۔’’پچھلی عید پر تو ابا کی قبر موجود تھی، میں خود دعائے مغفرت کرکے گیا تھا۔ قبر کے پہلو میں نیم کا ایک درخت بھی تھا۔ لگتا ہے ہم کسی دوسرے کی قبر پر آگئے ہیں۔‘‘
’’نہیں بھائی، یہ وہی جگہ ہے۔ والد صاحب کے ساتھ والی قبر پر رشید قائم خانی کی تختی لگی ہوئی تھی، دیکھ لیں وہ تو اپنی جگہ پر ہی ہے۔ ابا کی قبر پر پڑی مٹی کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ابھی چند دن قبل ہی ڈالی گئی ہے۔‘‘
’’کہہ تو تم ٹھیک ہی رہے ہو، لیکن وہ درخت؟‘‘
’’بھائی یہ جو ماربل لگی قبر بنی ہے، نیم کا درخت یہیں پر تھا۔ یہاں چاروں طرف مختلف قسم کے درخت ہوا کرتے تھے جو اب دکھائی نہیں دے رہے۔ سب کچھ بدلا بدلا سا لگ رہا ہے۔ یہ سب کیسے ہوگیا؟‘‘
’’یہ گورکنوں کے ہاتھ کی صفائی ہے جناب۔ یہ لوگ قبروں کا نشان تک نہیں چھوڑتے۔ گھر جاؤ، یہاں کھڑے رہنے سے کوئی فائدہ نہیں۔‘‘
قریب سے گزرتے شخص کی جانب سے بولے جانے والے ان جملوں نے تو صابر کے پیروں تلے سے زمین ہی کھینچ لی، وہ چلاّتے ہوئے بولا: ’’کسی کی کیا مجال! کہاں ہے گورکن، میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا، اگر میرے والد کی قبر نہ ملی تو سارے گورکنوں کو زمین میں زندہ گاڑ دوں گا۔‘‘
صابر انتہائی غصے کے عالم میں قبرستان انتظامیہ کو ڈھونڈنے لگا۔ ظاہر ہے جس کے والد کی قبر کا نشان تک مٹا دیا گیا ہو وہ کس طرح خاموش رہ سکتا تھا! اُس کی جانب سے اِس قسم کا ردعمل فطری تھا۔ آنکھوں میں آنسو لیے کبھی وہ اپنے والد کی قبر تلاش کرتا توکبھی قبرستان کے ساتھ قائم گورکنوں کی بستی کی جانب آوازیں مارنے لگتا۔
’’کہاں ہو مٹھن،گھرسے باہر نکلو، میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا، تم قبروں کے تاجر ہو، تم انسان نہیں، خدا تمہارا بیڑا غرق کرے، کب تک چھپتے رہو گے؟ جس دن بھی مل گئے وہ دن تمہارا آخری دن ہوگا‘‘۔ صابر خاصی دیر تک قبرستان میں صدائیں دیتا رہا، لیکن کوئی سننے والا نہ تھا… اور ہوتا بھی کیسے! قبروں کو مٹانے والے پہلے سے ہی جانتے تھے، یا انہیں اس کا خاصا تجربہ تھا کہ جن کے پیاروں کی قبریں کسی دوسرے کو فروخت کردی جائیں وہ اسی قسم کے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ تو ان کے روزمرہ کے کام تھے۔ خیر، اس دوران صابر کے گرد اچھی خاصی تعداد میں لوگ جمع ہوچکے تھے، ہر شخص اسے صبر کی تلقین کررہا تھا۔ وہ ٹوٹ چکا تھا۔ لوگ قبرستانوں سے منسوب قصے سناکر اسے دلاسا دینے کی کوشش کررہے تھے۔ اسی دوران ایک شخص کی جانب سے کی جانے والی باتیں سن کر صابر کے غم وغصے میں کمی آنے لگی، وہ شخص صابر کو سمجھاتے ہوئے کہنے لگا:
’’دیکھو بیٹا میری بات تحمل سے سنو، ہمارے معاشرے میں جائز و ناجائز ہر طرح کے کام پیسے کے زور پر آرام سے ہوجاتے ہیں، اس لیے قبرستانوں میں بھی پیسہ چلتا ہے۔ اس بات سے تو تم بھی واقف ہوگے کہ کراچی کے اکثر قبرستان بیس سال پہلے بھر چکے ہیں، لیکن پھر بھی ان میں قبریں بن رہی ہیں اور مُردے دفن کیے جارہے ہیں۔ جگہ نہ ہونے کے باوجود ہر کوئی اپنے پیاروں کو اپنے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کرنا چاہتا ہے، بس یہیں سے وہ کھیل شروع ہوجاتا ہے جو قبر کی جگہ نہ ہونے کے باوجود من پسند جگہ دستیاب کروا دیتا ہے۔ یہ سب پیسے کا کھیل ہے، بس آپ کے پاس پیسے ہونے چاہئیں، کسی بھی پرانی قبر کو کھود کر آپ کا مُردہ اس میں ڈال دیا جائے گا۔ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا قانون یہاں بھی چلتا ہے۔ جس کے پاس مال، بڑا عہدہ، یا عقیدت کا ڈنڈا ہے وہ اتنی ہی بڑی جگہ گھیر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہر کے کئی قبرستانوں میں تدفین پر پابندی کے باوجود قبروں کی نیلامی کا عمل جاری ہے۔
تم غم نہ کرو، یہاں آکر اپنے والد کے لیے فاتحہ کرلیا کرو۔ تمہارے ساتھ جو کچھ بھی ہوا، یہ سارا معاملہ اللہ پر چھوڑ دو، جس نے بھی یہ ظلم کیا ہے اُسے سزا ضرور بھگتنی پڑے گی۔‘‘
’’کیسے غم نہ کروں! میرے والد کی قبر کا نشان تک مٹا دیا گیا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ صبر کروں! ایسا ظلم تو دنیا کے کسی بھی خطے میں نہیں ہوتا ہوگا۔ یہ لوگ انسان نہیں جانور ہیں، بلکہ اس سے بھی بدتر ہیں۔ مرنے والوں کو بھی نہیں بخشتے۔‘‘
’’تمہارے ساتھ جو ہوا وہ تو کچھ بھی نہیں۔ ایک قبر کی جگہ دوسری قبر بن جانا، یا کسی کی باقیات نکال کر دوسرے کو دفنایا جانا شاید اتنا بڑا جرم نہ ہو، یہاں تو اس قدر بے حس، بدکردار اور شیطان کے آلہ کار لوگ بستے ہیں جو عملیات کے چکر میں اپنے کالے علم میں کامیابی کے لیے مُردوں کی بے حرمتی کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ تمہیں وہ درندہ صفت انسان ضرور یاد ہوگا جو اپنی ہوس کی تکمیل کے لیے قبروں میں موجود مُردہ عورتوں کی بے حرمتی کرتا تھا، اسی طرح قیوم آباد قبرستان میں قبروں کی بے حرمتی کرنے والے گروہ کے بارے میں بھی سن رکھا ہوگا جو انسانی لاشوں کی نہ صرف بے حرمتی کرتا تھا بلکہ رات کے اندھیرے میں یہ موذی قبروں کو کھول کر چھری کے ذریعے انسانی اعضا کو کاٹتے اور مُردوں کا گوشت پکا کر کھایا بھی کرتے تھے۔ انسانیت کی رمق سے خالی ایسے وحشی درندے انسانی اقدار کو پامال کرتے ہوئے انتہائی وحشیانہ طور پر قبر کے اندر موجود مُردے کو نہ صرف ایذا پہنچانے کا سبب بنتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دین اور دنیا دونوں میں گناہ گار بھی ہوتے ہیں۔‘‘
’’وہ سب ٹھیک ہے، یہ سب میں نے بھی سن رکھا ہے، لیکن میرے والد کی قبر تو پچھلی عید تک…‘‘
’’ہاں ہاں میں مانتا ہوں کہ پچھلی عید پر یہاں تمہارے والد کی قبر موجود ہوگی، لیکن جس معاشرے میں ایک زندہ انسان کو چین سے نہیں جینے دیا جاتا، وہاں مرنے والے کو کس طرح بخشا جاسکتا ہے! بیٹا یہاں تو اپنے پیاروں کی قبروں کی حفاظت کے لیے باقاعدہ چوکیدار رکھنے پڑتے ہیں، یعنی گورکنوں کو ماہانہ خرچی لگانے، ان کے بچوں سے قبر پر پانی چھڑکوانے کے لیے پیسے طے کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی قبرستان کے چکر لگانے پڑتے ہیں، اتنا کچھ کرنے کے بعد ہی اپنے پیاروں کی قبروں کو بچایا جا سکتا ہے۔
تم اپنی نظریں اٹھاکر قبرستان کی طرف دیکھو، حالیہ بارشوں کی وجہ سے درجنوں قبریں زمیں بوس ہوچکی ہیں، پانی بیسیوں قبروں کی مٹی بہا کر لے گیا ہے، ایسے حالات ہی قبرستان مافیا کے لیے آئیڈیل ہوا کرتے ہیں۔ ظاہر ہے جب حکومتی سطح پر قبرستانوں سے پانی کے نکاس کا کوئی بندوبست نہ ہو تو اس قسم کے نتائج ہی برآمد ہوں گے۔ اس قسم کے بڑھتے جرائم کی ایک بڑی وجہ قبرستانوں میں سہولیات کا فقدان اور جگہ کی کمی، اور شہری حکومت کی جانب سے قبرستانوں کے لیے زمینوں کا مختص نہ کیا جانا ہے، جو نہ صرف ایسے واقعات میں اضافے کا باعث ہے بلکہ قبروں کی قیمتوں میں کئی گنا اضافے کا سبب بھی ہے۔ اب تم گھر جاؤ، باقی اللہ پر چھوڑ دو۔‘‘
قبرستان میں موجود شخص نے صابر کو تو سمجھا دیا… سوال یہ ہے کہ قبرستان مافیا کو کون سمجھائے گا؟ اداروں میں بیٹھے رشوت مافیا سے کون نمٹے گا؟ اس افسر شاہی کو کون لگامیں ڈالے گا جو مرنے والوں سے بھی اپنے حصے کی رقم نکلوانے کے خوب گر جانتی ہے؟ مثلاً بلدیہ کراچی کی جانب سے قبر الاٹمنٹ کی فیس 4500 روپے، ہے یہ فیس 100 فیصد اضافے کے ساتھ یعنی 9000 روپے وصول کی جاتی ہے، اور پھر یہ بات کون نہیں جانتا کہ اس فیس کے عوض شہریوں کو گورکن کی جانب سے صرف کچی پرچی ہی ملتی ہے۔ اس کرپشن کو کوئی پوچھنے والا نہیں، جبکہ قبر کی الاٹمنٹ حاصل کرنے کے لیے انہیں قبرستانوں پر قابض مافیا سے ٹکرانا پڑتا ہے۔ یہ صورت حال غریب علاقوں کی ہی نہیں، بلکہ شہر کے پوش علاقوں میں قائم قبرستانوں کی داستان بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ اس شہر کا سب سے مہنگا سوسائٹی قبرستان ہے، جہاں قبر 40 ہزار سے 70 ہزار میں بُک کی جاتی ہے، حالانکہ اس قبرستان میں بھی تدفین پر 20سال قبل پابندی عائد کردی گئی تھی، لیکن وہاں بھی اس مافیا کا کام مستقل جاری ہے۔ ایک اور اہم قبرستان جوکہ پاپوش میں واقع ہے، اس پر بھی مکمل طور پر گورکن مافیا کا راج ہے، جہاں قبر 25 ہزار سے 50 ہزار تک فروخت کی جاتی ہے۔ اسی طرح سخی حسن قبرستان میں 30 ہزار سے 60 ہزار، میوہ شاہ اور مواچھ گوٹھ قبرستانوں میں 20 سے 40 ہزار روپے تک قبر فروخت کی جاتی ہے۔ پاکستان میں شرحِ اموات کا تجزیہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ ہزار میں 7.5 کے قریب لوگ اس جہانِ فانی سے کوچ کرجاتے ہیں۔ یعنی پاکستان میں سالانہ15لاکھ 75 ہزار لوگ انتقال کرجاتے ہیں، یا ہمیں سالانہ 16لاکھ کے قریب نئی قبروں کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لیے 1200کنال زمین درکار ہوتی ہے۔ جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ قبرستانوں کے لیے جگہ مختص کرنے کا کام شہری حکومت کا ہے، لیکن یہاں تو صورت حال ہی وکھری ہے، جن کا کام ہے وہ خود بے بس اور لاچار دکھائی دیتے ہیں۔ میئر کراچی وسیم اختر اپنی بے بسی کی داستان سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ شہر میں پچھلے 28 سال سے سرکاری سطح پر ایک بھی قبرستان نہیں بنایا گیا، شہر کے تقریباً تمام قبرستان تین تین بار بھر چکے ہیں۔ آخری بار 1991ء میں قبرستان کے لیے زمین مواچھ گوٹھ میں مختص کی گئی تھی، بااثر قبضہ مافیا نے قبرستانوں پر قبضہ جمایا ہوا ہے، جو اپنی مرضی کی قیمتوں پر قبریں فروخت کرتے ہیں اور شہریوں کو دکھ و مجبوری میں لوٹتے ہیں۔
دیکھا آپ نے، جو بااختیار ہیں کس طرح بے اختیار دکھائی دے رہے ہیں، بلکہ لینڈ مافیا کے سامنے ہتھیار ڈالتے نظر آرہے ہیں! سرکاری زمینوں پر قبضے ہورہے ہیں، پلازے، مکانات اور انڈسٹریل زون بنائے جارہے ہیں اور حکومت خواب ِغفلت سے بیدار ہونے کو تیار نہیں۔ اس مدہوشی کو کیا نام دیا جائے، سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہاں اداروں کی کارکردگی دیکھ کر یہ شک ضرور ہوتا ہے کہ حکومت خود قبضہ مافیا کے پیچھے کھڑی ہے۔