سید مہرالدین اٖفضل
دوسرا حصہ
تاریخی پس منظر :
اگر حضرت محمد مْصطفیٰؐ اپنے اَخلاق و کردار کے مطابق، لوگوں کو نصیحت کرتے۔ جِس طرح آپ تمام اِنسانوں کو برابر سمجھتے تھے اور کمزوروں کی دل داری کرتے تھے، دوسروں سے بھی کہتے جِس طرح آپؐ بتوں کو نا پسند کرتے تھے اور صرف ایک اللہ کو پکارنا پسند کرتے تھے۔ اسی طرح لوگوں کو بھی بتاتے کہ اَصل طاقت ایک نظر نہ آنے والی قوت کے پاس ہے جِس نے زمین و آسمان اور یہ کائنات بنائی ہے‘ جو رحمن و رحیم ہے اور ایک دن ہمیں ضرور اُ س سے ملنا ہوگا۔ اِس لیے موت سے پہلے اَپنے معاملات درست کر لو !!! تو اُس وقت کے لوگ اُن کی بات مانتے یا نہ مانتے، اُن کے جانے کے بعد دنیا انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتی اور آج کا اِنسان اُن کے قصیدے پڑھتے نہ تھکتا۔ لیکن آپؐ نے اپنے غور و فکر اور تدبر سے جب یہ جان لیا کہ اس کائنات کا ایک رب ہے، جس نے اِنسانوں کو بے شمار نعمتیں، طاقت اور قوتیں عطا کی ہیں اور انسانوں کے کچھ اعمال اچھے اور پسندیدہ ہیں جن کا نتیجہ اچھا ہو گا، اِسی طرح کچھ اعمال برے اور نا پسندیدہ ہیں جن کا انجام بُرا ہوگا۔ تو آپؐنے اَپنی طرف سے کوئی اِقدام کرنے کے بجائے، کوئی نظریہ پیش کرنے کے بجائے (جیسا کہ بہت سے فلسفی اور دانش ور کرتے رہے ) اُسی با برکت ذات سے لَو لگا لی اور سیدھا راستہ دکھانے کی دعائیں کرتے رہے۔
جبرئیل ؑ آتے ہیں:
بارگاہ رب العزت میں آپؐ کی دعائیں قبول ہوتی ہیں‘ آپؐ اپنی قوم کے لوگوں کی حالت دیکھ کر پریشان تھے اور اُن کی اصلاح کرنا چاہتے تھے‘ اللہ نے آپ کو تمام اِنسانوں کے لیے‘ قیامت تک پیدا ہونے والے اِنسانوں کے لیے‘ ہادی اور رہنما بنا دیا۔ اب سوال یہ تھا کہ کام کا آغاز کہاں سے کیا جائے؟ یہ سوال ہر اس شخص کے لیے اہم ہے‘ جو انسانوں سے ہم دردی رکھتا ہے‘ اُنہیں تباہی اور ہلاکت سے بچانا چاہتا ہے‘ اُسے چاہیے کہ وہ اِنسانوں کی بھلائی کے لیے وہی طریقہ اور راستہ اختیار کرے جو آپؐ نے اختیار کیا ۔کیا ایسا نہیں ہو سکتا تھا کہ آپؐ جبرئیل ؑ سے کہتے کہ چلیں فرشتوں کی فوج لے کر اور سب سے پہلے بیت اللہ کو بتوں سے صاف کریں؟ اب آپ کو روشن دلیل مل گئی تھی کہ بتوں کے بارے میں میری نفرت درست تھی اور میری پشت پر اللہ واحد القہَّار کی طاقت ہے۔ اَب میں جا کر اِن بتوں کو توڑ دیتا ہوں یا اپنے کچھ ہم خیال جمع کرکے یہ کام کرتا ہوں۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ آپ کو سب سے پہلے جو فکر لاحق ہوئی وہ یہ تھی کہ یہ عظیم امانت جو میرے پاس آئی ہے اور اِسے لوگوں تک پہنچانے میں جو رکاوٹیں آ سکتی ہیں، کہیں یہ موقع ضائع نہ ہو جائے۔ اِسی تشویش کا اِظہار آپؐ نے اپنی دوست ، مددگار اور ساتھی اہلیہ سے کیا اور اُنہوں نے اِطمینان دلایا کہ اللہ آپؐ کو ضائع نہیں کرے گا۔
اسوۂ رسول ؐمیں نظم و ضبط اور ترتیب کا مقام :
اِنسان کی فطری کمزوریوں میں سے ایک اس کا جلد باز ہونا ہے جس کا اظہار بد نظمی، پریشان حالی اور بے ترتیبی سے ہوتا ہے۔ پیش بندی سے کام نہ لینا، ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا اور سر پر آپڑے تو سوچنا، بے صبری، کم ہِمتی اور دیر اور دور تک نہ چل پانے کی نفسیات۔ یہ سب کمزوریاں رسول اللہؐ سے پہلے بھی انسانوں میں موجود تھیں مگر آ پؐ نے اپنے طرز عمل سے ان کی حالت بدل کر رکھ دی اور انہیںجیتی جاگتی چوکنا اور ہوشیار ہستی بنا دیا۔ ہر کام کو ایک ترتیب اور سلیقے سے کرنا سکھایا۔ غور وفکر اور بات کی تہہ تک پہنچنے کا شعور دیا۔ بولنے سے پہلے تولنا سکھایا۔ کام شروع کرنے سے پہلے کام کے دوران اور کام مکمل ہونے کے بعد پس منظر اور پیش منظر پر نگاہ رکھنے کی تربیت دی۔ جوشیلے پن سے نکال کر گہرا شعور دیا اور پیہم عمل کا عادی بنایا جِس کی بدولت اِنسان کو بلند ہمتی نصیب ہوئی اور اس نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے جِن پر عقل حیران ہے۔
نظم وضبط کیا ہے؟:
نظم دراصل انسان کی ایک اندرونی نفسیاتی کیفیت اور اس کے نتیجے میں ظاہر ہونے والے رویے کا نام ہے۔ یہ مسلسل سیکھنے، برتنے اور مضبوطی کے ساتھ ایمان پر قائم رہنے سے آتا ہے۔ بالعموم نظم وضبط کو اوقات کی تنظیم اور اُس کے صحیح استعمال سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ بِلاشبہ یہ بھی اس کی صحیح تعبیر ہے لیکن یہ اس کا بالکل اِبتدائی درجہ ہے۔ اس کی وسعت اتنی ہے کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام گوشوں پر حاوی ہے جیسے کہ حالات و واقعات پر اپنی خواہشات، جذبات اور ہیجانِ نفس پر قابو رکھتے ہوئے اُصولوں پر کاربند رہنا، تحریک، تنظیم، منصوبۂ عمل جِس مرحلے میں ہے اُس کے مطابق اَقدام کرنا ، بالائی ہدایت (احکام الٰہی ) پر عمل کرنا‘ یہی نظم و ضبط ہے جو حضرت سمیہؓ کی شہادت اور توہین آمیز سلوک، ظلم و تشدد کے باوجود ’’ہاتھ روکے رکھنے‘‘ کی ہدایت پر عمل کرتا ہے اور یہی ’’اِن سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے‘‘ کے حکم پر بے سروسامانی کے عالم میں میدانِ جنگ (بدر ) میں لے جاتاہے۔
آپؐ نے ایمان کے تین درجے (یہ انفرادی زندگی میں درجے ہیں اور تحریک کی زندگی میں مراحل) بیان کیے تو وہ تینوں آپؐ کی زندگی میں پوری طرح ظاہر ہوتے ہیں اور جب آپؐ جس مرحلے میں تھے۔ اُس میں اُسی درجے کا پورا اظہار ہوتا ہے۔ آپؐ کی نبوت سے پہلے کی زندگی جب آپ نے غارِ حرا کی خلوت اختیار کی‘ انسانیت جن برائیوں میں لَت پَت تھی آپؐ سب کو دل سے بُرا جانتے تھے اور اِس تلاش و جستجو میں تھے کہ کیسے نیا جہاں تعمیر کریں۔ پھر نبوت اور وحی الٰہی کے نور کے بعد تین سال آپ نے خاموشی سے تبلیغ کی اور( قْم فااَنذِر ) کا حکم آتے ہی بلاتامل زبان سے اِظہار کیا، ہرطرح کے ردعمل سے بے نیاز ہوکر (یا الیھا الکفرون) کہہ کر زبانی اعلانِ جنگ بھی کیا۔ تیسرا مرحلہ آیا تو اپنے ہاتھ سے برائی کا خاتمہ کیا اور اس طرح کیا کہ پوری رائے عامہ آپؐ کے ساتھ تھی اور آج تک کسی میں ہمت نہیں کہ حرمین میں کسی طرح کے بھی شرک کا اظہار کرسکے۔ یہ ہے نظم وضبط کی اعلیٰ ترین مثال کہ دعوت جِس مرحلے میں ہے اُس کے مطابق اقدام کیا جائے چاہے اس کے لیے بدر کے موقع پر ساتھیوں کے قافلے کی طرف رجحان کے باوجود انہیں لشکر کا مقابلہ کرنے کے لیے آمادہ کرنا ہو یا صلح حدیبیہ جیسے غیر مقبول فیصلے کرنے پڑیں۔
غار حِرا کی تنہائی سے عوام میں واپسی :
وہ غار کی تنہائی سے نِکل آتے ہیں۔ اَپنی قوم کے پاس آتے ہیں۔ اُن سے کہتے ہیں کہ یہ بت‘ جن کے آگے تم جھکتے ہو‘ یہ سب بے حقیقت چیزیں ہیں‘ انہیں چھوڑ دو۔ کوئی انسان‘ کوئی درخت ، کوئی پتھر، کوئی روح، کوئی سیارہ اس قابل نہیں کہ تم اُس کے آگے سر جھکاو اور اْس کی بندگی و عبادت کرو‘ اور اْس کی فرماں برداری و اطاعت کرو۔ یہ زمین، یہ چاند، یہ سورج، یہ ستارے، یہ زمین اور آسمان کی ساری چیزیں ایک خدا کی مخلوق ہیں‘ وہی تمہارا اور سب کا پیدا کرنے والا ہے‘ وہی موت اور زندگی دینے والا ہے‘ اُس کی بندگی کرو‘ اُس کا حکم مانو اور اُسی کے آگے سر جھکاؤ۔ یہ چوری، یہ لوٹ مار، یہ قتل وغارت، یہ ظلم و ستم، یہ بے حیائیاں اور بدکرداریاں جو تم کرتے ہو‘ سب گناہ ہیں، اِنہیں چھوڑ دو۔ اللہ انہیں پسند نہیں کرتا۔ سچ بولو‘ اِنصاف کرو… نہ کسی کی جان لو نہ کسی کا ما ل چھینو۔ جو کچھ بھی لو حق کے ساتھ لو‘ جو کچھ دو حق کے ساتھ دو۔ تم سب انسان ہو‘ انسان اور انسان سب برابر ہیں‘ نہ کوئی ذلت کا داغ لے کر پیدا ہوا اور نہ کوئی عزت کا تمغہ لے کر دنیا میں آیا ہے۔ بزرگی اور شرف نسل و نسب میں نہیں صرف خدا پرستی‘ نیکی اور پاکیزگی میں ہے۔ جو خدا سے ڈرتا ہے اور نیک اور پاک ہے وہی اعلیٰ درجے کا انسان ہے۔ اور جو ایسا نہیں وہ کچھ بھی نہیں۔ مرنے کے بعد تم سب کو اپنے خدا کے پاس حاضر ہونا ہے۔ تم میں سے ہر ہر شخص اپنے اعمال کے لیے خدا کے سامنے جواب دہندہ ہے‘ اُس خدا کے سامنے‘ جو سب کچھ دیکھتا اور جانتا ہے۔ تم کوئی چیز اُس سے چھپا نہیں سکتے۔ تمہاری زِندگی کا پورا کارنامہ اُس کے سامنے بغیر کسی کمی اور اضافے کے پیش ہوگا۔۔۔ اور اِسی کارنامے کے لحاظ سے وہ تمہارے انجام کا فیصلہ کرے گا۔ اُس عادلِ حقیقی کے ہاں نہ کوئی سفارش کام آئے گی نہ رشوت چلے گی نہ کسی کا نسب پوچھا جائے گا۔ وہاں صرف ایمان اور نیک عمل کی پوچھ ہوگی۔ جِس کے پاس یہ سامان ہوگا وہ جنت میں جائے گا۔ جِس کے پاس اِن میں سے کچھ بھی نہ ہوگا وہ نامراد دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ ( ماخوذ اَز :۔ رِسالت محمدیؐ کا عقلی ثبوت ) (جاری ہے )
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سب کو اَپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اُس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اَور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘آمین ۔
وآخر دعوانا ان لحمد للہ رب العالمین۔