آمنہ خورشید
سوہنے موہنے بچو! ایک تھی چیونٹی۔ رنگ اس کا بھورا سا تھا باقی سیاہ چیونٹیوں سے بالکل مختلف! جس کی وجہ سے اس کی سہیلیاں اسے بھینی کہتی تھیں۔
بھینی کو، اپنی سہلیوں کے برعکس قطار میں چلنا بالکل پسند نہیں تھا۔ جب بھی اس کی ساتھی چیونٹیاں ایک لمبی سیدھی سپاٹ قطار میں چل رہی ہوتیں بھینی کبھی دائیں چلنے لگتی کبھی بائیں اور کبھی تو رک کر کچن سے آتی ہوئی مزیدار کھانوں کی خوشبوؤں کا مزہ لینے لگتی۔ اس کا دل کرتا فوراً کچن میں جا کر مزے مزے کے کھانے کھانے لگے۔ سردار چیونٹی، نینی نے اس کو کتنا ہی سمجھایا اور ایک بار تو باقاعدہ سزا بھی دی لیکن بھوری چیونٹی کی عادت نہ بدل سکی۔
خیر! ایک دن جب جاسوس چیونٹی،
جینی نے آکر بتایا کہ کچن میں شیلف پر مزیدار کیک کے چند ٹکڑے گرے پڑے ہیں۔ تو سردار نینی نے فوراً پلان ترتیب دے دیا۔ پھر کیا تھا! ننھی ننھی چیونٹیوں کے دو دستوں پر مشتمل قافلہ اپنے مشن پر روانہ ہو گیا۔
کیک کے ٹکڑوں کے پاس پہنچ کر سردار نینی نے بتایا کہ پہلے دستے کی چیونٹیاں کیک کے مزید ننھے ننھے ٹکڑے کریں گی جبکہ دوسرا دستہ سرخ پلیٹ کی اوٹ میں کھڑا رہے گا۔ جب ٹکڑے ہو جائیں تو پہلا دستہ آکر ان کو اٹھائے گا اور گھر لے جائے گا۔
بھینی دوسرے دستے میں شامل تھی۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ کیک کے بہت سے مزیدار ٹکڑے جلدی جلدی کھا جائے لیکن سردار چیونٹی کا اصول تھا مش کے دوران صرف کام پر دھیان ہونا چاہیے۔
اچانک اس کی نظر شیلف کے کنارے لگی ہوئی سفید سفید میٹھی کریم پر پڑی۔ اس کے منہ میں تو پانی بھر آیا۔ پہلے اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ اس کی سب ساتھی چیونٹیاں گروہ بنا کر باتیں کر رہی تھیں ۔ بھینی کی طرف کوئی متوجہ نہیں تھا۔ بھینی نے چپکے سے قدم بڑھائے اور سفید کریم کی جانب روانہ ہو گئی۔
ادھر جب کیک کے مزید ٹکڑے ہو گئے تو سردار چیونٹی نے دوسرے دستے کو اشارہ کیا۔ دوسرا دستہ تیزی سے آگے بڑھا اور کیک کے سارے ٹکڑے تمام چیونٹیوں نے اپنی اپنی کمر پر رکھ لیے۔
لیکن یہ کیا! ’’جلدی کرو! لگتا ہے خانساماں صفائی کرنے آرہا ہے۔‘‘ اچانک جاسوس نینی کی آواز سب کے کانوں سے ٹکرائی۔ اس کے ساتھ ہی سب چیونٹیاں سردار کی قیادت میں جلدی جلدی گھر کی جانب روانہ ہونے لگیں۔
شیلف کی دوسری جانب بالکل آخری کنارے پر کھڑی ہماری ننھی بھینی کریم کھانے میں اتنی مصروف تھی کہ اسے نینی کی آواز بالکل نہ آسکی نہ ہی بہت دیر تک اسے پتا چل سکا کہ اس کا سارا قافلہ گھر جاچکا ہے۔
جب وہ پیٹ بھر مزیدار کریم کھا چکی تو اچانک خانساماں نے زرد کپڑے سے وہ شیلف بھی صاف کر ڈالا۔ بھینی کو سمجھ نہیں آئی یہ کیا ہوا۔ جب اس کو ہوش آیا تو وہ زرد کپڑے پر چپکی ہوئی تھی۔
یہ کون سی جگہ ہے یہ میں کہاں ہوں! میری سہلیاں کہاں ہیں؟ بھینی سوچ سوچ کر رونے لگی۔ پھر اس نے خود کو سنبھالا اور دیوار کا سہارا لیتے ہوئے کپڑے سے نیچے اتر آئی۔ پھر اس نے اندازے سے ایک طرف سفر کرنا شروع کر دیا۔ وہ بہت دیر تک راستہ تلاش کرتی رہی۔ اب تو تھکاوٹ اور بھوک سے اس کو برا حال ہو چکا تھا۔
کچھ دیر بعد دائیں جانب سے اسے کیک کی خوشبو آنے لگی۔ یہ خوشبو سردار چیونٹی کے گودام سے آرہی تھی۔ بھینی اسی سمت چلنے لگی۔ گھر پہنچ کر اس نے سب سے پہلے سردار چیونٹی سے معافی مانگی جو بظاہر تو بہت غصے میں تھی لیکن اس کی غیر موجودگی سے بے حد پریشان بھی۔
میرے پیارے بچو! اس دن ہماری بھوری چیونٹی، بھینی کو اچھی طرح معلوم ہو گیا تھا کہ لالچ بہت بری چیز ہے۔ اب وہ ہمیشہ سیدھی سیدھی قطار میں چلتی رہتی ہے اور چاہے بند مکھن کے ٹکڑے ہوں یا چینی کے سفید چمکدا ر ذرے، وہ کبھی اپنی سہیلیوں سے الگ ہو کرکوئی چیز کھانے کی کوشش نہیں کرتی۔