سنہری مچھلی

872

دوسری قسط
میرے ساتھ کے مچھیرے خود میری مچھلیاں، ان کی تعداد اور قسم دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ بزرگ دعائیں دیتے اور نوجوان رشک کرتے ہیں۔ بس اسی لئے میں بھی خوش ہوں، تم بھی خوش ہو اور ہمارے گھر کی رونقوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
سناہے خواتین کی ایک ایسی بھی حس ہوتی ہے جو مردوں میں نہیں ہوتی۔ یہی حس مچھیرے کی بیوی کو بار بار اکسا رہی تھی کہ اس کا شوہر بے شک جھوٹ نہیں بول رہا لیکن کوئی بات ضرور ایسی ہے جسے وہ اس سے چھپا رہا ہو۔ اس نے اپنے شوہر سے کہا کہ لگتا ہے جیسے کوئی خاص بات ایسی ہے جو دانستہ یا نادانستہ تم مجھ سے چھپا رہے ہو۔ آخر ایسی کیا بات ہے جو تم میرے علم میں نہیں لانا چاہتے۔ بیوی کے کہنے سے اسے یاد آیا کہ وہ اپنی بیوی سے سنہری مچھلی کا ذکر کرنا بھول جاتا ہے۔ شروع شروع میں تو اس نے کئی بار چاہا کہ وہ اپنی بیوی کو اس حیرت انگیز مچھلی کے بارے میں کچھ بتائے لیکن آہستہ آہستہ اس کا خیال شاید ذہن سے اس لئے نکل گیا کہ وہ ایک محنت پسند انسان تھا اور اسے اللہ کے علاوہ کسی سے بھی مدد مانگنا پسند ہی نہیں تھا۔ جب اسے حقیقتاً سنہری مچھلی کی مدد کی ضرورت ہی نہیں تھی تو اس کا خیال ذہن سے نکل جانا بھی کو عجب بات نہ تھی۔ بیوی نے توجہ دلائی تو اسے ایک بار پھر وہی سنہری مچھلی یاد آ گئی تب اسے دوبارہ یہ احساس ہوا کہ اس کے جال میں آجکل جو بہت زیادہ اور اعلی قسم کی مچھلیاں پھنسی ہوتی ہیں وہ ممکن ہے اسی سنہری مچھلی پر احسان کئے جانے کا بدلہ ہو۔ سنہری مچھلی کا خیال آتے ہی اس نے اپنی بیوی کو ساری کہانی سنائی اور کہا کہ اب مجھے خیال آرہا ہے کہ کہیں میرے جال میں ڈھیروں اور اعلیٰ اقسام کی مچھلیوں کا پھنسنا اسی مچھلی کی عنایت نہ ہو۔ مچھیرے کی بیوی نے ساری کہانی سننے کے بعد ایک لمبی سانس کھینچی اور برہمی کے ساتھ کہا کہ لگتا ہے کہ تم زندگی بھر مچھیروں کی زندگی ہی گزارنے کا فیصلہ کر چکے ہو۔ مچھیرا بیوی کے اس بدلے ہوئے لہجے اور انداز پر حیران رہ گیا اور پریشان ہوکر کہنے لگا کہ تم کہنا کیا چاہتی ہو۔ مچھیرے کی بیوی نے کہا کہ اگر تم یہ بات مجھے کئی ماہ قبل اسی وقت بتا دیتے تو آج ہماری حیثیت بادشاہوں جیسی ہوتی۔ مجھے تم بہت ہی بے وقوف اور ناسمجھ لگتے ہو۔ ارے وہ تو پری ہے پری۔ پریوں کے مرد جن ہوا کرتے ہیں اور جنوں کو اللہ نے بہت طاقتور بنا یا ہے۔ وہ پلک جھپکتے میں کایا پلٹ کر رکھ دیا کرتے ہیں۔ تم فوراً دریا کے کنارے جاؤ، پری کو بلاؤ اور اس سے کہو کہ وہ ہمیں عالی شان مکان بنا کر دے۔ دیکھ لینا تم ساحل سے واپس بھی نہیں آؤ گے اور ہمارا یہ چھوٹا سا گھر ایک عالی شان مکان بن چکا ہوگا اور اس کی ہر شے اسی کے مطابق ہوگی۔ اپنی بیوی کی بات سن کر اسے اس بات پر یقین ہی نہیں آیا کہ یہ وہی عورت ہے جس کے متعلق وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ اندر سے اتنی دنیا پرست اور لالچی ہوگی۔ اسے اس کی باتیں سن کر افسوس بھی ہوا اور دل ہی دل میں رونا بھی آیا۔ اس نے اپنے جذبات پر قابو پاکر اپنی بیوی سے کہا کہ مانگنا صرف اللہ سے چاہیے۔ دیکھو اس گاؤں میں ہمارے کتنے دوست دو وقت کی روٹی کو بھی ترستے ہیں۔ ہماری حالت بھی کوئی مثالی نہ تھی لیکن اب ہم سیکڑوں سے اچھے ہیں اور ہم عنقریب ایک چھوٹی موٹی کشتی بھی لینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ گہرے پانی میں زیادہ بڑے جال کے ساتھ اور بھی زیادہ مچھلیاں شکار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ دیکھو جو عزت محنت کرکے کمانے کھانے اور ترقی کرنے میں ہے وہ شان مانگ کر کھانے میں نہیں۔ تم اللہ کا شکر ادا کرو کہ تمہارے شوہر کے ہاتھ پاؤں توانا ہیں اور اللہ بھی ہم پر دوسروں کے مقابلے میں زیادہ مہر بان ہے۔ اللہ کا شکر اسی میں ہے کہ ہم اپنے زورِ بازو پر کمائے کھائیں اور اس کی حمد و ثنا کریں۔ اس کی بیوی پر اس کی نصیحتوں کا الٹا ہی اثر ہوا اور وہ لڑائی جھگڑے پر اتر آئی۔ مچھیرے کو اپنی بیوی سے بہت پیار تھا۔ اسے اپنے والدین کی شرافت کا بھی بہت خیال تھا اور جن رشتے داروں نے اس کی پرورش کی تھی اور پال پوس کر جوان کیا تھا، اسے ان کی عزت بھی بہت پیاری تھی اس لئے وہ اپنی زندگی کو عذاب اور اپنے آپ کو تماشہ نہیں بنانا چاہتا تھا اس لئے وہ نا چاہتے ہوئے بھی اس بات پر راضی ہو گیا کہ وہ دریا کے کنارے جائے گا اور پری کے سامنے اس کی فرمائش ضرور رکھے گا۔
اگلی صبح وہ بہت دکھے دل اور بوجھل ذہن کے ساتھ ساحل پر گیا۔ بہت دیر تک سر جھکائے اس سوچ میں بیٹھا رہا کہ وہ اپنی زبان کھولے یا نہ کھولے۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور اسے اتنی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ سنہری مچھلی (پریوں کی ملکہ) کو پکارے۔ ابھی وہ اس تذبذب میں تھا کہ کیا کرے، اس کے کانوں میں وہی رس گھولتی آواز گونجی جو کبھی اس نے کئی ماہ پہلے سنی تھی۔ اس نے سنا کہ کوئی اسے بہت ملائم آواز میں کہہ رہا کہ اے نیک دل مچھیرے مجھے معلوم ہے کہ آج تم ساحل پر کیوں آئے ہو اور اتنے اداس کیوں ہو۔ جب سے میں تم سے دور ہوئی ہوں میں نے اپنے ایک خاص جن کو تمہاری خدمت کیلئے مقرر کیا ہوا ہے جس کا کام تمہاری ایک ایک خبر سے مجھے آگاہ کرنا اور تمہارے جال میں اعلیٰ قسم کی مچھلیاں جمع کرنا ہے۔ پورے پرستان میں تمہاری محنت، ایمانداری اور دیانتدارے کے قصے مشہور ہیں۔ سب یہی کہتے ہیں کہ تم نے میری حقیقت جان لینے کے باوجود بھی کبھی مجھے مدد کیلئے نہیں پکارا۔ تمہارا ایمان خود محنت کرکے کھانے پر ہے۔ اسی نگراں جن نے ہمیں تمہارے گھر کی تازہ ترین صورت حال سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم پریوں اور جنوں کو اللہ نے بڑی قدرت دی ہے لیکن انسانوں کی عقل کے آگے ہماری ظاہری طاقت رائی کے بربر بھی نہیں۔ انسان اپنی عقل سے پوری کائینات کو مسخر کرسکتا ہے لیکن ہم صرف بھاری بھرکم کام ہی کر سکتے ہیں۔ بہر حال تم گھر کی جانب جاؤ، جو تمہاری بیوی نے تم سے کہا ہے وہ پورا ہو چکا ہے لیکن یاد رکھو محنت سے کبھی جی نہ چرانا۔ اچانک آواز تھم گئی اور یوں لگا جیسے کسی نے ریڈیو کا سوئچ آف کر دیا ہو۔
مچھیرا کچھ دیر تو عجب کیفیت میں ڈوبا ساحل پر ہی بیٹھا رہا، روتا رہا اور دل ہی دل میں شرمندہ ہوتا رہا پھر بوجھل قدموں سے چلتا ہوا اپنی بستی کی جانب روانہ ہو گیا۔ جب وہ بستی سے کچھ ہی فاصلے پر تھا تو اس نے دیکھا کہ بستی سے کچھ باہر ایک عالی شان بنگلہ بنا ہوا ہے۔ ایسا بنگلہ اس نے اپنی بستی میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ ساری کہانی سمجھ چکا تھا اور اس کا کوئی ارادہ اس بنگلے میں جانے کا نہیں تھا۔ وہ بنگلے کی جانب دیکھے بغیر اپنے چھوٹے سے گھر کی جانب جانا چاہتا تھا کہ ایک خوش پوش انسان نے اس کا راستہ روکا اور پکڑ کر بنگلے کی جانب لیتا چلا گیا۔ دروازے پر اس کی بیوی بہترین لباس میں ملبوس نظر آئی۔ بیوی نے ہاتھ پکڑ کر اسے گھر کے اندر کیا اور خوش ہوکر کہنے لگی کہ دیکھو میں نہ کہتی تھی کہ پریوں کیلئے کچھ بھی کرنا ناممکن نہیں۔ دیکھو گھر بھی عالی شان بن گیا، ہر قسم کا فرنیچر، کپڑے، برتن اور نوکر چاکر بھی مل گئے۔ تالاب بھی ہے باغ بھی ہے، پھلوں کے درخت، پھولوں کے پودے، وہ کون سی اعلیٰ چیزیں ہیں جو اب یہاں میسر نہیں۔ بیوی کی بات سن کر ایک مرتبہ پھر مچھیرے کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور اس نے ایک مرتبہ پھر اپنی بیوی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ پگلی، محنت کرکے جھونپڑی بنا کر رہنے میں جو شان ہے وہ مانگے تانگے کہ محلوں میں نہیں ہوا کرتی۔ اس کی بیوی کا یہ سن کر دماغ بالکل ہی آؤٹ ہو گیا۔ چیخ کر بولی، زندگی پھر اجڈ اور گنوار ہی رہنا یہ کہہ کر غلاموں کو حکم دیا کہ صاحب کو واشروم کا راستہ دکھاؤ اور ان کے لئے شاہانہ لباس کا انتظام کرو۔
مچھیرے نے اگلے دن جال سنبھال کر دریا کی طرف جانا چاہا تو بیوی کو مزید غصہ آگیا اور کہا کہ خدا کیلئے اس بات کو بھول جاؤ کہ تم کبھی مچھیرے بھی تھے۔ مچھیرے نے کہا کہ تم جو بھی حلیہ بدل کر رہنا چاہو رہو میں تم کو کچھ نہ کہونگا لیکن مجھے تو کم از کم میری مرضی کے مطابق جینے دو لیکن وہ تو جلادنی بن چکی تھی۔ مچھیرے کو حیرت تھی کہ گھر میں جو نوکر چاکر اور غلاموں اور کنیزوں کی صورت میں انسان نما مخلوق تھی وہ اس کی بیوی کو جیسے ملکہ سمجھے بیٹھی تھی اور اس کے ہر حکم پر یوں عمل کرتی تھی جیسے اگر وہ بات نہیں مانے گی تو ہلاک کردی جائے گی۔ مچھیرا اس ماحول سے بہت ہی پریشان تھا اور سوچ رہا تھا کہ وہ اس ماحول سے کیسے باہر نکلے۔ اس کی بیوی نے اس کا جال چھین کر نوکروں کے حوالے کیا اور کہا کہ وہ اس جال کواور مچھیرے کی ہر پرانی سڑی بھسی چیز کو اس کے پرانے مکان میں چھوڑ آئے اور اگر کبھی اس کا شوہر ان میں سے کسی چیز کو بھی یہاں لانا چاہے تو اسے عالی شان بنگلے میں نہ لانے دے۔ اس کی بات پر فوراً عمل ہوا اور مچھیرا حیران ہو کر رہ گیا۔
کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ مچھیرے کی بیوی بڑے پیار سے اس سے کہنے لگی کہ دیکھ میرے پیارے شوہر، انسان ایک جیسی زندگی گزارتے گزارتے بیزار ہوجایا کرتا ہے۔ یہ عالی شان بنگلہ، یہ نوکر چاکر، یہ غلام اور کنیزیں دیکھ دیکھ کر میرا جی اکتانے لگا ہے۔ بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ جب آنکھ کھلے یہ ساری نحوستیں دیکھنے کو ملیں۔ مجھے تو یہ سب ماحول بھی اب سڑا بھسا سا لگنے لگا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ بادشاہوں سے بھی بڑا محل ہو۔ غلاموں اور کنیزوں کی ریل پیل ہو، زینے کی ہر سیڑھی پر حسین کنیزیں میری قدم بوسی کیلئے موجود ہوں۔ غلام سر جھکائے کھڑے ہوں اور میں ایک چٹکی بجاؤں تو بیسیوں غلام اور کنیزیں میرے دربار میں حاضر ہو جائیں۔
مچھیرا بہت دکھ کے ساتھ اپنی بیوی کی باتیں سنتا رہا۔ اس نے کہا کہ زندگی کی وہ کونسی خواہش ہے جو اب پوری نہیں ہو رہی ہے۔ جو آسائشیں ہمیں میسر ہیں اس ملک کے بڑے بڑے رؤسا کو بھی حاصل نہیں۔ پورا گاؤں حیران ہے کہ ہمارے ہاتھ کونسا قاروں کا خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے۔ دوسرے شہروں کے رہنے والے ہمارے گاؤں کے اس بنگلے کو دیکھنے آتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے گاؤں کا ایک بچہ بھی ہمیں حسد کی نظروں سے نہیں دیکھتا۔ سب ہماری قسمت پر رشک کرتے ہیں۔ ان تمام باتوں کو جانتے ہوئے بھی تمہاری خواہشوں کو کہیں بریک نہیں لگ رہا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں ہمارا اللہ ہم سے اس ناشکری پر خفا نہ ہوجائے اور ہمیں ہماری پرانی زندگی کی جانب لوٹا دے۔ ویسے سچی بات یہ ہے کہ اگر اللہ نے ہمیں پرانی زندگی کی جانب لوٹا دیا تو مجھے یوں لگے گا کہ میں دوبارہ سے پیدا کردیا گیا کیونکہ مجھے محنت کرکے کھانا بہت اچھا لگتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ میں پرانی زندگی کی جانب لوٹا دیا جاؤں تو اپنی محنت سے اس سے بھی اچھی حیثیت میں آسکتا ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ محنت مزدوری کرنے والوں کو اپنا دوست رکھتا ہے۔
اتنا سننا تھا کہ مچھیرے کی بیوی آپے سے باہر ہو گئی اور قریب تھا کہ مچھیرا تماشہ بن جاتا وہ بنگلے سے باہر نکلا اور ساحل کی جانب روانہ ہو گیا۔ اسے معلوم تھا کہ سنہری مچھلی اس کے حال سے آگاہ ہوگی اس لئے وہ کچھ کہے بغیر سر جھاکر ساحل کے قریب بیٹھ گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں سنہری مچلی کی بس اتنی ہی آواز آئی کہ اے نیک دل مچھیرے جاؤ گھر کی جانب لوٹ جاؤ، ہم نے تمہاری بیوی کی خواہش پوری کردی ہے۔ مچھیرا جان چکا تھا کہ واقعی ایسا ہی ہو گیا ہوگا۔ بادشاہوں سے بھی عالی شان محل تعمیر ہو چکا ہوگا اور غلاموں اور کنزوں کی ریل پیل ہوگی اسی لئے اس نے ایک مرتبہ پھر اپنے پرانے اور چھوٹے سے مکان کی جانب جانا چاہا لیکن محل کے طاقتور غلاموں نے اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔ مچھیرہ کسی حد تک ان غلاموں، کنیزوں اور نوکروں چاکروں کی حقیقت سے آگاہ ہوچکا تھا۔ وہ سب اسے پریوں اور جنوں کے غلام اور کنیزیں ہی لگتے تھے جو انسانی شکل میں صرف اس کی بیوی کو خوش رکھنے کی ڈیوٹیوں پر لگائے گئے تھے اس لئے اس نے ان سے الجھنا مناسب نہ سمجھا اور محل میں داخل ہوگیا۔ اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی بالکل ملکاؤں کے انداز میں ایک بڑے سارے تخت پر بیٹھی تھی۔ اس کا شاہانہ لباس نہ جانے کتنی کنیزیں ہاتھ میں سنبھالے بیٹھی تھیں اور وہ پورے جاہ جلال کے ساتھ ان کے درمیان کسی کِھلتے گلاب کی طرح نظر آرہی تھی لیکن معلوم نہیں کیوں مچھیرے کو یہ سب نظارہ بہت اذیت دے رہا تھا ۔

حصہ