توقیر عائشہ
۔’’جیسے کشمیر ہماری شہ رگ ہے، ایسے ہی اردو ہماری شہ رگ ہے۔ آپ کو پتا ہے ایران کے سربراہ ’خامنہ ای‘ نے ایک قانون بنایا کہ پانچویں تک فارسی کے سوا کوئی زبان نہیں بولی جائے گی۔ انگریزی کا ایک لفظ بھی بولنے پر جرمانہ لگتا تھا۔ ہم کون ہیں؟ ہم کہاں جارہے ہیں ؟ ہمارا کلچر، ہمارا ادب… ہر چیز ہمارے ہاتھوں سے نکلتی جارہی ہے۔‘‘
’’وہ کہیں اور سُنا کرے کوئی‘‘ کے مصداق حاضرین معزز مہمان کے سحر میں گویا گرفتار ہوچلے تھے۔ یہ معزز مہمان ڈاکٹر شگفتہ نقوی ہیں جو ہفتہ بھر کو میلبورن آسٹریلیا سے کراچی آئیں تو ان کی خوشبو کراچی کے ادبی حلقے تک پہنچ گئی۔ حریمِ ادب کراچی کی صدر ثمرین احمد نے مختصر نوٹس پر قلمکار بہنوں کے ساتھ ملاقات کا اہتمام کرڈالا۔ حریمِ ادب پاکستان کی روحِ رواں، ماہنامہ بتول کا سرمایہ ’میرے خوابوں کی سرزمین‘ اور’سکونِ دل‘ جیسی مایہ ناز تصانیف کی تخلیق کار شگفتہ نقوی ہمارے سامنے زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہی دے رہی تھیں۔ ان کی گفتگو بے ساختہ، پُرسکون اور عاجزانہ تھی۔ وہ عمر کے اس حصے میں تھیں کہ جب ان کے پاس زندگی کے مشاہدات، تجربات اور یادداشتوں کا ایک خزانہ جمع ہوچکا تھا اور اس محفل میں وہ یہ خزانہ لُٹا رہی تھیں۔
یادوں کے ورق اُلٹتے ہوئے وہ کہہ رہی تھیں کہ بچپن سے ہی ہر چیز پڑھ ڈالنے کا شوق تھا۔ بڑی بہنیں اردو ناول پڑھتیں تو کہتیں کہ جب دسویں جماعت میں آنا تو پڑھنا، اور یہ چُپ چاپ ناول پڑھ کر واپس اس کی جگہ رکھ دیتیں۔ اعلیٰ تعلیمی ریکارڈ کی حامل شگفتہ نے جب آرٹس کے مضامین سے میٹرک کیا اور پھر انٹر میں سائنس لینی چاہی (جس کی اُس دور کی تعلیمی پالیسی میں گنجائش ہوا کرتی تھی) تو ان کی عزیز سہیلی نے کہہ دیا کہ خوابوں میں رہنے والی لڑکی کیا جانے سائنس کیا ہوتی ہے؟ بس یہ جملہ مہمیز بن گیا۔ سائنس لی، قسم قسم کی مشکلات سے گزر کر انٹر میں ٹاپ کرکے دکھایا اور پھر میڈیکل کا شعبہ جوائن کیا۔
اس محفل میں حریمِ ادب کی سینئر اور نمایاں قلمکارائیں موجود تھیں جن میں حریمِ ادب پاکستان کی صدر عالیہ شمیم،گورننگ باڈی کی ممبر غزالہ عزیز، معروف شاعرہ اور افسانہ نگار ڈاکٹر عزیزہ انجم، معروف کالمسٹ افشاں نوید صاحبہ، جے آئی یوتھ کراچی کی رہنما ثریا ملک، ممتاز افسانہ نگار اورکہانی نویس نصرت یوسف، فرحی نعیم، فریحہ مبارک، نائلہ شاہد، عشرت زاہد، فوزیہ خلیل، رومیصاء زاہدی و دیگر روشن ستارے شامل تھے۔ موسم کی سختی اور صبح کی گھریلو مصروفیات کے باوجود سامعین کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ ڈاکٹر صاحبہ گفتگو میں اپنے کہے ہوئے اشعار بے ساختہ ٹانکتی ہیں، آپریشن تھیٹر کے سرد ماحول میں بھی برجستہ اشعارکہہ کر ماحول کے بوجھل پن کو دور کردیتی ہیں، مگر اپنا کوئی مجموعہ شائع کرنے سے ڈرتی ہیں کہ اللہ نے شاعری کو پسند نہیں فرمایا۔ اُنہیں بچوں سے بڑی محبت ہے۔ جب وہ کہہ رہی تھیں کہ بچوں کو پاس بٹھاکر جگمگ تارے اور وی۔ شائن کی کہانیاں ان سے پڑھواتی ہوں تو ہمیں خیال آیا کہ کاش جگمگ تارے کی مدیرہ ہمارے ساتھ آہی جاتیںتو ان کا سیروں خون بڑھ جاتا۔ لیکن چھوٹے چھوٹے بچوں کی ماں ہونے کے سبب نہیں آسکی تھیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے وی۔ شائن کے حوالے سے ایک راز کی بات یہ کہہ کر بتادی کہ آپ لوگ کسی کو بتائیںگے تھوڑی… اس لیے اب ہم بھی وہ راز افشا نہیں کریں گے۔ نوجوان بچیوں کی تربیت کرنے، انہیں سسرال میں پیش آنے والے مسائل میں صائب مشورے دینے والی یہ مشفق ہستی ملک بھر سے اپنے محبت کرنے والوں سے ای میل اکائونٹ اور واٹس ایپ کے ذریعے جُڑی رہتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کہتی ہیں: آج کے مریض کی تکلیف جسمانی سے زیادہ سماجی ہے۔ اُس کی زبانی اُس کے حالات کو جاننا اور دو میٹھے بول میڈیسن سے زیادہ فائدے مند ثابت ہوتے ہیں۔
محفل کی دوسری مہمان پروفیسر درِ شہوار قادری صاحبہ تھیں جو ہیوسٹن امریکا سے تشریف لائی تھیں۔ وہ مزاحیہ نثر نگاری میں نمایاں مقام کی حامل ہیں اور روزنامہ جنگ میں طویل عرصہ کالم نویسی کرچکی ہیں۔ ان کی بے ساختہ گفتگو نے ہماری بزم کو شگفتہ شگفتہ کیے رکھا۔ افشاں نوید صاحبہ کا گلہ بہت جائز تھا ’ایک بار مسکرا دو‘ کی اشاعت کے بعد وقفہ بہت طویل ہوگیا ہے۔ پروفیسر صاحبہ کہہ رہی تھیں کہ مزاح کی حیثیت دستر خوان پر سوئٹ ڈش جیسی ہے۔ فکریں تو سبھی کے پاس ہوتی ہیں لیکن سوتے وقت ہلکا پھلکا ہوکر دوسروں کو معاف کرکے سوئیں۔ اردو پڑھنے اور لکھنے کے بارے میں انہوں نے ایک دلچسپ مثال دی: اب ’’گفتگو‘‘ کو بھی ’گفت‘ الگ اور ’گو‘ الگ کرکے لکھا جانے لگا ہے۔ تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ اردو کو کیسے نقصان پہنچایا جارہا ہے۔
محفل کو زعفرانِ زار بنائے رکھنے والی پروفیسر درِ شہوار اندر سے ایک حساس اور دردمند دل کی مالک ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہیوسٹن شہر میں لڑکیوں کو حجاب میں دیکھ کر دل ٹھنڈا ہوجاتا ہے لیکن یہاں آکر اس کا اُلٹ ماحول دیکھنے کو ملتا ہے۔ کراچی کی ناگفتہ بہ حالت سے گزر کر ہم تک پہنچنے والی پروفیسر صاحبہ ہمیں تصویر کا رُخِ روشن دکھا رہی تھیںکہ سب کچھ کے باوجود پاکستانی بہت خوش نصیب ہیں کہ ایک مضبوط مدافعتی نظام اور دماغی صحت رکھتے ہیں، ورنہ بیرونِ ملک ہر نعمت ہونے کے باوجود ذہنی مریض بہت زیادہ ہیں۔
اس مرحلے پر شرکاء اپنے درمیان محترمہ سمیحہ راحیل صاحبہ کو دیکھ کر خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوگئے۔ وہ جامعہ کراچی میں ’’یوتھ پارلیمنٹ‘‘ کی عدالت سے فراغت پاکر آرہی تھیں۔ ان کا نرم اور دبیز ہاتھ ہاتھوں میں لے کر اندازہ ہی نہ ہوتا تھا کہ دنیا بھر میں مسلم خاتون کی شناخت اُجاگر کرنے والی ایک مضبوط شخصیت کا ہاتھ ہے۔ جامعۃ المحصنات کے چوتھے مجلے کی رونمائی مجلے کی شکل کا کیک کاٹ کر کی گئی۔ یہ مجلہ جامعہ محصنات کے شعبۂ تحقیق و تالیف کی محنت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ اتنے سارے پیارے پیارے لوگوں کو کراچی کی ناظمہ اسماء سفیر بھی سلام کرنے آگئیں۔ سب کے گُھل مل جانے سے بزم کی رونق اور بڑھ گئی۔ ثمرین احمد نے نشست برخاست کی دعا پڑھی اور پھر گھریلو طور پر تیار کیے ہوئے کھانوں سے مہمانوں کی تواضع کی گئی، اور میں سوچتی رہ گئی کہ ایسی نشستوں کا اختتام ہمیشہ تشنگی پر ہی کیوں ہوتا ہے!