ناصر محمود بیگ
لوگ عبادت میں مصروف تھے، ہر کسی کا اپنا اپنا اندازِ عبادت تھا۔ ایک انتہائی خوبصورت نوجوان بہت خاموشی سے اپنے رب کے حضور سر جھکائے عبادت میں مصروف تھا کہ اچانک اس کی توجہ عبادت سے ہٹ گئی۔ اس نے چونک کر دیکھا تو اپنے پہلو میں ایک آدمی کو روتے ہوئے پایا۔ تھوڑا غور کرنے سے اس آدمی کی آہ و زاری کی وجہ معلوم ہوگئی۔ وہ بھی اپنے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں فریاد کررہا تھا: ’’میرے اللہ مجھے دس ہزار درہم کا مالک بنادے‘‘۔ وہ خوبصورت نوجوان اس آدمی کی بات کو سن کر حیرت میں مبتلا ہوگیا۔ اس نے پہلے کبھی بھی کسی کو اس انداز سے دعا مانگتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ ’’میرے مالک مجھے دس ہزار درہم کا مالک بنادے‘‘۔ وہ آدمی بس یہی رٹ لگائے ہوئے تھا۔
اس آدمی کی دعا کا یہ انداز دیکھ کر وہ نوجوان اپنے گھر گیا اور پورے دس ہزار درہم اس آدمی کو بھجوا دیے۔ یقینا آپ اس نیک سیرت نوجوان کے متعلق جاننا چاہیں گے۔ یہ سخی دل شخصیت وہ ہے جس کے نانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جس کی والدہ تمام جنتی عورتوں کی سردار سیدہ فاطمہؓ ہیں۔ جس کے والد بہادری اور علم و حکمت کے پیکر سیدنا علیؓ ہیں۔ یہ ساری خوبیاں اس انسان کی ہیں جس کا نام سیدنا حسن ؓ بن علی ؓ ہے۔ سیدنا علیؓ اور سیدہ فاطمہؓ کے گلشن میں یہ پھول 3 ہجری میں کھلا۔
سیدنا علیؓ فرماتے ہیں: ’’جب حسن ؓ پیدا ہوئے تو میں نے ان کا نام ’حرب‘ یعنی جنگ رکھا۔ نبی کریمؐ ہمارے ہاں تشریف لائے اور فرمایا: اپنا بیٹا مجھے دکھائو، کیا نام رکھا ہے اس کا؟ میں نے کہا ’’حرب‘‘۔ آپؐ نے فرمایا : نہیں، اس کا نام ’حسن‘ ہے۔ چنانچہ سیدنا حسنؓ وہ ہستی ہیں جن کا نام خود سیدالانبیاءؐ نے رکھا اور انہیں گھٹی بھی حضور پاکؐ کے لعابِ دہن کی نصیب ہوئی۔
اللہ کے رسولؐ کوسیدنا حسنؓ سے بہت محبت اور انس تھا۔ عبداللہ بن شدادؓ فرماتے ہیں کہ ایک بارنبی رحمتؓ سیدنا حسن ؓ کو اٹھائے ہوئے تشریف لائے، انہیں آگے بٹھا کر آپؐ نے نماز شروع کی ، دوران ِ نماز آپؐ نے لمبا سجدہ کیا۔ جب آپؐ نے نماز مکمل کی تو صحابہ کرامؓ نے عرض کی ’’ اے اللہ کے رسولؐ! نماز کے دوران آپؐ نے بہت لمبا سجدہ کیا ، ہم نے سمجھا شاید کوئی نیا حکم نازل ہوا ہے یا آپؐ کی طرف وحی کی جارہی ہے۔‘‘آپؐ نے فرمایا : نہیں ایسی کوئی بات نہیں، بات دراصل یہ تھی کہ میرے بیٹے (حسنؓ) نے مجھے سواری بنا لیا تھا، میں نے اس کی خواہش پوری ہونے تک جلدی کرنے کو ناپسند کیا۔‘‘
رسول اللہؐ سیدنا حسنؓ کو اکثر بوسہ دیتے اور اپنے کندھے پر اٹھالیتے۔ آپؐ نے تمام مسلمانوں کو سیدنا حسنؓ سے محبت کرنے کی تلقین کی اور فرمایا ’’جو شخص مجھ سے محبت کرتا ہے وہ حسنؓ سے بھی محبت کرے، جو لوگ حاضر ہیں وہ دوسروں تک یہ بات پہنچا دیں۔ (بخاری) سیدنا حسنؓ خوبرو، حسین اور پُر وقار انسان تو تھے ہی لیکن اس سے بڑھ کر آپؐ کے نواسے تھے اور آپؐ سے بہت مشابہت رکھتے تھے، اسی بنا پر نبی اکرمؐ کی وفات کے بعد جب لوگو ں کی نظر آپؓ پر پڑتی تو انہیں اپنے آقاکریمؐ کے ساتھ بیتے ہوئے دن یاد آ جاتے اوران کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے۔(بخاری)
سیدنا حسنؓ بہت عبادت گزار اور سخی دل انسان تھے۔ آپؓ بہت پاکیزہ زندگی کے مالک تھے۔ آپؓ کی زبان سے کبھی کوئی برا یا سخت کلمہ ادا نہیں ہوا۔ جب 40 ہجری میں سیدنا علیؓ کو مسجد میں شہید کردیا گیا تو تمام صحابہ کرامؓ نے آپؓ کو خلافت کے لیے چنا۔ تقریباً چالیس ہزار سے زائد لوگوں نے آپؓ کی بیعت کی۔ آپؓ تقریباً سات ماہ تک عراق، خراسان، حجاز مقدس اور یمن کے علاقوں میں خلیفہ رہے۔ دوسری طرف ملک شام میں حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد حضرت امیر معاویہؓ بن ابی سفیانؓ کی بیعت کی گئی مگر حضرت معاویہؓ نے سیدنا حسنؓ سے حکومت کے امور چلانے کے لیے رابطہ رکھا۔ سیدنا حسنؓ مسلمانوں کے لڑائی جھگڑے اور خون خرابے کو پسند نہیں کرتے تھے لہٰذا انہوں نے اپنی رضا مندی سے ساری خلافت کی ذمہ داری حضرت معاویہؓ کو سونپ دی اور اس طرح رسول اللہؐ کی یہ پیشین گوئی پوری ہوگئی: ’’ میرا بیٹا سردار ہے، اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں صلح کرائے گا‘‘۔ سیدنا حسنؓ خلافت کے حقدار ہونے کے باوجود جناب معاویہؓ کے حق میں دستبردار ہوگئے اور وہ بھی صرف اس لیے کہ مسلمانوں کو آپس میں جنگ وجدل یعنی خونیں لڑائی جھگڑے سے بچایا جاسکے۔(بخاری)
صلح کے بعد سیدنا حسنؓ نے اپنی باقی عمر اپنے نانا کے شہر مدینہ منورہ میں بسر کی۔ آپؓ کا زیادہ تر وقت عبادتِ الٰہی اور خدمتِ خلق میں صرف ہوتا تھا۔ آپؓ کی وفات پر حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا: اے لوگو! آج رسول اللہؐ کے محبوب بیٹے (حسنؓ) وفات پا گئے ہیں۔ آپؓ کو جنت البقیع کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ وفات کے وقت آپؓ کی عمر سینتالیس سال تھی۔
آج دنیا فتنہ و فساد میں مبتلا ہے، عام فرد سے لے کر خاص تک، ہر کوئی اپنا حق مانگتا ہے… نہیں ملتا تو چھیننے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ یہ اُن کا طریقہ ہے جن کو دنیا کی فکر ہوتی ہے۔ اللہ کے کچھ بندوں کی نگاہیں آخرت پہ ہوتی ہیں، جن کے لیے حق چھیننا تو ایک طرف رہا، اپنا حق تک قربان کردیتے ہیں۔ خاندانِ نبوت کا وہ شہزادہ حق پر تھا، لیکن فتنہ و فساد سے بچنے کے لیے ۔،۔انہوں نے اپنا حق قربان کرکے ایک مثال قائم کردی۔ (حوالہ: ’’باغِ نبوت کا پھول‘‘)