دھواں

686

پوری دنیا ایک ایسے دھوئیں سے خوفزدہ ہے جو زمین کو گھیر لے گا تو زندگی دن بہ دن معدوم ہوتی چلی جائے گی۔ کوئی ہے جو ان خوفزدہ انسانوں کو میرے اللہ کی طرف سے دی گئی چودہ سو سال پہلے کی وارننگ کی طرف متوجہ کرے، فرمایا ’’لہٰذا اُس دن کا انتظار کرو جب آسمان ایک واضح دھواں لے کر نمودار ہوگا، جو لوگوں پر چھا جائے گا۔ یہ ایک دردناک سزا ہے۔‘‘ (الدخان 10، 11)۔
یوں تو اس دھویں کے تذکرے اسی دن سے شروع ہوگئے تھے جب جدید دنیا کی سب سے بے رحم، ظالم اور انسان دشمن طاقت امریکا نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم برسائے تھے۔ انسانی تاریخ میں سکندر، چنگیز، اشوک اور ہلاکو جیسے ظالم آئے، جن کی تلواریں لاکھوں انسانوں کی گردنوں پر چلیں، لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی چند لمحوں میں اتنے انسانوں پر بیک وقت موت مسلط نہیں کی تھی۔ ظلم اور وحشت کا یہ اعزاز پوری انسانی تاریخ میں صرف امریکا کے سینے پر سجا ہوا ہے۔
آج سے پچھتر سال قبل 6 اگست 1945ء کو ہیروشیما پر گرنے والے بم نے ایک لاکھ 29 ہزار، اور تین دن بعد 9 اگست 1945ء کو ناگاساکی پر گرنے والے بم نے 2 لاکھ 26 ہزار معصوم مردوں، عورتوں اور بچوں کو اذیت ناک موت سے ہمکنار کردیا تھا۔ لیکن آج بھی کسی دہشت گرد کا چہرہ اس امریکی پائلٹ، برطانوی وزیراعظم یا امریکی صدر جیسا نہیں دکھایا جاتا۔ یہ سب متعصب ترین سیکولر، لبرل اور جمہوری میڈیا کا کمال ہے جس کے نزدیک انسانی حقوق کا سب سے بڑا چیمپئن امریکا اور مغرب ہے۔
75 سال پرانی یہ خوف کی چادر جو اس دنیا پر چھائی تھی گزشتہ ایک ماہ سے مزید گہری اور دبیز ہوتی جارہی ہے۔ جس دن سے عمران خان اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے آخری فقرہ یہ کہہ کر واپس پلٹا ہے کہ ’’یاد رکھو دو ایٹمی قوتیں جب ٹکراتی ہیں تو اثرات دور تک جا پہنچتے ہیں‘‘ اُس دن سے صرف میڈیا ہی نہیں بلکہ سنجیدہ حلقوں کے ترجمان سائنسی رسالے بھی اس قیامت خیز دن کا منظر پیش کررہے ہیں، جس دن اگر کسی اچانک تیزوتند حادثے کے نتیجے میں پاک بھارت جنگ میں ایٹم بم استعمال ہوگیا تو پھر دنیا پر کیا بیتے گی۔ انسانوں کی اموات کا تذکرہ تو اب بے معنی سا ہو کر رہ گیا ہے کہ مرنے والے تو پاکستان اور بھارت کے شہروں سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ اصل خطرہ یہ ہے کہ اگر ان دونوں ملکوں نے اپنے ایٹمی ہتھیار استعمال کرلیے تو اس کے بعد باقی ماندہ اور بظاہر ’’پُرامن‘‘ اور ظلم پر بدترین خاموشی اختیار کرنے والی دنیا پر کیا بیتے گی۔
او بی ٹون (OB Toon) کی مشہور تحقیق کے مطابق اگر دونوں ممالک اپنے پاس موجود تین سو ایٹم بموں میں سے صرف پچاس بم جو15 K.T طاقت کے ہوں، ایک دوسرے کے شہروں پر چلا دیں تو چشم زدن میں ڈھائی کروڑ لوگ مر جائیں گے اور پانچ کروڑ ایسے زخمی اور بیمار ہوں گے کہ اذیت ناک موت کا انتظار کریں گے۔ اس وقت پوری دنیا کے ایٹمی قوت رکھنے والے ملکوں کے پاس13,900ایٹم بم ہیں جن میں سے پاکستان کے پاس 140 اور بھارت کے پاس 150 بم ہیں۔ جبکہ پاکستان نے چھوٹے سائز کے شاطرانہ (Tactical) بم بھی بنا لیے ہیں جو 24 ہیں۔
ماہرین کے نزدیک 2025ء تک دونوں ملکوں کے ایٹمی ذخیرے میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہوگا۔ ایک اندازے کے مطابق دونوں کے پاس کُل ملا کر پانچ سو ایٹم بم ہوں گے۔ پوری دنیا اب اس غم میں غلطاں نہیں ہے کہ دونوں ملک اگر آپس میں لڑیں گے تو ایک دوسرے کی کتنی تباہی وبربادی کریں گے، بلکہ انہیں یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ اس ایٹمی جنگ کے بعد ہم پر کیا بیتے گی۔
دنیا نے اگر اس جنگ کو نہ روکا اور یہ ایک دن ایٹمی جنگ میں تبدیل ہوگئی، اور یاد رہے کہ یہ ایٹمی جنگ صرف ایک دن ہی چلے گی کیونکہ اس ایک دن سے زیادہ کوئی ایک دوسرے کو مہلت ہی نہیں دے گا۔ ان ایٹمی ہتھیاروں کے چلنے کے بعد فضا میں ایک پگھلا دینے والی گرمی پیدا ہوگی جس سے وہاں پر موجود ہر چیز آگ پکڑ لے گی۔ اس آگ کو وہاں موجود ہوا ایک گرم آندھی میں بدل دے گی اور یوں محسوس ہوگا جیسے ایک آگ کا طوفان ہوتا ہے۔ زمین کے ساتھ ساتھ یہ آگ کا طوفان بڑھے اور پھیلے گا اور اس سے فضا میں بہت بڑی تعداد میں دھواں داخل ہوجائے گا۔ یہ دھواں کوئی عام دھواں نہیں ہوگا بلکہ یہ اپنے اندر انتہائی زہریلی ’’سیاہ کاربن‘‘ لیے ہوگا۔ یہ وہ گیس ہے جو عموماً ڈیزل انجن کے مخرج سے برآمد ہوتی ہے۔ یہ زہریلا مواد زمین سے ٹکرانے والے کرہ اوّل (Troposhere) سے اس کے بالائی کرّوں (Spehers) میں داخل ہوگا جنہیں Stratosphere کہا جاتا ہے، اور پھر چند ہفتوں کے اندر اندر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ یہ زہریلا دھواں زمین کے اوپر موجود ہوائوں کے تمام حلقوں یا حصاروں میں آکر ٹھیر جائے گا اور وہاں آکر کم از کم پانچ سال تک ٹھیرا رہے گا۔ یوں لگے گا کہ جیسے پوری دنیا پر دھویں کی ایک چادر تن چکی ہے۔ اس کے نتیجے میں سورج کی روشنی زمین پر آنا بند ہوجائے گی اور بس اتنی سی روشنی آئے گی جتنی گردوغبار کے دوران آتی ہے۔ اس ملگجی سی روشنی میں زمین کا درجہ حرارت پانچ ڈگری کم ہوجائے گا۔ سائنس دان بتاتے ہیں کہ زمین کی موجودہ حالت سے لاکھوں سال پہلے ایک زمانہ اس پر آیا تھا، برفانی Ice Age کا۔ ہم اس Ice Ageمیں داخل ہو جائیں گے، جس میں زندگی محدود تھی۔ چونکہ زمین پر سورج کی تپش کم آئے گی، سمندر سے بخارات کم اٹھیں گے، بادل کم برسیں گے، اس کے نتیجے میں کم از کم تیس فیصد بارشیں کم ہوں گی۔ جب ایسا ہوگا تو پھر دریائوں میں پانی کم آئے گا، زیر زمین پانی کے ذخائر بھی کم ہوجائیں گے اور یوں فصلوں کے اُگنے، پکنے کے لیے گرمی اور پانی دونوں میسر نہیں ہوں گے۔ کھیت پکی ہوئی فصلوں سے محروم ہوجائیں گے۔ دنیا پر قحط کے دس سال مسلط ہوجائیں گے۔ سورج کی گرمی سمندروں کو گرم رکھتی ہے جس سے آبی حیات میں زندگی رواں دواں ہوتی ہے۔ اس کا اثر وہاں بھی ہوگا اور مچھلیاں، جھینگے اور دیگر آبی مخلوق دم توڑ جائے گی۔ ایسا صرف بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ میں ہیروشیما اور ناگاساکی جتنے پچاس ایٹم بموں کے چلنے سے ہوگا۔ یہ دھواں دس سال تک چھایا رہے گا۔ اس سے اوزون کو جو نقصان پہنچے گا اور جس طرح سورج کی تابکاری شعاعیں نیچے آکر بیماریاں پھیلائیں گی ان کا عرصہ پچیس سال پر محیط ہوگا۔
ٹون کی تحقیق کے مطابق اگر امریکا، روس، چین، فرانس، برطانیہ اور اسرائیل کے پاس موجود آدھے ایٹم بم بھی چل گئے تو زمین پر ایک ایٹمی سرد موسم (Nuclear winter) چھا جائے گا۔ ایک دھواں جو زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اس کے بعد وہ اذیت ناک رات شروع ہوجائے گی۔ ایسی ہی اذیت ناک رات کا ذکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے جو قیامت سے پہلے چھائے گی۔ اللہ جب قرآن پاک میں اس دھویں کا ذکر کرتا ہے تو اس کے بعد فرماتا ہے ’’یہ لوگ کہیں گے اے پروردگار ہم سے یہ عذاب دور کردیجیے ہم ضرور ایمان لے آئیں گے۔ ان کو نصیحت کہاں ہوتی ہے۔‘‘ (الدخان 12، 13)۔
ہر کوئی ایٹمی جنگ کے خوف سے لرزاں ہے لیکن کیا کوئی نصیحت پکڑ رہا ہے!

حصہ