عروج دبیر
جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ تذکرہ ایک حیوان کے بارے میں ہے۔ یہ حوان اپنی صفت اور رویے کی بہ دولت تمام حیوانات میں ممتاز درجہ رکھتا ہے اس لیے اس کو ’’حیوان اشرف‘‘ بھی کہا جاسکتا ہے۔
جی ہاں حیوان اشرف یعنی کتا۔ دنیا بھر میں کتوں کی کئی نسلیں پائی جاتی ہیں لیکن ان سب میں کتا پن موجود ہوتا ہے لہٰذا یہ جانور خواہ جرمن شیپرڈ‘ ایشین ہائونڈ ہو یا ہٹ بل کتے کی شہرت سے آگے نہیں نکل پاتا۔
کتوں کو بہت عقل مند اور وفادار سمجھا جاتا ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ پاکستان میں اس کو وہ مقام حاصل نہیں ہے جو اس نسل کو یورپ اور ترقی یافتہ ممالک میں حاصل ہے۔ پاکستان میں لوگ کتے بہت شوق سے پالتے ہیں اور بعض علاقوں میں اس کو مالی حیثیت کا رعب ڈالنے کے لیے بھی پالا جاتا ہے۔
پاکستان میں پالتو کتوں کو دیکھ کر اس کے مالک کا اندازہ بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔ جس کتے کے بال بہت چمک دار ہوں اور وہ بہت صاف ستھرا لگے تو لازمی بات ہے کہ اس کا مالک کوئی قسائی ہوگا کیوں کہ قسائی بغیر رقم لیے گوشت اپنے گھر والوں کو بھی نہیں دیتا تو اپنے کتے کو کھانے کے لیے گوشت مفت کیوں دے گا لہٰذا اس کا پالتو کتا روٹی‘ دودھ اور گھر کا بچا ہوا کھانا کھا کر ساری زندگی گزار دیتا ہے۔ اس قسم کے کتوں کے بال اس لیے بھی چمک دار ہوتے ہیں کہ ان کے مالک یعنی قسائی جب ان پر پیار سے ہاتھ پھیرتا ہے تو گوشت کی خوشبو اور خون کی لذت کتوں کے بالوں میں کسی نہ کسی حد تک منتقل ہوجاتی ہے لہٰذا قسائیوں کا کتا سارا دن اپنے آپ کو چاٹ چاٹ کر گوشت کھانے کی ٹھرک پوری کر لیتا ہے۔
آوارہ کتا بھی بہت ہی اعلیٰ صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے‘ پوری دنیا میںجتنا صابر آوارہ کتا پاکستان میں ہے اور کہیں موجود نہیں‘ یہ وہ آئیڈیل زندگی گزارتا ہے جس کی تمنا ہر شادی شدہ مرد کرتا ہے۔ جہاں مرضی لیٹ گئے‘ جہاں مرضی سو گئے‘ جب دل چاہا دوستوں کے ساتھ مٹر گشت پر نکل گئے‘ تھک گئے تو کسی کے پیچھے لگ گئے‘ منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے قسائی کے پاس پہنچ گئے نہیں تو کچرا کنڈی سے ہی پیٹ کا دوزخ بھر لیا۔ بس کسی دن اچانک کسی گاڑی کے نیچے آگئے اور خوش قسمتی سے بچ گئے تو اسی گاڑی کے پیچھے بھونکتے ہوئے دور تک نکل گئے۔ آوارگی میں حد سے گزر جانا چاہیے۔
ایک مفتی صاحب ہیں جو مجھے بہت عزیز رکھتے ہیں‘ ایک دن ان کے گھر گیا تو زندگی کی بہت بڑی حیرت سے گزرا۔ مفتی صاحب کے بہت نزدیک ایک موٹا تازہ کتا لیٹا تھا۔ میںنے کہا مفتی صاحب یہ کتا اور یہاں؟ بولے ہاں کتا گھر میں حفاظت کے لیے پالا جاتا ہے لیکن میں نے پالا نہیں ہے بلکہ ایک دن یہ کتا گھر کے دروازے پر بہت دیر تک کھڑا تھا‘ میں نے ترس کھا کر اس کو روٹی کھانے کے لیے دے دی بس وہ دن ہے اور آج کا دن ہے یہ یہیںہے اور خود ہی اپنی وفاداری ثابت کرتا رہتا ہے۔
بس بھائی اللہ کی مہربانی ہے کہ وہ حیوانوں میں بھی میری عزت میں اضافہ کر رہا ہے۔ بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ کتا میری ہر بات سمجھتا ہے‘ بہت عقل مند ہے۔ واقعی کتے کی تمام حرکتیں ایسی تھیں گویا وہ مفتی صاحب کے حکم کا منتظر ہو۔ میں نے کہا مفتی صاحب آج مجھے زندگی کی بڑی حیرتوں میں ایک حیرت اس کتے کی وجہ سے ہوئی۔ مفتی صاحب بولے ارے بھائی! حیرت کی کیا بات ہے‘ میں نے تو صرف کتے پر رحم کھایا یہ خود ہی اتنا پالتو ہوگیا‘ کیا آپ نے بھی پالتو کتا نہیں دیکھا جو اتنی حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ میں نے کہا حضرت مجھے کتے کے پالتو ہونے کی ہرگز حیرت نہیں ہے بلکہ میں حیران اس بات پر ہوں کہ زندگی میں آج پہلی مرتبہ میں نے سنا ہے کہ کسی مولوی یا مفتی نے بھی کسی کو کچھ دیا ہو‘ روٹی ہی سہی۔
تمام شاعروں اور ادیبوں کی بیویوں کو میرا مشورہ ہے کہ وہ اپنے گھر میں کتا ضرور پالیں۔ اس کے بے شمار فائدے ہیں اوّل تو کتے کے پالنے سے آپ کے گھر میں آپ کے شوہر کے وہ شاعر دوست جو اچانک اکٹھے آکر رات گئے تک نشستوں میں تبادلہ کلام کرکے آپ کے باورچی خانے کے بجٹ کی ایسی کی تیسی اور آپ کے گھر کے سکون کو مشاعرے میں موجود اگلدان کی طرح برباد کر جاتے ہیں وہ کتے کی مراد حاصل کرنے کے بعد دوبارہ ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکیں گے اور آپ کا شوہر بھی کتے کی داد کی تاب نہ لا کر آپ کو بھی اسی ڈر سے اپنا کلام نہیں سنائے گا کہ کتے نے سن لیا تو کیا ہوگا؟
کچھ عرصے قبل کی بات ہے کہ رات تین بجے ایک Gas Station سے کافی لینے کے لیے رکا تو وہیں ایک نہایت مہنگی اور نئی چمچماتی کار سے ایک بزرگ خاتون برآمد ہوئیں‘ ان کی ہر شے سے امارات ٹپک رہی تھی۔ مجھ سے کہنے لگیں کیا آپ میری مدد کر سکتے ہیں۔ میں نے کہا جی ضرور۔ کہنے لگیں آپ میرے بیٹے کو جو گاڑی میں بیٹھا ہے سمجھا دیں کہ اپنی ماں یعنی میرا کہنا مانے اور ناراضی چھوڑ دے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا لیکن آپ کا بیٹا میری بات کیوں مانے گا اور میں اس کو کیا سمجھائوں جب کہ مجھے وجہ بھی معلوم نہیں۔ تو وہ کہنے لگیں کہ میں نے چند ماہ قبل ہی اپنے بیٹے کی فرمائش پر نیا گھر خریدا ہے‘ بہت مہنگا آج اس کے ساتھ سامنے والی سوسائٹی میں گئی تو یہ وہاں گھر لینے کی ضد کر رہا ہے اور اب تو میری کسی بات کا جواب بھی نہیں دے رہا۔ آپ پلیز Tim کو سمجھا دیں۔
میرے دل میں نہ جانے کیا آیا کہ میں نے کہا آپ Tim کو بلائیں میں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ کہنے لگیں وہ گاڑی سے باہر نہیں آئے گا‘ آپ گاڑی تک چلیں۔ مرتا کیا نہ کرتا گاڑی کے نزدیک پہنچ کر میں خود کو کوسنے لگا کہ میں نے ہامی کیوں بھری Tim جو غصے میں لگ رہا تھا‘ لیکن میں نے اس سے صرف ایک جملہ کہا Tim کیا تم کو معلوم ہے ایک ماں کا کیا حق ہوتا ہے؟
Tim نے میری طرف برخوردارانہ نگاہ ڈالی اور نہ جانے میرے جملے نے کیا جادوئی کام کیا کہ وہ اپنی ماں سے لپٹ گیا‘ وہ خاتون میرا شکریہ ادا کرکے اپنے بیٹے کے ساتھ خوشی خوشی روانہ ہوگئی‘ جب کہ میںشدید الجھن میں کافی دیر تک کھڑا سوچتا رہ گیا کہ Tim نے میرے ایک جملے میں اپنی ناراضی ختم کر دی‘ مجھے خود پر بہت غصہ آیا‘ میں سوچنے لگا میں کون ہوں کیا میں انسان نہیں کیوں کہ Tim نے میرے جملے میں باپ کی شفقت محسوس کی تھی۔ اللہ کرے یہ بات نہ ہو اس کی وجہ کوئی اور ہو اس نے مجھے اپنے باپ جیسا نہ سمجھا ہو کیوں کہ Tim ایک اعلیٰ نسل کا کتا تھا۔
پچھلے دنوں دو دوست کسی شہر گئے‘ اتفاق سے ایک دوست ہوٹل میں ہی رک گیا‘ دوسرا دوست اپنے رشتے داروں کے گھر چلا گیا۔ واپس آکر اس نے دروازہ لات مار کر کھولا‘ پھر میز کو لات ماری‘ پھر بستر پر رکھی ٹوپی اٹھا کر چبانا شروع کردی۔ پہلے دوست نے پوچھا کہاں سے آرہے ہو؟ اس نے کہا یار رشتے دار گھمانے پھرانے لے گئے تھے کھانا بھی باہر ہوٹل میں کھایا‘ بہت مزے کا تھا۔ پہلے دوست نے پھر پوچھا کیا کھایا‘ تو دوست نے کہا کہ گولا کباب اور شاید کوئی گوشت تھا۔ پہلے نے کہا تم نے دروازے اور میز پر لات ماری اس کی وجہ گولا کباب تھے اور تم نے ٹوپی چبائی اس کی وجہ دوسرا گوشت تھا۔ تو دوست بولا کنّا گوشت تھا۔ پہلے نے کہا فہرست غلط پڑھ لی ہوگی وہ کنا نہیں کتا گوشت تھا اور گولا کباب گدھے کے گوشت کے تھے۔ آپ لوگ سمجھ گئے ہوں گے کہ وہ دونوں دوست کس شہر گئے تھے۔
کتے کی اس بین الاقوامی شہرت کی وجہ سے اس کے چہرے پر چھائی معصومیت اور خونخواری ہے جو اچانک نمودار ہوتی ہے بالکل ایسے ہی جیسے کسی خاتون کی ساس اور نند کسی رشتے دار کے آتے ہی معصومیت کا مجسمہ بن کر بہو یا بھابی پر فریفتہ نظر آتی ہیں اور مہمانوں کے رخصت ہوتے ہی خونخواری کی ایسی مثال بن جاتی ہیں کہ بڑے سے بڑے خونخوار حیوان بھی شرمندہ ہو جائے۔ اپنی کم علمی کی بدولت معصومیت کی خونخواری میں بدل جانے پر ساس نندوں کی مثال دی میں کیا کروں کہ اتنی عمر گزر جانے کے بعد بھی اس سے اچھی کوئی اور مثال مجھے نہیں آتی۔
پچھلے دنوں USA میں Police نے اپنے K-9 ڈپارٹمنٹ کے کتے کو انسپکٹر کے عہدے پر ترقی دی بہت واہ واہ ہوئی کیوں کہ کتا مجرم پکڑنے میں بے مثال تھا۔ لہٰذا اس کی حوصلہ افزائی ضروری تھی میڈیا کی کوریج دیکھ کر مجھے بہت غصہ آیا اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ ایک کتے کو انسپکٹر بنا کر خوش ہو رہے تھے۔