میری وال سے

660

افشاں نوید
شادی کی تقریب میں ایک میز پر ہم نے آدابِ میزبانی کے طور پر پوچھا ’’آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے، لادوں؟‘‘ وہ بریانی سے بھری پلیٹ کی جانب اشارہ کرکے بولیں ’’یہ دیکھیں اتنا سارا میری پلیٹ میں ڈال دیا فلاں نے، اب اتنا تو نہیں کھا سکتی، پریشان ہوں۔‘‘
ہمیں یاد آگیا کہ پچھلے ہفتے دعوت میں تھے ہم کسی کے گھر۔ کوفتوں کی تعریف کی تو میزبان خاتون نے یہ کہتے ہوئے دو کوفتے ڈش سرکاکر ہماری پلیٹ میں ڈال دیئے ’’پھر اچھی طرح کھائیں ناں‘‘۔ ہم نے بلاجھجھک وہ یونہی چھوڑ دیئے کہ ہم تو اپنے حصے کا کھانا کھا چکے ہیں۔
قریبی عزیزوں نے ڈنر پر مدعو کیا۔ اسٹارٹر کے طور پر گرم گرم فرائڈ فش۔ بھلا کس کا ہاتھ رکتا ہے! آپ سیردم ہولیے۔ اب کھانے میں بریانی کے علاوہ تین سالن۔ کباب، سلاد، دو میٹھے۔ خاتونِ خانہ نے انتہائی محنت سے تیار کیا تھا سب کھانا۔ وہ بہت آزردہ ہوئیں کہ آپ نے تو پسند ہی نہیں کیا،کچھ لیا ہی نہیں۔ اُن کا دل رکھنے کو جبراً پیٹ کے بوجھ میں اضافہ بھی کرلیا مگر اُن کا اصرار جاری رہا کہ ملائی بوٹی تو بہت لذیذ ہوتی ہے میرے ہاتھ کی۔ کباب تو چکھا ہی نہیں آپ نے…۔
آپ کسی کے گھر ہیں، شیک سامنے آتا ہے، آپ نے کہا ’’شوگر نہیں لیتی، بس پانی لادیں پلیز‘‘۔ جواب میں پوچھا کہ ’’اچھا کتنی ہے؟‘‘ آپ نے بتایا تو سامنے سے اصرار کہ ’’ارے اللہ کا نام لے کر کھا پی لیاکریں۔ شوگر سے نہیں مرتا کوئی، جب موت کا وقت لکھا ہو تب ہی آتی ہے۔ میں تو اتنی شوگر پر بھی اتنا پرہیز نہیں کرتی‘‘ وغیرہ۔
کسی نے کولا ڈرنک پیش کیا، آپ معذرت کریں، قبول نہیں ہوگی ’’اچھا آدھا گلاس کردیتے ہیں‘‘۔
اکثر کھانا پیش کرنے کے بعد خاتونِ خانہ بہ اصرار اپنے ہاتھ سے آپ کی پلیٹ کا پیٹ بھرتی رہتی ہیں۔ ان کا خیال ہے مہمان تکلف کرتے ہیں، نیز یہ آدابِ میزبانی ہے۔
ایک بے تکلف گھرانے میں ہم نے کہا ’’آپ میزبانی کرتے ہوئے مہمان کے کولیسٹرول لیول کا خیال رکھا کریں، سب ایک جیسا نہیں کھا سکتے۔‘‘
عام طور پر تصور یہ ہے کہ ڈائٹ کا خیال اپنے گھر میں رکھا جانا چاہیے، جس کے گھر مہمان ہیں اُس کے احساسات بھی بہت قیمتی ہیں۔ میزبان کو عموماً اپنے حقِ میزبانی کی فکر ہوتی ہے۔
یہ اُن نیک لوگوں کا ذکر ہے جو آج بھی میزبانی کی دولت سے مالامال ہیں۔ بصورتِ دیگر تو کولڈ ڈرنک اور بیکری کے ایک یا دو آئٹم ہی انتہائی تواضع کی علامت ہیں۔
صحیح تصورِ میزبانی کیا ہے؟۔
چونکہ آپ نے محنت کی ہے، وہ وصول ہونی چاہیے۔
مہمان کو مجبور کرنا چاہیے۔
جو خوشی خوشی آپ کے گھر آیا، آپ کی ناراضی نے اسے ملول کردیا، کیونکہ آپ کو شکایت رہی کہ’’آپ کو ہمارا کھانا پسند نہیں آیا۔ فلاں چیز تو آپ نے لی ہی نہیں۔‘‘
چونکہ آپ دومیٹھے، آئس کریم وکولڈ ڈرنک کے علاوہ بنا چکی تھیں اس لیے آپ نے جانتے ہوئے کہ مہمان شوگر کے مریض ہیں، بہ اصرار انھیں میٹھے پیش کیے اور تسلی دی کہ کچھ نہیں ہوگا۔
ہماری محبت اور تواضع دوسرے کو مہنگی نہ پڑے۔
پھر واضح کردیں یہاں مخاطب وہ لوگ نہیں ہیں جو مہمانوں کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ ہلکا پھلکا لفٹ کراتے ہیں۔ خواتین کچن میں جاتی ہی نہیں۔ ٹیبل پر بوتل کھولی اور بیکری سے آئے لفافے کھول کر پلیٹوں کی زینت بنا دیئے کہ یہ لیجیے لطف اندوز ہوئیے۔ کوئی بیکری کی چیزوں سے سخت پرہیز کرتا ہو مگر میزبان اپنے پیسوں کا ضیاع تو نہیں دیکھ سکتا، لہٰذا مجبوراً آپ…۔
توازن کا راستہ کیا ہے؟ میزبانی کی صحیح تعریف کیا ہے؟ ہم اس سوچ میں پڑجاتے ہیں اکثر دعوتوں کے بعد۔
ہزار مصروفیات سہی مگر رشتے ناتے کرانا خواتین کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔ جہاں کوئی پرانی دوست یا دوچار خواتین اکٹھی ہوئیں، یہ موضوع زیربحث آجاتا ہے۔ کئی خواتین پیشہ ورانہ یہ خدمات انتہائی ہوشیاری سے انجام دیتی ہیں۔ بہرحال خیر کاکام ہے اور خیر کا موقع ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے۔
دو روز قبل بیٹے نے آفس سے واپسی پر کہا ’’میرے دوست کی عمر چھبیس سال ہے، جلدی ترقی کرکے اچھی پوسٹ پر آگیا ہے۔ میں نے اسے کہا پروفائل بھیجو، امی سے کہوں گا رشتے کے لیے، تمہاری مدد کریں گی تو وہ بہت خوش ہوا۔ آپ کردیں گی اس کی مدد؟‘‘
میں نے کچھ بائیوڈیٹا لیا تو پتا چلا کہ… اس نے بتایا ہے چار پانچ جگہ بات چلی، لوگ جب اگلے مرحلے پر گھر آتے ہیں تو منع کردیتے ہیں، کیونکہ میں فلیٹ میں رہتا ہوں، تین بیڈ روم کا فلیٹ ہے۔ لڑکی والے کہتے ہیں بیٹی فلیٹ میں نہیں رہ سکتی۔ گھر لینا فی الحال میرے اختیار میں نہیں ہے۔ میں مایوس ہوگیا ہوں کہ یہ کیسی سوچ پروان چڑھی ہے لوگوں میں۔ معیار کے پیمانے کتنے بدل گئے۔ بولا ’’بعض دفعہ لڑکی والوں نے پوچھا کہ باہر جانے کا ارادہ ہے؟ جب میں نے کہا میں اکلوتا بیٹا ہوں اور بہنیں شادی شدہ… والدین کو چھوڑ کر نہیں جاسکتا، تو اگلی پارٹی کو مایوسی ہوئی۔‘‘۔
جس جگہ رشتہ چلا یہ سوال ہر جگہ پوچھا گیا کہ باہر جانے کا ارادہ کیوں نہیں ہے؟ اب شاید اس سماج میں نوجوانوں کے لیے جگہ نہیں۔ سب کو باہر ہی ہونا چاہیے، کیونکہ پاکستانی خواتین کی نظر میں اُن مردوں کی توقیر زیادہ ہے جو وطن سے باہر ہیں۔
میرا بیٹا بولا ’’آج وہ بہت دکھی تھا، کہہ رہا تھا سب اپنے بیٹوں کو دیارِغیر بھیجنا چاہتے ہیں۔ جب بیٹے چلے جاتے ہیں تو دہائی پڑتی ہے کہ والدین کو تنہا چھوڑ کر سات سمندر پار جا بیٹھے!!!‘‘۔
ہمارے عزیزوں میں ایک صاحب کا فون آیا کہ جہاں رشتہ طے پارہا تھا اُن کی بھانجی نے اصرار کیا کہ وہ خود لڑکے کا گھر دیکھے گی۔ گھر دیکھ کر اس نے کہا میں نہیں رہ سکتی اتنی بڑی فیملی کے بیچ، اور ہم نے رشتے سے انکار کردیا۔
میری بیٹی کا بھی ایک دوسری کمیونٹی سے رشتہ آیا تو اُن کا اصرار تھا کہ آپ کی بیٹی چل کر ہمارا گھر دیکھے۔ میں نے کہا ’’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہمارے بچے ہم پر اعتماد کرتے ہیں‘‘۔ وہ بولیں ’’یہ گئے دور کی باتیں ہیں، ہمارے خاندانوں میں تو لڑکی کو گھر دکھایا جاتا ہے، رہنا بسنا تو اس کو ہی ہے، اگر اس کی ہی سمجھ میں نہ آئے تو وہ کیسے نبھائے گی اس گھر کے مکینوں کو!‘‘۔
مجھے تو برابر اپنے بیٹے کے دوست کا درد محسوس ہورہا ہے کہ ہم نوجوانوں کو کتنا تنہا کررہے ہیں؟۔
ہماری اقدار کوئی بہت کمزور اقدار نہ تھیں۔ والدین پر اعتماد… اور والدین کے پیمانے کچھ اور ہوتے تھے۔ خاندانی شرافت، تعلیم، رکھ رکھاؤ۔ ان چیزوں کا نعم البدل ہم نے تلاش کیا بھی تو کیا کِیا؟۔
اس پوسٹ کا مقصد… رشتہ درکار ہے، نہیں ہے… بلکہ یہ کہ… ہم معاشرتی اقدار کا صرف نوحہ ہی کرتے رہتے ہیں یا بحیثیت عورت ہمارے اختیار میں بھی کچھ ہے؟ نہ سب کچھ پرانا ٹھیک تھا، نہ ہر نئی چیز رد کرنے کے لیے ہے۔ کس چیز کی قیمت پر ہم کیا قبول کررہے ہیں… کیا یہ نئی اقدار صحت مند معاشرے کو جنم دیں گی؟۔
ہمارے سامنے یہ سب ہوتا ہے تو ہمارا شعوری ردعمل کیا ہوتا ہے؟ یا ہم بھی سوچ بیٹھے کہ…
چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی۔
…٭…
پچھلے دو دن کی دو خبریں ہیں۔ کل رات ٹاک شو میں سنا کہ دوبرس کے بچے کی میت کو اسپتال نے فری ایمبولینس سروس دینے سے انکار کردیا کہ دو ہزار فیس ہے۔ باپ غریب فیس کہاں سے دیتا! چھوٹے بھائی کے حوالے میت کی، اُسے بائیک پر پیچھے بٹھایا اور گھر روانہ ہوئے۔ ایک باپ کا ٹوٹا ہوادل… اس کا ننھا شہزادہ پیچھے میت کی صورت میں چچا کے بازوؤں میں تھا۔ پھر ایکسیڈنٹ ہوا اور دونوں بھائی بھی لقمہ اجل بن گئے۔ جس گھر میں ایک میت کا انتظار تھا وہاں تین میتیں پہنچیں۔
آج خبروں میں سنا کہ ایک خاتون کی میت کو اسپتال نے ایمبولینس بلا معاوضہ دینے سے انکار کردیا تو شوہر بیوی کی میت چنگ چی رکشہ پر گھر لایا۔
ہم کس سماج کا حصہ ہیں؟ہماری شریعت کی تعلیمات تھیں کہ… جنازہ گزر رہا ہو تو احتراماً ٹھیر جاؤ۔ میت کے ساتھ چند قدم چلنے کا بھی اجر۔ میت کا کتنا احترام کہ سفید براق کفن دو، خوشبو میں بساؤ، حالانکہ جانا مٹی کے گھر میں ہے۔کیڑے مکوڑوں کی غذا بننا ہے۔ مگر وہ بعد کی بات ہے، دنیا والے احترامِ میت میں کوئی کمی نہیں کرسکتے۔
کتنا احترام کہ میت کو کندھا دو، قبرستان تک ساتھ جاؤ۔ جانے والا چاہے جیسے بھی کردار کا مالک ہو اُس کے لیے دعائے مغفرت کی جائے، میت کی برائی نہ کی جائے، اس کی وصیت پوری کی جائے۔ ان کے گھر کھانا بھیجا جائے۔ تعزیت کا کتنا اجر بتایا گیا۔
کامل شریعت ہے ہمارے پاس الحمدللہ۔ اب تو ہم اپنے دیس کو مدینہ کی اسلامی ریاست بنانے کے خواب دیکھ رہے تھے۔
زندوں کی قدر نہ کی جائے، وہ تو چیخ پکار کرکے اپنے حق کے لیے واویلا کرہی لیتے ہیں۔ کبھی کچرے کی دہائی دیتے ہیں، تو کبھی مہنگائی کی… کبھی کرپشن پر واویلا کرتے ہیں، کبھی ملاوٹ پر… حق ملے نہ ملے، شور کرکے اپنا زندہ ہونا تو ریکارڈ کراتے ہیں۔ جانے والا تو چلا گیا، اب نہ روٹی مانگے گا، نہ بجلی، پانی۔ عزت سے تدفین تو اس کا حق تھا، افسوس اب غریب کی میت بائیک اور چنگ چی پر روانہ ہوگی، کیونکہ اسپتال تو منڈیاں ہیں جہاں انسانی احساسات بھی تھرمامیٹر اور اسٹیتھو اسکوپ سے ناپے جاتے ہیں۔ میت کو محض بل بڑھانے کے لیے کئی کئی دن وینٹی لیٹر پر ڈال دیا جاتا ہے۔
کچھ دن قبل ایک ساتھی نے بتایا ’’بھابھی ہفتہ بھر اسپتال میں رہیں۔ رپورٹس بتا رہی تھیں کہ بچنے کا امکان نہیں۔ وینٹی لیٹر پر رکھا ایک ہفتہ، اور میت کی شکل میں جب واپس ملیں تو ساتھ تیس لاکھ کا بل، جو ادا کرکے میت حاصل کرنا تھی۔‘‘۔
تعلیم اور علاج دو بنیادی حقوق ہیں ہر شہری کے۔ افسوس کہ ہمارے ملک میں یہ دونوں تجارت بن چکے ہیں… اور تاجر بھی بے ضمیر و شقی۔ ہم ہر محرومی کو اپنا نصیب سمجھ کر خاموشی اختیار کیے بیٹھے ہیں۔ کتنا صبر سمیٹ رہے ہیں حکمران عوام کا…!۔
جو شاید بھول بیٹھے کہ روزِحشر تو…۔

جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا

حصہ