بزمِ باغِ ادب ویلفیئر آرگنائزیشن کی محفل مسالمہ

1031

ڈاکٹر نثار احمد نثار
۔21 ستمبر 2019ء کو بزمِ باغِ ادب ویلفیئر آرگنائزیشن کے تحت زاہد علی سید کی رہائش گاہ نارتھ کراچی پر محفل مسالمہ کا انعقاد کیا گیا جس میں محسن اعظم ملیح آبادی صدر تھے‘ مہمانان خصوصی میں اعجاز رحمانی‘ سرور جاوید اور آصف رضا رضوی شامل تھے۔ رونق حیات مہمان اعزازی تھے۔ عبدالوحید تاج نے بطور ناظم مشاعرہ پروگرام کاآغاز کیا۔ الحاج یوسف اسماعیل نے تلاوتِ کلام ِمجید کی سعادت حاصل کی جب کہ عبدالوحید تاج نے نعت رسولؐ پیش کی۔ عبدالوحید تاج نے اعلان کیا کہ اعجاز رحمانی اور سرور جاوید مشاعرے میں تشریف نہیں لائے ہیں لہٰذا رونق حیات سے مہمان اعزازی کے بجائے مہمان خصوصی کی مسند پر جلوہ افروز ہونے کی گزارش کی جاتی ہے۔ لیکن رونق حیات نے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا‘ وہ اسٹیج سے اتر کر نیچے بیٹھ گئے اور کوشش کے باوجود اسٹیج پر نہیں آئے۔ اس موقع پر عبدالوحید تاج نے ڈاکٹر شوکت اللہ جوہر‘ اختر سعیدی اور رقم الحروف ڈاکٹر نثار کو مہمانان اعزازی کے طور پر اسٹیج پر آنے کی دعوت کی اور یہ تینوں حضرات اسٹیج پر بیٹھ گئے۔ اس مسالمے میںتقدیم و تاخیر کے مسائل نے بدمزگی پیدا کی۔ مشاعرے میں جن شعرا نے سلام حسینؓ پیش کیے ان میں محسن اعظم ملیح آبادی‘ سید آصف رضا رضوی‘ ڈاکٹر شوکت اللہ جوہر‘ اختر سعیدی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار احمد‘ رونق حیات‘ جمال احمد جمال‘ عبدالمجید‘ حامد علی سید‘ سخاوت علی نادر‘ احمد سعید خان‘ شارق رشید‘ آسی سلطانی‘ سعد الدین سعد‘ تنویر سخن‘ زاہد علی سید‘ یوسف اسماعیل‘ ذوالفقار حیدر پرواز‘ عبدالوحید تاج‘ ہاشم رشید‘ تاج علی رانا‘ چاند علی چاند‘ الحاج نجمی‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ نظر فاطمی اور عقیل احمد عباس شامل تھے۔ مشاعرہ حسب روایت دیر سے شروع ہوا تاہم صدر مشاعرہ وقت پر آگئے تھے۔ تنظیم کے بانی زاہد علی سید نے راقم الحروف سے کہا کہ ہم ادب کی خدمت کرنا چاہتے ہیں‘ ہماری خواہش ہے کہ ہر شاعر کو مدعو کریں لیکن وقت کی کمی کے باعث پورے شہر کو نہیں بلایا جاسکتا۔ ہم بدل بدل کر شعرا کو بلائیں گے اور کوشش کریں گے کہ آئندہ مشاعرہ پرسکون انداز میں چلتا رہے۔ صاحب صدر نے کہا کہ مشاعرے میں جو صدر ہوتا ہے اس کی باتوں پر عمل ہونا چاہیے صاحب صدر کو نظر انداز کرکے ناظم مشاعرہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ناظم مشاعرہ کو اپنی من مانی نہیں کرنی چاہیے۔ آخر میں ناظم مشاعرہ نے کہا کہ مشاعرے میں میری گفتگو سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں معذرت خواہ ہوں۔ راقم الحروف کے نزدیک مشاعرے میں سینئر اور جونیئر کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے یہ مشاعرے کی روایت ہے اگر ہم اس سے انحراف کریںگے تو مشاعرہ خراب ہوگا۔ اسی طرح ناظم مشاعرہ کو سب سے پہلے پڑھنا چاہیے لیکن اب یہ روایت بھی ختم ہوتی جارہی ہے۔ ناظم مشاعرہ اب اپنے مقام کا خود تعین کرتا ہے اور جہاں چاہتا ہے وہ اپنے اشعار سنانا ہے۔ بہت سے ناظم مشاعرہ اپنے لوگوں کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں اور بہت سے اہم شعرا کو صرف نام لے کر مشاعرے میں دعوت دیتے ہیں ہونا تو یہ چاہیے کہ سب کے نام کے ساتھ اس کا تعارف کرائیں ورنہ صرف شاعر کا نام لے کر اسٹیج پر بلائیں۔ بہت سے لوگ اپنے گروپ کے شعرا کو داد دیتے ہیں اور دوسروں کے وقت خاموش بیٹھے رہتے ہیں یہ غلط طریقہ ہے اس کا سدباب ہونا چاہیے۔ بہرحال بزم باغِ ادب کا مسالمہ ایک قابل ستائش اقدام تھا کہ زاہد علی سید اور عبدالوحید تاج کی کوششوںکے سبب لوگ دور دراز علاقوں سے نارتھ کراچی آئے۔

اردو ڈکشنری بورڈ میں نگارِ ادب پاکستان کا مسالمہ

اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں کراچی کی جن ادبی تنظیموں کا تذکر ہوتا ہے ان میں نگارِ ادب پاکستان بھی شامل ہے۔ یہ ادارہ تسلسل کے ساتھ ادبی پروگرام ترتیب دے رہا ہے ان کے پروگرام کراچی کے مختلف علاقوں میں ہو رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے بزمِ نگارِ ادب پاکستان کے زیر اہتمام اردو ڈکشنری بورڈ گلشن اقبال کراچی میں محفل مسالمہ منعقد ہوا۔ پروفیسر منظر ایوبی نے صدارت کی‘ عقیل عباس جعفری‘ سرور جاوید اور جاوید منظر مہمانان خصوصی‘ راشد نور‘ سید آصف رضا رضوی اور سید یداللہ حیدر مہمان اعزازی تھے۔ واحد رازی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ صاحب صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ حضرت امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں نے یزید کی بیعت نہیں کی بلکہ اپنی جانوں کو قربان کرکے حق و باطل کے درمیان ایک حدِ فاصل کھینچ کر دین اسلام کو زندۂ جاوید کر دیا۔ حصرت امام حسینؓ ہمارے لیے مینارۂ نور ہیں جس کی روشنی میں ہم صراط مستقیم پر سفر کرسکتے ہیں۔ آپؓ نے اپنے لہو سے ایک تاریخ رقم کی ہے کہ اب یزیدیت کے نام لیوا شرمندہ ہیں اور اسلامی اقدار بحال ہوگئی ہے۔ آپؓ نے ساری دنیا کو پیغام دیا کہ باطل کے آگے سر نہ جھکایا جائے اور خدا کی راہ میں اپنی جان قربان کرنا عین اسلام ہے۔ پروفیسر منظر ایوبی نے مزید کہا کہ بزم نگارِ ادب پاکستان نے رثائی ادب کے سلسلے کو آگے بڑھایا ہے‘ آج اس تنظیم کا 30 واں کامیاب پروگرام ہے اس ادارے کے چیئرمین سخاوت علی نادر کے ساتھ اچھے لوگوں کی ٹیم ہے جو کہ اپنی مدد آپ کے تحت کام کر رہے ہیں۔ علم دوست شخصیات کو چاہیے کہ ان کے ہاتھ مضبوط کریں۔ سخاوت علی نادرنے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا جس میں انہوں نے اس بات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا کہ اب لوگوں میں وقت کی پابندی کی عادت ختم ہوتی جارہی ہے‘ ہم نے شام 7 بجے کا وقت دیا تھا‘ ہمارے صدر پروفیسر منظر ایوبی مقررہ وقت پر آگئے لیکن دوسرے شعرا نہیں آئے جس کی وجہ سے پروگرام تاخیر سے شروع ہوا‘ آئندہ وقت پر آنے کی درخواست کی جاتی ہے نیز سینئر شعرا کو اپنے روّیوں میں تبدیلی لانی چاہیے اگر کوئی سینئر شاعر مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی یا صدارت کے لیے رضا مندی ظاہر کرتا ہے تو ہم اس کا نام اپنے بینر پر لکھواتے ہیں لیکن اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ مشاعرے میں شرکت نہ کرنے کی صورت میں یہ لوگ ہمیں مطلع نہیں کرتے اور ہم انتظار کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے پروگرام تاخیر کا شکار ہو جاتا ہے اس روّیے کو تبدیل ہونا چاہیے اگر آپ کسی وجہ سے نہیں آسکتے تو منتظمین مشاعرہ کو اطلاع کردیجیے تاکہ پروگرام متاثر نہ ہو۔ شائق شہاب نے اختتامی کلمات ادا کیے جس میں انہوں نے عقیل عباس جعفری کا شکریہ ادا کیا کہ جن کے تعاون سے آج کا پروگرام ممکن ہوا‘ اس کے علاوہ انہوں نے تمام شرکائے مسالمہ کا شکریہ ادا کیا کہ وہ اس بابرکت محفل میں شریک ہوئے۔ اس موقع پر صاحب صدر‘ مہمانان خصوصی‘ مہمانان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے سلام حسینؓ پیش کیا ان میں اختر سعیدی‘ فیاض علی‘ غلام علی وفا‘ پروین حیدر‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ حجاب عباسی‘ شاعر علی شاعر‘ سراج الدین سراج‘ احمد سعید خان‘ حامد علی سید‘ نظر فاطمی‘ زاہد علی سید‘ عبدالوحید تاج‘ م۔ ش عالم‘ زیاب النساء زیبی‘ عبدالمجید محور‘ مظہر جعفری‘ نصیرالدین نصیر‘ شائق شہاب‘ تاج علی رانا‘ سخاوت علی نادر‘ محمد اقبال اور چاند علی چاند شامل تھے۔ یہ ایک بھرپور اور کامیاب مسالمہ تھا جس کی اختتام پر عشائیہ اور چائے سے مہمانانِ مشاعرہ اور سامعین کی تواضع کی گئی۔

کراچی میں مشاعروں کا انعقاد خوش آئند ہے‘ سحر انصاری

اکادمی ادبیات پاکستان کراچی میں گزشتہ پانچ برس سے مذاکرے اور مشاعروں کا سلسلہ جاری ہے جس کا کریڈٹ قادر سومرو کے نام ہے۔ انہوں نے ہر مہینے چار پروگرام کیے ہیں جس میں عہد رفتگاں کے قلم کاروں کے حوالے سے بھی پروگرام ہوئے ہیں۔ اس قسم کی ادبی تقریبات خوش آئند اقدام ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر سحر انصاری نے اکادمی ادبیات پاکستان کے تحت منعقدہ مذاکرے اور مشاعرے کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ 18 ستمبر کو ہونے والے پروگرام کا عنوان تھا ’’نظم میں پاکستانی خواتین کا کردار۔‘‘ اس موضع پر صاحبِ صدر نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں نظم کا مزاج نہیں بن پایا اس کی کیا وجوہات ہیں اس پر ہمیں غور کرنا چاہیے‘ نظم کا مرکزی کردار کمزور ہونے کی صورت میں نظم کامیاب نہیں ہوتی جب کہ اس صنفِ سخن کے کاٹ دار جملے دل میں اتر جاتے ہیں۔ عالمی شاعری میں نظم کے اعتبار سے یونان کی شاعرہ ’’سیفو‘‘ نظم کے بنیادی معماروں میں بہت اہم ہے خواتین کے علاوہ مردوں نے بھی نظم میں خاصا نام کمایا ہے۔ نظم کے حوالے سے شہرت پانے والی شاعرات کا فیصلہ ایک مشکل کام ہے۔ یہ تحقیق طلب معاملہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کے مشاعرے میں ایک صاحب نے ڈاکٹر نثار احمد نثار کے اشعار اپنے نام سے پڑھ کر نہایت گھٹیا کام کیا ہے چوری اورسینہ زوری کی ایسی مثال بہت کم دیکھنے میں آتی ہے۔ جن اشعار کو موصوف نے پڑھا ہے وہ نثار کی غزلوں کی کتاب ’’آئینوں کے درمیان‘‘ میں موجود ہیں جس کی تقریب اجراء جون 2019ء میں آرٹس کونسل کراچی نے منعقد کی تھی۔ اس مذاکرے اور مشاعرے میں پروفیسر رضیہ سبحان‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ اقبال سہوانی‘ شوکت جمال‘ ریحانہ احسان اور ابرار بختیار مہمان خصوصی تھے کہ قادر بخش سومرو نے نظامت کے فرائض انجام دیے اور شہناز رضوی نے نعت رسولؐ پیش کی۔ معروف شاعرہ پروفیسر رضیہ سبحان نے کہا کہ عذرا وحید کا دوسرا شعری مجموعہ ’’پانی میں سورج‘‘ جو صرف نظموں پر مشتمل ہے‘ دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوتی ہے کہ عذرا وحید نے نہ صرف فنِ شعر میں ترقی کی ہے بلکہ معنوی تہہ داری اور علائم نگاری کی ذمہ داری کو بھی نہایت خوش اسلوبی سے نبھایا ہے‘ ان کی نظمیں آشوبِ عصر اور آشوبِ آگہی کی ترجمانی کرتی ہے۔ عذرا وحید کی نظموں کا ماحول ان کی غزلوں کے ماحول سے خاصا مختلف ہے اور اس کی شخصیت کی بعض اور جہت سامنے لاتا ہے۔ ڈاکٹر نثار احمد نثار نے کہا کہ فاخرہ بتول کے موضوعات سراسر نسوانی ہیں‘ یہ نسوانیت اور معصومیت کئی نظموں میں جھلک جاتی ہے مثلاً گڑیا آج بھی زندہ ہے، خاموش گواہ، تابش۔ ان کی سب نہیں تو کچھ نظمیں ایسی ہیں کہ ان کی لفظیات اور موضوعات میں جذبوں کی دھیمی آنچ محسوس ہوتی ہے۔ معروف شاعر شوکت جمال نے کہا کہ محبتوں اور حلاوتوں کے نام و نازک لیف جذبات اور احساسات جو کچھ شرمیلے اور ان کہے ہیں نوشاب نرگس ان لفظوں کو خوب صورت آہنگ دے کر شاعرانہ سلیقے سے پیش کرنے کا فن جانتی ہیں اور آزاد نظمیں زیادہ لکھتی ہیں اس کے نزدیک آزاد جظم اظہار کا مؤثر اور مضبوط ذریعہ ہے۔ نوشابہ نرگس نے مختصر نظموں کے علاوہ طویل نظمیں بھئی لکھی ہیں مثلاً نقشِ قدم پاک، ایک دن کا نشان، سوکھا ساون، جشن تنہائی وغیرہ سدا بہار خابوں کی شاعرہ نوشاب نرگس کے ’’بے صدا حرف‘‘ کے جذباتی تموج کی تحقیقی رودار ہے اور خوب ہے کہ اشعار ذات کا استعارہ بن گئے۔ معروف شاعر اقبال سہوانی نے کہ اکہ سارہ شگفتہ نے جدید شاعری میں اپنے لہجے اور انداز بیان کی بدولت ایک بلند اور منفرد مقام بنا لیا تھا ان کی نثری نظمیں جدیدت حسیت کی غماز ہیں۔ سارہ شگفتہ ایک حساس تخلیق کار تھیں‘ وہ انسانی کرب کی شاعرہ تھیں‘ اس کی نظمیں عورت کی مظلومیت کی ترجمان ہیں۔ معاشرے پر طنز کرتے ہوئے اس کے لہجے میں بڑی بے رحمی اور تلخی نظر آتی ہے۔ وہ جھوٹی محبت جتانے والوں کے منافقانہ روّیوں کو سمجھ نہ پائی تھی حتیٰ کہ اسے اسی کے خون میں نہلایا گیا۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو نے کہا کہ نثری نظم اس دور کا تقاضا ہے کیوں کہ جس پیچیدہ صورت حال میں ہم سانس لے رہے ہیں اور جن تلخ حقائق سے ہم دوچار ہیں ان کا سچا اور بھرپور اظہار نثری نظم میں ہی ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں نثری نظم لکھنے والی جدید شاعرات کی کھیپ میں عذرا عباس کا نام نمایاں ہے۔ 1996ء میں اس کی نثری نظموں کا مجموعہ ’’میں لائن کھینچتی ہوں‘‘ کے نام سے طبع ہوا جب کہ اس سے قبل عذرا عباس کی تین کتابیں نیند کی مسافتیں، میز پر رکھے ہاتھ اور میر ابچپن شائع ہوچکی ہیں۔ ان تینوں کتابوں اوراس چوتھی کتاب (میں لائن کھینچتی ہوں) میں بھی عورت نمایاں ہے اور ایک ہی روپ میںہے۔ مشاعرے میں پروفیسر سحر انصاری‘ پرورفیسر رضیہ سبحان‘ ڈاکٹر نثار احمد نثار‘ شوکت جمال‘ اقبال سہوانی‘ عرفان علی عابدی‘ ابرار بختیار‘ زینت کوثر لاکھانی‘ ریحان احسان‘ فہمیدہ مقبول‘ شگفتہ شفیق‘ ارجمند خواجہ‘ تاج علی رعنا‘ وحید محسن‘ محمد رفیق مغل‘ عبدالمجید محور‘ خالدہ لغاری‘ جمیل ادیب سید‘ ساجدہ سلطان‘ سیما سبطین‘ فرح دیبا‘ عارف شیخ‘ قمر جہاں قمر‘ دلشاد احمد دہلوی‘ آزاد حسین آزاد‘ نظر فاطمی‘ ڈاکٹر رذحیم ہمراز‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ م۔ ش عالم‘ شجاع الزماں خان‘ ارحم ملک نے کلام سنایا۔

حصہ