جبکہ اب عالمی بنک سے قرض لے کر کراچی پر مزید بوجھ ڈالنے کا منصوبہ بناکیا گیا ہے
سوال یہ ہے کہ حکومت عوام کے ٹیکسوں کا کب تک غلط استعمال کرے گی اور کب کراچی کو اس کا حق دینا شروع کرے گی ؟