مسئلہ کشمیر: حکومتی کارکردگی اور ذمہ داری

512

مولانا عثمان الدین
مقبوضہ کشمیر کے لوگ گزشتہ تقریباً ایک ماہ سے مسلسل کرفیو میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیںاور بھارتی مظالم کے شکار ہیں۔ نریندرمودی کی حکومت نے 5اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی متنازعہ علاقہ کی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370کو اپنے آئین سے ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں شامل کردیا ہے ۔بھارت کے اس جارحانہ اور غاصبانہ اقدام کے بعد سے وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت عالمی سطح پر سفارتی تگ و دوہ میں مصروف ہے۔ بد قسمتی سے ان کے اقتدار میں آنے کے بعد ایک سال کے اندر ہی بھارت نے مقبوضہ کشمیر سے متعلق وہ قدم اٹھالیا ہے جس کی اس کو گزشتہ ستر سالوں میں کبھی ہمت نہیں ہوئی ہے، اس لیے ان پر اب بہت بڑی ذمہ داری آچکی ہے، قوم کو ان سے دیگر ملکی معاملات کی طرح اس معاملہ میں بھی بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں اور کامیابی کے لیے قوم کی دعائیں بھی ان کے ساتھ ہیں۔ البتہ قوم کے ذہنوں میں اس وقت کچھ سوالات بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے وہ بجا طور پر تشویش میں مبتلا ہے ،ملک کے وزیر اعظم ہونے کی حیثیت سے قوم کی اس تشویش کا ادراک کرنا اور اس کو دور کرنا بھی ان کے فرائض منصبی میں شامل ہے ۔
وزیر اعظم عمران خان جب اقتدار میں نہیں آئے تھے تو اس وقت ان کے بھارت اور نریندر مودی سے متعلق سخت گیر خیالات اور افکار کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں جو کہ ان کے بیانات کی صورت میں ریکارڈ پر موجود ہیں ۔ نریندر مودی ہر وقت ان کے نشانہ پر رہتے تھے اوروہ بھارت کے حالیہ اقدام کے مقابلہ میں معمولی واقعات پر بھی بھارت کو سبق سکھانے کی تلقین کیا کرتے تھے ۔اقتدار میں آنے کے بعد البتہ ان کا اس حوالہ سے عملی کردار بالکل متضاد سامنے آیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے بہت سارے دیگر معاملات کی طرح اس معاملہ میں بھی قوم کو مایوس کیا ہے ۔اس کی ایک بڑی مثال اس وقت سامنے آئی جب ان کی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کے ساتھ رابطے اور مذاکرات کے لیے بے تابی شروع کردی تھی ۔بھارت کے مسلسل انکار کے باوجود بھی حکومت مذاکرات کی بات کرتی رہی ۔عمران خان صاحب نے مذاکرات کی بحالی کے لیے مودی کو ایک خفیہ خط بھی لکھا جو بھارت ہی انکار کے ساتھ دنیا کے سامنے لایا ۔اس کے علاوہ جب بھارت میں الیکشن کا موقع آیا تو انہوں نے حیران کن طور پر ہزاروں مسلمانوں کے قاتل مودی کی حمایت کی اور کہا کہ اس کی جیت کی صورت میں مسٗلہ کشمیر کا حل ممکن ہے ۔ یاد رہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے اس کو بھارت میں شامل کرنا مودی کے انتخابی منشور میں شامل تھا ،عمران خان صاحب نے یہ جانتے ہوئے ان کی حمایت کی جو کہ سمجھ سے بالاتر ہے نیز مسئلہ کشمیر کے حل ہونے سے ان کی کیا مراد تھی ،قوم اب تک یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہے ۔ اسی طرح ٰبھارت کے حالیہ اقدام سے تقریبا مہینہ پہلے ہی پاکستان نے بھارت کو سلامتی کونسل کی رکنیت کے لیے ووٹ بھی دیا ۔حکومت کی جانب سے بھارت کے لیے اس نرم رویہ کی وجوہات کو قوم کے سامنے لانا ضروری ہے ۔
بد قسمتی سے بھارت کے حالیہ غاصبانہ اقدام کے بعد بھی حکومت کا عملی کردارانتہائی مایوس کن ہے ۔ وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کو اس اہم وقت میں ایک ایک ملک جاکر وہاں مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ لڑنے کی ضرورت ہے لیکن وہ دونوں ہی ملک میں جم کر بیٹھے ہیں اور صرف فون کالز پر اکتفا کیے ہوئے ہیں جبکہ مودی مختلف ممالک بالخصوص پاکستان کے دوست ممالک کے دورے کررہے ہیں اور وہاں ان سے بڑے بڑے ایوارڈ وصول کررہے ہیں ۔دوسری طرف وزیر اعظم اور وزیر خارجہ مسلسل قوم کو جنگ کی تباہی اور نقصانات بتانے میں مصروف ہیں اور بھارت کی جانب سے اس قدر انتہائی اقدام کے باوجود وہ جنگ کو سرے سے ایک آپشن ہی ماننے سے انکار کررہے ہیں ۔جنگ بلا شبہ کوئی اچھی چیز نہیں ہے اور قوم بھی یہ اچھی طرح جانتی ہے لیکن اگر ایک جانب بھارتی وزیر دفاع پاکستان کو ایٹم بم کی دھمکی دے رہے ہیں اور دوسری جانب حکومت جنگ کے آپشن کو ہی بالکل ختم کررہی ہے تو یہ طرز عمل بھی قوم کی ترجمانی بالکل نہیں ہے اور ایسی صورت میںبھارت اورباقی دنیا ہماری بات کو اہمیت دینے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرے گی ۔اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی بات بھی بھارت کی جانب سے آزاد کشمیر میں حملہ کرنے کی صورت میں ہورہی ہے جو کہ اس سے پہلے ہماری جانب سے کوئی عملی اقدام نہ کرنے کی یقین دہانی کے مترادف ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان کی فضائی حدود بھارت کے لیے کھلی ہیں ،نریندر مودی ہماری ہی فضائی حدود استعمال کرکے ہمارے ہی خلاف بیرونی دورے کررہے ہیں ۔اگر 27فروری کے واقعہ کے بعد ہماری فضائی حدود بند کی جاچکی ہیں اور اس وقت اس میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی تو اب کیوں بند نہیں کی جاسکتی ہیں۔ پاکستان کے راستہ بھارت اور افغانستان کی تجارت بھی چل رہی ہے ۔کرتار پور بارڈر پر کام بھی بھارت کی جانب سے ٹال مٹول کے باوجود جاری ہے ۔بھارتی فنکار خصوصی دعوت اور پروٹو کول کے ساتھ پاکستان آرہے اور جارہے ہیں ۔کلبھوشن یادیو جیسے بھارتی دہشتگرد کو ان حالات میں بھی قونصلر رسائی دی جاچکی ہے۔ حکومت کی جانب سے اگر ایک جانب رسمی احتجاج اور بیانات کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب عملی میدان میں یہ صورت حال ہے اور قوم اسی وجہ سے تشویش کا شکار ہے ۔
مقبوضہ کشمیر کے عوام ستر سال سے بھارت سے آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں اور اس جنگ میں اللہ کی ذات کے بعد پاکستان ان کا سب سے بڑا سہارا ہے جس کے بھروسہ پر وہ بھارت کے خلاف بر سر پیکار ہیں ۔ستر سالہ آزادی کی جدو جہد اس وقت ایک فیصلہ کن موڑ میں ہے،بھارت اپنا انتہائی قدم اٹھا چکا ہے جس کے بعد اب اس کو مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے جبکہ ہمیں ابھی کرنے کے لیے بہت کچھ باقی ہے، مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کواس وقت سب سے زیادہ ہماری ضرورت ہے۔اس لیے حکومت کو اس وقت رسمی احتجاج اور بیانات سے بہت آگے بڑھ کر بھارت کے خلاف مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کی عملی میدان میں مدد کرنے کی ضرورت ہے ۔

حصہ