شکر گزار بندوں سے اللہ راضی

1299

افروز عنایت
حدیثِ مبارکہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ علیہ وسلم نے فرمایا’’جو شخص انسانوں کا شکر نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر نہیں کرتا۔‘‘ (ابودائود)۔
احکاماتِ الٰہی اور احادیثِ مبارکہ کا مطالعہ کریں تو واضح ہے کہ ہر حکم کے پیچھے بہت سی مصلحتیں اور انسانیت کی بھلائی اور اصلاح کے پہلو پوشیدہ ہیں۔ صرف شکر گزاری کو ہی دیکھیں کہ رب العزت کی رضا کے علاوہ کتنی مصلحتیں اور بھلائیاں اس میں پوشیدہ ہیں۔ شکر گزار بندہ اللہ کی تقسیم کو دل و جان سے قبول کرتا ہے۔ اگر مصلحت کے تحت اُسے رب العزت کسی نعمت سے محروم بھی رکھتا ہے تو وہ اللہ کی دوسری نعمتوں کو یاد کرکے شکر ادا کرتا ہے۔ پھر رب العزت اپنے ایسے ہی بندوں کو دنیا کی نعمتوں سے مالامال بھی کرتا ہے۔ ایسے ہی شکر گزار بندوں کی یہ عادت بھی تقویت پاتی ہے کہ وہ تھوڑے پر بھی نہ صرف اللہ سے راضی ہوجاتے ہیں بلکہ پُرسکون زندگی گزارتے ہیں اور کوئی تکلیف محسوس نہیں کرتے۔ لہٰذا بچوں کی تربیت کے سلسلے میں بھی دوسری اخلاقی خوبیوں کی ترغیب کے ساتھ شکر گزاری کی عادت پیدا کرنا افضل ترجیح ہے۔
شکر گزاری کے سلسلے میں میری، ایک بچی سے بات چیت ہوئی۔ اُس کی کچھ باتیں مجھے پسند آئیں۔ یہاں ان سطور کے ذریعے اس بچی کی یہ چند باتیں آپ سے ضرور شیئر کروں گی تاکہ مائیں جو بچیوں کی تربیت میں اس خوبی اور صلاحیت کو پیدا کرنا ضروری نہیں سمجھتیں وہ ضرور چند لمحے غور کریں، اگر چاہیں تو بچوں خصوصاً بچیوں کی تربیت میں اس بات کو شامل کریں۔ کیوں کہ میرا یہ تجربہ ہے کہ ایسی بچیاں جن میں شکر گزاری کی عادت ہوتی ہے، آگے جاکر زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
٭…٭…٭
تمکنت: ہوش سنبھالا تو باپ کے ساتھ ساتھ ماں کو بھی دلیری سے مشکل حالات کا ڈٹ کر سامنا کرتے دیکھا، گرچہ ددھیال اور ننھیال انتہائی خوشحال تھے۔ معاشی، سماجی و معاشرتی مسائل کے باوجود ماں ہر وقت شکر اور الحمدللہ کا ورد کرتی رہتیں، اپنے آس پاس سب کی خوش حالی اور آسودگی دیکھ کرکبھی حسد نہ کرتیں بلکہ سب کی پُرآسائش زندگی کو دیکھ کر بڑی فراخ دلی سے نہ صرف ماشاء اللہ کہتیں بلکہ دعا دیتیں کہ اللہ ان کو مزید نوازے۔ ملازمت، گھریلو ذمہ داریوں اور ہم بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ حقوق العباد میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہیں۔ والدِ محترم کو اکثر اُن کے عزیز و اقارب یہ احساس دلانے کی کوشش کرتے کہ تم جس پوسٹ (منصب) پر ہو، بڑی پُرتعیش زندگی گزار سکتے ہو۔ اس کا لازماً ابو پر اثر بھی ہوتا، لیکن امی، ابو کی ہر بات صبر شکر سے سنتیں اور کہتیں ’’رب کا شکر ہے، رزقِ حلال میں برکت ہے اور ہمیں کوئی تکلیف نہیں‘‘۔ یعنی انہیں اپنی مصروف زندگی کی تکلیف کا احساس بھی نہ ہوتا۔ ہم بہن بھائیوں کو بھی دن میں سات آٹھ مرتبہ ضرور یہ کہتیں ’’اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اتنی نعمتیں دی ہیں‘‘۔ کبھی کہتیں ’’اللہ کا شکر ہے کہ بچے مجھے پڑھائی کے معاملے میں بالکل تنگ نہیں کرتے، اللہ نے اس قابل کیا ہے کہ یہ اچھی تعلیم حاصل کررہے ہیں‘‘۔ کبھی شکر ادا کرتیں کہ اللہ نے اتنی محنت کے لیے صحت عطا کی اور توفیق دی۔‘‘ امی کی ان خوبیوں کو دیکھ کر ہم بہن بھائیوں کو حیرانی ہوتی کہ انہیں اللہ نے کتنا صابر و شکر گزار بنایا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے دلوں میں امی کی قدرو منزلت بڑھتی گئی۔ ساتھ ساتھ وہ ہمیں بھی اللہ کا شکر ادا کرنے کی تلقین کرتیں۔ ہم بہن بھائی امتحانات میں پاس ہوتے تو کہتیں ’’اللہ کے حضور سجدۂ شکر ادا کرو‘‘۔ ٹھنڈا پانی پیتے تو کہتیں ’’اللہ کا شکر ادا کرو، اِس گرمی میں نہ جانے کتنے ایسے ہیں جنہیں یہ سہولیات میسر نہیں‘‘۔ ہمیشہ ہم بہن بھائیوں سے یہ کہتی ہیں کہ کبھی کسی سے ریس نہ کرنا، اگر دیکھنا ہی ہے تو نیچے والوں کو دیکھو جنہیں یہ نعمتیں میسر نہیں جو تمہیں میسر ہیں۔ شادی کے بعد نئے گھر میں مَیں نے قدم رکھا تو امی کی انہی باتوں کی پوٹلی ساتھ تھی۔ میں جو ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی ہوں، ایک اعلیٰ اور باعزت عہدے پر فائز ہوں، شادی کے بعد آس پاس دوستوں اور عزیز و اقارب کی بیٹیوں سے موازنہ کیا تو مجھے احساس ہوا کہ میرا نصیب اس سے اچھا ہوسکتا تھا، لیکن اگلے لمحے میری امی کی تربیت اور نصیحت اس خیال کو جھٹک دیتی۔ میری شادی کے بعد بھی امی میری تربیت سے دست بردار نہیں ہوئی ہیں، وہ گاہے بہ گاہے ذہن کے دریچوں پر دستک دیتی رہتی ہیں اور کانوں میں کچھ نہ کچھ بھلی بات پہنچاتی رہتی ہیں جس کی بدولت آج میں بہت پُرسکون زندگی گزار رہی ہوں۔ پُرتعیش نہ سہی، سکون والی زندگی گزار رہی ہوں۔ اگر کبھی کبھار کوئی ایسی بات ذہن میں آتی بھی ہے تو امی کی نصیحت کے مطابق اللہ کی دی ہوئی دوسری نعمتوں کو گنتی ہوں اور شکر ادا کرتی ہوں، یا پھر اپنے سے نیچے والے بندوں کو دیکھتی ہوں تو خودبخود سر رب کے حضور جھک جاتا ہے، کہ بے شک اللہ نے مجھے بہت سے لوگوں سے زیادہ دیا ہے۔ میری اس شکر گزاری کی بدولت اللہ نے مجھے بہت نوازا ہے۔
اگر شادی کے بعد میں بہت سی محرومیوں کا رونا روتی رہتی، شوہر سے گلے شکوے کرتی رہتی تو نہ صرف اُن کی زندگی بلکہ اپنی زندگی بھی اجیرن کرچکی ہوتی۔ آج اتنا عرصہ گزرنے کے بعد مجھے اپنی امی کی پُرسکون زندگی کا احساس ہوا ہے۔ اُس وقت ہم بہن بھائی، خصوصاً میں امی کو حیرانی سے دیکھتی تھی کہ انہیں شادی کے بعد کیا خوشیاں ملی ہیں جو اس قدر مطمئن اور پُرسکون ہیں! آج مجھے دل سے احساس اور یہ یقین ہورہا ہے کہ امی کو دنیا کی سب سے بڑی خوشی یعنی اطمینانِ قلب شکر گزاری کی بدولت ملا ہے۔
٭…٭…٭
بے شک تمکنت کی بات سے میں ہی نہیں آپ بھی متفق ہوں گے۔ جو اللہ کی تقسیم پر خوش ہوتے ہیں اللہ نہ صرف انہیں دلی سکون عطا کرتا ہے بلکہ بہت نوازتا بھی ہے۔ قناعت پسند بھی کرتا ہے۔ جیسا کہ سورہ ابراہیم آیت نمبر 7 میں رب العزت کا فرمان ہے ’’یقینا اگر تم شکر ادا کرو گے تو ضرور میں تمہیں زیادہ دوں گا‘‘۔ (سبحان اللہ)۔
آج میں چاروں طرف خصوصاً نوبیاہتا لڑکیوں کو دیکھتی ہوں، وہ تھوڑی سی کمی بیشی پر، تکلیف پر رونا روتی نظر آتی ہیں کہ ان کے ساتھ بڑی ناانصافی ہورہی ہے، کبھی گھر والوں (سسرال) کی طرف سے، کبھی شوہر کی طرف سے۔
کچھ ایسی بچیاں بھی نظروں کے سامنے سے گزریں جو شادی سے پہلے بہت سی آسائشوں سے محروم تھیں۔ شادی کے بعد اللہ نے انہیں بہت نوازا ہے لیکن وہ کسی نہ کسی بہانے سے رونا روتی ہیں اور شکایتیں پیش کرتی ہیں کبھی شوہر کے رویّے کی، کبھی گھر کے کام کاج کی زیادتی کی۔ ایک عورت کو پانچ چھ ہزار کا سوٹ پہنے ہوئے دیکھا، لیکن شوہر کی ناشکری یہ عورت شکوہ کررہی تھی کہ میرا شوہر کنجوس ہے، میری کوئی فرمائش پوری نہیں کررہا۔ اگر شروع سے ہی مائیں بچیوں کی تربیت میں شکر گزاری کی عادت پیدا کریں تو یقینا تمکنت کی طرح وہ دلی سکون حاصل کریں گی۔ ناشکرے لوگ رب کی رضا سے محروم رہتے ہیں۔ ناشکری تکبر اور غرور کی علامت ہے جسے ہمارے رب نے ناپسند فرمایا ہے۔
شکر گزار بندہ نہ صرف خود سکون سے رہتا ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی مشکلات کا سبب نہیں بنتا۔ اللہ کی تقسیم پر شکوہ کرنے والے دراصل ایسے ہیں جیسے شرک کرنے والے۔ لہٰذا زبان پر ہمیشہ رب کا شکر ادا کرنے کی عادت ڈالیں۔ رب العزت ہمیں ہمیشہ اپنے شکر گزار بندوں میں شامل رکھے، آمین۔ کیونکہ ہمیں اپنے چاروں طرف بہت سے ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو سسک سسک کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، اللہ کی بہت سی نعمتوں سے محروم ہیں۔ مجھے یہاں ایک ولی اللہ کی بات یاد آگئی کہ ’’میں ننگے پائوں کہیں سے گزر رہا تھا، اپنی مفلسی پر رونا آرہا تھا کہ پیر میں چپل بھی نہیں۔ اسی سوچ میں تھا کہ ایک ایسے شخص پر نظر پڑی جو دونوں پیروں سے معذورزمین پر گھسٹ گھسٹ کر چل رہا تھا، اسی وقت میں نے شکر ادا کیا کہ رب نے مجھے معذور تو نہیں بنایا۔‘‘
الحمدللہ، اللہ نے بہت نوازا ہے جس کا شکر ادا کریں۔

حصہ