انسان تنہا نہیں رہ سکتا

1608

فرزانہ محمود
جب ہم یہ جملہ سنتے ہیں کہ ’’انسان اکیلا تو رہ ہی نہیں سکتا‘‘ تو پہلے دماغ میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیوں؟ اور پھر اس کی کئی وجوہات ہمارے ذہن میں گردش کرنے لگتی ہیں۔ اب اگر یہ بات دنیا کے لحاظ سے دیکھی جائے تو ہم دنیا کی بھیڑ میں کئی طرح کے لوگوں کے کئی طرح کے مسائل روزمرہ دیکھتے ہیں۔ کئی لوگوں کو یہ کہتے سنا ہوگا کہ میرے بعد میرے بچوں کا کیا ہوگا؟ انہی کے لیے تو سب جمع کررہا ہوں۔ اور کسی کو اس بات کا غم ہے کہ اگر آج ماں باپ ہوتے تو ہماری ترقی دیکھ کر کتنے خوش ہوتے، تو کسی کے نہ ہونے کا غم بھی ہے۔ یہ انسان کا ایک دوسرے کے ساتھ لگائو اور محبت ہے کہ وہ اپنے ساتھ رہنے والوں کا غم اپنے اندر رکھتا ہے۔ اگر انسان اکیلا رہ سکتا تو پھرکسی کو کسی کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔ صرف شادی کا معاملہ لے لیں، ایک لڑکا لڑکی اکیلے شادی کرلیں جو آج کل ہمارے معاشرے میں ہو بھی رہی ہیں۔ نہ ان کی شادی میں ان کے کوئی دوست نہ رشتے دار، نہ چھیڑ چھاڑ نہ شور شرابہ، نہ بزرگ جو انہیں زندگی گزارنے کے طریقے سکھائیں، زندگی گزارنے کے گر بتائیں۔ نہ ماں باپ، بہن بھائی جو ان کی خوشی میں خوش ہوں تو ان کی زندگی میں کیا رونق ہوگی! جو چھپ کر شادیاں کرتے ہیں، وہ آگے جاکر لوگوں کو اپنی کہانیاں ہی سناتے رہتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہوگئی۔ اور یہ اکیلا پن سزا بن جاتا ہے۔ اور سزا کی بات آئی تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں جب کسی مجرم کو سزا دی جاتی ہے تو سخت سزا قیدِ تنہائی ہوتی ہے کہ وہ اکیلا قید کردیا جاتا ہے۔ اب اسی چیز کو اگر دین کے لحاظ سے دیکھیں تو بات صحیح طرح سمجھ میں آجاتی ہے، کہ اللہ جس نے انسان کو بنایا وہ انسان کو انسان سے زیادہ جانتا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کو بناکر بات ختم ہوجاتی، مگر وہ جانتا ہے کہ انسان اکیلا نہیں رہ سکتا، اس لیے رب نے اتنے رشتے بنائے اور قرآن میں پارہ 19 میں باقاعدہ سسرال اور نسب کے رشتوں کی بات کی، اور کئی جگہوں پر بہت سارے رشتے گنوا دیے۔ تو ہر انسان کچھ رشتے نبھاتا ہے۔ اگر کوئی اکیلا ہو تو نہ کوئی اس کی خوشی بانٹنے والا ہو، نہ غم میں اسے سنبھالنے والا۔ اکثر لوگوں کو یہ بات کہتے سنا ہوگا کہ ’’میرے پیچھے کون ہے رونے والا۔‘‘ یہ اُن کے اندر کا خلا ہوتا ہے جو وہ بھرنا چاہتا ہے۔ کسی کے نہ ہونے کی کمی انسان کو محسوس ہوتی ہے۔ ہمارا معاشرہ اس طرح کے حالات سے بھرا پڑا ہے۔ جیلوں میں ایسی کئی کہانیاں ملتی ہیں۔ ایدھی ہومز میں جاکر دیکھیں، جن لوگوں کو اُن کے گھر والے وہاں چھوڑ جاتے ہیں اور وہ بہت سے لوگوں کے بیچ رہ رہے ہوتے ہیں پھر بھی اپنے آپ میں تنہا ہوتے ہیں اور ہر وقت اُن کی نظر دروازے پر ہی ہوتی ہے کہ شاید آج کوئی ان سے ملنے آجائے۔
سچ یہ ہے کہ اگر انسان لوگوں کے دکھ درد اور مشکل میں کام آنے کا سوچے تو وہ اپنے لیے بہت سے مخلص دوست حاصل کرلیتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ وہ پورے اخلاصِ نیت سے لوگوں کی مدد کرے۔ اگر عملی طور پر کچھ کرنے کے قابل نہ ہو تو ان سے بات کرکے ان کو اچھے مشورے دے کر ان کی مدد کرسکتا ہے۔ا

حصہ