ثمینہ نعمان
بظاہر تو نائمہ صبح سے گھر کے چھوٹے بڑے کاموں میں مصروف نظر آرہی تھی، مگر اس کا ذہن بہت سے خیالات کی آماج گاہ بنا ہوا تھا، اور اس کے کان سبزی والے کی آواز پر لگے تھے جس سے اسے اپنی پسندیدہ ہری مرچیں لینی تھیں۔ نائمہ کی ساس اور شوہر زیادہ مرچیں کھانے سے پرہیز کرتے تھے اور ادھر نائمہ سدا کی چٹوری، چٹ پٹے اور تیکھے کھانوں کی دلدادہ… شادی کے شروع میں تو وہ دو ہانڈیاں بنا لیا کرتی تھی، اپنے لیے اپنے لحاظ سے، اور ان دونوںکے لیے ہلکے مرچ مسالے والی۔ مگر اب اوپر تلے تین بچوں کے بعد کاموں کی بھرمار تلے اس کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ سو یہ ہری مرچیں ہی اسے اس مسئلے کا حل نظر آئیں کہ روکھے پھیکے سالن کے ساتھ ہری مرچوں یا ان کی بنی چٹنی سے منہ کا ذائقہ کچھ کھل جاتا تھا۔
’’ٹرن… ٹرن…‘‘ گیٹ کی بیل بجی۔ ’’لگتا ہے نازو آگئی، اس کا بھی کوئی ٹائم نہیں، کبھی تو علی الصبح آجاتی ہے اور آج دیر سے آنے کی انتہا ہی کردی۔‘‘ نائمہ بڑبڑاتے ہوئے گیٹ کی طرف دوڑی کہ کہیں نازو نے پھر بیل بجا دی تو چھوٹا آدھی نیند سے اُٹھ جائے گا اور پھر سارا دن کی ریں ریں…
’’سلام باجی!‘‘ نازو مسکراتے ہوئے گھر میں داخل ہوئی۔
’’نازو تمہارے وقت کا کوئی حساب کتاب بھی ہے! آدھا دن چڑھ آیا ہے، اب تم جھاڑو پونچھا کرنا شروع کرو گی اور ادھر بچے اسکول سے آکر دوڑیں لگائیں گے، اور ساری صفائی کا تیاپانچا ہوجائے گا۔‘‘
ابھی نازو کوئی جواب دینے ہی لگی تھی کہ گلی میں سبزی والے کی مانوس اور کراری آواز گونجی۔ نازو سے مزید بحث کا ارادہ ترک کرکے اسے اشارے سے کام شروع کرنے کا کہا اور گلی میں جھانکتے ہوئے سوچنے لگی کہ آج کے لیے کیا سبزی لی جائے؟ بھنڈی اور گوبھی سے ساس کے پیٹ میں گیس ہوجاتی ہے۔ لوکی، ٹنڈے اور بینگن میاں جی کو پسند نہیں۔ کریلے بچے نہیں کھاتے۔ آخر لے تو کیا لے! انہی سوچوں میں اسے دھوپ کا بھی احساس نہیں ہوا۔ آخر بچوں کی وین کے ہارن کی کرخت آواز سے وہ حقیقت کی دنیا میں لوٹ آئی۔ بچوں کو وین سے اتارتے ہوئے سبزی والے کی طرف نگاہ کی تو اسے انصاری صاحب کی بیگم کے ساتھ تُوتُو، مَیں مَیں کرتے ہوئے پایا۔
’’اُف توبہ، یہ خاتون بھی اتنی چن کے سبزی لیتی ہیں کہ جیسے سب اچھا مال سبزی والا انہی کے لیے تو لاتا ہے۔‘‘ نائمہ کا دماغ اب تک گرمی اور اندر سے آنے والے بچوں اور نازو کے شور سے پک چکا تھا۔
اللہ اللہ کرکے آخر سبزی والا اس کے دروازے پر پہنچ ہی گیا۔ باسی سبزیاں اور آسمان سے باتیں کرتی ان کی قیمت نے نائمہ کو مزید چکرا دیا۔ بہرحال کھانا تو پکانا تھا، آخر توری، پالک، آلو، ٹماٹر اور مولی لینے کے بعد جب ہری مرچوں کی باری آئی تو پتا چلا کہ ہری مرچوں کی Shortage ہونے کی وجہ سے پیچھے سے ہی نہیں آرہیں۔ پھیکی سیٹھی توریوں کا سوچ کر اس کا تو دل ہی بیٹھنے لگا۔ یہ سوچ کر کہ کل پھر اسی طرح دھوپ میں خوار ہونا پڑے گا، اس نے سبزی والے کو تاکید کردی کہ کل اگر ہری مرچیں مل جائیں تو بیل بجا کر دے جائے۔
بچوںکو ٹہلا کر ان کو ان کے پسندیدہ نوڈلز دیے اور آخر وہ اپنے محاذ یعنی باورچی خانے میں وارد ہوئی۔ ناشتے کے برتن دھوکر باورچی خانے کی صفائی تو وہ صبح ہی کرچکی تھی، مزاج کی صفائی اسے کام پھیلائے رکھنے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ چمکتا ہوا صاف ستھرا باورچی خانہ اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ خاتونِ خانہ کو صفائی کا خبط ہے۔ ہر چیز جگ مگ کررہی تھی۔
’’ذرا دو ٹماٹر تو اور دو۔‘‘ نائمہ نے مسالہ بھونتے ہوئے پالک کاٹتی ہوئی نازو سے کہا۔
’’باجی آپ کتنے ٹماٹر ڈالیں گی! کافی نہیں ہوگئے کیا؟‘‘ اس نے حیران ہوکر پوچھا۔
’’کیا کروں، ٹماٹر میں کھٹاس ہی نہیں، عجیب میٹھے میٹھے سے ٹماٹر ہیں۔‘‘ تھوڑی ہی دیر کے بعد مولی چکھی تو وہ بھی میٹھی۔ ’’کمال ہے، اس میں تو مولی پن ہی نہیں۔ فرق ہی نہیں پتا چل رہا کہ مولی ہے یا گاجر! عجب دور میں داخل ہوگئے ہیں، ہر چیز اپنی اصلیت کھوئے چلی جارہی ہے۔ ٹماٹر گویا پیاز ہوگئے، مولی گاجر بن گئی، موسم ہے تو وہ عجیب سا چلا جارہا ہے، نومبر آگیا ہے اور گرمی جا کر نہیں دے رہی۔ گرم کپڑے پہن لو تو انسان گرمی سے ہونق ہوجاتا ہے، ٹھنڈے کپڑے پہن لو تو سردی محسوس ہوتی ہے۔ سردی آتی ہے تو حشرات الارض چھپ جاتے تھے۔ مچھر، لال بیگ وغیرہ اوڑھ لپیٹ کر سو رہتے تھے۔ اب جو دیکھا تو باورچی خانے میں لال بیگ اُڑتا پھر رہا ہے، دروازے پر استقبال کرنے کو مچھروں کے جھنڈ کے جھنڈ بھنبھنا رہے ہیں، سبھی لگتا ہے کہ کنفیوژ پھر رہے ہیں۔ سبھی کی مَت ماری گئی ہے۔ مرغا فجر پر سویا پڑا ہے، گیارہ بجے دن کو اذان دے رہا ہے۔ مسالہ بھونتے بھونتے نائمہ اپنے پسندیدہ مشغلے یعنی خیالات کی دنیا میں غوطہ زن ہوگئی۔ جوان بڑھاپے کی سی کسمپرسی کا شکار، کمر پکڑے تھکے ماندے پھر رہے ہیں۔ سارا دن کمپیوٹر، کتابوں میں سر دیئے۔ ورزش نہ ہونے، جسم کو استعمال نہ کرنے کی وجہ سے مریل سے ہیں۔ پتا ہی نہیں چلتا کہ قوی جوان ہیں۔ ٹیک لگائے بغیر بیٹھ نہیں سکتے۔ ہائے، اُوی کا مرقع۔ کیا لڑکیاں اور کیا ہی لڑکے!
اُدھر بوڑھے بڑھاپا قبول کرنے کو تیار نہیں۔ شوخ و چنچل حسینائوں والا گیٹ اَپ۔ بڑھاپے کا وقار، رکھ رکھائو، تدبر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ معاشرے سے بزرگ عنقا ہوگئے ہیں۔ میاں بہادر باورچی خانے میں کھڑے برتن دھو رہے، گوشت بھون رہے ہیں، بیگم صاحبہ مہمانوں کو گاڑی میں لے کر شاپنگ پر نکلی ہوئی ہیں۔
عورت جسے مستورات کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، یعنی نگاہوں سے اوجھل… وہ تو کم لباسی پر تلی بیٹھی ہے۔ مرد تھری پیس سوٹ، کالر، ٹائی، ہیٹ، بند جوتے موزے… پورا مستور ہوا بیٹھا ہے۔
ایک صنف اور جو معاشرے سے غائب ہوگئی وہ نامحرم ہیں، لہٰذا پردے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ پوچھ کر دیکھ لیجیے۔ یہ… اس سے کیا پردہ! یہ تو میرا ڈرائیور ہے۔ شادی بیاہ کے موقع پر، ہوٹلوں میں… ارے یہاں تو صرف عورتیں ہیں، تم کس سے پردہ کیے بیٹھی ہو؟ اور وہ جو کھڑے ہیں جابجا مرد…؟ ارے وہ بے چارے تو بیرے ہیں، ان سے کیا پردہ! گویا ڈرائیور، بیرے مرد ہی نہیں نامحرم تو کجا۔ اور یہ تو ہمارے فیملی فرینڈز ہیں۔ ’’آیئے انکل… آیئے بھائی کیسے ہیں؟‘‘ لہٰذا نامحرم یہ بھی نہیں۔ اتنے میں ایک صاحب اور چلے آئے ’’کہیے بھابھی کیسی ہیں؟‘‘ ہاں یہ تو میرے میاں کے دوست ہیں، ان سے کیا پردہ! نامحرم یہ بھی نہیں۔ گویا وہ ایک پوری مردوں کی صنف ہی غائب ہوگئی جسے اللہ تعالیٰ نے نامحرم کہا ہے۔
اسی طرح ایک وقت تربیت، اقدار اور روایات کا دور تھا۔ ایک خاتون بیٹھی تذکرہ کررہی تھیں: عدنان آئے تھے، گئے تھے، جائیں گے، لائیں گے۔ میں سمجھی شوہر کا تذکرہ کررہی ہیں نہایت محبت، احترام کے گندھے لہجے میں۔ تھوڑی دیر میں آواز دینے لگیں ’’آجایئے عدنان…‘‘ میں سکڑ سمٹ گئی کہ میرے سامنے بلا رہی ہیں۔ دیکھا تو ڈھائی تین سال کا بیٹا چلا آرہا ہے، اور اب صورت حال یہ ہے کہ ایک جگہ بیٹھے تھے، خاتون نے کڑک کر آواز لگائی۔ ہم نے جانا کہ اپنے ننھے کو پکارا ہوگا، یا شاید ملازم کو آواز لگائی ہو۔ پسِ پردہ سہمی ہوئی سی آواز آئی اُن کے شوہر نامدار کی ’’جی…! ابھی یہی ہوں، کیا کہہ رہی تھیں۔‘‘
ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے
جب آوے کا آوا بگڑا پڑا ہے تو حکمران کیوں نہ بگڑیں! ایک طرف مدینہ کی اسلامی سپر پاور کو دیکھیے جو ایران، شام اور مصر تک جا پہنچی ہے۔ اس عظیم الشان سلطنت کا امیر رات کو رعایا کی خبر گیری کے لیے سڑکوں پر پہرہ دیتا پھر رہا ہے۔ عوام چین کی نیند سو رہے ہیں۔ امیر حفاظت پر مامور ہے۔ یہاں حکمران کی حفاظت پر بیس پچیس گاڑیاں، موٹر سائیکل سواروں کے دستے، ایمبولینس، فائر بریگیڈ اور ہیلی کاپٹر مامور ہیں۔ عوام ناکوں میں پھنسے سسک رہے ہیں، حکمران سڑکیں خالی کروا کے سُونی گلیوں میں مرزا یار بنے پھر رہے ہیں۔
زبان کے تیکھے پن کے ساتھ اس کی سوچیں بھی تیکھی ہوچکی تھیں۔ جہاں فراغت ملتی وہ اطراف کے حالات کا بڑے تنقیدی انداز سے جائزہ لینے لگتی۔ کبھی جو اپنے میاں سے اپنے خیالات شیئر کرتی تو وہ ہنستے ہوئے اسے ٹی وی کے کسی پروگرام کی میزبان بن جانے کا مشورہ دیتے۔
’’باجی میں نے پورا ایک کلو پالک صاف کرکے کاٹ دیا اور آپ کا مسالہ ہی اب تک نہیں بھنا!‘‘ نازو کی آواز سے نائمہ ہوش کی دنیا میں آئی اور چولہا بند کرکے پالک کی ٹوکری کو بیسن میں نل کے نیچے رکھ کر دھونے لگی۔ پالک دھوتے ہوئے بھی وہ یہی سوچ رہی تھی کہ ہری مرچوں کے بغیر کھانے میں کیا مزا آئے گا، اچانک کسی خیال کے تحت اس نے نازو کو آواز لگائی۔
’’جی باجی…‘‘ نازو بوتل کے جن کی طرح ایک لمحے میں حاضر ہوگئی۔
’’نازو ذرا کام ختم کرکے اوپر والی باجی سے تین چار ہری مرچیں تو لے آئو۔‘‘ نائمہ کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ وہ محلے والوں سے کچھ نہ مانگے، مگر آج وہ مجبور ہوگئی، اس کی زبان چٹخارہ مانگ رہی تھی۔
’’یہ لیں، باجی رسخانہ کہہ رہی ہیں کہ آپ سب رکھ لیں۔‘‘
نائمہ نے خوشی خوشی تھیلی فریج میں رکھی اور پالک ہانڈی میں ڈال کر نہانے چلی گئی۔
’’امی آپ نماز پڑ چکیں تو کیا میں کھانا لگا لوں… شاہد بھی آچکے ہیں۔‘‘ نائمہ نے ساس کے کمرے میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں بیٹا! ضرور لگا لو، میں تو خود شاہد کے وقت کے حساب سے خود کو نہا دھوکر نماز وغیرہ سے فارغ کرلیتی ہوں تاکہ اسے دفتر واپسی میں دیر نہ ہو اور کھانا بھی سکون سے کھا لے۔‘‘ اماں نے پیار بھرے انداز سے تفصیلی جواب دیا۔ نائمہ نے فٹافٹ کھانا لگا کے میاں کو بلایا۔ بچے تو ہوم ورک کرکے سو چکے تھے۔
فریج سے ہری مرچوں کی تھیلی نکالی تو اس کے ارمانوں پر اُوس پڑ گئی۔ وہ تو باریک اور چھوٹی مرچیں تیزی کی وجہ سے پسند کرتی تھی، اور تھیلی میں پڑی سب سے بڑی والی مرچیں اسے منہ چڑا رہی تھیں، جو کہ حیدرآبادی بینگن اور مرچوں والے سالن میں ڈالی جاتی ہیں۔
وہ مریل چال چلتی ہوئی کھانے کی میز تک آئی، اس کے چہرے کی افسردگی کو اس کی ساس اور شوہر نے فوراً بھانپ لیا۔
’’کیا ہوا نائمہ بیٹا، ابھی تو تم بڑی خوشی خوشی کھانا لگا رہی تھیں اور اب چہرے پر ایک دم سے بارہ کیوں بج گئے؟‘‘ ساس نے پیار سے پوچھا۔
’’امی سبزی والے کے پاس ہری مرچیں نہیں تھیں، آپ کو تو پتا ہے کہ مجھے مرچوں کے بغیر کھانے میں مزا ہی نہیں آتا۔‘‘ وہ روہانسی ہوکر گویا ہوئی۔
’’ارے تو تم مجھے فون کردیتیں، میں آتے ہوئے لیتا آتا۔‘‘ اس کے شوہر کو بھی اس پر ترس آیا۔
’’نہیں، وہ سبزی والا کہہ رہا تھا کہ پورے شہر میں کہیں نہیں مل رہیں، پیچھے سے ہی نہیں آرہی ہیں، Shortage ہوگئی ہے۔‘‘
’’ارے کمال ہے، ہری مرچیں نہ ہوئی Life Saving Drugs ہو گئیں۔‘‘ شاہد صاحب ہنسے۔
’’ہاں پچھلے ہفتے بھی اس نے 80 روپے پائو دی تھیں، بالکل سبزی کے بھائو میں۔‘‘
’’ارے توبہ! ہمارے وقتوں میں تو ہرا دھنیا، ہری مرچیں سبزی کے ساتھ مفت ہی دے دیا کرتے تھے۔‘‘ نفیسہ بیگم اپنا زمانہ یاد کرنے لگیں۔
’’امی اب تو ہرا دھنیا، پودینہ بیس روپے کی گڈی کے حساب سے دیتے ہیں، ہر چیز میں آگ لگی ہوئی ہے۔‘‘
’’ارے بیٹا! تمہارے مسئلے کا تو آسان سا حل ہے۔ ایک بڑا گملا خرید کر اس میں مرچوں کے بیج ڈالو اور جب ضرورت ہو، گھر کی مرچیں توڑ لو۔گھر کی کھیتی ہوگی، آئے روز کی پریشانی سے نجات مل جائے گی، چاہو تو ہرا دھنیا اور پودینہ بھی لگا لو۔‘‘ نفیسہ بیگم نے آسان سا حل بتایا۔
بات سب کے دلوں کو لگی۔ شام کو آفس سے واپسی پر شاہد صاحب نرسری سے دو بڑے گملے، مٹی، کھاد بھروا کر لے آئے اور اسی دن ان میں مرچوں اور دھنیا کے بیج ڈال دیئے گئے۔ آخر کچھ دنوں کے بعد نائمہ گھر سے صاف ستھری تروتازہ ہری مرچیں توڑتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ بعض مسئلوں کے حل کتنے آسان ہوتے ہیں، مگر ہم ان پر توجہ نہیں دیتے۔ اگر ملک کے معاشی مسئلوں کے حل کے لیے بھی ہم خودانحصاری کا راستہ اختیار کریں تو جلد ہی ہمارا ملک بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے، بیرونِ ملک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے اپنے ملک میں بنی ہوئی چیزوں کے فخریہ استعمال سے ہماری معیشت بھی مضبوط ہوجائے گی۔ حکمرانوں کو یہ سامنے کی بات سمجھ کیوں نہیں آتی! روتے ہوئے چھوٹو کی آواز پر وہ پھر حقیقت کی تلخ دنیا میں لوٹی، ورنہ ابھی اس موضوع پر بہت کچھ سوچنے کے موڈ میں تھی۔ مگر آج اس نے فیصلہ کیا کہ صرف سوچنے سے کام نہیں چلے گا، اسے اس سلسلے میں کچھ عملی اقدامات بھی اٹھانے ہوں گے۔