عقیلہ اظہر
ڈاکٹر احمد لاہور کے جانے پہچانے ڈاکٹر تھے۔ بیوی زارا اور دو بچے بیٹا خرم اور بیٹی سعدیہ، ان کا خاندان انہی چار افراد پر مشتمل تھا۔ ڈاکٹر احمد ایک کامیاب ڈاکٹر تھے اور آمدنی بھی اچھی تھی۔ بیگم بھی پڑھی لکھی تھیں اور اکثر والدین کی طرح وہ اپنے بیٹے کو ڈاکٹر ہی بنانا چاہتے تھے اور اکثر اس موضوع پر ان کی گفتگو بھی رہا کرتی تھی۔
خرم اپنے والد کی مصروفیت بچپن سے دیکھتا چلا آرہا تھا۔ ڈاکٹر احمد اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کی بنا پر گھر اور بیوی بچوں کو وقت کم دے پاتے تھے، جب کہ خرم اس سے زیادہ کی امید رکھتا تھا۔ والدین نے اُس کے ذہن میں یہ بٹھانے کی بھرپور کوشش کی کہ وہ بس ڈاکٹر ہی بنے گا۔ اس کی بہ نسبت اُن کے پڑوسی ریٹائرڈ کرنل عبداللہ اس کے آئیڈیل بنتے جارہے تھے، ان سے اکثر خرم کی گفتگو ہوتی رہتی تھی۔
ایک دن انہوں نے خرم کے ساتھ شکار کا پروگرام بنا ڈالا۔ خرم ان کے ساتھ گیا تو اس کا وقت بہت اچھا گزرا۔ شکار والے دن عبداللہ صاحب نے اس سے خوب ڈھیروں باتیں کرڈالیں۔
’’بڑے ہوکر کیا بنو گے؟‘‘ عبداللہ صاحب نے سوال کیا۔
’’آپ…‘‘ تیرہ سالہ خرم نے جھٹ سے جواب دیا۔
’’میں…؟‘‘ انہوں نے ایک بھرپور قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
’’آپ ہنسے کیوں…؟‘‘ خرم نے سوال کر ڈالا۔
’’اس لیے کہ تم مجھ سے اچھے بھی تو بن سکتے ہو۔‘‘ انہوں نے خرم کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
’’آپ سے اچھا میں بن ہی نہیں سکتا۔‘‘ خرم نے اپنی سوچوں کی آخری حد واضح کردی۔
’’مگر کیوں بننا چاہتے ہو میرے جیسا؟‘‘ کرنل صاحب نے استفسار کیا۔
’’آپ میرے ساتھ باتیں کرتے ہیں، پیار کرتے ہیں، اپنا کام چھوڑ کر میری بات جو سنتے ہیں۔‘‘ خرم نے چند نکات کے ذریعے وضاحت کی۔
’’ارے سب یہی تو کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا۔
’’سب نہیں کرتے ناں…‘‘ اس کا ننھا سا ذہن بس یہی جواب تلاش کرسکا۔
’’اچھا… اچھا اپنے ابا جان سے بھی کرنا۔‘‘ وہ بولے۔
’’وہ…وہ…‘‘ جواب اس کے حلق میں اٹک گیا، اب وہ اتنا چھوٹا بھی نہ تھا کہ یہ نہ سوچ سکے کہ کس کے سامنے کیا بات کرنی ہے۔ دل میں تو خیال آرہا تھا کہ کہہ دے کہ میری بات سننے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہے۔
گھر میں والدین کو جب پیار آتا تو یہی کہتے کہ خرم اپنے ابا سے بھی بڑا ڈاکٹر بنے گا، اور یہ بات اسے اچھی نہیں لگتی تھی۔ وہ دل میں فیصلہ کرچکا تھا کہ بڑا ہوکر فوج میں شمولیت اختیار کرے گا۔
میٹرک کے بعد جب وہ اہم موڑ آیا کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرے تو والدین نے اس سے پوچھے بغیر فارم میں اپنے من پسند مضامین لکھ دیے۔ اس نے بہت انکار کیا لیکن والد نے جب یہ کہا کہ یہ ان کا آخری فیصلہ ہے، تو وہ بجھ گیا۔ لیکن اس سے زیادہ انکار کرنے کی اس میں نہ صلاحیت تھی اور نہ سکت۔
وہ ڈاکٹر بن گیا، ایک اوسط درجے کا طالب علم جیسے نمبر لیتا ہے وہ ایسے ہی نمبر لیتا رہا۔ لیکن انکل کرنل اس کے دماغ سے کبھی نہیں نکلے۔ طالب علمی کے زمانے سے لے کر پڑھائی مکمل کرنے کے زمانے تک وہی اس کا آئیڈیل رہے۔ اور ایک دن اس کی شادی بھی ہوئی اور بچے بھی، دو پیارے پیارے بیٹے اور اچھی بیوی اس کے گھر کی رونق تھے۔ سرمد اور سارہ چھوٹے تھے لیکن خرم سے بہت مانوس تھے۔
وہ اپنے بچوں کے ساتھ بہت بے تکلف تھا۔ پیار محبت کا رشتہ اوّل دن سے قائم ہوگیا تھا۔ وہ اپنے کام کو اپنے والد کے مقابلے میں کم وقت دیتا تھا، اسی لیے اس کی زندگی متوازن تھی۔ وہ ایک کامیاب ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ ایک بہترین باپ بھی تھا اور اسے گر معلوم ہوگیا تھا کہ ایک انسان بیک وقت ڈاکٹر احمد اور کرنل عبداللہ بن سکتا ہے۔