افشاں نوید
دورہ تھا ملاکنڈ ڈویژن کے ضلع دیر پائیں کی ذیلی جامعۃ المحصنات سنگول کا۔ یہاں معلمات کی تربیت کے لیے تین روزہ ورکشاپ رکھی گئی تھی۔ اس جامعہ کے علاوہ بھی علاقے کے دیگر مدارس و ذیلی جامعات کی معلمات نے شرکت کی۔ تقریباً 70کے قریب حاضری رہی۔ شرکاء نے تمام پروگرام انتہائی دلچسپی سے سنے۔ ان کو تدریب کے عملی طریقے سکھائے گئے۔ جماعت اسلامی کے پروگرام، طریقہ کار و خواتین کو درپیش چیلنجز پر لیکچر رکھے گئے۔ فائلز بنواکر معلمات کی اہلیت کا جائزہ لیا گیا اور انعامات تقسیم کیے گئے۔
یہاں کی ذیلی جامعات کے دورے کے ساتھ ضلع اپر چترال و لوئر چترال کی جامعات المحصنات و ذیلی جامعات کے دورے کے موقع پر کچھ مشاہدات آپ کے ذوق طبع کے لیے…
٭٭٭
حجرہ:
یہاں مہمان خانے کو حجرہ کہتے ہیں۔ حجرے کا دروازہ گھر کی دوسری جانب ہوتا ہے۔ یعنی مرد مہمان گھر کے اندر نہیں آتے۔ اس کو ہم ڈرائنگ روم کہتے ہیں۔ مگر حجرے کی اپنی ہی شان و وقار ہے۔ واش روم کے ساتھ کچن بھی ہوتا ہے۔ مہمان رات یہیں گزارتے ہیں اگر دور سے آئے ہوں۔
یہاں حجرے آباد رہتے ہیں، بہت آمدورفت رہتی ہے مہمانوں کی۔
خاتونِ خانہ نے کہا: دوچار مہمان تو ہردن ہی ہوتے ہیں، کبھی کبھی بیس، پچیس بھی ہوتے ہیں۔ نہ اسٹوڈنٹ بریانی کا رواج ہے، نہ کھانا آرڈر کرنے کا، کہ ایک فون کال پہ ضیافت حاضر۔
روٹی بھی ہر گھر میں تندور پر پکتی ہے۔
تندوری پراٹھے گندم اور مکئی کے… کیا لذت رکھتے ہیں۔ بہت خاص انداز سے بناتے ہیں یہ لوگ۔ زندگی میں پہلی بار لطف لیا تندوری اور مکئی کے پراٹھے کا۔
یہاں کسی گھر میں مہمان آئیں تو آس پاس موجود گھروں سے کچھ نہ کچھ بن کر آتا رہتا ہے۔ ہر گھر کے ذائقے بالکل الگ۔ آج مکئی کے پراٹھے پڑوس سے آئے، ہر دن سے الگ ذائقہ۔ بات ذائقوں کی نہیں ان کے خلوص کی ہے۔ اس خلوص کا ذائقہ کھانوں کے علاوہ بھی آپ سارا دن چکھتے رہتے ہیں۔
حجرہ عورتوں کی مہمان نوازی کی بدولت آباد رہتا ہے۔ مہمانوں کو ہاتھوں سے بنا کر روٹی کھلائی جاتی ہے۔ بہترین پکوان کرتی ہیں خواتین مہمانوں کے لیے۔ نہ نہ کرتے کرتے چھ ڈشیں لگ ہی جاتی ہیں۔ موسم کے بہترین پھل ہر وقت تواضع کو موجود۔
جب حجرے میں مہمان موجود ہوں تو گھر کی خواتین باہر جانے سے گریز کرتی ہیں۔ ویسے یہاں خواتین کا باہر نکلنا پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا۔ اب تو خواتین جاب بھی کرنے لگی ہیں، بازاروں میں بھی جانے لگی ہیں، مگر کلچر میں حیا بہرحال باقی ہے۔ بے پردہ کوئی نظر نہیں آتا۔ ہم نے سڑکوں پر خواتین نہیں دیکھیں۔ بہرحال حجرے اور مہمانوں کی تکریم سے ہم بہت متاثر ہوئے۔
اگلا موضوع تفصیلی ہے۔ ابھی پراٹھوں کا لطف لیں جو سات بجے صبح دسترخوان پر موجود تھے، کیونکہ یہاں خواتین فجر کے بعد سوتی نہیں ہیں۔ نہ ماسیوں کا انتظار کرنا ہوتا ہے۔ جھٹ پٹ خود ہی سمیٹ لیتی ہیں سب کام یہ جنتی بیبیاں، جنھوں نے گھروں کے ساتھ حجرے بھی آباد رکھے ہوئے ہیں۔
٭٭٭
اس وقت لوئر چترال سے اپر چترال کے سفر میں ہیں۔ فلک بوس پہاڑ دائیں اور بائیں ساتھ چل رہے ہیں۔ پورے سفر میں دریائے چترال بھی ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ انتہائی خوب صورت مناظر، جن کا حسن کیمرے کی آنکھ سے بالاتر ہے۔ ساری کائنات رب کی مدح سرائی میں مصروف۔
دشوار گزار چڑھائیاں۔ آپ جیپ میں ہی سفر کرسکتے ہیں۔
انسان نے کیسے پہاڑوں کے سینے تراشے ہیں… بلندوبالا پہاڑیوں پر بھی انسانی زندگی رواں دواں۔ راستہ اتنا دشوار گزار کہ دو طرفہ ٹریفک۔ فٹ بھر کی دوری پر گہری کھائیاں۔ جگہ جگہ کچے راستے ٹوٹے پھوٹے۔
دکھ ہوتا ہے کہ اگر حکومت نے ٹورازم کی صنعت کے فروغ کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے ہوتے تو ہم تو اس حسین خوابوں کی سرزمین کو سیاحوں کی جنت بنا سکتے تھے۔
ملک کا سارا قرض اتر جائے، ہم خوش حالی کے ایک نئے دور میں داخل ہوجائیں اگر حکومت ٹورازم کے فروغ میں سنجیدگی دکھائے۔ دریا اور پہاڑوں کا سنگم دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
٭٭٭
چترال میں یہ ایک دن اور ایک وقت کی دو تصویریں ہیں۔ راستے میں اسکول کی ننھی بچیاں نظر آئیں جو روڈ کے ساتھ چل رہی تھیں۔ ان کے ہاتھوں میں پلے کارڈ تھے ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘۔ کشمیریوں کو خبر پہنچے نہ پہنچے کہ چترال کے ایک بلند پہاڑ کی بچیاں اُن کے لیے روڈ پر آئی ہیں (جو یہاں کی روایات کے لیے بھی نیا ہے)، مگر یہ بچیاں ہمیں ضرور امہ کے دل دھڑکنے کی خبر دے رہی ہیں۔
دوسری جانب یہ ہجوم جس نے روڈ بلاک کی ہوئی تھی۔ ہم سمجھے یہ مردانہ احتجاجی ریلی ہے۔ معلوم ہوا احتجاجاً گھروں سے نکلے ہیں کیونکہ پانی کی بوند بوند کو ترس گئے ہیں۔ کچھ آگے سفید شلوار قمیص یونیفارم میں لڑکوں کا ہجوم تھا۔ معلوم ہوا وہ بھی العطش کی صدا لگا رہے ہیں۔
یہ بڑے مضبوط پہاڑی لوگ ہیں۔ کسی سے کچھ نہیں مانگتے۔ ہفتہ بھر سے ہم ان کے درمیان ہیں۔ دشوار گزار راستوں پر پیدل سفر کرتے ہیں۔ نہ رستے، نہ پبلک ٹرانسپورٹ۔ گھروں میں سبزیاں، فروٹ اگے ہوئے ہیں۔ گھر کے پچھلے حصے میں گائیں، بھینسیں بندھی ہیں۔ کنویں کھود کر پانی نکالنے والے یہ حکومت سے مانگتے ہی کیا ہیں! ٹھنڈے گھروں میں رہتے ہیں۔ لوڈشیڈنگ سے ہماری طرح نہیں بلبلاتے۔
بے نیاز پہاڑوں پر اپنے آباء کی جاگیریں سنبھالے خوش وخرم ہیں۔ انتہائی سخت جان۔ اعلیٰ ترین انسانی اخلاقیات سے مزین۔ سڑکوں پر نکلے ہیں تو بڑی بات ہے۔ ان کے ساتھ ظلم نہیں ہونا چاہیے، یہ پہاڑوں پر سجدے کرنے والے تو دنیا سے اپنا حصہ کم ہی مانگتے ہیں۔ اپنی دنیا آپ پیدا کیے ہوئے ہیں۔ اسی لیے زندوں میں ہیں۔
بچیاں کشمیر کے لیے نکلی ہوئی ہیں… مرد پانی کے لیے (اگرچہ کہ کشمیر کے لیے بھی ہر ضلع میں ریلیاں نکلی ہوں گی)۔
یہ ہمارا نظام ہے جہاں فرد کو بنیادی ضروریات میں ہی ایسا جکڑ کر رکھا گیا ہے کہ وہ روٹی، پانی سے آگے نہ سوچے۔
ہمارے شہروں میں بھی زندگی کی اسّی فیصد جدوجہد روزی روٹی کے حصول کے لیے ہی ہوتی ہے… اوپر سے لوڈشیڈنگ، پانی و گیس کی کمیابی، دیگر بنیادی سہولتوں کے لیے خود سے لڑتے ہم لوگ… شاید عالمِ بالا میں ہی سوچ پائیں گے کہ زندگی تو کسی بڑے کام کے لیے ملی تھی!!!
٭٭٭
دو گھنٹے کی فضائی مسافت پر ایک الگ جہاں آباد ہے۔
پاکستان کا صوبہ ہے خیبر پختون خوا۔ گھر گھر دینی تعلیم۔ ہر گھر مدرسہ، ہر گھر میں عالم دین اور عالمہ۔ خواتین یا قرآن پڑھنے جاتی ہیں یا اپنے گھروں پر پڑھاتی ہیں۔ یہاں بڑے شہروں کی طرح خواتین دوپہر آرام میں نہیں گزارتیں۔ ہم بڑے شہروں کی عورتیں زیادہ تھک جاتی ہیں، جبکہ نہ ہم جانوروں کا چارہ کاٹ کر لاتے ہیں، نہ گائے، بھینس کا دودھ دوہتے ہیں… نہ سبزیاں، پھل توڑنے کی زحمت، نہ پنیر اور گھی بنانے کی زحمت۔
آنکھیں بڑی ٹھنڈی ہوتی ہیں یہاں آکر، قرآن کی بستی دیکھ کر۔
یہ جو تصاویر آپ کے سامنے ہیں، یہ دیر پائیں کا ایک علاقہ سنگولئی ہے… انتہائی دیدہ زیب۔ یہ بلند پہاڑ پر واقع ہے۔ اور یہ ذیلی جامعۃ المحصنات سنگولئی کی بھی بلند ترین چوٹی پر واقع ہے۔
ہم یہاں معلمات کو تربیت دینے کے ایک پروگرام کے سلسلے میں آئے۔ ہماری گاڑی چڑھائی سے پہلے ہی رک گئی کیونکہ اس سے زیادہ گاڑی میں سکت نہ تھی۔ باقی سفر پیدل کیا۔ مگر ہم حیران ہوگئے تربیت گاہ کی سج دھج دیکھ کر، کہ یہاں تک تو گاڑی بھی نہیں آسکتی۔ کیا یہ سامان ہیلی کاپٹر سے اترا ہوگا اس عمارت میں!!!
٭٭٭
یہاں اپر چترال میں یہ پھل بازار سے نہیں آئے۔گھر کے پیچھے باغ میں گئے اور ٹہنیاں جھکائیں، توڑ کر مہمانوں کے سامنے حاضر کردیے۔ سب کچھ گھر میں اگتا ہے۔ پہلی بار تازہ انجیر کھائے رس بھرے۔ انار اکتوبر میں پک جاتے ہیں۔ نارنجی کچی ہے۔ سرخ سیبوں سے درخت لدے ہوئے ہیں۔ ناشپاتیوں سے ٹہنیاں جھکی ہوئی ہیں۔ آڑو اور اخروٹ بھی جوبن پر ہیں۔ سائز میں کچھ چھوٹے مگر ذائقے میں بہت اعلیٰ۔
انگور دونوں طرح کے وافر ہیں ماشاء اللہ… سبز بھی اور کچھ جامنی سے۔
سیب اور اخروٹ باغ میں بکھرے پڑے تھے۔ میں نے خاتونِ خانہ سے پوچھا کہ یہ تو ضائع ہوجائیں گے۔ بولیں ’’ایسا ہی ہوتا ہے، کچھ گائے، بھینس کھا لیتی ہیں، کچھ ہم کھاتے ہیں اور مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں۔‘‘
آپ کسی گھر سے خداحافظ کہہ کر نکلنے لگیں تو لازماً چار پانچ کلو پھل کا تھیلا آپ کے حوالے کیا جائے گا۔
کتنے دکھ کی بات ہے کہ ہر موسم میں ہر ذائقے کا لاکھوں روپے کا پھل صرف اس لیے گائے، بھینسوں کے پیروں تلے روندا جاتا ہے کہ ذرائع نقل و حمل ناپید ہیں۔ سڑکیں اس قابل ہی نہیں کہ اس سوغات کو منڈیوں تک پہنچا سکیں۔
٭٭٭
ایک جگہ اس سے ملتی جلتی کچھ پہاڑیاں تھیں جو’’تھری سسٹرز‘‘ کہلاتی ہیں۔ خوب صورت، چوڑے، کشادہ، عمدہ پروٹوکول، فوڈ کورٹ، راستے سجے ہوئے، سڑکوں پر رہنمائی کے نشانات، درجہ حرارت تین درجہ سینٹی گریڈ لیکن لوگ باگ آئس کریم سے لطف اٹھا رہے تھے۔ ساری دنیا کے سیاح سڈنی میں یہ تھری سسٹرز دیکھنے آتے ہیں۔ جب ہم گئے تب بھی سیاحوں کی بس کھڑی تھی۔ سیکڑوں لوگ سیلفیاں لینے میں مصروف تھے۔ چند فرلانگ کا ایریا جس کی اتنی پبلسٹی کی گئی ہے کہ لوگ دوردور سے دیکھنے آتے ہیں۔
ہم حیران تھے، صرف ملاکنڈ میں ایسی سیکڑوں ’’سسٹرز‘‘ ہیں۔ ہم نے نہ تو پبلسٹی کی، نہ راستے بنائے کہ پاکستانی ہی ان مقامات کی سیر کو آسکیں۔ اتنے ٹوٹے پھوٹے راستے کہ’’جس کو ہو جان و دل عزیز، اس کی گلی میں جائے کیوں‘‘۔
دل دکھ جاتا ہے کہ 72 برس میں پاکستان کو ایسے حکمران میسر نہ آسکے جن کو یہ پتا ہوتا کہ سیاحت بھی ایک صنعت کا نام ہے۔ پاکستان اتنا خوبصورت ہے کہ اس صنعت کی ترقی سے ہی دنیا کے خوش حال ملکوں میں شامل ہوسکتا ہے۔
٭٭٭
یہ چترال ایئرپورٹ ہے۔ پہاڑیوں کے بیچ چھوٹا سا ایئرپورٹ، جہاں سے چند چھوٹے جہاز ہفتے میں ایک دو بار قریبی ائیرپورٹ تک جاتے ہیں۔ کراچی تک یہاں سے کوئی فلائٹ نہیں۔ اکثر فلائٹس کینسل ہوجاتی ہیں۔ کبھی گلگت کا موسم، کبھی تکنیکی خرابی۔
کل ائیرپورٹ پر چہل قدمی کرتے ہوئے خیال آیا کہ… جنید جمشید کی فلائٹ کینسل نہ ہوسکی۔ ایک عظیم سفر کی عظیم منزل کا آخری پڑاؤ یہیں ڈالا تھا مرحوم نے۔ کل بھی کچھ نشستوں پر تبلیغی بھائی نظر آئے جو یقینا انہی کے مشن پر سرگرم ہوں گے۔
کل ہماری فلائٹ کینسل ہوگئی اور ہم گھنٹے بھر کے بجائے دس گھنٹے کا سفر کرکے اسلام آباد ائیرپورٹ پہنچے۔
راستہ اتنا خطرناک کہ دوبارہ آنے کی جسارت کرنا مشکل ہے۔ گاڑی سے اتر کر ناہموار پہاڑیوں پر رات کے اندھیرے میں پیدل چلتے، کہیں گاڑیوں کو دھکا لگاتے مسافر… کیونکہ پتھریلے راستے پر گاڑی مسافروں کا بوجھ اٹھانے سے قاصر تھی۔ راستے اتنے تباہ ہیں کہ دل کا مریض پہلے ایک گھنٹے کے جھٹکوں میں ہی دارِ فانی سے کوچ کر جائے۔
ہم جیسے تو کبھی کبھار ہی جاتے ہیں، مگر وہ لوگ جو یہاں کے رہائشی ہیں کس قدر اذیت ناک ہے ان کی زندگی۔ ڈرائیور نے کہا کہ وہ اسی راستے کے مسافروں کو اٹھاتا ہے تو دل نے اُس کی عظمت کی داد دی۔
کاش حکمران جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کے بجائے زمینی راستوں سے آئیں اور دیکھیں کہ یہ پہاڑی عوام کس قدر اذیت میں ہیں۔
٭٭٭
میری پیاری بہنو! ہاتھ بڑھا کر درخت سے سیب توڑا، ساتھ میں دوچار لازماً اور جھڑ جائیں گے۔ دوپٹے میں رکھ کر پلہ مار لیں تو وہی دوپٹہ شاپنگ بیگ بن گیا۔
اب سیب کو دوپٹہ کے پلو سے پونچھ کر کھالیا۔ہم نے اس طرح جانے کتنے کھائے۔
پانی، پلیٹ، چاقو، ٹشو پیپر بھول جائیں۔
یقین جانیں اس سیب کا لطف اگر نہیں لیا آپ نے… تو زندگی کے ایک حقیقی رنگ سے محروم ہیں آپ۔
یہاں لباس اور رکھ رکھائو کے پیمانوں سے نہیں پرکھا جاتا لوگوں کو… سچائی اور خلوص اس مٹی کی پہچان ہے۔ سب نماز پڑھتی ہیں اور شوہروں کی وفادار ہی نہیں ہیں بلکہ خادمائیں۔ کتنے ہلکے حساب سے جنت میں چلی جائیں گی یہ معصوم بیبیاں۔ ان شاء اللہ
٭٭٭
یہ لفٹ چیئر ٹائپ بس تھی۔ اس کا فرش شفاف تھا جس سے قدموں کے نیچے منظر صاف نظر آتے تھے۔
بس میں موجود نوجوان مائیک پر ان مناظر کی صوتی عکاسی کرتا جاتا تھا’’اب آپ دائیں طرف گھوم جائیں، یہ جو پہاڑیاں ہیں ان کی یہ تاریخ ہے۔ اس سامنے والی بلڈنگ کی یہ اہمیت ہے۔ آپ اپنے قدموں کی طرف دیکھیں۔ نیچے جو سبزہ ہے یہ آپ کو کتنی خوشی دے رہا ہے۔ نیچر کو انجوائے کیجیے۔ یہ درخت آپ کو ویلکم کررہے ہیں۔ جب آپ خوش ہوتے ہیں وہی آپ کی زندگی کا اصل لمحہ ہوتاہے۔ ارے ارے آپ کو بائیں جانب مڑنا تھا۔ آپ ایک تاریخی آبشار کے سامنے ہیں۔ آپ سے پہلے لاکھوں لوگ یہ منظر دیکھ چکے ہیں۔ آج آپ بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہوگئے ہیں۔ اپنے کیمرے سے جلد محفوظ کرلیں ان یادگار لمحات کو۔‘‘
کوئی پانچ سات منٹ کا یہ سفر ہوگا سڈنی میں، اس کے لیے اتنا رش ہوتا ہے کہ ہم گھنٹہ بھر لائن میں لگے تب ہماری باری آئی۔ دنیا بھر سے لوگ ان مقامات کی سیر کو آتے ہیں۔ کتنا زرمبادلہ آتا ہے ان کے ساتھ۔
ہمارا دیس کہیں زیادہ خوب صورت… وہاں مصنوعی طور پر کشش پیدا کرنے کے لاکھ جتن بھی کیے گئے ہیں۔ ہمارے ہاں تو قدرت کے شاہکار نظارے ہیں۔ صرف ایک ملاکنڈ ڈویژن میں پہاڑوں کی اتنی قسمیں ہیں کہ پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا جاسکتا ہے
پہاڑ ساتھ ساتھ ہیں مگر کوئی چاندی کی طرح چمک رہا ہے، کوئی کوئلے جیسا سیاہ، کوئی سرخ ہے، کوئی لکڑی کی ٹال جیسا لکڑی نما، کہیں گلابی مٹی ہے کہیں سبز۔
کہیں دریا پہاڑوں سے سرگوشیاں کرتے ہیں، تو کہیں سر ٹکراتے ہیں۔ کہیں پہاڑ جھک کر اپنا عکس دیکھتے ہیں، تو کہیں سرو کے اونچے درخت پہاڑوں کی سنگت میں ایک وقار سے کھڑے نہال ہیں۔
میلوں پر پھیلے یہ سلسلے ہیں۔ اگر سڑکوں پر توجہ دے دی جائے، لفٹ چیئرز لگادی جائیں، سیاحت کے لیے ایک بار بڑا بجٹ رکھ لیا جائے تو ہماری نسلیں اپنے وطن کی عظمت سے کس طرح سرشار ہوں کہ کتنا خوبصورت دیس دیا ہے رب نے ہمیں… سرمایہ کاری صرف ایک بار کردی جائے۔ یہ علاقے اس سے ہزاروں گنا زیادہ لوٹا دیں گے۔ ایسا سحر ہے یہاں، ایسا حسن جس کی مثال نہیں ملتی۔
٭٭٭
مارخور
راحیل قاضی نے کہا: چترال گئی ہیں تو مارخور ضرور دیکھ کر آئیں۔
سرشام روانہ ہوئے اور عصر کے وقت دریا کے اس پار پہاڑی پر موجود مار خوروں کو تلاش کرنے لگے۔
کم ہی لوگ جانتے ہوں گے کہ مارخور پاکستان کا قومی جانور ہے جس کی نسل معدوم ہوتی جارہی تھی، لہٰذا تحفظِ ماحولیات کی وزارت نے اس کے شکار پر پابندی لگادی ہے۔ پہاڑوں کے اطراف گارڈ ان کی نگرانی پر مامور ہیں۔ رشک آیا مارخوروں پر کہ ہمارے دیس میں ان کی جان کی اتنی قدر ہے کہ ان کی جان لینے پر عمر قید کی سزا ہے، جبکہ یہاں تو نامی گرامی انسانی قاتل دندناتے پھرتے ہیں۔
ہاں مگر غیر ملکی سیاح پرمٹ کے ذریعے مارخور کا شکار کرسکتے ہیں۔ ایک شکار کی قیمت یا اپنے شوق کی قیمت وہ پچیس لاکھ سے پچاس لاکھ میں چکاتے ہیں۔
بکرے سے ملتے جلتے یہ جانور حلال ہیں۔ مادہ مارخور اپنے بچوں کے ساتھ بعد نماز عصر پہاڑوں سے اترتی ہے اور پانی پی کر ماں و بچے قلانچیں مارتے ہوئے پھر پہاڑوں میں غائب ہوجاتے ہیں۔ یہ شاہینوں کی طرح پہاڑوں کی چوٹیوں پر بسیرا کرنے والی مخلوق ہے۔
پاکستان میں چترال کے علاوہ بلوچستان کے کسی مقام پر یہ نادر مخلوق پائی جاتی ہے۔
’’نر مارخور کیوں نہیں اترتے پانی پینے؟‘‘ ہمارے اس سوال پر مقامی ڈرائیور نے کہا ’’یہ تو ہمارے کو نئی پتا، مگر اس کے لیے وہاں پانی ہوتا ہوگا برف کے پگھلنے سے جو پانی بنتا ہے۔‘‘
وہ پانی تو مادہ مارخور وبچے بھی پی سکتے ہیں مگر ہمارے خیال میں ماں بلند پہاڑوں سے نیچے محض پانی پلانے نہیں آتی، ان معصوموں کو زندگی کی اونچ نیچ بھی سکھانے آتی ہے۔ ان کو پہاڑوں سے نیچے اترنے کی مشق کراتی ہے۔ جیسے ابابیل جو اپنا گھونسلہ کنویں کی منڈیر پر بناتی ہے، اور جب بچہ انڈے سے باہر آتا ہے تو نر و مادہ اپنی اڑانوں کی تعداد دگنی کردیتے ہیں تاکہ بچہ دیکھ کر سیکھ لے۔ کسی نے ابابیل کے بچوں کی لاش کنویں کے پانی پر تیرتے نہیں دیکھی ہوگی، کیونکہ ماں بچوں کے حصے کی مشقت کرکے ان کو جینا سکھاتی ہے، ان کو یقین دیتی ہے کہ تمہیں گرنا نہیں ہے، یوں پرواز کرنا ہے۔ جب بچہ پہلی اڑان بھرتا ہے تو سیدھا کنویں کی منڈیر سے درخت پر جا بیٹھتا ہے۔
جان رکھیے! ہماری اولاد ہمارے یقین کے سرمائے سے اپنا حصہ پاتی ہے۔
بہت اچھا لگا مارخوروں کو دیکھنا۔ کئی اور لوگ بھی کیمرے لیے ان مناظر کو قید کررہے تھے۔ ایک تو پہاڑ دریا کے اُس پار، دوسرے مارخوروں کی چابک دستی… بڑا مشکل تھا کیمرے کی آنکھ سے قید کرنا۔
ہماری میزبان نے مارخور کے سینگ سے بننے والی انگوٹھی تحفے میں پیش کی جو وہاں کی سوغات سمجھی جاتی ہے۔
٭٭٭
شریعت اور روایات کا ٹکراؤ
نپولین بوناپارٹ نے اٹھارہویں صدی کے نصف اول میں ملاکنڈ کا دورہ کیا۔ ایک مضبوط قوم سے متاثر ہوکر کتاب لکھی۔ ہر لکھنے والا اپنا نظریہ اور خاص پس منظر بھی رکھتا ہے۔
آج وقت کے نپولین غلط تجزیہ کرکے ایک قوم کو تہذیبی جنگ کی دلدل میں دھکیل دیتے ہیں اور ملالہ فیکٹر وجود میں آتا ہے۔
ایسا بالکل نہیں ہے کہ وہاں عورتوں پر پابندیاں نہیں ہیں یا ان کے حقوق کا پورا تحفظ کیا جاتا ہے۔ وہاں کچھ ناجائز پابندیاں ہیں، لیکن ہرجگہ نہیں ہیں۔ ایک ملاکنڈ ڈویژن کے مختلف علاقوں کی صورت حال ایک دوسرے سے بالکل جدا ہے۔ کہیں خواتین کے بازار جانے پر پابندی ہے اور کہیں جابجا خواتین بازار میں نظر آئیں گی۔
اپر چترال کے ایک گھر کے مہمان خانے میں جو خواتینِ خانہ تھیں اُن میں سے ایک نے ایم بی اے کیا ہوا تھا چترال یونیورسٹی سے۔ ایک ایم بی بی ایس کی طالبہ تھی۔ ایک بہن این ٹی ایس کی تیاری کررہی تھی۔ بڑی بہن نے کیمسٹری میں ماسٹرز کیا ہوا تھا پشاور یونیورسٹی سے۔
جابجا خواتین سے ملاقات ہوئی جنھوں نے ڈبل ایم اے کیا ہوا ہے اور بہت سی اسکول و کالج میں معلمہ کے فرائض ادا کررہی ہیں۔
تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ گھر میں کھڑکی اتنی اونچی بنائی ہے کہ اسٹول رکھ کر باہر دیکھا جاسکتا ہے۔ کھڑکی سے کوئی عورت باہر جھانک نہیں سکتی۔ ہم نے علی الصبح گھر کے باہر واک کرنے کی اجازت چاہی تو پتا چلا کہ حجرے میں مہمان موجود ہیں اس لیے خواتین باہر نہیں نکل سکتیں۔
اس میں برا ماننے کی بات نہیں ہے، یہ ان کی قبائلی روایات ہیں۔ مثلاً عورتیں ٹوپی کا برقع پہنتی ہیں تو ٹھیک ہے، وہاں سب ہی ایسا کرتے ہیں۔ اگر لڑکیوں کو صرف مدرسہ پڑھاتے ہیں، عصری علوم کے دروازے ان پر بند رکھتے ہیں تو یہ ان کی خاندانی روایت ہے جو نہیں ہونا چاہیے۔
ظلم جب ہوتا ہے جب آپ اپنی روایات کے لیے اسلام میں جگہ تلاش کرتے ہیں۔ ان کو اسلامی ثابت کرنے کے لیے دلیل لاتے ہیں۔
مثلاً ایک گاؤں میں ہمارے داخلے سے پہلے وہاں کی مقامی خاتون نے کہا کہ ہمارے ہاں خواتین لپ اسٹک نہیں لگا سکتیں، اس کو معیوب گردانا جاتا ہے۔
اب اس کو آپ اسلام سے کیسے جوڑ سکتے ہیں! چونکہ مسلمان ایسا کرتے ہیں لہٰذا یہ اسلام ہے!!!
ظلم یہ ہوا کہ یہاں کی ناجائز پابندیوں کو اسلام کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ چونکہ وہ عبادات وغیرہ کے اعتبار سے کٹر مسلمان ہیں، لہٰذا ان کے ہر عمل کو اسلام سے جوڑ دیا گیا۔
اس وقت تبدیلی وہاں بھی آرہی ہے۔ خواتین جن برانڈڈ کپڑوں کی دیوانی ہیں وہ برانڈز وہاں پہنچ چکے ہیں۔ ہر دسترخوان پر کوک اور پیپسی نظر آئی۔ پردے اور کپڑوں کے اسٹائل میں اکثر جگہوں پر تبدیلی نظر آئی۔ تبدیلی میں اسماعیلی فرقے کے بھی اثرات ہیں جو اپر کے ساتھ لوئر چترال میں بھی پھیل چکا ہے۔ جگہ جگہ ان کے اسپتال، اسکول آپ کو نظر آئیں گے۔ ترقیاتی کاموں میں بھی پیش پیش نظر آتے ہیں۔
افسوس اس بات کا ہوا کہ اگر ان کی روایات کا تصادم ہوتا ہے اسلام سے تو وہ روایات کو غالب رکھتے ہیں۔
جہاں جہاں مجھے گفتگو کا موقع ملا اُن کی خواتین کو سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ کی ہر روایت اسلامی نہیں ہے، نیز اپنی روایات کی پاسداری اس حد تک کریں جہاں تک اسلام کی حدود ہیں۔ غیر اسلامی روایات کے بوجھ سے آزاد کرانے کے لیے تو پیغمبر دنیا میں بھیجے گئے۔
بعض جگہ عورتیں اتنی معصوم نظر آئیں کہ دکھ ہوا۔ پتا چلا کہ جب عورتوں کو ووٹ ڈالنے لے کر گئے تو وہ اتنی خوف زدہ تھیں کہ ووٹ کی پرچی پر مہر لگانا بھی ان کے بس سے باہر تھا۔
کئی جگہوں پر خواتین باہر کی دنیا سے بالکل نابلد ہیں۔ گھر میں بندھی گائے بھینس، درختوں پر لگے سیب، انگور و اخروٹ سے آگے ان کا ذہن سوچ ہی نہیں سکتا۔
اب اسلام کو موردالزام ٹھیرا دیا جائے اور اس پر اسلام کا لیبل لگا دیا جائے تو یہ صریحاً بددیانتی ہے۔
معصوم سی ثوبیہ نے ایک پہاڑ کی بلندی پر انگور کا خوشہ تھماتے ہوئے سوال کیا کہ’’باجی میرا شوہر غصے میں آجاتا ہے جب میں اُس سے کراچی جانے کا سوال کرتی ہوں۔ ایسا کیوں ہے؟‘‘ ہم ہنس دئیے، ہم چپ رہے۔
nn