طاہرہ فاروقی
اس کے ہاتھ سے پوسٹنگ لیٹر لیتے ہوئے منیجر نے ایک لمحہ اسے حیرت سے دیکھا، پھر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ خاموشی سے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گئی۔ منیجر نے لیٹر پڑھ کر دفتری کارروائی کی، اور جوائننگ لیٹر سائن کرواکے آفس سیکریٹری کو دے دیا کہ فائل میں لگادے، اور شائستہ لہجے میں اس سے مخاطب ہوا ’’مس اب آپ ایزی ہوجائیں۔ آپ کا سیٹنگ ارینجمنٹ وغیرہ ہوتا رہے گا۔‘‘
’’تھینک یو سر، میں ایزی ہوں۔‘‘
’’یہ چادر وغیرہ اتار لیں، گرمی ہے۔ اب تو آپ سیکشن میں ہی ہیں۔‘‘ منیجر جاوید خان نے’’ایزی‘‘ کی وضاحت کی۔
’’نو پرابلم سر! اٹس اوکے۔‘‘ اس نے بے نیازی مگر شائستگی سے ان کی پیشکش کا جواب دیا۔
انہوں نے الجھے ہوئے انداز سے اس کی عجیب و غریب بڑی سی چادرکو دیکھا، جس میں صرف اس کی آنکھیں اور ہاتھوں کی انگلیاں نظر آرہی تھیں۔
تب آفس سیکریٹری اسما، جوکہ اس کو پہلے سے جانتی تھی، مسکرا کر مزے سے بولی ’’سر یہ چادر نہیں اتاریں گی۔‘‘
منیجر کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں ’’کیا مطلب…؟ یعنی… یعنی کہ… سارا دن…؟‘‘ وہ بوکھلا گئے۔ ان کی بوکھلاہٹ پر اسما کی ہنسی چھوٹ گئی۔ مگر جاوید خان صاحب بہت مہذب اور عورتوں کی عزت کرنے والے انسان تھے۔ حالاں کہ ان کے مشاغل کے بارے میں لوگ اچھی رائے نہیں رکھتے تھے۔ وہ ایلیٹ کلاس کے فرد تھے مگر انھوں نے ہمیشہ بہت عزت اور سپورٹ اسے دی۔
وہ اسما کے پاس بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد ایک صاحب آئے اور اسما سے کچھ گفتگو کرنے لگے، مگر زیادہ تر دھیان اس کا جائزہ لینے پر تھا۔ پھر واپس چلے گئے اور ساتھ ہی اس کی جوائننگ کی خبر ہال میں پہنچ گئی۔ اس کے بعد ایک اور… پھر ایک اور… پھر تو تانتا ہی بندھ گیا، لوگ اسے دیکھنے کو امنڈ پڑے۔
یوں تو منیجر کے سیکریٹری آفس میں لوگوں کا آنا جانا رہتا ہی تھا کیوں کہ اس سے باہر ایک بڑا ہال تھا جس میں پچاس کے قریب لوگ بیٹھتے تھے۔ یہ ریونیو اکائونٹنگ کا مرکزی آفس تھا جس میں مختلف شعبوں کے چھوٹے چھوٹے یونٹ بنے ہوئے تھے، جن میں دو چیمبرز اسسٹنٹ منیجرز کے بھی تھے۔ یہ تھا پی آئی اے کا کارگو ریونیو ڈپارٹمنٹ۔
اس چھوٹے سے ڈپارٹمنٹ نے تو کجا پورے پی آئی اے ہی نے کبھی ایسے نمونے کی ملازمت پیشہ خاتون نہیں دیکھی تھی۔ اُس زمانے میں پی آئی اے کی خواتین فیشن پرستی میں اپنی مثال آپ تھیں۔ وہاں اس عجوبے کی موجودگی ناقابلِ یقین تھی۔ لوگ مختلف بہانوں سے اس کی ’’زیارت‘‘ کو آرہے تھے، بہانہ کام کا بھی ہوتا اور اسما سے گپ شپ کا بھی۔ کیوں کہ وہ یونین ورکر بھی تھی اس لیے اُس کا حلقۂ احباب بھی وسیع تھا۔ لوگ نئی لڑکی کے بارے میں فوراً ہی نہ صرف معلومات چاہتے تھے بلکہ ملاقات بھی۔ کبھی آنکھوں کے اشاروں سے اسما سے دریافت کرتے، کبھی کوئی جرأت مند ڈائریکٹ ڈائلنگ کی کوشش کرتا، مگر اس کا رویہ بڑا حوصلہ شکن تھا جوکہ ایک بڑی ناگوار بات تھی۔ ایک تو یہ خوف ناک چادر، جس میں وہ انتہائی ’’جاہل‘‘ اور ’’پینڈو‘‘ لگ رہی تھی، اور حلیے کی رُو سے اس کو آفس کے ماحول میں کنفیوژ، بلکہ اس صورت حال میں تو بالکل ہی پزل ہوجانا چاہیے تھا۔
لیکن اس کا کانفیڈنس تھا کہ شائستگی کے ساتھ بے نیازی پورے حلیے پر حاوی تھی۔ دراصل وہ تو اس صورت حال کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوکرآئی تھی۔ آفس کی نوکری وہ اپنی مرضی سے چھوڑ چکی تھی اور گھریلو زندگی گزارنا چاہتی تھی، مگر شوہر کی وفات کے بعد خود کی اور تین بچوں کی کفالت نے اسے ایک بار پھر دفتری ملازمت پہ مجبور کردیا تھا۔ اسے تو ایک گونہ لطف آرہا تھا لوگوں کی بے بسی پر۔ لنچ ٹائم میں اسما کے ساتھ کینٹین گئی تو لیڈیز کی حیرت کا نظارہ ہوا، جن کے رنگ برنگے مشوروں پر بھی وہ سر ہی دھنتی رہی مگر ٹس سے مس نہ ہونے کی تو قسم ہی کھا کر آئی تھی۔ بس اپنے پروردگار سے استقامت اور سہولت و عافیت کی دعائیں کرتی رہی۔ آگے بڑے بڑے مرحلے آنے والے تھے۔ عورتوں نے اسے بڑی اونچ نیچ سمجھائی کہ اکثر لائٹ چلی جاتی ہے تو سانس لینا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ اس لیے شروع ہی سے ایسی چال چلو کہ بعد میں کوئی ہنس نہ سکے۔ ایک بڑا دوپٹہ سر سے اوڑھ لو، صرف چہرہ کھلا رہے تاکہ سانس لینے میں آسانی ہو… وغیرہ وغیرہ۔
خیر پہلا دن گزرا تو دوسرا بھی اس سے آسان نہیں بلکہ مشکل ہی تھا، کیوں کہ وہ جدھر سے گزرتی، لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بن جاتی۔ کبھی عربی طرز کا عبایا پہنے تو ناواقف لوگ اسے کوئی مسافر سمجھتے جو شاید ٹکٹ کا ریفنڈ لینے آئی ہوگی (اُس زمانے میں ہیڈآفس میں ہی ٹکٹ کا ریفنڈ مل جایا کرتا تھا)۔ اور لوگوں کے پاس کسی عورت کو ڈسکس کرنے کے لیے تو ویسے ہی بے تحاشا وقت ہوتا ہے۔ پھر ان کی تمام ڈسکشن خود اس تک بڑی مستعدی سے پہنچائی جاتی۔ ایک دن اس نے قیصر سے سنا کہ نیچے والے ہال کا ظفر کہہ رہا تھاکہ اس لڑکی کی شکل کیسی ہے (اگرچہ وہ تین بچوں کی ماں تھی، مگرکوئی دیکھ کر یقین نہیں کرسکتا تھا کہ اس کی شادی تک ہوئی ہے چہ جائیکہ بچے…) ’’میں نے کہا اس کے ہاتھ تو نظر آتے ہیں ناں، بس سمجھ لو منہ بھی ایسا ہی ہے۔‘‘ کہنے لگا کہ’’یار تم لوگ کسی کام کی نہیں ہو، ایک ذرا سا برقع تک نہیں اتروا سکیں اس کا۔‘‘
اور اُس دن تو اسے رونا ہی آگیا جب مسز خان نے بتایا کہ زبیر صاحب کہہ رہے تھے کہ ’’ابھی تو نیا نیا گھر سے قدم نکالا ہے، ذرا پی آئی اے کی ہوا لگنے دو… اگر تین مہینے میں یہ برقع ورقع سب اتر کے ہاتھ میں نہ آجائے تو نام بدل دینا۔‘‘
’’یااللہ! کیا میں لوگوں کے صدقہ خیرات پر پڑی رہتی؟ یہ اپنے پائوں پہ کھڑے ہونے، اپنے بچوں کی پرورش کا عزم کرنے کی راہ کتنی کٹھن ہے۔‘‘
ایک دن قیصر اپنے مخصوص متکبرانہ لہجے میں اس کے سامنے اسما سے مخاطب ہوکر کہنے لگی ’’اسما! تم نے بتایا نہیں تھا ان کو پہلے سے کہ آفس میں کس طرح کے کپڑے پہنے جاتے ہیں؟‘‘ اسما اس کی سسرالی رشتے دار بھی تھی، اس نے کہا ’’ارے میں کیا بتائوں گی، بھابھی کو خود مجھ سے زیادہ پتا ہے۔‘‘
’’پھر بھی یہ ماسیوں والے حلیے میں آجاتی ہے؟‘‘ قیصر حقارت سے بولی۔
اس نے ایک نظر غور سے قیصر کی طرف دیکھا اور سوال کیا ’’اس کو آفس کہتے ہیں؟‘‘
’’پھر کیا نہیں؟‘‘ وہاں موجود پانچ چھ خواتین نے تقریباً ایک ساتھ ہی کہا۔
’’میں تو ایسے آفس میں جاب کرچکی ہوں جس کاآپ کے آفس کے لوگوں نے کبھی تصور بھی نہ کیا ہوگا، جہاں فلموں اور ڈراموں کی شوٹنگ کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ میں حبیب بینک پلازہ میں جاب کرچکی ہوں اور مجھے آفس ڈیکورم کا بہت اچھی طرح پتا ہے۔ میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ گیٹ اَپ اختیار کیا ہے۔ کیا خرابی ہے میرے کپڑوں میں؟‘‘ اس کی آواز خودبخود تھوڑی سی بلند ہوگئی تھی۔
حبیب پلازہ کا نام سن کر سب کی آنکھیں پھیل گئیں اور سب خاموش ہوگئیں۔
ایک دن لیڈیز روم میں نماز پڑھنے کے بعد وہ اپنا میچنگ کا دوپٹہ تہہ کررہی تھی۔ کپڑے وہ بہترین پہن کر آتی، کیوں کہ تھے ہی وہی، اور کلف استری وغیرہ کا بھی پورا پورا اہتمام کرتی۔ دراصل وہ لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتی تھی کہ پردہ کرنے والے بھی اچھا پہننا اوڑھنا جانتے ہیں اور اس میں آزاد بھی ہیں۔ خواتین اس کے ذوق اور نفاست کی قائل ہوتی جارہی تھیں۔ تو اس دن جب دوپٹہ بیگ میں رکھ کر وہ برقع اوڑھنے لگی توایک صاحبہ بولیں’’ اتنے اچھے کپڑے پہن کر آنے کا فائدہ ہی کیا جب نظر نہ آئیں کسی کو؟‘‘ اور لوگوں نے بھی ہاں میں ہاں ملادی
’’ہائیں!!!! تمھیں کس نے بتایا میرے کپڑوں کی اچھائی کا…؟‘‘اس نے حیرت سے خوب آنکھیں پھاڑ کر پوچھا۔
’’لو بھلا میں خود نہیں دیکھتی کیا!‘‘
’’مگر ابھی تو تم کہہ رہی تھیں کہ کوئی نہیں دیکھتا؟‘‘ اس نے مسکرا کر معنی خیز نگاہوں سے سب کو دیکھا۔ سب لاجواب تھیں۔ اب دوسرا وار اس کا تھا ’’تو کیا تم لوگ صرف مردوں ہی کے دیکھنے کو دیکھنا سمجھتی ہو؟‘‘ اب لیڈیز روم میں سب کو سانپ سونگھ گیا۔ آج انھیں احساس ہوا کہ اس میں تو چٹکی لینے کا بھی دَم ہے۔ اس کو حقیر سمجھنا غلطی ہوگی۔
مردوں سے تو زیادہ عورتیں ہی اس کی دشمن تھیں۔ جب مرد کھلم کھلا سولہ سنگھار والی عورتوں کے اوپر طعن کستے کہ تم لوگ مردوں کو پھانسنے کے لیے بن ٹھن کے آتی ہو، وہ کہتیں کہ ہم شوہر والی ہیں، شوہروں کی خوشی کے لیے سنورتی ہیں، تو وہ کہتے کہ یہاں کہاں تمھارے شوہر… یہاں تو ہم ہی ہیں۔ کبھی چھیڑا جاتا کہ گھر کیوں نہیں بیٹھتی تم لوگ؟ وہ کہتیں کہ ضرورت سے نوکری کرتے ہیں۔ اس پر انھیں اس کی مثال دی جاتی کہ ضرورت سے نکلنے والیاں ایسی ہوتی ہیں۔ اس بات پر وہ سب جل بھن کررہ جاتیں۔ دراصل غیر مردوں کے ساتھ ہنسی مذاق کرنے والی عورتوں کو بعض اوقات بہت زیادہ توہین آمیز چیزیں برداشت کرنی پڑتی تھیں۔ مگر برا ہو آزادی کا جس نے یہ دن دکھائے تھے۔ پَر اپنی غلطی کا احساس کرنے کے بجائے سب اُس سے حسد کا رویہ رکھتی تھیں۔
بحیثیتِ مجموعی اس کے ساتھ سب محتاط اور تمیزدار رہتے۔ حقیقت میں اس کے باپردہ اور خاموش رویّے نے ایک رعب سا پیدا کردیا تھا لوگوں کے دلوں میں، جو اللہ نے کہا ’’تاکہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔‘‘
اس میں کوئی شک نہ تھا کہ وہ ایک مشکل زندگی گزار رہی تھی۔ کئی سال تک لوگ اس انتظار میں رہے کہ اس کا خول اتر جائے، مگر وہ پروردگار سے عافیت اور استقامت مانگتی اور پاتی رہی۔
کئی سال اسی طرح گزرے کہ وہ راہ میں بچھے ہوئے کانٹے اپنی پلکوں سے چنتی رہی۔ تب آہستہ آہستہ اسے محسوس ہوا کہ اب لوگوں کی نگاہیں اسے دیکھ کر جھکنے لگی ہیں۔ بڑی خوش گوار حیرت ہوئی۔ ایک دفعہ کہیں کسی عورت سے جہاز میں گپ شپ ہوئی تو یہ سن کرکہ وہ آفس میں بھی برقع اوڑھے رہتی ہے، عورت نے کہا کہ ’’ہاں میرے میاں بتاتے ہیں کہ ایک عورت سارا دن پورا پردہ کیے رہتی ہے، اس کو کسی نے دیکھا نہیں ہے، اچھا تو وہ آپ ہیں، میرے میاں تعریف کررہے تھے کہ گرمی ہو یا سردی، مگر پردہ ہوتو ایسا۔‘‘ اس کی آنکھوں میں شکر گزاری کے آنسو آگئے۔ ’’مولا دنیا اور آخرت میں سرخرو اور زمانے میں نیک نام رکھنا، آمین۔‘‘
اس دوران ایک دفعہ ایک اور لڑکی ویسی ہی باحجاب چادر میں اسی کے سیکشن میں آئی اور اس کے پیچھے والی سیٹ پر بیٹھی۔ اس نے سلام علیک کی، نام پوچھا۔ اس لڑکی نے بتایا کہ ’’میں بھی آپ کی طرح پردہ کرتی ہوں مگر مجھے کہا گیا تھا یہاں تو چہرہ کھولنا ہی پڑے گا، اس لیے میں نے مجبوراً کھولا ہے۔‘‘
’’اب تو تم نے مجھے دیکھ لیا ناں، اب چاہو تو نقاب اوپر کرلو، کوئی کچھ کہے تو مجھے بتانا۔‘‘ اس نے سرپرستانہ انداز سے کہا۔ نورین نے فوراً ہی چہرہ ڈھک لیا۔
ایک دن اس نے ایک اور برقع والی کو ایڈمن بلاک سے نکلتے دیکھا، لپک کر اس کے پاس گئی، انٹرویو لیا۔ وہ کوئی ائر ہوسٹس تھی جس نے فلائنگ سے ریٹائرمنٹ لے کر شیڈولنگ کے آفس میں پوسٹنگ کروالی تھی۔ بہت زیادہ تعداد میں ائرہوسٹسز برقع اوڑھ کر گرائونڈ ہورہی تھیں۔ عام لڑکیاں بھی کبھی منگنی، کبھی شادی، کبھی عمرے اور حج کے بہانوں سے پردہ کرتی جارہی تھیں۔ اسے یاد آتا کہ نیلوفر فاطمی جوکہ ایک معمر اور حسین منیجر فیسی لیٹیشن تھیں اور جن کا آفس لیڈیز ٹوائلٹ کے برابر ہی میں تھا، اس کو بڑی دلچسپی سے دیکھا کرتیں۔ ایک دن واش روم سے نکل کر اس نے ہاتھ دھوئے اور ڈرائر کے نیچے کرتے ہوئے ان پہ نگاہ پڑی تو وہ کہنے لگیں ’’میں تو یہ ایک دوپٹہ بھی باہر اتار کر جاتی ہوں کہ گیلا نہ ہوجائے اور تم اتنا بڑا برقع کیسے بچا لیتی ہو؟‘‘اس کے بادامی رنگ کے برقع پر اگر ایک قطرہ بھی لگتا تو نمایاں نظرآتا۔
’’تم کو دیکھ کر دل چاہتا ہے کہ میں بھی ایسا ہی پہن لوں۔‘‘
’’پھر سوچنا کیا، بسم اللہ کیجیے۔‘‘ اس نے خوش ہوکر محبت سے کہا۔
’’اب 59 سال کی عمر میں؟ اب تو لوگ کہیں گے کہ نوسو چوہے کھا کے بلی حج کو چلی۔‘‘ ایک ٹھنڈا سانس نہ چاہتے ہوئے بھی ان سے نکل ہی گیا۔
وقت کا پہیہ گھومتا رہا۔ پردہ کرنے والیوں کی تعداد بڑھتی رہی۔ آج وہ اپنی ریٹائرمنٹ کے کئی ماہ بعد آفس گئی، کسی کام سے فون کرنا تھا، ایک کیبن میں فون تھا، وہ بڑھی ’’ایکسکیوزمی، فون کرلوں؟‘‘
’’آف کورس‘‘ لڑکی نے گھوم کر اسے دیکھا۔ ’’ارے میڈم آپ؟‘‘ تو وہ بھی حیران ہوگئی ’’ارے ارم تم نے بھی عبایا لے لیا؟‘‘ اس کا رواں رواں خوشی سے جھوم اٹھا۔
اس دن سب سے ملتے، باتیں کرتے پتا ہی نہ چلا کہ شام ہوگئی۔ جس آفس میں عورتیں اسے خوں خوار نگاہوں سے گھورتی تھیں، وہی آج دُور سے دیکھ کر لپکی آتی تھیں۔ جو نئی تھیں وہ تعارف لیتی تھیں ’’ہاں ہم نے آپ کا کافی ذکر سنا ہے آفس میں۔‘‘ باہر نکلے تو برقع، عبایا، اسکارف ہی کی بہار تھی ہر طرف… چوتھائی صدی میں یہ فصل تیار ہوئی تھی۔
سیکڑوں پردہ دار خواتین میںکھلے سر اور بے حجاب لوگوں کی گنتی پندرہ بیس سے آگے نہ بڑھ پارہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو آگئے۔ ’’پروردگار! تیری کائنات میں تیرا حکم چلتا ہے، تُو جب اور جہاں کا چاہے نظام بدل دے، بے شک اس ادارے کے ماحول کو بدلنا تیرا ہی کام تھا، تُو نے اس ناچیز گناہ گار کو بارش کا پہلا قطرہ بننے کی سعادت عطا فرما دی۔‘‘ وہ جو اس نوکری کو خدا کی طرف سے اپنے لیے سزا سمجھتی تھی، آج اپنے نصیبوں پر نازاں و شکرگزار تھی۔ یہ تھیں پی آئی اے کی پہلی برقع پوش خاتون طاہرہ فاروقی۔
nn