ادویہ کی بھارت سے درآمد پر’’ یوٹرن‘‘ ناگزیر تھا تو ایسا فیصلہ کیوں کیا گیا تھا جس پر عمل نہ ہوسکے؟۔
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھی فیصلے کرکے ’’یوٹرن‘‘ لینے کا سلسلہ جاری رہے تو حکومت کی نیت پر شکوک و شبہات کو کوئی نہیں روک سکتا۔ اگر اس حوالے سے حتمی فیصلے نہ کیے گئے یا منہ توڑ جواب نہ دیا گیا تو قوم کو حکومت سے نالاں ہونے کا حق ہے۔
2 ستمبر کو وفاقی حکومت نے بھارت سے زندگی بچانے والی ادویہ کی درآمد پر پابندی ختم کردی، اس ضمن میں وزارتِ تجارت نے امپورٹ پالیسی آرڈر 2016 میں ترمیم کا حکم جاری کرکے نوٹیفکیشن کا اجرا کردیا ہے۔
حالانکہ تقریباً ایک ماہ قبل بھارتی حکومت کی طرف سے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے یک طرفہ فیصلے پر پاکستان نے احتجاج کرتے ہوئے 7 اگست کو بھارت سے دو طرفہ تجارت کا معاہدہ معطل کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے 9 اگست کو تجارت بند کردی تھی۔ اس احتجاجی فیصلے کے نتیجے میں بھارت سے درآمد کی جانے والی ادویہ بھی پاکستان آنا بند ہوگئی تھیں، جس کی وجہ سے ملک میں ادویہ کی قیمتوں میں اضافے کے خدشات اور جان بچانے والی ادویہ اور ان کے لیے استعمال ہونے والے خام مال کی قلت پیدا ہونے کے خدشات پیدا ہوچکے تھے۔
سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیا پاکستان کے مشیرِ درآمدات و برآمدات کو 7 اگست کو بھارت سے درآمدات پر پابندی کے فیصلے کے وقت یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کے نتائج کیا نکلیں گے؟ کوئی بھی فیصلہ کرکے واپس لینے کا مطلب تو یہ ہے کہ حکومت کے پالیسی ساز اور مشیر عقل سے زیادہ جذبات کو سامنے رکھ کر مشورے دیا کرتے ہیں، جن پر حکومت عمل کرنے کے چند روز بعد ہی ’’یو ٹرن‘‘ لینے پر مجبور ہوجاتی ہے۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ اگر بھارت سے ادویہ کی درآمدات پر پابندی برقرار رکھی جاتی تو ملک میں ادویہ کا بحران پیدا ہوجاتا۔ یہ بات درست ہے کہ کتے، سانپ اور دیگر زہریلے جانوروں کے کاٹے کے علاج کی ویکسین صرف بھارت ہی سے آتی ہیں، اس لیے ان ویکسین پر پابندی ختم کرنا ناگزیر تھا۔ لیکن اگر ان ویکسین کی آڑ میں دیگر ادویہ کی بھارت سے درآمدات کی اجازت دی گئی یا اس میں نرمی برتی گئی تو یہ بھارت کے ساتھ وفاداری اور پاکستان کے فیصلوں سے بغاوت کے مترادف ہوگا۔
چونکہ یہ پابندی ختم کرنے کے ساتھ یہ تاثر بھی دیا جارہا ہے کہ اس پابندی سے دل کے امراض، ذیابیطس، بلڈ پریشر، ٹی بی اور کینسر جیسی بیماریوں کے لیے استعمال کی جانے والی ادویہ کی قلت پیدا ہورہی تھی، جبکہ ٹی بی کی ادویہ میں استعمال ہونے والے کیمیکل ’’ایتھمبیوٹول‘‘ کے حصول کا بھارت ہی واحد ذریعہ ہے، اس لیے اس پابندی کو ختم کرنا ضروری تھا۔ اس ضمن میں کیمسٹ و ڈرگسٹ ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار صلاح الدین نے بتایا کہ حکومت نے جان بچانے والی ادویہ کی بھارت سے درآمد کی اجازت دے کر عام لوگوں کے لیے بہتر قدم اٹھایا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر یہ پابندی برقرار رہتی تو بعض اہم ادویہ کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال کی ملک میں قلت ہوجاتی، اسے چین سے درآمد کرنا پڑتا جو مہنگا ہونے کی وجہ سے ناممکن ہوجاتا۔
خیال رہے کہ دوا سازی کی صنعت میں استعمال ہونے والے خام مال کے علاوہ بھارت میں تیار ہونے والی ادویہ بھی بڑی تعداد میں پاکستان لائی جاتی ہیں۔ یہ ادویہ قانونی طریقوں کے علاوہ اسمگلنگ کے ذریعے بھی پاکستان لائی جاتی ہیں۔ پی پی ایم اے کے عہدے دار نواز احمد نے بتایا کہ دوائوں میں استعمال ہونے والا 90 فیصد خام مال بھارت سے درآمد کیا جاتا ہے۔
یہ بھی خیال رہے کہ کشمیر کے تنازعے پر قوم تاحال سخت کارروائی کا انتظار کررہی ہے، جب کہ پاکستان کی حکومت اس حوالے سے کوئی حتمی اعلان تک کرنے سے گریزاں ہے۔
اگرچہ کشمیر کے مسئلے پر صدرِ مملکت عارف علوی کی کراچی اور وزیراعظم عمران خان کی لاہور میں تقاریر سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ دونوں ہی اس صورتِ حال پر تشویش کے ساتھ بھارت کو ’’سبق سکھانے‘‘ کے حوالے سے پاکستان کی افواج کی حکمتِ عملی اور ممکنہ جوابی کارروائیوں کی تیاریوں کے حوالے سے مطمئن ہیں۔ دونوں ہی صرف اس بات کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ بھارت خود ہی اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ کر پیچھے ہٹ جائے اور آرٹیکل 370 اور کشمیر کا آئینی حق بحال کردے۔ مقبوضہ کشمیر میں چونکہ بھارتی فوج کی عمل داری بھی رفتہ رفتہ دم توڑ رہی ہے اس لیے پاکستان چاہتا ہے کہ بھارت خود حالات کو معمول پر لے آئے۔
صدرِ مملکت عارف علوی نے کراچی میں شمشیرِ بحر سیون اور ترسیل بحر ٹو کی مشق کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا دفاع محفوظ ہاتھوں میں ہے اورمجھے پاکستان کی مسلح افواج پر فخر ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل تک مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم بے نقاب کرتا رہے گا۔ جبکہ وزیراعظم عمران خان نے کشمیر کے حوالے سے لاہور میں سکھ برادری کے کنونشن سے خطاب میں بھارتی وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’کشمیر کے مسئلے کو مذاکرات سے حل کرسکتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے بھارت نے مذاکرات کے لیے شرائط رکھنا شروع کردیں، کوئی بھی مسئلہ جنگ سے حل نہیں ہوتا‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’افسوس کی بات ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت اس نظریے پر چل رہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان بنا تھا، آر ایس ایس کی حرکتیں انسانیت کے خلاف ہیں جس کی کوئی بھی اجازت نہیں دیتا۔‘‘
وزیراعظم عمران خان کا سکھ برادری سے خطاب دراصل ہندوستان کی ہٹ دھرمی کو وہاں کی غیر مسلم اقلیت کے سامنے بے نقاب کرنا تھا۔ اسی طرح صدرِ مملکت جو مسلح افواج کے سپریم کمانڈر بھی ہیں، کا یہ کہنا کہ ’’پاکستان کا دفاع محفوظ ہاتھوں میں ہے اورمجھے پاکستان کی مسلح افواج پر فخر ہے‘‘ اس بات پر اطمینان کا اظہار ہے کہ بھارت کی مزید کسی جنگی ’’چال‘‘ پر پاکستان کی افواج اسے ’’منہ توڑ جواب دیں گی۔‘‘ صدرِ مملکت نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل تک مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم بے نقاب کرتا رہے گا۔‘‘ یہ جملہ بھارت کو دنیا کے سامنے برہنہ کرنے کے لیے پاک وطن کی جانب سے جاری پُرامن کوشش کا اظہار ہے، جس کے بعد اقوام متحدہ سمیت دنیا کے تمام ممالک کو بھارت کو باز رکھنے کے لیے اس پر دباؤ ڈالنا چاہیے۔ یہی وقت کا تقاضا ہے۔
دوسری طرف ملک میں پوری قوم کی طرف سے جاری کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے جلسوں اور جلوسوں سے یہ بھی واضح ہوچکا ہے کہ پوری قوم پاک فوج اور حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔ بھارت کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ پاکستان نے اس قدر کشیدہ تعلقات کے باوجود زیر قید بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو ویانا کنونشن کے تحت پیر کو قونصلر رسائی دے دی۔ بھارت کو پاکستان کے اس اقدام کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے، خصوصاً بھارتی قوم کو اپنے مستقبل کے تحفظ کے لیے ہندو قوم پرست ’’آر ایس ایس‘‘ اور اس کے خیر خواہ حکمرانوں کے خلاف بغاوت کردینی چاہیے۔ بصورتِ دیگر بھارت کی سوا ارب کی آبادی سنگین مشکلات سے دوچار ہوسکتی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ بحیثیت مسلم ملک پاکستان کو پڑوسی ملک کو سوچنے، سمجھنے اور اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے کا موقع دینا چاہیے۔ قوم کو یقین ہے کہ پاک فوج اور حکومت بھارت کی جانب سے مزید جارحیت برداشت نہیں کریں گے بلکہ ’’اینٹ کا جواب پتھر سے‘‘ دیں گے۔