حج مثبت تبدیلی

440

افروز عنایت
ثاقب: مما عشاء کی نماز کے بعد مولانا صاحب کا لیکچر ہے آج، اس لیے مجھے آنے میں تھوڑی دیر ہوجائے گی۔
مما: اچھا ٹھیک ہے، مگر بیٹا موبائل لے کر جانا اپنے ساتھ۔
ثاقب: جی مما۔
٭…٭…٭
ثاقب، اقبال صاحب کا چھوٹا بیٹا تھا جو یونیورسٹی میں M.B.A کا طالب علم تھا۔ گھر کا ماحول اگرچہ بہت زیادہ دینی نہ تھا لیکن سب ہی صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ اقبال صاحب پچھلے سال ہی اپنی بیوی ریحانہ کے ساتھ حج کی سعادت بھی حاصل کرچکے تھے، ماشاء اللہ اپنا کاروبار تھا، بڑے بیٹے اور بیٹی کی شادی ہوچکی تھی۔ ثاقب اپنے دوست جاوید کے ساتھ اکثر مسجد میں مولانا صاحب کا لیکچر سننے کے لیے رک جاتا تھا۔ اقبال صاحب بیٹے کی اس بات پر مسکراتے اور کہتے: کیا تمہیں ’’ملّا‘‘ بننا ہے یار…!
٭…٭…٭
آج عشاء کے بعد مسجد میں ذوالحجہ کے مہینے کی مناسبت سے حج اور قربانی سے متعلق لیکچر تھا۔ مولانا صاحب اپنے پُراثر اور دھیمے لب و لہجے میں حج اور قربانی کی فضیلت و اہمیت بیان کررہے تھے۔ لیکچر کے آخری حصے پر ثاقب چونک گیا۔ مولانا صاحب فرما رہے تھے کہ حج دراصل وہ فریضہ ہے جس کے ادا کرنے کے بعد بندے میں مثبت تبدیلی آئے۔ بندہ حج ادا کرنے کے بعد گناہوں سے یوں پاک و صاف ہوجاتا ہے گویا آج ہی پیدا ہوا ہو۔ اب وہ اپنی آئندہ زندگی میں اپنے آپ کو گناہوں سے بچانے کی کوشش کرے گا۔ حج کے بعد یہ مثبت تبدیلی آنا ضروری ہے۔ علمائے کرام کا بیان ہے کہ وہ حج ہی نہیں جس کے کرنے کے بعد بندے میں مثبت تبدیلی نہ آئے۔ یعنی حاجی مثبت تبدیلی کے بعد حقوق اللہ، حقوق العباد، اپنے معاملاتِ زندگی، فرائض و حقوق کی پاسداری کے لیے مضبوطی سے اللہ رب العزت کے احکامات کی تعمیل کرے گا۔ وہ ہر قدم پر سوچے گا کہ کیا میرا یہ عمل و فعل رب کے حکم کے مطابق ہے؟ کہیں میں کسی کی حق تلفی کا سبب تو نہیں بن رہا؟ کیا میں حقوق العباد میں کسی کوتاہی کا مرتکب تو نہیں؟ اس طرح وہ سنبھل سنبھل کر قدم اٹھاتا ہے۔
کل سے حاجی سرزمینِ مکہ میں مناسکِ حج میں مصروف ہوجائیں گے، ہمارے شہروں میں ہر گھر کے باہر قربانی کے جانور بندھے ہوئے ہیں۔ عیدین مسلمانوں کے لیے رب العزت کی طرف سے انعام ہیں۔ خوشی کے تہواروں میں اپنوں اور پرایوں کو شامل کریں۔ خوشیاں تو مل بانٹنے کا نام ہے، دلوں کے میل جھاڑ کر ایک دوسرے کو گلے لگانے کے دن ہیں، درگزر اور معافی کے دن ہیں۔ گھر میں تین چار بکرے قربانی کے آئیں اور پڑوسی اور کسی غریب رشتے دار کو اس سے محروم رکھیں یہ ناانصافی ہے، اس گناہ سے اپنے آپ کو بچائیں…
٭…٭…٭
گھر آنے کے بعد بھی ثاقب کے ذہن میں مولانا صاحب کے الفاظ ہتھوڑے برسا رہے تھے۔ وہ بستر پر لیٹا تو کروٹیں بدلتا رہا۔ نعیم چاچو کا چہرہ اس کی نظروں کے سامنے آرہا تھا جن سے گزشتہ چند برس سے اس کے گھرانے نے قطع تعلق کیا ہوا تھا۔ بابا اور مما حج کرکے آئے ہیں… بابا موقع کی مناسبت سے اپنے مال کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت بڑھ گئی ہے۔
ہم صاحبِ جائداد ہیں اور بینک بیلنس بھی ہے، اس کی مناسب سے زکوٰۃ… اوہو… تو میرے والدین حج کرکے آئے… میرے دروازے پر قربانی کے چار جانور بندھے ہوئے ہیں… کیا ہم آس پڑوس اور رشتے داروں کا صحیح حق ادا کررہے ہیں؟ میرے والدین کا حج…؟
مجھے بابا، مما کو بتانا ہوگا… انہیں اس بات کا احساس دلانا ہوگا۔
نہیں، مگر اس طرح صحیح نہیں لگ رہا۔ آخر اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی… ہاں یہ طریقہ صحیح رہے گا۔ پھر وہ مطمئن ہوکر سو گیا۔
٭…٭…٭
سب گھر والے T.V لائونج میں بیٹھے T.V پر مناسکِ حج کی فلم دیکھ رہے تھے۔
ثاقب: مما میں بھی ان شاء اللہ تعالیٰ اگلے سال حج ادا کرنے جائوں گا۔ بھائی جان کیا ارادہ ہے آپ کا…
مما: نیک ارادہ ہے، تم شادی کرلو اور اگلے سال دونوں بھائی اپنی بیویوں کے ساتھ حج ادا کرنے چلے جائو… ریحان بیٹے اور ناہید کیا خیال ہے آپ دونوں کا…
ثاقب: میں سوچ رہا ہوں کہ (سب کی طرف دیکھتے ہوئے) پہلے اپنے آپ کو سدھار لوں…
مما: (ہنستے ہوئے) کیا مطلب، تم سدھرے ہوئے نہیں ہو؟ کیا برائی ہے تم میں…؟
ثاقب: مما (کچھ رکتے ہوئے) حج تو وہ ہے جو آپ کے اندر مثبت تبدیلی لائے۔ لہٰذا میں ابھی سے اپنا محاسبہ کروں گا کہ مجھ میں کیا غلطیاں اور کوتاہیاں ہیں۔ مجھے کہاں اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنی ہوگی۔ اس کے لیے میں چاہتا ہوں ابھی سے مشق شروع کردوں۔
ریحان: تو معلوم ہوا کہ صاحب بہادر کو اپنے اندر کیا مثبت تبدیلی کی ضرورت ہے؟
ثاقب: (ہنستے ہوئے) کبھی کبھار مما سے جھوٹ بول لیتا ہوں
مما ثاقب کو مصنوعی غصے سے دیکھتے ہوئے… اچھا، واہ صاحب زادے واہ…
ثاقب: ہاں یاد آیا، میرا کلاس فیلو (ہم جماعت) جس سے تین سال سے میں نے قطع تعلق کیا ہوا ہے، اُس نے شروع میں مجھے ایک دو مرتبہ فون کرنے کی کوشش کی، لیکن… میں اُس سے بہت ناراض تھا… اب مجھے احساس ہورہا ہے کہ قطع تعلق یا قطع رحمی اللہ کی ناراضی کا سبب بنتے ہیں (ثاقب کی بات پر اقبال صاحب چونک گئے)۔ سب سے پہلے تو کل یہی پہلا کام کروں گا، ٹھیک ہے ناں بابا آپ کا کیا خیال ہے!
اقبال صاحب: جی… جی جی بیٹا ضرور ضرور (اقبال صاحب بڑی حیرانی سے بیٹے کی بات سن رہے تھے)۔
٭…٭…٭
آج عیدالاضحی کا پہلا دن تھا۔ مما اور بھابھی ناہید گوشت تقسیم کرنے کے لیے حصے الگ الگ کررہی تھیں۔
اقبال صاحب: ان دو بکروں کا گوشت تو صحیح نکلا ہے، اب دیکھو باقی دو بکروں کا کیسا ہوتا ہے… سامنے والے نظام صاحب کے ہاں ذرا زیادہ گوشت بھیجنا، اس مرتبہ انہوں نے قربانی نہیں کی۔
ثاقب: مما اس حصے میں تھوڑا اور ملائیں۔
مما: (حیرانی سے) کس کے لیے…؟
ثاقب: مما میں سوچ رہا ہوں اپنے دوست عمیر کے گھر حصہ دے آئوں جس سے میں تین چار سال سے ناراض تھا۔ کل فون پر اس سے بات ہوئی، بہت خوش ہوا…
مما: اچھا اچھا عمیر کے گھر گوشت دینے جائو گے، اچھی بات ہے۔
ثاقب: اچھا ایک اور بھی حصہ بنادیں، چاچو نعیم سے بھی تو چار پانچ سال ہوئے ملاقات نہیں ہوئی، اب حج کا ارادہ کیا ہے تو اپنے اندر تبدیلی تو لے کر آئوں۔
(اقبال صاحب نے چونک کر بیٹے کو دیکھا جو انہیں بڑی سمجھ داری سے ایک سبق دے رہا تھا)
ثاقب: بابا… اگر آپ اجازت دیں تو…
بابا: ہاں… ہاں… ضرور… وہ نالائق… میں بڑا بھائی باپ کی جگہ ہوں، کبھی پلٹ کر نہیں آیا کہ بھائی کی ناراضی دور کردوں۔ اصولاً تو وہ چھوٹا ہونے کے ناتے میرے پاس آئے۔
ثاقب: (بابا کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھامتے ہوئے) بالکل صحیح فرمایا آپ نے… میں چاچو سے چھوٹا ہونے کے ناتے اُن کی طرف پہلے قدم بڑھانا چاہتا ہوں، لیکن اس کے لیے آپ کی رہنمائی اور اجازت ضروری ہے۔
مما: آپ کے بابا بھی یہی چاہتے ہیں لیکن…
٭…٭…٭
ثاقب جب نعیم چاچو کے گھر پہنچا تو سب گھر والوں کے چہروں پر حیرانی کے ساتھ ساتھ خوشی کے تاثرات عیاں تھے۔ چاچو نے اسے بھینچ کر گلے سے لگایا تو ثاقب کو چاچو کے لمس سے بھی بابا کی خوشبو محسوس ہوئی۔
ثاقب ان کے درمیان جلد ہی ایسے گھل مل گیا کہ درمیان کے چار پانچ سال کے قطع تعلق کے بادل چھٹ گئے، سب ہی اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگے…
اگلے دن شام کو بعد نمازِ عصر دروازے پر دستک ہوئی۔ ریحان نے دروازہ کھولا تو چاچو نعیم اپنی فیملی کے ساتھ کھڑے تھے۔
یہ قیمتی لمحے تھے ان دونوں فیملیز(خاندانوں) کے لیے۔ ٹوٹے ہوئے دل جڑ گئے۔ اقبال صاحب اور نعیم دونوں بغل گیر ہوئے تو دونوں کی آنکھیں نم تھیں۔ دونوں خاندانوں کو محسوس ہوا کہ عید تو یہی ہے۔
واقعی عید کا مزا تو اپنوں کے ساتھ ہی ہے۔
بعض اوقات ہمارے چھوٹے بھی ہمیں راہ دکھاتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ بچوں کی تربیت کا خیال رکھیں اور انہیں اچھے نیک لوگوں کی صحبت سے نہ روکیں۔ ثاقب نیک لوگوں کی صحبت سے ہی یہ کام کرنے کے قابل ہوا۔

حصہ