سرکاری اسپتالوں کے مفت مشورے

609

پچھلے دنوں میرے دوست قدیر کے بیٹے کی طبیعت خراب ہوگئی۔ نزلہ اور کھانسی کی علامات پر مختلف ڈاکٹروں سے علاج کروایا گیا لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا، بلکہ ہر آنے والے دن کے ساتھ بچہ مزید بیمار ہوتا چلا گیا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا جب وہ سینے کے انفیکشن کی وجہ سے سانس لینے میں انتہائی دشواری محسوس کرنے لگا۔ رات کے دوسرے پہر بچے کی بگڑتی ہوئی حالت دیکھ کر کوئی بھی باپ کس طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ سکتا ہے! ظاہر ہے اولاد سے محبت فطری عمل ہے۔ اس صورتِ حال میں قدیر نے بھی وہی کیا جو والدین کا فرض یا ذمہ داری ہوا کرتی ہے، یعنی اپنے ایک ماہ کے بچے محمد شمس کو سینے سے لگائے سندھ گورنمنٹ اسپتال کورنگی نمبر 5 کی جانب دوڑ پڑا۔ اسپتال پہنچتے ہی اس کے بیٹے کو فوری طور پر ایمرجنسی وارڈ میں داخل کرلیا گیا۔ بچے کی حالت کے بارے میں سن کر میں بھی اسپتال کی جانب روانہ ہوگیا اور وہاں پہنچ کر اس کی طبیعت سے متعلق معلومات لینے لگا، جس پر اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں موجود ڈاکٹر نے بتایا کہ نمونیا ہوگیا ہے جس کی وجہ سے اسے سانس لینے میں دشواری ہورہی ہے، ہم نے آکسیجن لگادی ہے، طبیعت میں بہتری کے بارے میں کچھ دیر بعد ہی بتاسکتے ہیں۔
ڈاکٹر کی جانب سے کی جانے والی باتیں تسلی بخش نہ تھیں، اس لیے میرے اور خاص طور پر قدیر کے لیے انتہائی پریشانی کا باعث تھیں۔ ہم دونوں کبھی ایمرجنسی وارڈ میں جاتے تو کبھی باہر آ بیٹھتے۔ چند گھنٹوں بعد فجر کی اذان سنائی دینے لگی۔ مسجدوں سے آتی اذان کی آوازیں سنتے ہی میں ایک مرتبہ پھر ایمرجنسی وارڈ میں جاپہنچا جہاں ڈاکٹر کی جانب سے ایک مرتبہ پھر وہی کچھ سننے کو ملا، یعنی ہم طبیعت سے متعلق ابھی کچھ نہیں بتا سکتے۔ ڈاکٹر صاحبہ کی جانب سے بار بار ایک ہی جملہ بولے جانے پر میں نے مزید سوالات کرنے شروع کردیے، لیکن وہ میری کسی بھی بات کا تسلی بخش جواب دینے کے بجائے وہی رٹے رٹائے جملے بولتی رہیں اور مجھے ایمرجنسی وارڈ سے باہر جانے کے مشورے دیتی رہیں۔ خیر میں خاموش ہورہا اور اُسی جگہ آبیٹھا جہاں رات مچھروں نے کاٹ کاٹ کر میرا برا حال کردیا تھا۔
تھوڑی ہی دیر میں سورج کی روشنی چاروں طرف پھیلنے لگی۔ ہمیں اسپتال کی ایمرجنسی آئے خاصی دیر ہوچکی تھی۔ وقت گزرتا جا رہا تھا مگر ہمارے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ اگر کوئی سوچ اور فکر تھی تو ایمرجنسی وارڈ میں داخل محمد شمس کی طبیعت کی تھی۔ بس یہی دعا تھی کہ خدا بچے کو صحت عطا فرمائے۔
میں ابھی انہی سوچوں کے حصار میں تھا کہ ڈاکٹر کی جانب سے جاری کردہ فرمان یعنی ’’بچے کو کسی دوسرے اسپتال لے جائیں‘‘ مجھ تک پہنچ گیا۔ ڈاکٹروں کی جانب سے بچے کی طبیعت کے بارے میں تسلی بخش جواب کے بجائے اسے اِس حالت میں کسی دوسرے اسپتال میں شفٹ کرنے کی ہدایت میرے لیے حیران کن تھی، اور پھر ایک ماہ کے بچے کا دورانِ علاج کسی سرکاری اسپتال کے بجائے تقریباً دو کلومیٹر کی دوری پر قائم ایک مخصوص نجی اسپتال بھجوایا جانا میرے لیے انتہائی تشویش کی بات تھی۔ خیر سندھ گورنمنٹ اسپتال کی ایمرجنسی میں زیر علاج بچے کو سرکاری اسپتال سے کسی دوسرے، وہ بھی پرائیویٹ اسپتال لے جانے کی منطق سمجھنے کے لیے میں ایمرجنسی وارڈ جاپہنچا۔ میرے پوچھنے پر وارڈ میں موجود ڈاکٹر نے بتایا کہ بچے کی طبیعت پہلے سے خاصی بہتر ہے، اسے آکسیجن کی مزید ضرورت ہے، جناح اسپتال میں آکسیجن موجود نہیں، لہٰذا بتائے گئے اسپتال میں لے جائیں، ایک سے دو دن نجی اسپتال میں داخل رہنے سے بچہ مکمل صحت یاب ہوجائے گا۔
نجی اسپتال میں ہی کیوں؟ یہ کام یہاں کیوں نہیں ہوسکتا؟ میرے پوچھنے پر لیڈی ڈاکٹر نے فرمایا کہ ہم یہاں مزید علاج نہیں کرسکتے، جتنی ٹریٹمنٹ کرنی تھی، کرلی ہے۔ صاف صاف بتارہے ہیں آپ اپنے بچے کو لے جائیں، اب ہم علاج نہیں کررہے، بچے کی حالت خراب ہوئی تو ہم ذمہ دار نہ ہوں گے ڈآکٹر نے اپنی بات کو مزید آگے بڑھتے ہوئے کہا پچھلے دنوں یہاں ایک بچہ ایسی ہی حالت میں لایا گیا تھا طبیعت بڑھنے پر اس کے اہلِ خانہ نے اسپتال میں ہنگامہ کر دیا کھڑیوں کے شیشے توڑ دیے تھے بس اسی دن سے ہم زیادہ احتیاط کرتے ہیں اور ویسے بھی ہمارے پاس اتنی سہولیات نہیں آپ ہماری طرف سے جواب ہی سمجھیں۔
ڈاکٹر کی باتیں سن کر میرے قریب ہی کھڑے قدیر کی حالت غیر ہونے لگی، وہ اپنے بچے کا علاج جاری رکھنے کی درخواست کررہا تھا، اور ڈاکٹر اپنی مجبوری کا رونا ہی روتی رہی۔ ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کے دوران مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ اب یہاں سے جانا ہی ہوگا، لہٰذا میں نے قدیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: یہاں بحث کرنے کے بجائے بچے کو کسی دوسرے اسپتال میں لے جانا ہی بہتر ہے۔ یوں اس ایک ماہ کے بچے محمد شمس کو بذریعہ ایمبولینس نجی اسپتال پہنچا دیا گیا، جہاں 5 دن صبح شام اینٹی بائیوٹک انجکشن لگانے سے بچہ مکمل طور پر صحت یاب ہوگیا۔ محمد شمس ماشاء اللہ اب اپنے گھر میں ہے، لیکن میں اب تک اسی سوچ میں ہوں کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کے ضابطۂ اخلاق کے مطابق تو ڈاکٹروں پر لازم ہے کہ وہ مریضوں کا مکمل علاج کریں خاص طور پر ایمرجنسی کیئر انسانی بنیادوں پر فراہم کی جائے گی، اور دورانِ علاج ڈاکٹر یہ نہیں بھولے گا کہ زیرِ علاج مریض کی صحت اور زندگی کا دار و مدار اس کی مہارت اور توجہ پر ہے اس ضابطہ اخلاق میں یہ بھی شامل ہے کہ
اگر کوئی ڈاکٹر دورانِ علاج یہ سمجھتا ہے کہ مرض کی تشخیص اُس کی پہنچ سے دور ہے تو وہ اپنے سینئر کو بلائے گا۔ اسی طرح اگر وہ کسی وجہ سے دستیاب نہیں ہے تو وہ کسی دوسرے ڈاکٹر کا انتظام کرے گا اور مریض کو اس سے آگاہ کرے گا۔
ڈاکٹر کا یہ فرض ہے کہ وہ علاج کے فوائد اور اخراجات سے مریض کو آگاہ کرے گا اور مریض اپنے میڈیکل ریکارڈ کی کاپی اور اس پر آزادانہ رائے یا مشورہ حاصل کرسکتا ہے۔
تو پھر کیوں آخر کیوں کر اس ضابطۂ اخلاق پر سندھ گورنمنٹ اسپتال کی ایمرجنسی میں تعینات ڈاکٹروں نے عمل نہ کیا؟ اور جو اینٹی بائیوٹک ٹریٹمنٹ نجی اسپتال نے دی وہ سرکار کے ماتحت چلائے جانے والے اسپتال میں بھی دی جاسکتی تھی تو زبردستی مجبور کرکے نجی اسپتال کے ذریعے کسی غریب کی جیب پر 45000 روپے کا ڈاکا کیوں ڈلوایا گیا؟ اس کے پیچھے کیا راز تھا یا کون سی مجبوری تھی وہ ڈاکٹر ہی جانے، ہم تو صرف افسوس اور ماتم ہی کرسکتے ہیں اور دنیا بھر کے ممالک کی جانب سے مریضوں کو دی جانے والی طبی سہولیات کے بارے میں پڑھ ہی سکتے ہیںیعنی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں صحت کا شعبہ پہلے نہیں تو دوسرے نمبر پر ضرور موجود ہے۔ مثلاً امریکا کے بجٹ کا (پنشن کے بعد) سب سے زیادہ حصہ شعبۂ صحت کے لیے مختص کیا جاتا ہے جس کے مطابق بجٹ کے کُل حجم کا 27فیصد (969.8 بلین ڈالر) وہ اپنے شہریوں کی صحت پر خرچ کرتے ہیں۔ امریکا میں 62 فیصد اسپتال منافع کے بغیر شہریوں کی خدمت میں مصروف ہیں اور صرف 18فیصد منافع پر چلائے جا رہے ہیں، جبکہ 20 فیصد اسپتال براہِ راست حکومت کی سرپرستی میں چل رہے ہیں۔ اسی طرح برطانوی حکومت بھی اپنے 6 کروڑ 40 لاکھ شہریوں کی صحت پر 129.5بلین ڈالر خرچ کرتی ہے، جو اس کے بجٹ کی کسی بھی شعبے کے لیے مختص کی جانے والی دوسری بڑی رقم ہے۔ اگر پڑوسی ملک چین پر نظر ڈالی جائے تو دیکھا جاسکتا ہے کہ چینی حکومت نے رواں سال شعبۂ صحت کے لیے اپنے مرکزی بجٹ میں 260.253 بلین ین کی رقم مختص کی، جو کُل بجٹ کا 27.1 فیصد بنتی ہے۔ یوں چین بھی مجموعی قومی پیداوار کا 5.7فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے۔ جبکہ مختلف سرکاری رپورٹوں کے مطابق 2020ء تک چین میں صحت کے لیے مختص کیا جانے والا بجٹ ایک ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ جبکہ روس اپنے شہریوں کی صحت پر 554.7 بلین روبل سالانہ خرچ کرتا ہے جو مجموعی قومی پیداوار کا 6.2فیصد بنتا ہے۔ جبکہ ہمارے ملک کے عوام کو صحت سے متعلق دی جانے والی سہولیات قدیر کی جیب سے نکوائے گئے 45000 روپے کی صورت میں آپ کے سامنے ہیں کتنے افسوس کی بات ہے کہ 70 سال گزر جانے کے باوجود بھی ہم اپنے شہریوں کو صحت جیسی بنیادی سہولت نہ دے سکے جبکہ اس ملک کی اشرافیہ کے لیے بیرونِ ملک بہترین اسپتالوں میں علاج کروانے کی تمام سہولیات موجود ہیں اور غریب آج بھی در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔
nn

حصہ