ابو کہا کرتے تھے: ’’کتے بھونکتے رہتے ہیں اور قافلے نکل جاتے ہیں‘‘۔ اُس وقت شاید ایسا ہی ہوتا ہو، اب تو کتے بھی قافلوں کی صورت ہی نکلا کرتے ہیں۔ کسی گلی، محلے یا پھر کسی بھی سڑک پر نکل کر دیکھ لیجیے، کچھ ایسی ہی صورتِ حال دیکھنے کو ملے گی۔ لیکن ان حالات میں بھی ہمیں لگتا ہے جیسے کاشف کا کتوں سے چھتیس کا آنکڑا ہو۔ محلے کا کوئی بھی کتا اس کے شر سے محفوظ نہیں۔ کسی کونے میں بیٹھے کتے کو لات مارتے ہوئے گزرنا، یا گلی سے گزرتے کتوں پر بالٹی بھر پانی انڈیل دینا اس کے پسندیدہ مشاغل میں شامل ہے۔ ویسے اس معاملے میں وہ ہمیشہ سے ہی بڑا خوش قسمت رہا ہے کہ اس کا سامنا کبھی بھی اصل کتے سے نہیں ہوا، وہ تو فقط کتوں سے ہی متھا لگاتاآیا ہے۔ شاید اس کی انہی حرکتوں کی وجہ سے محلے کے کتے اب ہماری گلی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے، بلکہ سڑک پر جانے کے لیے ہماری گلی میں قدم رکھنے کے بجائے دو گلیوں کی مسافت طے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جو بھی ہے پَر ایک بات تو طے ہے کہ کتے بدل گئے لیکن کاشف اب تک نہ بدلا، اور بدلے بھی کیسے! شہر میں کتوں کی تیزی سے ہوتی افزائشِ نسل اس کو بدلنے کا موقع ہی کہاں دیتی ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کاشف پتھر اٹھائے دوڑے جارہا تھا، میرے پوچھنے پر بولا ’’آج کالے کتے کی خیر نہیں، پرسوں مرغی کے دو چوزے لایا تھا ایک غائب ہے، ضرور اسی نے کام دکھایا ہوگا، ورنہ کسی کی کیا مجال!‘‘ لاکھ سمجھانے کے باوجود کاشف نہ سمجھا اور کتے کی تلاش میں لگا رہا، کیونکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ کتے بڑے وفادار ہوا کرتے ہیں، یہ نہ صرف انسانوں سے وفا نبھاتے ہیں بلکہ زمین کی محبت میں بھی گرفتار رہتے ہیں۔ وہ جانتا ہے کہ کتے جہاں رہتے ہیں اس زمین کو چھوڑ کر نہیں جاتے۔ اسٹاپوں، بازاروں اور ریلوے اسٹیشنوں پر جاکر دیکھ لیجیے جہاں آپ کو کئی آواہ کتے نظر آئیں گے، ان میں سے کئی کتے تو ریلوے لائن پر آکر اپنی ٹانگیں تک کٹوا بیٹھتے ہیں مگر پھر بھی ریلوے اسٹیشن نہیں چھوڑتے، حالانکہ ان کے سامنے روزانہ ہزاروں لوگ اپنا گھر بار، زمین سب کچھ چند پیسوں کی خاطر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔
یہ بات سچ ہے کہ آوارہ کتوں کو کوئی دھتکارے یا مارے، وہ اپنی جگہ یا علاقہ نہیں چھوڑتے۔ لیکن نہ جانے کاشف میں ایسا کیا ہے جس کی وجہ سے محلے کے سارے ہی کتے اُس سے اس قدر خوف زدہ ہیں کہ نہ صرف محلہ بلکہ اپنا آبائی علاقہ تک چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب بلدیہ عظمیٰ کراچی کے تحت آوارہ کتوں کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی جاتی تھی۔ ذرا اور پیچھے جائیں یعنی برٹش دور میں، تو اُس وقت کتوں کے باقاعدہ دو طبقات بنادیے گئے تھے، ایک آوارہ کتا تو دوسرا پٹے والا کتا۔ یوں سرکار بغیر پٹے ڈلے کتوں کو اٹھا لیا کرتی۔ پٹہ ایک قسم کا لائسنس کہلاتا۔ اس طرح عوام کوخاصی حد تک آوارہ کتوں کے حملوں سے محفوظ کردیا جاتا۔ اُس زمانے میں گھروں کی چوکیداری، زمینوں پر قائم ڈیروں کی رکھوالی، یہاں تک کہ انسان اپنی حفاظت کے لیے محافظ کے طور پر بھی کتے رکھتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسی تبدیلی آئی کہ آج کتوں کے لیے انسان رکھے جارہے ہیں جو نہ صرف ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں بلکہ کتوں کو نہلانے، کھلانے اور ٹہلانے کی ذمہ داری بھی ادا کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ برسرِ روزگار انہی کی وجہ سے ہوتے ہیں جنہیں بطور خاص کتوں کی دیکھ بھال کے لیے ہی ماہوار تنخواہوں پر رکھا جاتا ہے۔ شام کے وقت پوش علاقوں کی سڑکوں پر جاکر دیکھیے، یہ ملازم کس طرح ان کتوں کے ناز نخرے اٹھانے پر مجبور ہیں۔ وہ بظاہر کتے کے گلے میں ڈلی زنجیر تو تھامے ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں ان کے ملازم اور خدمت گزار ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے مزاج نہیں ملتے۔ یہی وجہ ہے کہ کتوں کے گلے میں زنجیر ہونے کے باوجود دیکھنے والوں کے لیے ان دونوں کے درمیان اصل کی شناخت کرنا مشکل ترین ہوجاتا ہے۔ اس ساری صورت حال کو دیکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ کل تک انسان کتے پالتا تھا، جبکہ آج کتے کی وجہ سے نہ صرف ایک انسان بلکہ اس کا پورا گھرانہ پل رہا ہے تو غلط نہ ہوگا۔
خیر، بات ہورہی تھی آوارہ کتوں کی۔ کون نہیں جانتا کہ کراچی میں کتوں کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے، جس کے باعث گلیوں اور محلوں میں جگہ جگہ بیٹھے یہ کتے آتے جاتے شہریوں پر حملے کرتے ہیں۔ کتوں کی تیزی سے بڑھتی آبادی کا اندازہ سندھ کے ادارہ صحت کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار سے لگایا جا سکتا ہے، جس کے مطابق صوبہ سندھ میں رواں برس کے پہلے پانچ ماہ میں 69 ہزار سے زیادہ کتے کے کاٹے کے کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سب سے زیادہ واقعات لاڑکانہ میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ لاڑکانہ ڈویژن میں کتے کے کاٹے کے کیسز کی تعداد 22 ہزار 822 ہے، حیدرآباد ڈویژن میں لگ بھگ 21 ہزار، شہید بے نظیر آباد ڈویژن میں 12 ہزار سے زیادہ، میرپورخاص ڈویژن میں 6 ہزار 774، اور کراچی ڈویژن میں 320 واقعات پیش آئے ہیں۔ متاثرہ افراد کی اتنی بڑی تعداد اس بات کی گواہ ہے کہ صوبہ سندھ کتوں کے لیے بھی محفوظ ٹھکانہ بنتا جا رہا ہے اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، وہ جب چاہیں اور جس جگہ چاہیں بلا خوف وخطر گھومتے پھریں اور جسے مرضی کاٹتے رہیں۔ ان کے کاٹنے سے کسی کو ریبیز جیسی جان لیوا بیماری ہو جائے ان کی بلا سے، کسی متاثرہ شخص کا علاج ہو یا نہ ہو اس سے انہیں کیا! کتے تو بس اتنا جانتے ہیں کہ وہ یہاں محفوظ ہیں، ان کا کام تو حملہ کرنا ہے، باقی کا کام اسپتالوں کا ہے۔ اسپتالوں میں اینٹی ریبیز موجود ہے یا نہیں یہ مسئلہ بھی کتوں کا نہیں۔
ویسے تو ابھی تک جناح اسپتال میں اینٹی ریبیز ویکسین دستیاب ہے لیکن سندھ میں بالعموم اس کی قلت ہے۔ واضح رہے کہ اس ویکسین کے ساتھ متاثرہ فرد کو ریبیز امینوگبلن بھی لگتا ہے جو ہر جگہ دستیاب نہیں ہوتا۔ اس صورتِ حال میں خدشہ یہ ہوتا ہے کہ متاثرہ شخص کو ریبیز ہوجائے گی۔ اس مسئلے پر جناح اپستال ایمرجنسی وارڈ کی انچارج ڈاکٹر سیمی جمالی کہتی ہیں: جناح اسپتال میں رواں برس کتے کے کاٹے کے تقریباً چھ ہزار کیسز آچکے ہیں، جبکہ گزشتہ برس یہ تعداد ساڑھے سات ہزار کے قریب تھی، اگر اسی طرح کیسز آتے رہے تو ان کے اسپتال میں بھی یہ ویکسنی ختم ہوجائے گی۔ واضح رہے کہ پاکستان میں کتے کے کاٹے کی ویکسین پڑوسی ممالک انڈیا اور چین سے درآمد کی جاتی ہے۔ تاہم اب انڈیا نے مزید ویکسین فراہم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اس پر ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا ہے کہ چین کی ویکسین پر پاکستان کو اعتماد نہیں کیونکہ ویکسین جب تک ایف ڈی اے یعنی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن سے منظور شدہ اور عالمی ادارۂ صحت سے تصدیق شدہ نہ ہو تب تک وہ اس ویکسین کو استعمال کرنے سے کتراتے ہیں، لہٰذا اس سلسلے میں فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
شاید اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومتِ سندھ نے آوارہ کتوں کے خاتمے کے لیے ایک مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت سندھ بھر خصوصاً شہروں سے آوارہ کتوں کو پکڑ کر دور دراز علاقوں میں چھوڑ دیا جائے گا۔
اس خبر کو سنتے ہی بابو بھائی آپے سے باہر ہونے لگے، بولے:
’’کراچی سے کچرا اٹھ گیا، سیوریج سسٹم بھی بہتر کردیا گیا، پختہ سڑکیں اور انڈربائی پاس مکمل ہوگئے، پانی، بجلی اور گیس سمیت تمام ضروریاتِ زندگی بھی عوام کو مہیا کردی گئیں، اب آوارہ کتوں کی باری ہے، سو کراچی کے شہریوں کو ان کے حملوں سے بھی محفوظ کردیا جائے گا، اس لیے حکومت نے اپنی تمام تر توجہ اسی کام کی طرف لگا لی ہے، یعنی اب کسی کتے کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا، چن چن کر گرفتار کیا جائے گا، لیکن سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ ان خونخوار کتوں کو پکڑے گا کون؟کیونکہ اس کے لیے دلیری اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے پاس یہ دونوں صفات ہوں وہی تو کتے پکڑنے کا اہل ہوگا، لیکن جہاں پیسے پکڑنے کی عادت پڑ چکی ہو اور اربابِ اختیار راشی ہوجائیں، وہاں سوائے مال کی پکڑدھکڑ کے کچھ اوردکھائی نہیں دیتا۔‘‘
کہنا تو بابو بھائی کا بالکل ٹھیک ہے، یعنی کتے کون پکڑے گا؟ کتے کے کاٹے کے متاثرہ افراد کی تعداد کے بارے میں جاری اعداد وشمار کو دیکھ کر صوبائی حکومت کی کارکردگی کا اندازہ لگانا کیا مشکل ہے! جبکہ رہی سہی کسر دوائیوں کی قلت نے پوری کردی۔ ایسی صورت میں جب حکومتی کارکردگی سامنے آچکی ہو تو پھر سوال تو اٹھتا ہے کہ کتے پکڑے گا کون؟ ظاہر ہے جو حکومت وعدے اور دعوے کرنے کے باوجود سڑکوں پر پڑا بے جان کچرا نہ اٹھا سکے وہ اسی کچرے پر پلے جان دار بلکہ انتہائی جان دار کتوں کو شہر بدر کیسے کرسکتی ہے! یہ میرا شہر ہے، اس لیے اس کی کچھ ذمہ داری مجھ پر بھی عائد ہوتی ہے، اور پھر کسی کو اچھا مشورہ دینا نیکی کے زمرے میں آتا ہے، اسی لیے بڑے سوچ بچار کے بعد اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے میرے ذہن میں کاشف کا ہی نام آتا ہے، لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اس سے رابطہ کرے تاکہ کراچی کے عوام کو آوارہ کتوں کے حملوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔