’’ساجد! کل رات مجھے ایسا خواب دکھائی دیا جس میں تم اور مَیں ساحلِ سمندر پر بیٹھے باتیں کررہے ہیں۔ باتوں کے دوران ہمارے ۔ساتھ وہاں وفاقی وزیر برائے پورٹ اینڈ شپنگ علی حیدر زیدی بھی آکر بیٹھ گئے۔‘‘
’’ایک منٹ، ایک منٹ، ایک منٹ… بیٹھتے ہی انہوں نے یہ کہا ہوگا کہ کلین کراچی مہم کراچی کے لیے ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوگی، صفائی کی یہ مہم کراچی کے عوام سے وزیراعظم کی محبت کا اظہار ہے، اس مہم کے پہلے مرحلے میں نالوں کی صفائی کی جائے گی جس میں بھاری مشینری کا استعمال ہوگا، جبکہ دوسرے مرحلے میں سالڈ ویسٹ کی صفائی کی جائے گی جس کے لیے 80 سے 90 ہیوی مشینز اورڈمپرز وغیرہ مختلف منصوبوں سے منگوا لیے گئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے انتخابی مہم کے دوران کراچی کے لیے 10 نکاتی روڈمیپ کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت پانی، معیاری تعلیم، صحت کی سہولیات، بجلی، نوجوانوں کے لیے کھیل کے میدان بن جائیں گے۔ اب پاکستان بدل چکا ہے، لہٰذا کراچی کی قسمت بھی بدلے گی۔ شہر کے تمام ترقیاتی منصوبوں کو جلد مکمل کرکے اسے دوبارہ روشنیوں کا شہر بنائیں گے۔ یہی کچھ کہہ رہے تھے ناں وفاقی وزیر علی زیدی صاحب؟‘‘
’’ہاں ہاں، لیکن یہ سب تمہیں کیسے پتا چلا؟‘‘
’’تم ہی نے تو ابھی کہا ہے کہ تمہارے خواب میں، مَیں بھی موجود تھا۔ ظاہر ہے جب میں بھی تمہارے ساتھ تھا تو وفاقی وزیر علی زیدی کی جانب سے کی جانے والی باتیں میں نے بھی تو سنی ہوں گی، میں وہاں کان بند کیے ہوئے تھوڑی بیٹھا تھا۔‘‘
ساجد کا خواب، خواب تھا یا جوک، یا پھر حقیقت… اس بارے میں لب کشائی کرنا میرے بس کی بات نہیں، لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ کراچی والوں کو مسائل حل کرنے کے نام پر سہانے خواب دکھائے جاتے ہیں، جبکہ تمام مسائل جوں کے توں ہی رہتے ہیں۔ یہاں بسنے والا ایک ایک شخص یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ کراچی کو صاف کرنے کے دعوے سیاسی شعبدہ بازی کے سوا کچھ نہیں۔ ماضی میں 1990ء کی دہائی میں چلائی جانے والی ہفتۂ صفائی مہم کو کون بھول سکتا ہے! اس کے کیا نتائج نکلے سب جانتے ہیں۔ اس دوران چلائی جانے والی صفائی مہم کی بات چھوڑیے، پچھلے تین سال میں کراچی کا کچرا صاف کرنے کے حوالے سے چلائی جانے والی مہموں کو ہی دیکھ لیجیے۔ اگست 2016ء میں چند این جی اوز نے ’’کراچی صاف کرو‘‘ کے نعرے کے تحت مہم چلائی۔ دسمبر 2016ء میں میئر کراچی نے 100 روزہ صفائی مہم کا آغاز کیا۔ مارچ 2017ء میں بحریہ ٹاؤن نے کراچی کے تین اضلاع میں صفائی مہم شروع کی۔ اکتوبر 2018ء میں وزیراعظم عمران خان نے ملک گیر صفائی مہم کے تحت کراچی میں بھی ’’جھاڑو اٹھائو‘‘ مہم چلائی، جس کی نگرانی گورنر سندھ عمران اسماعیل نے کی۔ دسمبر 2018ء اور مارچ 2019ء میں ایک مرتبہ پھر ’’چکمتا دمکتا کراچی‘‘ کے نئے نعرے کے تحت کراچی چمکانے کا شور مچایا گیا۔
26 فروری 2019ء کو محکمہ داخلہ سندھ کی جانب سے عوامی مقامات پر جگہ جگہ کچرا پھینکنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی بھی آوازیں بلند ہوئیں۔
اسی طرح گزشتہ ماہ وزیراعلیٰ سندھ بھی کراچی کے کچرے پر سخت برہم ہوچکے ہیں۔ ان مہمات کا کیا نتیجہ نکلا؟ فقط زیرو۔ اور تو اور، رواں سال ایم کیو ایم کے منتخب رکن صوبائی اسمبلی کے انتقال کے بعد خالی ہونے والی نشست پر لانڈھی میں ہونے والے ضمنی انتخاب کے دوران بھی پی ٹی آئی نے ’’کراچی کو صاف کرو‘‘ کے نام پر اپنے کارکنوں کے ہاتھوں میں جھاڑو پکڑا دیے تھے۔ الیکشن کے دوران صفائی کے نام پر کیا جانے والا یہ ڈراما بھی شہر والوں نے خوب دیکھ رکھا ہے۔ سیاسی شعبدہ بازوں نے جب جب کراچی کو صاف کرنے کی مہم کا آغاز کیا، شہر کچرا کنڈی میں ہی تبدیل ہوتا چلا گیا۔ ہاں البتہ کراچی صاف کرنے کے نام پر قومی خزانہ ضرور صاف ہوگیا۔
اب وفاقی وزیر علی زیدی کی جانب سے ’’کلین کراچی‘‘کے نام سے کراچی کی صفائی کی جارہی ہے۔ ماضی کی تلخ حقیقتوں کو دیکھتے ہوئے مجھے تو ’’کلین کراچی‘‘ مہم کا انجام بھی سابقہ ادوار میں چلائی جانے والی مہمات جیسا ہی دکھائی دے رہا ہے۔ ظاہر ہے جب وفاقی وزیر کراچی کلین کرنے سے قبل ہی اس مہم کو چندہ مہم میں بدل دیں گے تو اس قسم کے شکوک وشبہات ہی پیدا ہوں گے۔ واضح رہے کہ وفا قی وزیر کا کہنا ہے کہ صفائی کے لیے ایک ارب 75کروڑ روپے کی ضرورت ہے، یعنی ’’پاس نہیں دانے، امّاں چلیں بھنانے‘‘۔ یہ کون سی حکمت عملی ہے جس کے نتائج اتنے دن گزرنے کے باوجود بھی شہر میں دیکھنے کو نہیں مل رہے؟ اور ملیں بھی کیسے، سب جانتے ہیں کہ کراچی میں کچرا اٹھانے کا نظام تقسیم ہے۔ مرکزی سڑکوں کی صفائی کی ذمے داری بلدیہ عظمیٰ کراچی کی ہے، مرکزی نالوں کی صفائی کی ذمے داری بھی کے ایم سی کی ہے، جبکہ چھوٹے اور علاقائی نالوں کی صفائی کی ذمے داری ڈی ایم سیز کی ہے، گلیوں محلّوں کی صفائی کی ذمے داری ڈی ایم سیز کی ہے۔ اس کے علاوہ شہر میں لینڈ کنٹرول کرنے والے 17 ادارے ہیں، اس میں 6 کنٹونمنٹ بورڈ بھی ہیں، اور وہ اپنی حدود میں صفائی کے انتظامات دیکھتے ہیں۔ کراچی میں یومیہ 13ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے لیکن یومیہ 7 سے 8 ہزار ٹن کچرا بھی نہیں اٹھ پاتا، جس کی وجہ سے شہر کے مختلف علاقوں میں کچرے کے ڈھیر لگے رہتے ہیں۔ اس صورت میں بغیر کسی منصوبہ بندی کے شروع کی گئی ’’کراچی کلین‘‘ مہم کے تحت عارضی بنیادوں پر تو کچرا اٹھایا جا سکتا ہے، مستقل بنیادوں پر مسئلہ حل نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ صحت کی عالمی تنظیم (WHO)کی رپورٹ کے مطابق ایک سروے ٹیم کی جانب سے ماضی میں دنیا کے تمام ممالک کے شہروں کا حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق جائزہ لیا گیا، جس کا مقصد یہ جانچنا تھا کہ گندگی اور ناقص انتظام کے اعتبار سے کون کون سے شہر دنیا میں بدترین گندے شہروں میں شامل ہیں۔ اس سلسلے میں سروے کرنے والے ادارے نے دنیا کے 1600 شہروں کا انتخاب کیا۔ یہ شہر یورپ، نارتھ امریکا، افریقہ اور ایشیائی ممالک سے تعلق رکھتے تھے۔ عوام الناس کو فراہم کی جانے والی بنیادی سہولتوں کا جائزہ لیتے ہوئے 17شہروں کی ایک فہرست مرتب کی گئی جنہیں دنیا میں گندے ترین شہروں میں شمار کیا گیا، کراچی کو اس فہرست میں 7ویں نمبر پر رکھا گیا۔ کراچی کی یہ صورتِ حال کب سے اور کیوں کر ہے اِس وقت اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ میرے لیے تو افسوس کی بات یہ ہے کہ جو شہر 70 فیصد ریونیو ادا کرتا ہے، وہاں صحت و صفائی سمیت آلودگی سے متعلق مسائل ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے جارہے ہیں۔ ہر چھوٹے بڑے علاقے میں گندگی کے ڈھیر جمع ہیں جس کی وجہ سے عوام مہلک بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں، جبکہ بلدیاتی اداروں کی طرف سے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ کراچی میں کچرے اور گندگی کے ڈھیر صرف سڑکوں اور گلیوں تک ہی محدود نہیں، بلکہ کچرے کی یہ سجاوٹ فلائی اوورز اور چورنگیوں پر بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ لیاقت آباد، گرومندر، گلشن اقبال، کورنگی، لانڈھی، ملیر، شاہ فیصل کالونی، اورنگی ٹاؤن، ناظم آباد اور صدر سمیت شہر کے کئی گنجان آباد علاقوں میں سیوریج کے ناقص نظام کی وجہ سے مچھروں اور مکھیوں کی افزائش میں بھی اضافہ ہورہا ہے، اور تو اور ماضی کے مقابلے میں اِس مرتبہ عیدِ قرباں پر جانوروں کی باقیات کو بہتر انداز میں اب تک ٹھکانے نہیں لگایا گیا، جس کی وجہ سے شہر کے بیشتر علاقوں میں بڑی تعداد میں آلائشیں تاحال پڑی ہوئی ہیں جو اب سڑنا شروع ہوچکی ہیں۔ یوں قربانی کی باقیات،کچرے اور سڑکوں پر پھیلے خون سے تعفن پھیلنے کی وجہ کئی علاقوں میں نہ صرف وبائی امراض پھوٹ پڑے ہیں بلکہ وہاں سے گزرنے والے راہ گیروں کا سانس لینا بھی دوبھر ہوگیا ہے، جبکہ ناقص صورت حال کی وجہ سے شہریوں کی زندگی اجیرن ہوکر رہ گئی ہے۔
یہ میرا شہر ہے، اس لیے یہاں کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر مجھ سے زیادہ بھلا کون افسردہ ہوسکتا ہے! میرا جینا، مرنا اسی شہر سے وابستہ ہے۔ یورپ اور امریکا کی شہریت رکھنے والے سیاسی مسافروں کا کراچی کے مسائل سے کیا لینا دینا، وہ تو اس ملک میں فقط سیاسی چھٹیاں گزارنے آتے ہیں، اور اس دوران اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل اور اپنے خاندان کے لیے فوائد حاصل کرکے اُڑن چھو ہوجاتے ہیں، انہیں یہاں کے مضافاتی علاقوں کی گلیوں اور سڑکوں پر بہتی غلاظت کو پھلانگتے غریبوں سے زیادہ اپنی جدید گاڑیوں کے ٹائر عزیز ہوتے ہیں۔ اس شہر کا درد یہاں کے مستقل رہنے والے ہی محسوس کرسکتے ہیں، لہٰذا شہر میں چلائی جانے والی صفائی مہم ہو، یا ترقیاتی منصوبے… یہاں بسنے والوں سے رائے لیے بغیر کسی بھی سطح سے کیے جانے والے اقدامات میں کامیابی ممکن نہیں۔ کراچی آبادی کے لحاظ سے دنیا کے 120ممالک سے بڑا شہر ہے، جس میں 550 کچی آبادیاں قائم ہیں۔ یعنی اس شہر کے 60 فیصد لوگ کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہیں۔ یہ صورتِ حال شاید ہی دنیا کے کسی ملک یا شہر کی ہو۔ اس لیے کراچی جیسے دو کروڑ سے زائد آبادی والے شہر میں ماحولیاتی آلودگی کے تدارک اور صفائی کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے ساتھ ساتھ صحت و تعلیم کے لیے بھی مؤثر کارروائی کرنا ہوگی۔ اسی طرح ماحول دوست عوامل پر بھی ہنگامی بنیادوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت اور دیگر اداروں کو شجرکاری پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ شہر میں قائم پارکوں کو قبضہ مافیا سے آزاد کرواکر آباد کرنا ہوگا، سڑکوں کے ساتھ بنی گرین بیلٹ پر پودے لگانے ہوں گے۔ کے ایم سی، ڈی ایم سی اور صوبائی وزیر بلدیات کے درمیان اختیارات کی جنگ کے خاتمے کے لیے قانون سازی کرنی ہوگی، ایسے اقدامات سے ہی شہر کی خوبصورتی میں اضافہ ہوسکتا ہے اور کراچی پہلے جیسا صاف ستھر،ا روشنیوں کا شہر بنایا جا سکتا ہے، وگرنہ کراچی کو مزید کچرے کا ڈھیر بننے سے بچانا ممکن نہیں۔