بندریا شہزادی

902

بچو! آج میں تمہیں ایک اور دلچسپ کہانی سنانے لگا ہوں۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ کسی ملک کا ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ کیونکہ یہ بات ہزاروں سال پرانی ہے اس لئے اس کے متعلق بس اتنا ہی معلوم ہو سکا کہ وہ دوسرے بادشاہوں کی طرح ظالم نہیں تھا۔ اپنی رعایا کا خیال رکھتا تھا اور اس کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ اس کے ملک کی جہاں تک بھی حدود ہیں اور اس میں جو بھی عام و خاص ہیں وہ تکلیف میں نہ رہیں۔ یہی وہ صفت تھی جس کی وجہ سے وہ عوام میں بہت مقبول تھا۔
اس کے تین بیٹے تھے مگر بیٹی کوئی نہیں تھی۔ اس کی تمنا تھی کہ اللہ اس کے گھر بھی اپنی رحمت یعنی بیٹی بھیجے لیکن اللہ کے کاموں میں کون مداخلت کر سکتا ہے۔ پھر بھی وہ اس لئے بہت خوش تھا کہ کم از کم اس کے تخت و تاج کا کوئی نہ کوئی والی وارث تو موجود ہے۔
اس ملک کے کچھ ایسے قوانین تھے جن پر عمل کرنا ہر امیر و غریب اور بادشاہ و فقیر کیلئے ضروری تھا اور کیونکہ ایسا سیکڑوں سال سے ہوتا چلا آ رہا تھا اس لئے سب ہی اس کی پاسداری کیا کرتے تھے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ملک میں بادشاہت کے ہوتے ہوئے بھی اصل حاکم اعلیٰ بادشاہ کے بجائے اس ملک کا قانون ہی ہوا کرتا تھا کیونکہ ان اصولوں اور قوانین پر چلنے سے کوئی بھی انکار نہیں کیا کرتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ملک کے سارے امیر و غریب اور بادشاہ و فقیر خوش اور خوشحال تھے اور کوئی بھی ایسا گاؤں، بستی یا شہر ایسا نہیں تھا جہاں بد امنی پائی جاتی ہو۔ان ہی اصولوں اور قوانین میں ایک اصول یا قانون یہ بھی تھا کہ بادشاہ کی وفات کے بعد تخت و تاج کا اصل وارث اس کا سب سے چھوٹا بیٹا ہی ہوا کرتا تھا۔ اسی اصول کے مطابق اگر بادشاہ کا صرف ایک ہی بیٹا ہوتا تو بادشاہ کی وفات کے بعد وہ تخت کا وارث قرار نہیں دیا جاسکتا تھا۔ اس لئے کسی بھی بادشاہ کے کم از کم دو بیٹے ہونا ضروری تھے۔ ان ہی اصولوں میں ایک اصول یہ بھی تھا کہ اگر بادشاہ کی کوئی نرینا اولاد نہیں ہوگی یا صرف ایک ہی بیٹا ہوگا تو پھر اس ملک کے وزیر اعظم کا بیٹا، خواہ ایک ہی کیوں نہ ہو، بادشاہ بنادیا جائے گا البتہ وزیر اعظم کا جو بیٹا بادشاہ بنادیا جائے گا اس کے تخت و تاج کی وراثت کی منتقلی کا وہی اصول برقرار رہے گا جو ہر بادشاہ کیلئے طے کردیا گیا تھا یعنی بادشاہ بن جانے والے کے کم از کم دو بیٹے ہونا ضروری ہونگے تاکہ اس کی وفات کے بعد اس کے چھوٹے بیٹے کو بادشاہت منتقل کی جاسکے۔
اسی ملک کا ایک قانون یہ بھی تھا کہ اگر بادشاہ بن جانے والے کے بیٹے تو ہوں مگر بادشاہ کے انتقال کے وقت چھوٹا بیٹا بالغ نہیں ہوا ہو تب بھی بادشاہت بادشاہ کے بیٹے کی بجائے وزیر اعظم کے بیٹے کو ہی منتقل ہوجاتی تھی۔
موجودہ بادشاہ جس کی کہانی آپ ابھی سن رہے ہیں، اس کے دادا بھی اس ملک کے وزیر اعظم کی اولادوں میں سے ہی تھے کیونکہ ان کے دادا کے زمانے میں اس وقت جو اس ملک کا بادشاہ ہوا کرتا تھا اس کا جب انتقال ہوا تو اس بادشاہ کے بیٹے تو ضرور تھے لیکن وہ نابالغ تھے جس کی وجہ سے موجودہ بادشاہ کے دادا، جواس وقت کے بادشاہ کے وزیر اعظم کے بیٹے تھے، ان کو ملک کا بادشاہ بنادیا گیا تھا۔ کیونکہ بادشاہ کے دادا مزاج کے بہت نیک اور بادشاہ کے نمک خواروں میں شامل تھے اس لئے وزیر اعظم بننے کے بعد انھوں نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ انتقال کرجانے والے بادشاہ کے خاندان کو سونپ دیا تھا۔ اس لحاظ سے موجودہ بادشاہ کے جو وزیر اعظم تھے وہ اسی شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس خاندان سے بادشاہت ان کے اپنے خاندان میں منتقل ہوئی تھی۔
یہاں یہ بات بھی بہت اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ ہر خاندان میں اچھے بلکہ بہت اچھے اور برے بلکہ بہت برے لوگ بھی ہوا کرتے ہیں۔ موجودہ شاہی خاندان کی اعلیٰ ظرفی یہ تھی کہ انھوں نے پرانے بادشاہ کی نمک حلالی کرتے ہوئے اسی شاہی خاندان کو وزارت عظمیٰ سونپ کر اپنی وفاداری کا اظہار کیا لیکن اس وقت کا وزیر اعظم جو سابقہ بادشاہ کے خاندان سے تھا، اس کے دل میں ہر وقت یہ آرزو ابھر تی رہتی تھی کہ کسی طرح اس کے خاندان کو دوبارہ بادشاہی مل جائے۔ اس کے دل میں اس خواہش کو جگانے میں اور مسلسل بیدار رکھنے میں خود اس کی بیوی کا بھی بہت ہاتھ تھا۔ اس کی بیوی بھی کیونکہ سابقہ بادشاہ کے خاندان سے تھی اس لئے وہ اپنے شوہر (وزیراعظم) کو مسلسل اس بات پر اکساتی رہتی تھی کہ وہ کوئی نہ کوئی ایسی راہ ضرور نکالے جس کی وجہ سے موجودہ بادشاہ کا سب سے چھوٹا بیٹا یا تو کسی طرح مرجائے یا کسی ایسی مشکل کا شکار ہوجائے جس کی وجہ سے وہ بادشاہ کی وفات کے بعد ملک کا بادشاہ نہ بن سکے۔ موجودہ وزیر اعظم کا گوکہ ایک ہی بیٹا تھا لیکن ملک کے قانون کے مطابق وہ بادشاہ بنایا جاسکتا تھا۔
موجودہ باد شاہ ملک کے طول و عرض میں بہت ہی مقبول تھا۔ اس کے فلاحی کاموں، سادگی، عام عوام سے میل ملاپ اور بے پناہ اصلاحی کاموں کی وجہ سے ملک کے سارے عوام بادشاہ سے بہت محبت کرتے تھے۔ بادشاہ اور اس کے شہزادے بعض اوقات عوام میں اس طرح کھل مل جایا کرتے تھے کہ شاہ و گدا کو پہچاننا تک مشکل ہوجایا کرتا تھا۔ عوام سے اس درجہ قربت اور پیار کی وجہ سے بادشاہ اپنے ساتھ محافظوں کا دستہ تک رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کیا کرتا تھا۔ ہر عام و خاص کو دربار تک رسائی حاصل تھی اور کوئی بھی ایسی شکایت جو جائز ہوتی اسے دور کردیا جاتا تھا۔وزیر اعظم کو یہ ساری باتیں اس لئے بھلی نہیں لگتیں تھیں کہ وہ خاندان در خاندان ان شاہوں سے تعلق رکھتا چلا آیا تھا جو روایتی بادشاہوں کی سی شان و شوکت رکھا کرتے تھے۔ اس کے اپنے دادا (اس وقت کے بادشاہ)، نہایت کروفر یعنی محافظوں کے ایک لشکر کی صورت میں عوام کے درمیان گزرا کرتے تھے۔ کیونکہ وزیر اعظم کا تعلق ایسے ہی خاندان سے تھا اس لئے موجودہ بادشاہ کی یہ عوامی سوچ اسے کسی طور اچھی نہیں لگتی تھی اس لئے وہ رات دن اپنے اندر ہی اندر بادشاہ سے حسد کرتا رہتا تھا۔
موجودہ وزیراعظم کا اب تک یہ حال تھا کہ وہ جب بھی کسی شہر یا گاؤں کا سفر کرتا اپنے ساتھ درجنوں سپاہیوں کا لشکر لیکر جاتا۔ عوام اسے تو کچھ نہ کہتے لیکن وہ بادشاہ کے اور بھی دیوانے ہوجاتے اور آپس میں کہتے کہ دیکھو ہمارا بادشاہ کتنا اچھا ہے کہ اکثر اوقات وہ ہمارے درمیان بیٹھ کر وہی کچھ کھا پی بھی لیتا ہے جو ہم کھارہے ہوتے ہیں اور ایک وزیر اعظم کو دیکھو ہر وقت آسمان پر ہی اڑتا رہتا ہے۔
جو عادتیں، بڑائی اور غرور وزیر اعظم میں تھا وہی ساری ناپسندیدہ برائیاں وزیر اعظم کے بیٹے میں بھی تھیں۔ حکومت کا کوئی عہدہ نہ ہونے کے باوجود وہ بھی پورے کروفر کے ساتھ گھوما پھرا کرتا تھا۔ بادشاہ نے کئی مرتبہ وزیر اعظم کو ٹوکا بھی کہ کم از کم اپنے بیٹے کو تو قابو میں کرو لیکن ہر بار کمالِ ہوشیاری سے وزیر اعظم بادشاہ کو منانے میں کامیاب ہوجایا کرتا تھا اور بات آئی گئی ہوجایا کرتی تھی۔
وزیر اعظم کے بیٹے کا ناپسندیدہ انداز اپنی جگہ، جو بات اس سے بھی زیادہ خطرناک تھی وہ وزیراعظم کے بیٹے کی کسی حدتک کم عقلی بھی تھی۔ کم صلاحیتیں اور کم عقلی بھی بگاڑ، غرور اور ظلم کا سبب بن جایا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ وزیر اعظم کا بیٹا ہونے کے غرور کی وجہ سے کئی ایسی حرکتیں بھی کر گزرتا تھا جو عوام کی مشکلات میں اضافے کا سبب بن جایا کرتی تھیں۔ عوام میں سے کافی افراد نے چاہا کہ وہ بادشاہ تک اس کی بات پہنچائیں لیکن قوم کے سمجھدارلوگ، لوگوں کو کسی نہ کسی طرح ایسا کرنے سے روک لیا کرتے تھے۔ وہ کہتے کہ دیکھو بادشاہ کتنا اچھا ہے، کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ شاہی انتظامی سطح پر کوئی فساد شروع ہوجائے اور ہم سب کسی آزمائش میں پڑجائیں۔ لوگ وزیراعظم تک ضرور کچھ زیادتیوں کی شکایات ضرور پہنچایا کرتے تھے۔ وزیراعظم شکایت کرنے والوں کے سامنے جھوٹ موٹ اپنے بیٹے کی ڈانٹ ڈپٹ کردیا کرتا تھا لیکن دل ہی دل میں بہت خوش ہوتا اس لئے کہ اس کی رگوں میں اس خاندان کا خون تھا جو عوام کو نہ خوش رکھ کر خوشی محسوس کیا کرتے تھے۔عوام کو بھی ملک کے اصول و قوانین کا بہت اچھی طرح علم تھا اسی لئے وہ رات دن بادشاہ اور اس کے چھوٹے بیٹے کی لمبی زندگی کیلئے دعائیں کیا کرتے تھے۔ انھیں معلوم تھا کہ اگر کسی وجہ سے بادشاہ کا چھوٹا بیٹا بادشاہ نہ بن سکا تو پھر وزیراعظم کا بیٹا بادشاہ بنادیا جائے گا۔ اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا تو ان کے خوشیوں کے دن غموں کی رات میں بدل جائیں گے۔
بادشاہ کے تینوں بیٹے بہت نیک اور سادہ تھے البتہ سب سے چھوٹا بیٹا نیک اور سادہ تو ضرور تھا لیکن بہت ہی شریر تھا۔ ہر روز نت نئی شرارتیں کیا کرتا تھا۔ گوکہ اس کی شراتوں سے کبھی کسی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچی لیکن بادشاہ کی خواہش تھی کہ وہ بادشاہوں کی طرح سنجیدہ بھی ہوجائے اور امور مملکت میں دلچسپی بھی لینا شروع کردے اس لئے کہ ملک کے اصول و قانون کے مطابق اسی کو تخت و تاج کا مالک بننا تھا۔ بادشاہ جب بھی اسے امور مملکت میں شامل کرنے کی کوشش کرتا اور اسے احساس دلاتا کہ دیکھو تمہیں تخت و تاج کا وارث بننا ہے تو اس کا جواب یہی ہوتا کہ جب وقت آئے گا تو وہ دیکھ لیا جائے گا۔ ابھی تو اس کے کھیلنے کودنے کے دن ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بادشاہ کو اپنے چھوٹے بیٹے میں ایک بہت ہی ہردل عزیز بادشاہ بننے اور کہلانے کی صلاحیتیں نظر آتی تھیں لیکن وہ چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا اس کی زندگی میں ہی امور مملکت کے رموز سے آگاہ ہوجائے۔
پہلے زمانے میں لڑکیاں ہوں یا لڑکے، سب کی شادیاں عموماً کم عمری میں ہی ہوجایا کرتی تھیں۔ بادشاہ کے تینوں بیٹے اب جوان ہو گئے تھے۔ تینوں کی عمروں میں کوئی بہت بڑا فرق نہیں تھا۔ سب ایک دوسرے سے سال سوا سال کے فرق سے تھے۔ بادشاہ نے ان کی شادی کا ارادہ کیا تو خبر وزیر اعظم تک بھی پہنچی۔ (جاری ہے)۔

حصہ