خوشی!۔

489

ہادیہ امین
نئے گھر میں منتقل ہونے کے بعد ایک بڑا مسئلہ میرے اسکول کا تھا۔ میں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ بہت ڈھونڈنے کے بعد ابو کو ایک اسکول پسند آیا۔ نیا اسکول ہوگا،نئے لوگ ہونگے،مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا۔
میں اپنی کلاس میں ایک مناسب شاگرد تھا،نہ بہت اچھا نہ بہت برا۔ پرانا اسکول یاد آتا تو رونے کا دل چاہتا،مگر وہ اب گھر سے کافی دور تھا۔ میں جب نئے اسکول کی نئی کلاس میں گیا تو دو ہی مہینوں میں سالانہ امتحان ہونے والے تھے،میں نئے اسکول میں مگن ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔
میں نے دیکھا،کلاس میں اچھا پڑھنے والے کافی لوگ تھے مگر شاہ میر اور عبدالہادی بہت زیادہ اچھا پڑھتے تھے۔ ان کو استاد کے ہر سوال کا جواب آتا،تمام اساتذہ ان دونوں کو خصوصی پسند کرتے۔مجھے جب کوئی مسئلہ ہوتا،میں انہی دونوں سے پوچھنے کی کوشش کرتا۔
“تمہیں یہ کیسے سمجھ آئیگا!! یہ میتھس کا سوال ہے،بیٹا اپنی خیر منائو تم،دو مہینے بعد امتحان سر پہ کھڑے ہونگے،تم اٹکے رہنا،پہلے ایک سوال پہ اور بعد میں اس ہی کلاس میں” ۔
یہ شاہ میر تھا جو جب سے میں آیا تھا،مجھے حقارت آمیز نظروں سے ہی دیکھتا تھا،کسی بات کا صحیح سے جواب نہیں،امی تو کہتی ہیں علم کا مقصد اللہ کی پہچان حاصل کرنا اور اچھا انسان بننا ہے،یہ کلاس میں اول پوزیشن لینے والا کیسا اچھا انسان تھا جس کو بات کرنے کی تمیز ہی نہیں تھی، کیا واقعی میں فیل ہو جائونگا؟؟
مجھے اپنا پرانا اسکول، اپنے اساتذہ،اپنے دوست بہت یاد آنے لگے، مجھے ایسا لگتا کہ سب مجھے شاہ میر کی طرح ہی سمجھتے ہیں۔ نالائق اور کند ذہن۔۔
میں ایک آخری کوشش کرکے عبدالہادی کے پاس گیا،وہ اس وقت وہی سوال جو مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا،اپنے کسی دوست کو سمجھا رہا تھا۔
“کیا میں بھی یہاں بیٹھ کر یہ سوال سمجھ لوں؟”
میں نے عبدالہادی سے سوال کیا۔۔
“ہاں ہاں بیٹھ جائو،کیسے ہو یار تم، مجھے وقت ہی نہیں ملا تم سے بات کرنے کا،کیسا لگا ہمارا اسکول؟ ابھی سب نیا ہے اسلئے کچھ مشکل ہو رہی ہوگی،کچھ وقت بعد اتنا مزہ آئیگا کہ پرانا اسکول بھول بھی جائو گے،آئو میں سمجھائوں”۔
کتنا اچھا تھا عبدالہادی،کتنے آرام سے بات کرنے والا۔۔
“عبدالہادی! کیا تمہیں بھی یہ لگتا ہے کہ میں فیل ہو جائونگا؟ “میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔۔
“کس نے کہا ہے تم سے؟ تم کیوں فیل ہوگے،مجھے پکا یقین ہے تم ان شاء اللہ بہت اچھے نمبروں سے پاس ہوگے”
وقت گزرتا گیا۔میں نے اخذ کیا کہ عبدالہادی کے تو بہت دوست ہیں،وہ سب کے کام آتا،سب کی مدد کرتا،امی کہتی ہیں تعلیم اچھا انسان بناتی ہے،جو تعلیم شاہ میر کے پاس تھی وہی عبدالہادی کے پاس تھی مگر عبدالہادی بہت اچھا تھا۔ اسکے برعکس شاہ میر سے ایک دو لوگ ہی بات کرتے۔ وہ سب کے ساتھ ویسا ہی تھا جیسا میرے ساتھ تھا۔۔
وقت گزر گیا۔ سالانہ امتحان بھی ہو گئے اور آج نتیجے کا دن (رزلٹ ڈے ) تھا، نتائج کا اعلان ہونے کو تھا،سب کے دل دھڑک رہے تھے۔۔۔
“اول نمبر پہ آئے ہیں شاہ میر”۔
سب نے تالیاں بجائیں اور دوسرے اعلان کا انتظار کرنے لگے۔۔
“اور دوسرے نمبر پہ آئے ہیں عبدالہادی” ۔
تالیاں بجنا شروع ہوئیں،تالیاں تو شاہ میر کے اعلان پہ بھی بجیں تھیں مگر عبدالہادی والی تالیاں تو رک ہی نہیں رہی تھیں،یوں محسوس ہوا جیسے ہر کوئی خوش ہو رہا ہے،عبدالہادی کی خوشی اور کامیابی پہ سب خوش ہیں،سب کے چہرے کھل گئے، ہوائیں، درودیوار سب خوش ہو گئے کہ سب کا خیال رکھنے والا، سب کا پیارا عبدالہادی کامیاب ہوا ہے۔ ٹیچر نے بڑی مشکل سے تالیاں رکوائیں تاکہ تیسرے نمبر کا اعلان کریں۔۔
میں نے آخر میں دیکھا کہ عبدالہادی دوسرے نمبر پہ آنے کے باوجود بہت خوش تھا،سب اسکو مبارکباد دے رہے تھے،ساتھی اسکول کی کینٹین سے مختلف چیزیں خرید کر عبدالہادی اور ایک دوسرے کے ساتھ کھا رہے تھے،اورمیں نے یہ بھی دیکھا کہ شاہ میر پہلے نمبر پہ آکر بھی حسرت سے عبدالہادی کو دیکھ رہا تھا اور وہ خوش نہیں تھا اس کو خوشی نہیں ہوئی، اس کی خوشی اس کے تکبر نے چھین لی۔۔

حصہ