میرے پیارے شہر، میری جائے پیدائش میری جان کراچی… تجھے کتنے اچھے اچھے ناموں سے آراستہ کیا کہ یہ تیرا حق تھا اور ہم پر فرض تھا۔
پاکستان کا دل کہا توکبھی کاسمو پولیٹن، میگا پولیٹن اور غریب پرور روشنیوں کا شہر کہا۔سب کچھ اپنی جگہ، مگر افسوس صد افسوس کہ والیِ شہر، فرماں روائے سلطنتِ ارضِ پاک نے اپنے ہی دل، اپنی ہی جنت کو تاراج کرنے کی قسم کھائی اور اس غریب پرور، روشنیوں کے شہر کو لاوارث لاش بنادیا۔ تسلط اور قبضے کی جنگ نے… لالچ، چور بازاری، لاشوں کی سیاست اور اقرباء پروری نے میرے کراچی کا ایسا حلیہ بگاڑا کہ اب میرا شہر ایک زخم خوردہ، زہر اگلتا، خون تھوکتا، فالج زدہ، ہڈیوں کا ڈھانچہ کراچی ہے۔ جس کی ہر بستی، ہر محلہ چیخ چیخ کر اپنے اوپر جاری تسلط کی جنگ اور اجارہ داری قائم رکھنے کا فسانہ سنا رہا ہے۔ ہاں یہ وہی کراچی ہے جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا۔ یہ بیک وقت غریب کی ماں بھی تھا اور مزدور کا باپ بھی۔ اس کے انگ انگ سے ماں کی ممتا پھوٹتی تھی۔ اس کا رواں رواں شفقت سے معمور تھا۔ یہ شہر ’پاکستان کا دل‘ بھی تھا اور جان بھی۔ یہ پورے پاکستان کی نمائندگی کرتا تھا۔ اس کے باوجود اب بھی یہ پاکستان کا معاشی حب ہے، یہ شہر اب بھی 70 فیصد وسائل فراہم کرتا ہے جس کی بدولت میرا پورا ملک سیراب ہورہا ہے۔ مگر اس کا حال کیا ہے؟
یہ ایک کھنڈر ہے، مسائل کا انبار لیے سڑکوں، چوراہوں، چوباروں پر جا بہ جا اپنی پہچان کرواتا دکھائی دیتا ہے۔ آپ اسے ہر رنگ میں نمایاں دیکھ سکتے ہیں۔
اسے کبھی کچرے کے روپ میں، کبھی بہتے ہوئے گندے نالے کی صورت میں، کبھی پانی کی قلت کا رونا روتے ٹینکروں کی لائن میں گھنٹوں اپنی باری کے لیے منتظر دیکھ سکتے ہیں۔ کبھی پارکنگ لاٹ میں مافیا کے ہاتھ چڑھتے، اور پھر کبھی ٹریفک کے رش میں پھنسے۔ اور تو اور کبھی دہشت گردی کا شکار ہوتے، تو کبھی کالج کے داخلے کے لیے رشوت دیتے ہوئے۔
اب تو عالم یہ ہے کہ ہم کراچی والے اتنے زخم کھا چکے ہیں کہ صورتِ حال کچھ یوں دکھائی دیتی ہے کہ ’’کھائیں کہاں کی، بچائیں کہاں کی چوٹ؟‘‘
کراچی میں ٹرانسپورٹ کا ایک نظام جو 1987ء کی بلدیہ عظمیٰ تک موجود تھا، کہاں غائب ہوگیا؟ اعداد و شمار ریکارڈ پر موجود ہیں کہ1987ء سے پہلے تک میئرجناب عبدالستار افغانی کے دور میں کراچی میں سرکلر ریلوے کا نظام موجود تھا اور مختلف اوقات میں 56 لوکل ٹرینیں چلا کرتی تھیں جن میں لاکھوں مسافر صدر، ٹاور، لانڈھی اور سعود آباد، لیاقت آباد، نا ظم آباد، منگھوپیر جیسے دور دراز علاقوں میں بآسانی آجا سکتے تھے۔ گورنمنٹ کی کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن (KTC) کی 800 بڑی بسیں موجود تھیں۔ پھر جناب نعمت اللہ خان نے اپنے دور نظامت میں سٹی گرین بس پروجیکٹ کے لیے 200 ائیرکنڈیشنڈ بسیں منگوا کر کراچی کے مختلف روٹس پر چلوائیں ۔ جامعہ کراچی، این ای ڈی اور دیگر پروفیشنل تعلیمی اداروں کے لیے180 پوائنٹس مختص کیے گئے جو تعلیمی اداروں کے لاکھوں طلبہ و طالبات کو آسانی فراہم کرتے تھے۔
مگر اس کے بعد آسیب نے ڈیرہ جمایا اور شہر کی ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب کروا دی گئی، اور اس کی جگہ چھکڑوں، چنگ چی رکشوں اور موٹر سائیکل رکشوں نے لے لی۔ اتنی بڑی آبادی والے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی مؤثر انتظام نہیں، روزانہ لاکھوں شہری بسوں کی چھتوں پر چڑھ کر اور دروازوں سے لٹک کر سفر کرتے ہیں۔ وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر سفر کرتے ہیں کہ کب کیا ہوجائے۔ اگر کوئی گر کر ہلاک ہوجائے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟
کچرے کے ڈھیر، گندے پانی کے جوہڑ ہر طرف دکھائی دیتے ہیں۔ صفائی ستھرائی، سیوریج، اور پھر سڑکوں کی خستہ حالی سے ہر لمحہ کراچی کے ہر باسی کو گزرنا پڑتا ہے۔1987ء سے پہلے تک ہر سال بارشوں کے بعد میونسپل کمیٹی کا عملہ علاقوں میں اسپرے کرتا دکھائی دیتا تھا، مگر اب یہ شعبہ بھی محض اپنے آقاؤں اور افسران کی طرز پر حرام کی کمائی پر گزارا کررہا ہے۔ اسپرے مہم کے نہ ہونے سے ڈینگی، ملیریا اور اسی طرح کے مختلف جراثیم پیدا ہوتے ہیں، اور مختلف قسم کے امراض جنم لیتے ہیں۔ جبکہ سڑکوں کا یہ عالم ہے کہ ہر جانب بڑے بڑے گڑھے پڑے ہوئے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شہر میں روزانہ12 ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے۔ تاہم، شہری حلقوں کے خیال میں کچرے کی یومیہ مقدار کسی صورت16 ہزار ٹن سے کم نہیں۔ اگر 12 ہزار ٹن ہی کو درست مان لیا جائے، تب بھی روزانہ اس کا محض نصف، یعنی چھے ہزار ٹن کچرا ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آدھے سے زیادہ باقی رہ جانے والا کچرا کہاں جاتا ہے؟ یہ کچرا سڑکوں، گلیوں، کچرا کنڈیوں اور خالی پلاٹس وغیرہ میں پڑا سڑتا رہتا ہے اور دوسرے دن وہاں مزید کچرے کا ڈھیر لگ جاتا ہے۔ اس معاملے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اٹھائے جانے والے کچرے کی ایک بڑی مقدار کچرے کے لیے مختص مقامات (لینڈ فل سائٹس) کے بجائے ندی، نالوں میں پھینک دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ کچرا عملاً شہر ہی کا حصہ رہتا ہے۔ یوں یہ کچرا اٹھانا، نہ اٹھانا برابر ہی ہے۔ پھر یہ بھی کہ کئی علاقوں سے روزانہ کی بنیاد پر کچرا اٹھایا ہی نہیں جاتا، جس سے پورا علاقہ کچرا کنڈی بنا رہتا ہے، البتہ جب کبھی کوئی’’صفائی مہم‘‘ شروع ہوتی ہے، یا پھر وہاں کے باسی مارنے مرنے پر تُل جاتے ہیں، تو کچرے کے ڈھیروں کو جنگی بنیادوں پر اٹھا لیا جاتا ہے، مگر کچھ دنوں بعد صورتِ حال پہلے جیسی ہی ہوجاتی ہے۔ ہمارے صحافی دوست محمد انور کی رپورٹ کے مطابق کچرا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے والے بلدیاتی نظام کو حکومتِ سندھ نے اپنی تحویل میں لے کر تباہ کردیا۔ سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ (ایس ایس ڈبلیو ایم بی) بناکر حکومت نے صفائی ستھرائی کے کام کی ذمے داری اس ادارے کے حوالے کردی جو گزشتہ 5 سال سے آج تک اپنے دائرۂ کار کو سمجھ تک نہیں سکا۔ جو کام کے ایم سی اور ضلعی بلدیاتی ادارے کیا کرتے تھے، ایس ایس ڈبلیو ایم بی وہ کام پانچ سال گزرنے کے باوجود شروع تک نہیں کرسکا۔ اسے گھروں سے کچرا اٹھاکر گاربیج اسٹیشن، اور پھر وہاں سے لینڈ فل سائٹ تک پہنچانا تھا۔ یہی نہیں اس ادارے کو اسپتالوں اور مختلف اداروں کا کچرا بھی اپنے سسٹم کے تحت اٹھانا تھا، اور گلیوں، محلوں اور سڑکوں کی صفائی بھی کرنا تھی۔ مگر یہ ادارہ جس کا سالانہ بجٹ اربوں روپے ہے، اس کا مرکزی دفتر ٹیپو سلطان روڈ پر ایک نجی رہائشی بنگلے میں قائم ہے، اس کے دفتر کے آس پاس موجود کچرا، گندگی اور غلاظت اس کا منہ چڑاتی ہے۔ یہ ادارہ 5 سال میں اپنا کوئی سسٹم تو کجا اس کے دائرۂ اختیار میں موجود تمام ذمے داریوں کو بھی نہیں سمجھ سکا۔ ایس ایس ڈبلیو ایم بی کے کام کی حدود پورا سندھ ہے، مگر وہ کراچی کے صرف تین اضلاع شرقی، جنوبی، ملیر اور غربی میں صفائی ستھرائی کی ذمے داری حاصل کرسکا تھا۔ ان میں ضلع غربی میں وہ ناکام رہا۔ وہاں چائنا کی فرم کو دیا گیا ٹھیکا منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایس ایس ڈبلیو ایم بی کو چلانے کے لیے ایک ایسے افسر کو دوسری بار اس کا ایم ڈی مقرر کیا گیا ہے جس نے اپنی پوری ملازمت کے دوران کوئی غیر معمولی کام کرکے نہیں دکھایا تھا۔
آپ شہر کے کسی بازار، اسپتال اور مارکیٹ میں جائیں گے تو بھاگتا ہوا ایک شخص آپ کی گاڑی یا موٹر سائیکل کی جانب آئے گا اور پارکنگ کے پیسے مانگے گا۔
حرام کی کمائی سے پنپتی ہوئی میئر کراچی کی موجودہ بلدیہ کی آمدن اور اخراجات کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ اندازہ لگائیے کہ ایک نیا بھتا مافیا چارج پارکنگ کے نام پر وجود میں لایا گیا ہے جس نے پورے شہر کو اپنے چنگل میں لے رکھا ہے۔ کسی بھی چوک اور بازار میں یہ بھتا مافیا کنٹریکٹ پر رکھا گیا ہے جو کروڑہا روپے ماہانہ وصول کرتا ہے، مگر یہ رقم کس کی جیب میں جاتی ہے؟ کسی کو نہیں معلوم۔ ریلوے اسٹیشنوں، شاپنگ پلازہ، مارکیٹوں، ہفتہ بازاروں اور بسوں کے اڈوں ہر جگہ پر بھتا مافیا نے خودساختہ پارکنگ قائم کردی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے ملک میں پارکنگ کا کوئی قانون موجود ہے؟ آخر کیوں بھتے کے عوض مصروف مقامات پر پارکنگ کو جائز قرار دے دیا جاتا ہے؟ ہرسڑک، محلے،گلی اور مصروف شاہراہوں پر بڑی تعداد میں گاڑیاں کھڑی دکھائی دیتی ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ایک ہی سڑک پر نوپارکنگ اور چارجڈ پارکنگ دونوں کے بورڈ لگے ہوتے ہیں۔ اگر مذکورہ علاقہ نوپارکنگ زون ہے تو وہاں چارجڈ پارکنگ کیسے قائم کردی جاتی ہے؟
90 لاکھ روپے سالانہ تنخواہ لینے والے بلدیہ کراچی کے ملازمین محض بارہ لاکھ روپے چارجڈ پارکنگ کی مد میں خزانے میں جمع کرواتے ہیں۔ اندازہ لگایئے کہ کس بڑے پیمانے پر خورد برد کا بازار گرم کیا گیا ہے۔ اسی طرح ٹریفک کنٹرول کرنے کے لیے پندرہ سو ملازمین سٹی وارڈنز کے نام پر مصطفی کمال نے بھرتی کروائے، جن کی تنخواہ 96 لاکھ روپے سالانہ ہے، مگر آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ان پندرہ سو وارڈنز میں سے کوئی ایک بھی اپنی ڈیوٹی پر موجود نہیں ہے۔ یہ تمام وارڈنز متحدہ کے سیاسی جلسوں میں اور سرکاری افسران کے گھر کی ڈیوٹی پوری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ایک اور دھندا جس پر میئر کراچی وسیم اختر کا قبضہ ہے وہ ہے بلدیہ کی گاڑیوں میں ڈلنے والا ڈیزل اور پیٹرول! خراب اور ناکارہ پڑی ہوئی گاڑیوں پر بھی ماہانہ بنیادوں پر لاکھوں روپے کا ڈیزل پینے والی دنیا کی واحد مخلوق اگر کوئی ہے تو وہ ہیں وسیم اختر اور ان کی بلدیہ کے منتخب چیئرمینز۔ اس تمام تر لوٹ مار اور بھتا گیری کے بعد وسیم اختر اور تحریک انصاف کے ارکانِ اسمبلی کراچی والوں سے شہر کی صفائی ستھرائی کے لیے چندے کی اپیل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ شرم ان کو مگر نہیں آتی کے مصداق یہ ’’سیاسی اٹھائی گیرے‘‘ چکنے گھڑے بنے ہوئے ہیں۔
کراچی کے ساتھ اصل ہاتھ تو کیا ہے صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے۔ انہوں نے کراچی کو پانی کی سپلائی کے منصوبے ’کے۔ فور‘ میں جو ڈاکا مارا ہے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن صاحب نے درست سوال اٹھایا کہ 65 ایم جی ڈی پانی جو پہلے سے منظور شدہ ہے اور دھابیجی سے پیپری تک لائن ڈالنی ہے اس کو اگلے 6ماہ میں مکمل کیا جانا تھا، 116 ایم جی ڈی پانی ضائع ہورہا ہے، اس ضیاع کو روکنے کے لیے حکومت نے کیا اقدامات کیے؟650 ایم جی ڈی پانی ’کے فور‘ سے آنا ہے لیکن حکومتِ سندھ نے صرف 400 کیوسک کی منظوری دی ہے، بقیہ 800 کیوسک کی منظوری کون دے گا؟ 650 ایم جی ڈی پانی ’کے فور‘ سے کراچی آنا ہے، اس کے لیے 3 کینال الگ الگ بننی ہیں، اس کو ایک کرنے کی پلاننگ ہورہی ہے، یہ حفاظتی نقطہ نگاہ سے غلط ہوگا، 3 کینال الگ الگ ہی تعمیر کی جائیں، سیوریج کا منصوبہ ’ایس 3‘ فوری مکمل کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ حافظ نعیم الرحمن کا کہنا سو فیصد درست ہے کہ کراچی سمندر کے کنارے ہے، دریائے سندھ اور کینجھر جھیل بھی قریب ہیں، لیکن حکمرانوں کی نااہلی اور کرپشن کے باعث کراچی کی اکثریتی آبادی پانی سے محروم ہے، کراچی کو اس کی ضرورت کے مطابق پانی فراہم نہیں کیا جارہا ہے، اور جو فراہم ہورہا ہے وہ ترسیل اور تقسیم کے ناقص نظام، پانی کی چوری اور ٹینکر مافیا کی ملی بھگت کے باعث کراچی کے عوام کو نہیں مل پارہا۔ ’کے فور‘ منصوبے کا روٹ 13مرتبہ تبدیل ہوا، آخر یہ کیوں ہوا اور کس کے کہنے پر ہوا؟ 3 سال میں ’کے فور‘کا منصوبہ مکمل کرنے کا دعویٰ کرنے والے مصطفی کمال پہلے یہ بتائیں کہ انہوں نے اپنے دورِ نظامت میں عوام کے اس اہم منصوبے کو تاخیر کا شکار کیوں کیا؟ انہوں نے کہاکہ کراچی کے شہری پانی کے لیے ترس رہے ہیں، ایک بڑی آبادی پانی سے بالکل محروم ہے، پانی کے منصوبوں کے نام پر شہریوں کو دھوکے میں رکھا گیا ہے۔ اس وقت ’کے فور‘کا منصوبہ 12ارب روپے خرچ کرنے کے بعد سنگین غلطیوں کی وجہ سے روک دیا گیا ہے۔ 116ایم جی ڈی پانی ضائع ہورہا ہے لیکن اس ضیاع کو روکنے کے لیے کوئی بھی اقدام نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کراچی سیتین جماعتوں پی ٹی آئی، ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی کے ارکان کی اکثریت منتخب ہوئی ہے، اور یہ تینوں ہی اس وقت اقتدار میں ہیں۔ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت ہے۔ ایم کیو ایم کراچی کی شہری حکومت اور وفاقی حکومت دونوں جگہ موجود ہے، اور پیپلز پارٹی کی صوبہ سندھ میں حکومت ہے۔ کراچی وفاق کو پورے ملک کا تقریباً 70فیصد ریونیو دیتا ہے، جبکہ صوبے کے ریونیو میں کراچی کا 90 فیصد حصہ ہے۔ اب یہ سارا ریونیو ان تینوں جماعتوں کے ہاتھ میں ہے، اس سے بہتر وقت نہیں آسکتا جب کراچی سے منتخب تینوں جماعتیں ہی حکومت میں ہیں، لیکن اب بھی مسائل حل نہ ہوئے تو پھر کب ہوں گے؟ ان جماعتوں کی مسائل سے لاتعلقی اور غیر سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ حکومت میں ہونے کے باوجود تینوں ڈراما رچا رہی ہیں۔